Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
یہ شخص شاعر بھی ہو سکتا ہے، طاہر حنفی کو میں نے جب پہلی بار دیکھا توایسا بالکل نہیں سوچا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ملاقات پہلی ہو یا دوسری، یہ شخص سوچ بچار کا موقع کسی کو دیتا ہی نہیں۔ اس شخص کے آنے کی خبر پہنچی تو ہنگامہ ہو گیا۔
مشرق مرحوم کے نیوز ایڈیٹر مشتاق سہیل کے کام کا طریقہ مختلف تھا، کاپی وقت پر ڈان کرنے کے شوقین ایڈیٹروں کی طرح وہ نیوز روم میں کشیدگی پیدا نہیں کرتے تھے، کبھی لطیفہ سنایا، کبھی کوئی شعر۔ کسی نے اچھی خبر بنائی یا پھڑکتی ہوئی سرخی نکال دی تو پہلے چھوٹے شیشوں کی عینک کے اوپر سے گھور کراُسے دیکھا، گھبرا کر اس نے نگاہیں جھکا لیں تو زور دار قہقہہ لگا کر کہا، شاباش، آج تو تو نے کمال کر دیا۔ یوں آہستہ آہستہ رات بھیگتی جاتی اور اخبار کی کاپی مکمل ہوتی جاتی مگر اس روز کچھ مختلف ہوا۔
انھوں نے بے چینی سے بجنے والے فون کا چونگا اٹھایا اور دوسری طرف جو کوئی بھی تھا، اس کا پرجوش خیر مقدم کیا، اس کے بعد کچھ دیر وہ خاموشی سے بات سنتے رہے جیسے ہی بات ختم ہوئی انھوں دھیرے سے فون کریڈل پر رکھا، اس کے بعد ہنگامہ ہو گیا۔ کبھی اونچی آواز سے نہ بولنے والے شخص نے ایک ایسی آواز میں جس سے ہم واقف نہ تھے، ہدایت کی کہ اوئے، جلدی کرو اوئے، وہ آ رہا ہے، اس کے بعد وہ کام جس کے نمٹتے نمٹتے رات ساڑھے بارہ ایک بجے بج جاتا تھا، ہم نے کوئی دس بجے ہی نمٹا لیا، اس کے بعد سوچنے لگے کہ ایسی کیا قیامت آگئی ہے جو ہم پر بے صبری کی ایسی کیفیت طاری ہوئی جیسی جلدی جلدی ٹھنڈا گرم کھانے والے کی ہوتی ہے۔ پھر کچھ دیر بعد واقعی قیامت آگئی۔
یہ بھی دیکھئے:
یہ واقعہ ان اچھے دنوں کا ہے جب اخبارات کے دفتر سات پہروں نہیں ہوتے تھے جس کا جی چاہتا سیڑھیاں چڑھ اوپر آ جاتا اور حسب مرتبہ ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، کاتب، کاپی پیسٹر سے ہاتھ ملا کر باتوں میں مصروف ہو جاتا۔ خیال یہی تھا جس کسی کو آنا ہے، دبے پاں آکر بیٹھ جائے گا اور اٹھنے کا نام نہیں لے گا لیکن آنے والا جب آیا تو اس نے تو بیٹھ کر ہی نہیں دیا۔ مشتاق سہیل صاحب سے جلدی جلدی کاندھے ملائے اور ڈیسک والوں سے ہاتھ، اس کے بعد طویل قہقہہ لگاتے ہوئے نیوز روم کی طویل میز کی ایک طرف سے دوسری طرف یوں پہنچا کہ نک سک سے درست پورا یو ٹرن بن گیا۔ اس ٹرن کی تکمیل کے بعد سیاہ داڑھی اور لمبے بالوں والے اس شخص نے کھڑے ہو کر ٹائی کی ناٹ درست کی اور کہا کہ پھر چلیں سہیل بھائی؟سہیل بھائی دعوت قبول کرنے میں سنت کے قائل ہیں لیکن کسی افرا تفری میں وہ عام طور پر نہیں پڑتے تھے۔ وہ ایک مہربان لیکن ذرا مضحکہ اڑانے والی مسکراہٹ کے ساتھ ٹھوڑی تلے ہتھیلی کا کنارہ رکھ کر اس کی طرف خاموشی سے دیکھتے رہے۔
آنے والے نے ٹائی سے نمٹ کر مسکراتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا اور اوہو ہو کہتا پیچھے ہٹا اور میز کو یو کو ٹرن میں بدلنے والے اختتام پر رکھی خالی کرسی پر ٹکتے ہوئے کہا:
‘ایئر پورٹ سے آتے ہوئے میں یہیں اتر گیا اور سامان میں نے ہوٹل بھیج دیا، یہ جوش و خروش شاید اس وجہ سے ہو گا، میں ٹی وی دیکھتا ہوں تاکہ کام میں مداخلت نہ ہو’۔
ٹیلی ویژن پر ان دنوں دھوپ کنارے نام کا مقبول ڈرامہ چل رہا تھا جس میں ساجد حسن ایک حاضر جواب لیکن مزاحیہ ڈاکٹر کا کردار ادا کر رہے تھے، مرینا خان کی کسی احمقانہ حرکت کے جواب میں انھوں نے اپنی عادت کے مطابق منھ ہی منھ میں کوئی ذو معنی جملہ کہا تو خاموشی سے ٹی وی دیکھنے کے دعوے دار نے پلٹ کر ایک اور قہقہہ لگایا اور تبصرہ کیا کہ یہ تو بڑا خوف ناک اداکار ہے مشتاق بھائی۔یہ ہنگامہ جو اس وقت نیوز روز میں برپا تھا، اس کے اثرات صرف یہیں تک محدود نہ تھے۔ کچھ دیر پہلے جب یہ مہمان گھومتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ کر دفتر کے صدر دروازے پر پہنچا تھا تو اسے سلیم دکھائی دیا۔
سلیم نیوز روم کا نائب قاصد تھا جو کسی کام سے باہر جا رہا تھا۔ آنے والے نے دفتر سے سہم کر فرار ہونے والے کے کاندھے پر دھپا مار کر کہا کہ ابے، تو کدھر جا رہا ہے، اس سے پہلے کہ اسے کوئی جواب ملتا، سلیم کواس نے لپٹا لیا۔نیوز روم سے کئی سو قدم کے فاصلے پر یہ جو کارروائی ہو رہی تھی، اس کے گونجتے ہوئے نعرے ہمارے کانوں تک پہنچ چکے تھے اور ہمارے ہمارے باس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی کہ دیکھا، میں نے کتنی دانش مندی سے کام لیا۔
یہ بھی پڑھئے:
گیارہ مارچ: آج نامور نقاد اور افسانہ نگار ممتاز شیریں کی برسی ہے
ریاست ذہنی افلاس کا شکار کیوں؟
تحریک عدم اعتماد اور حامد میر بحالی ساتھ ساتھ کیوں؟
اس شخص سے میری یہ پہلی ملاقات تھی جسے آپ طاہر حنفی کے نام سے جانتے ہیں۔ اُس شام جلدی جلدی کام نمٹا کر ہم دفتر سے نکلے تو کوالالمپور یا شاید بلغراد کی پرواز سے سیدھا ہمارے دفتر لینڈ کرنے والے اس شخص نے گاڑی کا انتظار کرنے کے بجائے بے تکلفی کے ساتھ مشتاق صاحب کے پرانے لمریٹا پر بیٹھ جانا ہی مناسب جانا، یوں یہ قافلہ جس کی دم پر یہ عاجز لٹک رہا تھا، کراچی کے اس ہوٹل کی لابی میں جا براجا جس کا نام بدل کر شہر کے سارے رومانس ہی کا ستیا ناس کر دیا گیا ہے۔
رات کے ڈیڑھ دو بج رہے تھے اور ہم لوگ دائرے کی صورت میں روشنی بکھیرنے والے ایک ہرے بھرے فانوس کے نیچے بیٹھے کافی کے منتظر تھے۔ بڑے ہوٹلوں میں بیٹھنے والے کم ہوں، خواہ زیادہ، ان کی سروس کی رفتار ہمیشہ سست ہوتی ہے۔ کچھ دیر تک کافی نہ پہنچی تو ذرا سے فاصلے پر فرنٹ ڈیسک کے مسکراتے ہوئے نوجوان کو اس شخص نے پکارا اور کہا کہ یار کچھ تم ہی ہماری داد رسی کرو۔ وہ بے چارہ شرمندگی کے عالم میں کانٹر کے پیچھے سے نکلا اور ہمارے پاس آن موجود ہوا۔ کافی وغیرہ کے لیے سرزنش تو ایک بہانہ تھا، اصل میں تو اس کا انٹرویو مطلوب تھا۔
معلوم ہوا کہ یہ لڑکا صبح یونیورسٹی جاتا ہے اور شام میں یہ نوکری کر کے اپنا اور گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ اس انکشاف پر کہ نوجوان محنتی اور ذہین ہے، ہمارے میزبان کا دل پسیجا اور کہا کہ تمھیں دیکھ کر مجھے بھی اپنا لڑکپن یاد آ گیا ہے، لو،ادھر ہمارے ساتھ بیٹھو، بڑے ہوٹلوں کا عملہ مہمانوں کے ساتھ کبھی بیٹھتا ہے جو وہ بیٹھتا، شرماتے ہوئے نے کہا کہ سر کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ خیر، انھیں بھی اس کے بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کی پروا نہیں تھی، باتوں سے غرض تھی اور وہ ہو رہی تھیں۔ اس شب اس اجنبی لڑکے سے اس شخص نے اتنی باتیں کیں کہ وہ ان کا مرید ہو گیا۔ اُس مرید کا اِس مرشد کو کوئی کوئی فائدہ پہنچا یا نہیں، اِس کی خبر تو انھیں ہی ہوگی، ہمارا خوب فائدہ ہوا۔
لڑکا محنتی تھا، جلد ہی ترقی کرتے کرتے کسی اچھے عہدے پر پہنچ گیا اور ہر سال نو پر اُس دلچسپ ملاقات کی یاد دہانی کے طور پر وہ ہمیں تحائف کا ایک پیکٹ ضرور بھیجا کرتا۔ اتفاق سے کبھی اس کے ہوٹل میں جانا ہوتا اور اسے خبر ہو جاتی تو وہ ضرور ملنے کو بھی آیا کرتا۔اس ہنگامہ آرائی کے بعد اس محبت خیزی کے مظاہرے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی اسرار تو ہے اس شخص میں۔
آنے والے دنوں میں یہ شخص کئی بار بیرون ملک گیا اور واپسی پر ہر مرتبہ اس نے ہم غریبوں سے بھی ملاقات ضروری سمجھی۔ اس شخص کی دوستی مشتاق سہیل صاحب سے تھی، بشیر صدیقی، جعفری صاحبان اور خالد سعید صاحب وغیرہ سینئر تھے، میں بے چارہ اپرنٹس ٹائپ جو دن میں یونیورسٹی ہوتا اور گزر اوقات کے لیے شام مزدوری میں گزار دیتا، بوجہ اپنی حیثیت کے لیے دیے اور خاموش رہا کرتا مگر ایک روز کیفیت بدل گئی۔
یہ شخص اس شام شاید بیجنگ سے لوٹا تھا اور اپنے متاثرین میں بانٹنے کے لیے اس کے بیگ میں گرین ٹی کے بہت سے ڈبے تھے۔ ہلکے نیلے رنگ کا خوب صورت سا ایک ایک ڈبہ ہر ایک شخص کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد یہ آدمی اس خالی کرسی پر بیٹھ گیا جو میرے پہلو میں رکھی تھی۔یہ ہماری سیاست کاوہ زمانہ تھا جب مارشل لا کے باوصف سیاست دانوں کے لیے ہر بات آسانی سے کہہ دینی ممکن نہ ہوتی تھی لہٰذا وہ اخبارات سے غائب رہتے لیکن پیر صاحب پگارا مختلف آدمی تھے۔ وہ کچھ ایسی مختلف اور بعض صورتوں میں اتنی عجیب بلکہ کبھی کبھی معیوب سی بات کہہ دیتے جسے اخبارات میں یوں جگہ ملتی جیسے فلمی ستاروں کو ملا کرتی ہے۔
وہ کوئی ایسا ہی بیان تھا، اصلاح کے لیے نیوز ایڈیٹر نے جسے میرے سپرد کیا۔ میں نے بیان پڑھا اور محظوظ ہوا لیکن اس عجیب و غریب بیان کی اصلاح میرے جیسے نو آموز صحافی کے بس کی بات نہ تھی، اس لیے ذرا بے زاری کے ساتھ کاغذ کا وہ ٹکڑا میز پر رکھ دیا۔ اس ہنگامہ پرور شخص نے جو اس وقت بھی کچھ سکون سے نہیں بیٹھا تھا، کمال مہربانی سے گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور خبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں اسے دیکھ لوں؟ خبر کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے ایک سوال مزید کیا، کیسا ہے یہ بیان؟
سرگودھا کی مقامی یعنی جانگلی زبان میں میں الم غلم باتوں کے لیے بزرگ بکڑ واہ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے ہیں، جانے کیاسبب تھا کہ یہی لفظ اس وقت میری زبان پر آیا اور میں نے اس کی ادائیگی میں کوئی تکلف بھی محسوس نہ کیا۔ بکڑ واہ جیسا لفظ پیر صاحب پگارا شریف جیسی ہستی کے کتنا نامناسب تھا، اس کا مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھا لیکن خیر یہ گزری کہ طاہر حنفی اس لفظ کے حقیقی معنوں کو تو نہ سمجھ سکے لیکن انھیں یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ اس نوخیز نے کچھ اچھا لفظ استعمال نہیں کیا۔
میری بات سن کر کسی وقت خاموش نہ رہنے والا یہ شخص کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر نرمی کے ساتھ کہا، میں آپ کو ایک واقعہ سنآؤں؟مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا، مجھے ایک دلچسپ بات بھی سننے کو ملتی اور باس کے مہمان کی وجہ سے کام میں کچھ رعایت بھی مل جاتی۔ نیوز روم کے نو آموز کارکن کے ذہن میں کیا تھا، اس سے بے نیاز ہو کر انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں داستان سرائی شروع کر دی۔
یہ ان زمانوں کا واقعہ تھا جب جنرل ضیا الحق مارشل لا کے نفاذ کے بعد اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔ اس سلسلے میں کئی سیاست دانوں سے وہ ملے، ان میں ایک پیر صاحب پگارا بھی تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے درمیان بعض معاملات پر بالآخر سودا طے پا گیا لیکن ابتدا میں اختلافات بھی رہے۔ ایسے ہی اختلافات کے بعد انھوں نے ایک بیان جاری کیا۔ طاہر بتاتے ہیں کہ پیر صاحب کی باتیں سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں انھیں لکھوں کیسے؟ بس تھوڑی دیر ہی لگی، طاہر کہنے لگے۔ میں نے پیر صاحب کے مزاج پر غور کیا، ان کے پر لطف بیان ایک ایک کر کے ذہن میں دہرائے پھر لکھا، وہ مجھے سموسہ کھلانا چاہتے تھے، میں نے گلاب جامن پر اصرار کیا۔
بات ختم کر کے ادھر طاہر حنفی نے چائے کی پیالی اٹھائی،ادھر میں خبر اٹھائی اور تیزی سے نمٹا کر باس کی طرف بڑھائی، اس سے پہلے کہ وہ اسے پکڑتے، طاہر نے پکڑ کر ایک نگاہ اس پر ڈالی اور اتنی بلند آواز میں جو نیوز روم میں گونج اٹھی۔ کہا، مزہ آ گیا یار۔ اس روز مزہ صرف طاہر حنفی کو نہیں آیا، مجھے ہی نہیں آیا بلکہ باس کو بھی آ گیا، اس دن کے بعد پیر صاحب پگارا کی جب بھی کوئی خبر آتی، وہ اسے میرے سپرد کر دیتے کیوں کہ پیر صاحب کی خاص لفظیات اور مزاج کی وجہ سے اسے مشکل خبر سمجھا جاتا تھا اور اکثر لوگ اسے بنانے میں پس و پیش کیا کرتے تھے۔ طاہر حنفی کے سموسے اور گلاب جامن نے اس روز جو چابی میرے ہاتھ میں دی تھی، پیر صاحب کی پوری سیاسی زندگی میں میرے کام آتی رہی۔
یہ بھی شاید اسی دن کی بات ہے، میرے میز کے نیچے کیبنٹ پر پیلے رنگ کا چھوٹا سا ایک فائل رکھا تھا جس پر میں نے بٹر پیپر کی مدد سے سید فخر امام کا اسکیچ ڈرا کر رکھا تھا۔ میں ان دنوں بی اے آنرز ابلاغ عامہ کے پہلے سال کا طالب علم تھا اور سمسٹر اسائنمنٹ کے طور پر اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے سلسلے میں اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کا کونٹینٹ انالیسس کیا تھا۔ طاہر کی نگاہ جانے کیسے اس پر پڑ گئی۔ کہنے لگے، میں اسے دیکھ لوں؟ پچیس تیس صفحات پر مشتمل اس مضمون کو جلدی جلدی انھوں نے پڑھا اور کہا کہ کمال ہے یار، آج تک ایسی کوئی چیز میری نگاہ سے نہیں گزری۔ بی اے آنرز سال اول کے طالب علم کے لیے یہ تعریف ساحل کی پستی سے اٹھا کر کے ٹو کی چوٹی پر بٹھا دینے والی تھی۔ میں ابھی کیفیت سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ کہنے لگے، اس کی ایک کاپی مجھے دے دیں۔آپ کیا کریں گے، طاہر بھائی؟ میں نے حیرت سے سوال کیا تو انھوں نے ایک اور دھماکہ کر دی۔ میں اسے قومی اسمبلی کی لائبریری میں رکھواؤں گا۔
میرے استاد محترم پروفیسر طاہر مسعود جب کبھی یہ دیکھتے کہ کوئی کسی کی اس کی اہلیت سے بڑھ کر تعریف کر رہا ہے تو کہا کرتے، یار، اس کی انا کو گنے کا رس مت پلا۔ قومی اسمبلی والی بات سن کر مجھے بھی یہی لگا لیکن سچی بات یہ ہے کہ خوشی بھی بہت ہوئی، کئی روز تک مجھے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے میں ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ انھوں نے وہ فضول سا مضمون قومی اسمبلی کی لائبریری میں کبھی نہیں رکھوایا ہو گا لیکن ان کے اس جملے سے میرے اعتماد کو جو ہارس پاور میسر آئی، اس نے میرے سفر مزید آسان اور تیز رفتار بنا دیا۔
یہ ہے وہ طاہر حنفی جسے شاید پنڈی وال اور اسلام آبادی شاید نہ جانتے ہوں یا کم جانتے ہوں۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں یہ علم ہو کہ یہ شخص کسی زمانے میں اسٹوڈنٹ لیڈر تھا، کچھ لوگوں کو خبر ہوگی کہ بلا کا مقرر تھا، بیشتر کی تان قومی اسمبلی کی افسری پر جا کر ٹوٹتی ہوگی۔ بالکل اسی طرح میری نگاہ میں بھی طاہر حنفی سرکار کا فرماں بردار ہونے کے باوجود نرا صحافی تھا لیکن چند برس ہوتے ہیں، کڑکتی سردیوں کے ایک موسم میں مجھ پر حیرت کا ایک اور پہاڑ ٹوٹا جب میں نے یہ شعر پڑھا ؎
شہر نے اوڑھی برف کی چادر
ساجن، اب تم لوٹ بھی آؤ
شعر اور صحافت ایسا اینٹ کتے کا بیر بھی نہیں لیکن اس کے باوجود مجھے حیرت ہوئی اور میں نے سوچا کہ یہ شخص تو چھپا رستم نکلا۔ اس کے بعد ڈھونڈ ڈھونڈ کر میں نے اس کے شعر پڑھنے شروع کیے۔ اس زمانے سے لے کر اب تک طاہر حنفی نہایت تیزی کے ساتھ چار شعری مجموعوں کے مصنف ہو چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں انھیں پڑھوں اور ان پر سر بھی دھنوں لیکن میں ابھی تک برف کی چادر والے شعرکے سحر میں ہوں، اس شعر کے سحر نکلوں تو آگے بڑھوں۔ تو بھائی طاہر حنفی، جب تک میں اس شعر کی گرفت میں ہوں، آگے بڑھنے سے قاصر ہوں۔ وہ تم تھے جو بات بات لوگوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیا کرتے تھے، مجھ سے اس سے زیادہ کی امید ہرگز نہ رکھنا۔
یہ شخص شاعر بھی ہو سکتا ہے، طاہر حنفی کو میں نے جب پہلی بار دیکھا توایسا بالکل نہیں سوچا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ملاقات پہلی ہو یا دوسری، یہ شخص سوچ بچار کا موقع کسی کو دیتا ہی نہیں۔ اس شخص کے آنے کی خبر پہنچی تو ہنگامہ ہو گیا۔
مشرق مرحوم کے نیوز ایڈیٹر مشتاق سہیل کے کام کا طریقہ مختلف تھا، کاپی وقت پر ڈان کرنے کے شوقین ایڈیٹروں کی طرح وہ نیوز روم میں کشیدگی پیدا نہیں کرتے تھے، کبھی لطیفہ سنایا، کبھی کوئی شعر۔ کسی نے اچھی خبر بنائی یا پھڑکتی ہوئی سرخی نکال دی تو پہلے چھوٹے شیشوں کی عینک کے اوپر سے گھور کراُسے دیکھا، گھبرا کر اس نے نگاہیں جھکا لیں تو زور دار قہقہہ لگا کر کہا، شاباش، آج تو تو نے کمال کر دیا۔ یوں آہستہ آہستہ رات بھیگتی جاتی اور اخبار کی کاپی مکمل ہوتی جاتی مگر اس روز کچھ مختلف ہوا۔
انھوں نے بے چینی سے بجنے والے فون کا چونگا اٹھایا اور دوسری طرف جو کوئی بھی تھا، اس کا پرجوش خیر مقدم کیا، اس کے بعد کچھ دیر وہ خاموشی سے بات سنتے رہے جیسے ہی بات ختم ہوئی انھوں دھیرے سے فون کریڈل پر رکھا، اس کے بعد ہنگامہ ہو گیا۔ کبھی اونچی آواز سے نہ بولنے والے شخص نے ایک ایسی آواز میں جس سے ہم واقف نہ تھے، ہدایت کی کہ اوئے، جلدی کرو اوئے، وہ آ رہا ہے، اس کے بعد وہ کام جس کے نمٹتے نمٹتے رات ساڑھے بارہ ایک بجے بج جاتا تھا، ہم نے کوئی دس بجے ہی نمٹا لیا، اس کے بعد سوچنے لگے کہ ایسی کیا قیامت آگئی ہے جو ہم پر بے صبری کی ایسی کیفیت طاری ہوئی جیسی جلدی جلدی ٹھنڈا گرم کھانے والے کی ہوتی ہے۔ پھر کچھ دیر بعد واقعی قیامت آگئی۔
یہ بھی دیکھئے:
یہ واقعہ ان اچھے دنوں کا ہے جب اخبارات کے دفتر سات پہروں نہیں ہوتے تھے جس کا جی چاہتا سیڑھیاں چڑھ اوپر آ جاتا اور حسب مرتبہ ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، کاتب، کاپی پیسٹر سے ہاتھ ملا کر باتوں میں مصروف ہو جاتا۔ خیال یہی تھا جس کسی کو آنا ہے، دبے پاں آکر بیٹھ جائے گا اور اٹھنے کا نام نہیں لے گا لیکن آنے والا جب آیا تو اس نے تو بیٹھ کر ہی نہیں دیا۔ مشتاق سہیل صاحب سے جلدی جلدی کاندھے ملائے اور ڈیسک والوں سے ہاتھ، اس کے بعد طویل قہقہہ لگاتے ہوئے نیوز روم کی طویل میز کی ایک طرف سے دوسری طرف یوں پہنچا کہ نک سک سے درست پورا یو ٹرن بن گیا۔ اس ٹرن کی تکمیل کے بعد سیاہ داڑھی اور لمبے بالوں والے اس شخص نے کھڑے ہو کر ٹائی کی ناٹ درست کی اور کہا کہ پھر چلیں سہیل بھائی؟سہیل بھائی دعوت قبول کرنے میں سنت کے قائل ہیں لیکن کسی افرا تفری میں وہ عام طور پر نہیں پڑتے تھے۔ وہ ایک مہربان لیکن ذرا مضحکہ اڑانے والی مسکراہٹ کے ساتھ ٹھوڑی تلے ہتھیلی کا کنارہ رکھ کر اس کی طرف خاموشی سے دیکھتے رہے۔
آنے والے نے ٹائی سے نمٹ کر مسکراتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا اور اوہو ہو کہتا پیچھے ہٹا اور میز کو یو کو ٹرن میں بدلنے والے اختتام پر رکھی خالی کرسی پر ٹکتے ہوئے کہا:
‘ایئر پورٹ سے آتے ہوئے میں یہیں اتر گیا اور سامان میں نے ہوٹل بھیج دیا، یہ جوش و خروش شاید اس وجہ سے ہو گا، میں ٹی وی دیکھتا ہوں تاکہ کام میں مداخلت نہ ہو’۔
ٹیلی ویژن پر ان دنوں دھوپ کنارے نام کا مقبول ڈرامہ چل رہا تھا جس میں ساجد حسن ایک حاضر جواب لیکن مزاحیہ ڈاکٹر کا کردار ادا کر رہے تھے، مرینا خان کی کسی احمقانہ حرکت کے جواب میں انھوں نے اپنی عادت کے مطابق منھ ہی منھ میں کوئی ذو معنی جملہ کہا تو خاموشی سے ٹی وی دیکھنے کے دعوے دار نے پلٹ کر ایک اور قہقہہ لگایا اور تبصرہ کیا کہ یہ تو بڑا خوف ناک اداکار ہے مشتاق بھائی۔یہ ہنگامہ جو اس وقت نیوز روز میں برپا تھا، اس کے اثرات صرف یہیں تک محدود نہ تھے۔ کچھ دیر پہلے جب یہ مہمان گھومتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ کر دفتر کے صدر دروازے پر پہنچا تھا تو اسے سلیم دکھائی دیا۔
سلیم نیوز روم کا نائب قاصد تھا جو کسی کام سے باہر جا رہا تھا۔ آنے والے نے دفتر سے سہم کر فرار ہونے والے کے کاندھے پر دھپا مار کر کہا کہ ابے، تو کدھر جا رہا ہے، اس سے پہلے کہ اسے کوئی جواب ملتا، سلیم کواس نے لپٹا لیا۔نیوز روم سے کئی سو قدم کے فاصلے پر یہ جو کارروائی ہو رہی تھی، اس کے گونجتے ہوئے نعرے ہمارے کانوں تک پہنچ چکے تھے اور ہمارے ہمارے باس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی کہ دیکھا، میں نے کتنی دانش مندی سے کام لیا۔
یہ بھی پڑھئے:
گیارہ مارچ: آج نامور نقاد اور افسانہ نگار ممتاز شیریں کی برسی ہے
ریاست ذہنی افلاس کا شکار کیوں؟
تحریک عدم اعتماد اور حامد میر بحالی ساتھ ساتھ کیوں؟
اس شخص سے میری یہ پہلی ملاقات تھی جسے آپ طاہر حنفی کے نام سے جانتے ہیں۔ اُس شام جلدی جلدی کام نمٹا کر ہم دفتر سے نکلے تو کوالالمپور یا شاید بلغراد کی پرواز سے سیدھا ہمارے دفتر لینڈ کرنے والے اس شخص نے گاڑی کا انتظار کرنے کے بجائے بے تکلفی کے ساتھ مشتاق صاحب کے پرانے لمریٹا پر بیٹھ جانا ہی مناسب جانا، یوں یہ قافلہ جس کی دم پر یہ عاجز لٹک رہا تھا، کراچی کے اس ہوٹل کی لابی میں جا براجا جس کا نام بدل کر شہر کے سارے رومانس ہی کا ستیا ناس کر دیا گیا ہے۔
رات کے ڈیڑھ دو بج رہے تھے اور ہم لوگ دائرے کی صورت میں روشنی بکھیرنے والے ایک ہرے بھرے فانوس کے نیچے بیٹھے کافی کے منتظر تھے۔ بڑے ہوٹلوں میں بیٹھنے والے کم ہوں، خواہ زیادہ، ان کی سروس کی رفتار ہمیشہ سست ہوتی ہے۔ کچھ دیر تک کافی نہ پہنچی تو ذرا سے فاصلے پر فرنٹ ڈیسک کے مسکراتے ہوئے نوجوان کو اس شخص نے پکارا اور کہا کہ یار کچھ تم ہی ہماری داد رسی کرو۔ وہ بے چارہ شرمندگی کے عالم میں کانٹر کے پیچھے سے نکلا اور ہمارے پاس آن موجود ہوا۔ کافی وغیرہ کے لیے سرزنش تو ایک بہانہ تھا، اصل میں تو اس کا انٹرویو مطلوب تھا۔
معلوم ہوا کہ یہ لڑکا صبح یونیورسٹی جاتا ہے اور شام میں یہ نوکری کر کے اپنا اور گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ اس انکشاف پر کہ نوجوان محنتی اور ذہین ہے، ہمارے میزبان کا دل پسیجا اور کہا کہ تمھیں دیکھ کر مجھے بھی اپنا لڑکپن یاد آ گیا ہے، لو،ادھر ہمارے ساتھ بیٹھو، بڑے ہوٹلوں کا عملہ مہمانوں کے ساتھ کبھی بیٹھتا ہے جو وہ بیٹھتا، شرماتے ہوئے نے کہا کہ سر کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ خیر، انھیں بھی اس کے بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کی پروا نہیں تھی، باتوں سے غرض تھی اور وہ ہو رہی تھیں۔ اس شب اس اجنبی لڑکے سے اس شخص نے اتنی باتیں کیں کہ وہ ان کا مرید ہو گیا۔ اُس مرید کا اِس مرشد کو کوئی کوئی فائدہ پہنچا یا نہیں، اِس کی خبر تو انھیں ہی ہوگی، ہمارا خوب فائدہ ہوا۔
لڑکا محنتی تھا، جلد ہی ترقی کرتے کرتے کسی اچھے عہدے پر پہنچ گیا اور ہر سال نو پر اُس دلچسپ ملاقات کی یاد دہانی کے طور پر وہ ہمیں تحائف کا ایک پیکٹ ضرور بھیجا کرتا۔ اتفاق سے کبھی اس کے ہوٹل میں جانا ہوتا اور اسے خبر ہو جاتی تو وہ ضرور ملنے کو بھی آیا کرتا۔اس ہنگامہ آرائی کے بعد اس محبت خیزی کے مظاہرے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی اسرار تو ہے اس شخص میں۔
آنے والے دنوں میں یہ شخص کئی بار بیرون ملک گیا اور واپسی پر ہر مرتبہ اس نے ہم غریبوں سے بھی ملاقات ضروری سمجھی۔ اس شخص کی دوستی مشتاق سہیل صاحب سے تھی، بشیر صدیقی، جعفری صاحبان اور خالد سعید صاحب وغیرہ سینئر تھے، میں بے چارہ اپرنٹس ٹائپ جو دن میں یونیورسٹی ہوتا اور گزر اوقات کے لیے شام مزدوری میں گزار دیتا، بوجہ اپنی حیثیت کے لیے دیے اور خاموش رہا کرتا مگر ایک روز کیفیت بدل گئی۔
یہ شخص اس شام شاید بیجنگ سے لوٹا تھا اور اپنے متاثرین میں بانٹنے کے لیے اس کے بیگ میں گرین ٹی کے بہت سے ڈبے تھے۔ ہلکے نیلے رنگ کا خوب صورت سا ایک ایک ڈبہ ہر ایک شخص کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد یہ آدمی اس خالی کرسی پر بیٹھ گیا جو میرے پہلو میں رکھی تھی۔یہ ہماری سیاست کاوہ زمانہ تھا جب مارشل لا کے باوصف سیاست دانوں کے لیے ہر بات آسانی سے کہہ دینی ممکن نہ ہوتی تھی لہٰذا وہ اخبارات سے غائب رہتے لیکن پیر صاحب پگارا مختلف آدمی تھے۔ وہ کچھ ایسی مختلف اور بعض صورتوں میں اتنی عجیب بلکہ کبھی کبھی معیوب سی بات کہہ دیتے جسے اخبارات میں یوں جگہ ملتی جیسے فلمی ستاروں کو ملا کرتی ہے۔
وہ کوئی ایسا ہی بیان تھا، اصلاح کے لیے نیوز ایڈیٹر نے جسے میرے سپرد کیا۔ میں نے بیان پڑھا اور محظوظ ہوا لیکن اس عجیب و غریب بیان کی اصلاح میرے جیسے نو آموز صحافی کے بس کی بات نہ تھی، اس لیے ذرا بے زاری کے ساتھ کاغذ کا وہ ٹکڑا میز پر رکھ دیا۔ اس ہنگامہ پرور شخص نے جو اس وقت بھی کچھ سکون سے نہیں بیٹھا تھا، کمال مہربانی سے گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور خبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں اسے دیکھ لوں؟ خبر کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے ایک سوال مزید کیا، کیسا ہے یہ بیان؟
سرگودھا کی مقامی یعنی جانگلی زبان میں میں الم غلم باتوں کے لیے بزرگ بکڑ واہ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے ہیں، جانے کیاسبب تھا کہ یہی لفظ اس وقت میری زبان پر آیا اور میں نے اس کی ادائیگی میں کوئی تکلف بھی محسوس نہ کیا۔ بکڑ واہ جیسا لفظ پیر صاحب پگارا شریف جیسی ہستی کے کتنا نامناسب تھا، اس کا مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھا لیکن خیر یہ گزری کہ طاہر حنفی اس لفظ کے حقیقی معنوں کو تو نہ سمجھ سکے لیکن انھیں یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ اس نوخیز نے کچھ اچھا لفظ استعمال نہیں کیا۔
میری بات سن کر کسی وقت خاموش نہ رہنے والا یہ شخص کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر نرمی کے ساتھ کہا، میں آپ کو ایک واقعہ سنآؤں؟مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا، مجھے ایک دلچسپ بات بھی سننے کو ملتی اور باس کے مہمان کی وجہ سے کام میں کچھ رعایت بھی مل جاتی۔ نیوز روم کے نو آموز کارکن کے ذہن میں کیا تھا، اس سے بے نیاز ہو کر انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں داستان سرائی شروع کر دی۔
یہ ان زمانوں کا واقعہ تھا جب جنرل ضیا الحق مارشل لا کے نفاذ کے بعد اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔ اس سلسلے میں کئی سیاست دانوں سے وہ ملے، ان میں ایک پیر صاحب پگارا بھی تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے درمیان بعض معاملات پر بالآخر سودا طے پا گیا لیکن ابتدا میں اختلافات بھی رہے۔ ایسے ہی اختلافات کے بعد انھوں نے ایک بیان جاری کیا۔ طاہر بتاتے ہیں کہ پیر صاحب کی باتیں سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں انھیں لکھوں کیسے؟ بس تھوڑی دیر ہی لگی، طاہر کہنے لگے۔ میں نے پیر صاحب کے مزاج پر غور کیا، ان کے پر لطف بیان ایک ایک کر کے ذہن میں دہرائے پھر لکھا، وہ مجھے سموسہ کھلانا چاہتے تھے، میں نے گلاب جامن پر اصرار کیا۔
بات ختم کر کے ادھر طاہر حنفی نے چائے کی پیالی اٹھائی،ادھر میں خبر اٹھائی اور تیزی سے نمٹا کر باس کی طرف بڑھائی، اس سے پہلے کہ وہ اسے پکڑتے، طاہر نے پکڑ کر ایک نگاہ اس پر ڈالی اور اتنی بلند آواز میں جو نیوز روم میں گونج اٹھی۔ کہا، مزہ آ گیا یار۔ اس روز مزہ صرف طاہر حنفی کو نہیں آیا، مجھے ہی نہیں آیا بلکہ باس کو بھی آ گیا، اس دن کے بعد پیر صاحب پگارا کی جب بھی کوئی خبر آتی، وہ اسے میرے سپرد کر دیتے کیوں کہ پیر صاحب کی خاص لفظیات اور مزاج کی وجہ سے اسے مشکل خبر سمجھا جاتا تھا اور اکثر لوگ اسے بنانے میں پس و پیش کیا کرتے تھے۔ طاہر حنفی کے سموسے اور گلاب جامن نے اس روز جو چابی میرے ہاتھ میں دی تھی، پیر صاحب کی پوری سیاسی زندگی میں میرے کام آتی رہی۔
یہ بھی شاید اسی دن کی بات ہے، میرے میز کے نیچے کیبنٹ پر پیلے رنگ کا چھوٹا سا ایک فائل رکھا تھا جس پر میں نے بٹر پیپر کی مدد سے سید فخر امام کا اسکیچ ڈرا کر رکھا تھا۔ میں ان دنوں بی اے آنرز ابلاغ عامہ کے پہلے سال کا طالب علم تھا اور سمسٹر اسائنمنٹ کے طور پر اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے سلسلے میں اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کا کونٹینٹ انالیسس کیا تھا۔ طاہر کی نگاہ جانے کیسے اس پر پڑ گئی۔ کہنے لگے، میں اسے دیکھ لوں؟ پچیس تیس صفحات پر مشتمل اس مضمون کو جلدی جلدی انھوں نے پڑھا اور کہا کہ کمال ہے یار، آج تک ایسی کوئی چیز میری نگاہ سے نہیں گزری۔ بی اے آنرز سال اول کے طالب علم کے لیے یہ تعریف ساحل کی پستی سے اٹھا کر کے ٹو کی چوٹی پر بٹھا دینے والی تھی۔ میں ابھی کیفیت سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ کہنے لگے، اس کی ایک کاپی مجھے دے دیں۔آپ کیا کریں گے، طاہر بھائی؟ میں نے حیرت سے سوال کیا تو انھوں نے ایک اور دھماکہ کر دی۔ میں اسے قومی اسمبلی کی لائبریری میں رکھواؤں گا۔
میرے استاد محترم پروفیسر طاہر مسعود جب کبھی یہ دیکھتے کہ کوئی کسی کی اس کی اہلیت سے بڑھ کر تعریف کر رہا ہے تو کہا کرتے، یار، اس کی انا کو گنے کا رس مت پلا۔ قومی اسمبلی والی بات سن کر مجھے بھی یہی لگا لیکن سچی بات یہ ہے کہ خوشی بھی بہت ہوئی، کئی روز تک مجھے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے میں ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ انھوں نے وہ فضول سا مضمون قومی اسمبلی کی لائبریری میں کبھی نہیں رکھوایا ہو گا لیکن ان کے اس جملے سے میرے اعتماد کو جو ہارس پاور میسر آئی، اس نے میرے سفر مزید آسان اور تیز رفتار بنا دیا۔
یہ ہے وہ طاہر حنفی جسے شاید پنڈی وال اور اسلام آبادی شاید نہ جانتے ہوں یا کم جانتے ہوں۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں یہ علم ہو کہ یہ شخص کسی زمانے میں اسٹوڈنٹ لیڈر تھا، کچھ لوگوں کو خبر ہوگی کہ بلا کا مقرر تھا، بیشتر کی تان قومی اسمبلی کی افسری پر جا کر ٹوٹتی ہوگی۔ بالکل اسی طرح میری نگاہ میں بھی طاہر حنفی سرکار کا فرماں بردار ہونے کے باوجود نرا صحافی تھا لیکن چند برس ہوتے ہیں، کڑکتی سردیوں کے ایک موسم میں مجھ پر حیرت کا ایک اور پہاڑ ٹوٹا جب میں نے یہ شعر پڑھا ؎
شہر نے اوڑھی برف کی چادر
ساجن، اب تم لوٹ بھی آؤ
شعر اور صحافت ایسا اینٹ کتے کا بیر بھی نہیں لیکن اس کے باوجود مجھے حیرت ہوئی اور میں نے سوچا کہ یہ شخص تو چھپا رستم نکلا۔ اس کے بعد ڈھونڈ ڈھونڈ کر میں نے اس کے شعر پڑھنے شروع کیے۔ اس زمانے سے لے کر اب تک طاہر حنفی نہایت تیزی کے ساتھ چار شعری مجموعوں کے مصنف ہو چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں انھیں پڑھوں اور ان پر سر بھی دھنوں لیکن میں ابھی تک برف کی چادر والے شعرکے سحر میں ہوں، اس شعر کے سحر نکلوں تو آگے بڑھوں۔ تو بھائی طاہر حنفی، جب تک میں اس شعر کی گرفت میں ہوں، آگے بڑھنے سے قاصر ہوں۔ وہ تم تھے جو بات بات لوگوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیا کرتے تھے، مجھ سے اس سے زیادہ کی امید ہرگز نہ رکھنا۔
یہ شخص شاعر بھی ہو سکتا ہے، طاہر حنفی کو میں نے جب پہلی بار دیکھا توایسا بالکل نہیں سوچا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ملاقات پہلی ہو یا دوسری، یہ شخص سوچ بچار کا موقع کسی کو دیتا ہی نہیں۔ اس شخص کے آنے کی خبر پہنچی تو ہنگامہ ہو گیا۔
مشرق مرحوم کے نیوز ایڈیٹر مشتاق سہیل کے کام کا طریقہ مختلف تھا، کاپی وقت پر ڈان کرنے کے شوقین ایڈیٹروں کی طرح وہ نیوز روم میں کشیدگی پیدا نہیں کرتے تھے، کبھی لطیفہ سنایا، کبھی کوئی شعر۔ کسی نے اچھی خبر بنائی یا پھڑکتی ہوئی سرخی نکال دی تو پہلے چھوٹے شیشوں کی عینک کے اوپر سے گھور کراُسے دیکھا، گھبرا کر اس نے نگاہیں جھکا لیں تو زور دار قہقہہ لگا کر کہا، شاباش، آج تو تو نے کمال کر دیا۔ یوں آہستہ آہستہ رات بھیگتی جاتی اور اخبار کی کاپی مکمل ہوتی جاتی مگر اس روز کچھ مختلف ہوا۔
انھوں نے بے چینی سے بجنے والے فون کا چونگا اٹھایا اور دوسری طرف جو کوئی بھی تھا، اس کا پرجوش خیر مقدم کیا، اس کے بعد کچھ دیر وہ خاموشی سے بات سنتے رہے جیسے ہی بات ختم ہوئی انھوں دھیرے سے فون کریڈل پر رکھا، اس کے بعد ہنگامہ ہو گیا۔ کبھی اونچی آواز سے نہ بولنے والے شخص نے ایک ایسی آواز میں جس سے ہم واقف نہ تھے، ہدایت کی کہ اوئے، جلدی کرو اوئے، وہ آ رہا ہے، اس کے بعد وہ کام جس کے نمٹتے نمٹتے رات ساڑھے بارہ ایک بجے بج جاتا تھا، ہم نے کوئی دس بجے ہی نمٹا لیا، اس کے بعد سوچنے لگے کہ ایسی کیا قیامت آگئی ہے جو ہم پر بے صبری کی ایسی کیفیت طاری ہوئی جیسی جلدی جلدی ٹھنڈا گرم کھانے والے کی ہوتی ہے۔ پھر کچھ دیر بعد واقعی قیامت آگئی۔
یہ بھی دیکھئے:
یہ واقعہ ان اچھے دنوں کا ہے جب اخبارات کے دفتر سات پہروں نہیں ہوتے تھے جس کا جی چاہتا سیڑھیاں چڑھ اوپر آ جاتا اور حسب مرتبہ ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، کاتب، کاپی پیسٹر سے ہاتھ ملا کر باتوں میں مصروف ہو جاتا۔ خیال یہی تھا جس کسی کو آنا ہے، دبے پاں آکر بیٹھ جائے گا اور اٹھنے کا نام نہیں لے گا لیکن آنے والا جب آیا تو اس نے تو بیٹھ کر ہی نہیں دیا۔ مشتاق سہیل صاحب سے جلدی جلدی کاندھے ملائے اور ڈیسک والوں سے ہاتھ، اس کے بعد طویل قہقہہ لگاتے ہوئے نیوز روم کی طویل میز کی ایک طرف سے دوسری طرف یوں پہنچا کہ نک سک سے درست پورا یو ٹرن بن گیا۔ اس ٹرن کی تکمیل کے بعد سیاہ داڑھی اور لمبے بالوں والے اس شخص نے کھڑے ہو کر ٹائی کی ناٹ درست کی اور کہا کہ پھر چلیں سہیل بھائی؟سہیل بھائی دعوت قبول کرنے میں سنت کے قائل ہیں لیکن کسی افرا تفری میں وہ عام طور پر نہیں پڑتے تھے۔ وہ ایک مہربان لیکن ذرا مضحکہ اڑانے والی مسکراہٹ کے ساتھ ٹھوڑی تلے ہتھیلی کا کنارہ رکھ کر اس کی طرف خاموشی سے دیکھتے رہے۔
آنے والے نے ٹائی سے نمٹ کر مسکراتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا اور اوہو ہو کہتا پیچھے ہٹا اور میز کو یو کو ٹرن میں بدلنے والے اختتام پر رکھی خالی کرسی پر ٹکتے ہوئے کہا:
‘ایئر پورٹ سے آتے ہوئے میں یہیں اتر گیا اور سامان میں نے ہوٹل بھیج دیا، یہ جوش و خروش شاید اس وجہ سے ہو گا، میں ٹی وی دیکھتا ہوں تاکہ کام میں مداخلت نہ ہو’۔
ٹیلی ویژن پر ان دنوں دھوپ کنارے نام کا مقبول ڈرامہ چل رہا تھا جس میں ساجد حسن ایک حاضر جواب لیکن مزاحیہ ڈاکٹر کا کردار ادا کر رہے تھے، مرینا خان کی کسی احمقانہ حرکت کے جواب میں انھوں نے اپنی عادت کے مطابق منھ ہی منھ میں کوئی ذو معنی جملہ کہا تو خاموشی سے ٹی وی دیکھنے کے دعوے دار نے پلٹ کر ایک اور قہقہہ لگایا اور تبصرہ کیا کہ یہ تو بڑا خوف ناک اداکار ہے مشتاق بھائی۔یہ ہنگامہ جو اس وقت نیوز روز میں برپا تھا، اس کے اثرات صرف یہیں تک محدود نہ تھے۔ کچھ دیر پہلے جب یہ مہمان گھومتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ کر دفتر کے صدر دروازے پر پہنچا تھا تو اسے سلیم دکھائی دیا۔
سلیم نیوز روم کا نائب قاصد تھا جو کسی کام سے باہر جا رہا تھا۔ آنے والے نے دفتر سے سہم کر فرار ہونے والے کے کاندھے پر دھپا مار کر کہا کہ ابے، تو کدھر جا رہا ہے، اس سے پہلے کہ اسے کوئی جواب ملتا، سلیم کواس نے لپٹا لیا۔نیوز روم سے کئی سو قدم کے فاصلے پر یہ جو کارروائی ہو رہی تھی، اس کے گونجتے ہوئے نعرے ہمارے کانوں تک پہنچ چکے تھے اور ہمارے ہمارے باس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی کہ دیکھا، میں نے کتنی دانش مندی سے کام لیا۔
یہ بھی پڑھئے:
گیارہ مارچ: آج نامور نقاد اور افسانہ نگار ممتاز شیریں کی برسی ہے
ریاست ذہنی افلاس کا شکار کیوں؟
تحریک عدم اعتماد اور حامد میر بحالی ساتھ ساتھ کیوں؟
اس شخص سے میری یہ پہلی ملاقات تھی جسے آپ طاہر حنفی کے نام سے جانتے ہیں۔ اُس شام جلدی جلدی کام نمٹا کر ہم دفتر سے نکلے تو کوالالمپور یا شاید بلغراد کی پرواز سے سیدھا ہمارے دفتر لینڈ کرنے والے اس شخص نے گاڑی کا انتظار کرنے کے بجائے بے تکلفی کے ساتھ مشتاق صاحب کے پرانے لمریٹا پر بیٹھ جانا ہی مناسب جانا، یوں یہ قافلہ جس کی دم پر یہ عاجز لٹک رہا تھا، کراچی کے اس ہوٹل کی لابی میں جا براجا جس کا نام بدل کر شہر کے سارے رومانس ہی کا ستیا ناس کر دیا گیا ہے۔
رات کے ڈیڑھ دو بج رہے تھے اور ہم لوگ دائرے کی صورت میں روشنی بکھیرنے والے ایک ہرے بھرے فانوس کے نیچے بیٹھے کافی کے منتظر تھے۔ بڑے ہوٹلوں میں بیٹھنے والے کم ہوں، خواہ زیادہ، ان کی سروس کی رفتار ہمیشہ سست ہوتی ہے۔ کچھ دیر تک کافی نہ پہنچی تو ذرا سے فاصلے پر فرنٹ ڈیسک کے مسکراتے ہوئے نوجوان کو اس شخص نے پکارا اور کہا کہ یار کچھ تم ہی ہماری داد رسی کرو۔ وہ بے چارہ شرمندگی کے عالم میں کانٹر کے پیچھے سے نکلا اور ہمارے پاس آن موجود ہوا۔ کافی وغیرہ کے لیے سرزنش تو ایک بہانہ تھا، اصل میں تو اس کا انٹرویو مطلوب تھا۔
معلوم ہوا کہ یہ لڑکا صبح یونیورسٹی جاتا ہے اور شام میں یہ نوکری کر کے اپنا اور گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ اس انکشاف پر کہ نوجوان محنتی اور ذہین ہے، ہمارے میزبان کا دل پسیجا اور کہا کہ تمھیں دیکھ کر مجھے بھی اپنا لڑکپن یاد آ گیا ہے، لو،ادھر ہمارے ساتھ بیٹھو، بڑے ہوٹلوں کا عملہ مہمانوں کے ساتھ کبھی بیٹھتا ہے جو وہ بیٹھتا، شرماتے ہوئے نے کہا کہ سر کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ خیر، انھیں بھی اس کے بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کی پروا نہیں تھی، باتوں سے غرض تھی اور وہ ہو رہی تھیں۔ اس شب اس اجنبی لڑکے سے اس شخص نے اتنی باتیں کیں کہ وہ ان کا مرید ہو گیا۔ اُس مرید کا اِس مرشد کو کوئی کوئی فائدہ پہنچا یا نہیں، اِس کی خبر تو انھیں ہی ہوگی، ہمارا خوب فائدہ ہوا۔
لڑکا محنتی تھا، جلد ہی ترقی کرتے کرتے کسی اچھے عہدے پر پہنچ گیا اور ہر سال نو پر اُس دلچسپ ملاقات کی یاد دہانی کے طور پر وہ ہمیں تحائف کا ایک پیکٹ ضرور بھیجا کرتا۔ اتفاق سے کبھی اس کے ہوٹل میں جانا ہوتا اور اسے خبر ہو جاتی تو وہ ضرور ملنے کو بھی آیا کرتا۔اس ہنگامہ آرائی کے بعد اس محبت خیزی کے مظاہرے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی اسرار تو ہے اس شخص میں۔
آنے والے دنوں میں یہ شخص کئی بار بیرون ملک گیا اور واپسی پر ہر مرتبہ اس نے ہم غریبوں سے بھی ملاقات ضروری سمجھی۔ اس شخص کی دوستی مشتاق سہیل صاحب سے تھی، بشیر صدیقی، جعفری صاحبان اور خالد سعید صاحب وغیرہ سینئر تھے، میں بے چارہ اپرنٹس ٹائپ جو دن میں یونیورسٹی ہوتا اور گزر اوقات کے لیے شام مزدوری میں گزار دیتا، بوجہ اپنی حیثیت کے لیے دیے اور خاموش رہا کرتا مگر ایک روز کیفیت بدل گئی۔
یہ شخص اس شام شاید بیجنگ سے لوٹا تھا اور اپنے متاثرین میں بانٹنے کے لیے اس کے بیگ میں گرین ٹی کے بہت سے ڈبے تھے۔ ہلکے نیلے رنگ کا خوب صورت سا ایک ایک ڈبہ ہر ایک شخص کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد یہ آدمی اس خالی کرسی پر بیٹھ گیا جو میرے پہلو میں رکھی تھی۔یہ ہماری سیاست کاوہ زمانہ تھا جب مارشل لا کے باوصف سیاست دانوں کے لیے ہر بات آسانی سے کہہ دینی ممکن نہ ہوتی تھی لہٰذا وہ اخبارات سے غائب رہتے لیکن پیر صاحب پگارا مختلف آدمی تھے۔ وہ کچھ ایسی مختلف اور بعض صورتوں میں اتنی عجیب بلکہ کبھی کبھی معیوب سی بات کہہ دیتے جسے اخبارات میں یوں جگہ ملتی جیسے فلمی ستاروں کو ملا کرتی ہے۔
وہ کوئی ایسا ہی بیان تھا، اصلاح کے لیے نیوز ایڈیٹر نے جسے میرے سپرد کیا۔ میں نے بیان پڑھا اور محظوظ ہوا لیکن اس عجیب و غریب بیان کی اصلاح میرے جیسے نو آموز صحافی کے بس کی بات نہ تھی، اس لیے ذرا بے زاری کے ساتھ کاغذ کا وہ ٹکڑا میز پر رکھ دیا۔ اس ہنگامہ پرور شخص نے جو اس وقت بھی کچھ سکون سے نہیں بیٹھا تھا، کمال مہربانی سے گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور خبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں اسے دیکھ لوں؟ خبر کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے ایک سوال مزید کیا، کیسا ہے یہ بیان؟
سرگودھا کی مقامی یعنی جانگلی زبان میں میں الم غلم باتوں کے لیے بزرگ بکڑ واہ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے ہیں، جانے کیاسبب تھا کہ یہی لفظ اس وقت میری زبان پر آیا اور میں نے اس کی ادائیگی میں کوئی تکلف بھی محسوس نہ کیا۔ بکڑ واہ جیسا لفظ پیر صاحب پگارا شریف جیسی ہستی کے کتنا نامناسب تھا، اس کا مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھا لیکن خیر یہ گزری کہ طاہر حنفی اس لفظ کے حقیقی معنوں کو تو نہ سمجھ سکے لیکن انھیں یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ اس نوخیز نے کچھ اچھا لفظ استعمال نہیں کیا۔
میری بات سن کر کسی وقت خاموش نہ رہنے والا یہ شخص کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر نرمی کے ساتھ کہا، میں آپ کو ایک واقعہ سنآؤں؟مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا، مجھے ایک دلچسپ بات بھی سننے کو ملتی اور باس کے مہمان کی وجہ سے کام میں کچھ رعایت بھی مل جاتی۔ نیوز روم کے نو آموز کارکن کے ذہن میں کیا تھا، اس سے بے نیاز ہو کر انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں داستان سرائی شروع کر دی۔
یہ ان زمانوں کا واقعہ تھا جب جنرل ضیا الحق مارشل لا کے نفاذ کے بعد اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔ اس سلسلے میں کئی سیاست دانوں سے وہ ملے، ان میں ایک پیر صاحب پگارا بھی تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے درمیان بعض معاملات پر بالآخر سودا طے پا گیا لیکن ابتدا میں اختلافات بھی رہے۔ ایسے ہی اختلافات کے بعد انھوں نے ایک بیان جاری کیا۔ طاہر بتاتے ہیں کہ پیر صاحب کی باتیں سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں انھیں لکھوں کیسے؟ بس تھوڑی دیر ہی لگی، طاہر کہنے لگے۔ میں نے پیر صاحب کے مزاج پر غور کیا، ان کے پر لطف بیان ایک ایک کر کے ذہن میں دہرائے پھر لکھا، وہ مجھے سموسہ کھلانا چاہتے تھے، میں نے گلاب جامن پر اصرار کیا۔
بات ختم کر کے ادھر طاہر حنفی نے چائے کی پیالی اٹھائی،ادھر میں خبر اٹھائی اور تیزی سے نمٹا کر باس کی طرف بڑھائی، اس سے پہلے کہ وہ اسے پکڑتے، طاہر نے پکڑ کر ایک نگاہ اس پر ڈالی اور اتنی بلند آواز میں جو نیوز روم میں گونج اٹھی۔ کہا، مزہ آ گیا یار۔ اس روز مزہ صرف طاہر حنفی کو نہیں آیا، مجھے ہی نہیں آیا بلکہ باس کو بھی آ گیا، اس دن کے بعد پیر صاحب پگارا کی جب بھی کوئی خبر آتی، وہ اسے میرے سپرد کر دیتے کیوں کہ پیر صاحب کی خاص لفظیات اور مزاج کی وجہ سے اسے مشکل خبر سمجھا جاتا تھا اور اکثر لوگ اسے بنانے میں پس و پیش کیا کرتے تھے۔ طاہر حنفی کے سموسے اور گلاب جامن نے اس روز جو چابی میرے ہاتھ میں دی تھی، پیر صاحب کی پوری سیاسی زندگی میں میرے کام آتی رہی۔
یہ بھی شاید اسی دن کی بات ہے، میرے میز کے نیچے کیبنٹ پر پیلے رنگ کا چھوٹا سا ایک فائل رکھا تھا جس پر میں نے بٹر پیپر کی مدد سے سید فخر امام کا اسکیچ ڈرا کر رکھا تھا۔ میں ان دنوں بی اے آنرز ابلاغ عامہ کے پہلے سال کا طالب علم تھا اور سمسٹر اسائنمنٹ کے طور پر اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے سلسلے میں اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کا کونٹینٹ انالیسس کیا تھا۔ طاہر کی نگاہ جانے کیسے اس پر پڑ گئی۔ کہنے لگے، میں اسے دیکھ لوں؟ پچیس تیس صفحات پر مشتمل اس مضمون کو جلدی جلدی انھوں نے پڑھا اور کہا کہ کمال ہے یار، آج تک ایسی کوئی چیز میری نگاہ سے نہیں گزری۔ بی اے آنرز سال اول کے طالب علم کے لیے یہ تعریف ساحل کی پستی سے اٹھا کر کے ٹو کی چوٹی پر بٹھا دینے والی تھی۔ میں ابھی کیفیت سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ کہنے لگے، اس کی ایک کاپی مجھے دے دیں۔آپ کیا کریں گے، طاہر بھائی؟ میں نے حیرت سے سوال کیا تو انھوں نے ایک اور دھماکہ کر دی۔ میں اسے قومی اسمبلی کی لائبریری میں رکھواؤں گا۔
میرے استاد محترم پروفیسر طاہر مسعود جب کبھی یہ دیکھتے کہ کوئی کسی کی اس کی اہلیت سے بڑھ کر تعریف کر رہا ہے تو کہا کرتے، یار، اس کی انا کو گنے کا رس مت پلا۔ قومی اسمبلی والی بات سن کر مجھے بھی یہی لگا لیکن سچی بات یہ ہے کہ خوشی بھی بہت ہوئی، کئی روز تک مجھے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے میں ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ انھوں نے وہ فضول سا مضمون قومی اسمبلی کی لائبریری میں کبھی نہیں رکھوایا ہو گا لیکن ان کے اس جملے سے میرے اعتماد کو جو ہارس پاور میسر آئی، اس نے میرے سفر مزید آسان اور تیز رفتار بنا دیا۔
یہ ہے وہ طاہر حنفی جسے شاید پنڈی وال اور اسلام آبادی شاید نہ جانتے ہوں یا کم جانتے ہوں۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں یہ علم ہو کہ یہ شخص کسی زمانے میں اسٹوڈنٹ لیڈر تھا، کچھ لوگوں کو خبر ہوگی کہ بلا کا مقرر تھا، بیشتر کی تان قومی اسمبلی کی افسری پر جا کر ٹوٹتی ہوگی۔ بالکل اسی طرح میری نگاہ میں بھی طاہر حنفی سرکار کا فرماں بردار ہونے کے باوجود نرا صحافی تھا لیکن چند برس ہوتے ہیں، کڑکتی سردیوں کے ایک موسم میں مجھ پر حیرت کا ایک اور پہاڑ ٹوٹا جب میں نے یہ شعر پڑھا ؎
شہر نے اوڑھی برف کی چادر
ساجن، اب تم لوٹ بھی آؤ
شعر اور صحافت ایسا اینٹ کتے کا بیر بھی نہیں لیکن اس کے باوجود مجھے حیرت ہوئی اور میں نے سوچا کہ یہ شخص تو چھپا رستم نکلا۔ اس کے بعد ڈھونڈ ڈھونڈ کر میں نے اس کے شعر پڑھنے شروع کیے۔ اس زمانے سے لے کر اب تک طاہر حنفی نہایت تیزی کے ساتھ چار شعری مجموعوں کے مصنف ہو چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں انھیں پڑھوں اور ان پر سر بھی دھنوں لیکن میں ابھی تک برف کی چادر والے شعرکے سحر میں ہوں، اس شعر کے سحر نکلوں تو آگے بڑھوں۔ تو بھائی طاہر حنفی، جب تک میں اس شعر کی گرفت میں ہوں، آگے بڑھنے سے قاصر ہوں۔ وہ تم تھے جو بات بات لوگوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیا کرتے تھے، مجھ سے اس سے زیادہ کی امید ہرگز نہ رکھنا۔
یہ شخص شاعر بھی ہو سکتا ہے، طاہر حنفی کو میں نے جب پہلی بار دیکھا توایسا بالکل نہیں سوچا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ملاقات پہلی ہو یا دوسری، یہ شخص سوچ بچار کا موقع کسی کو دیتا ہی نہیں۔ اس شخص کے آنے کی خبر پہنچی تو ہنگامہ ہو گیا۔
مشرق مرحوم کے نیوز ایڈیٹر مشتاق سہیل کے کام کا طریقہ مختلف تھا، کاپی وقت پر ڈان کرنے کے شوقین ایڈیٹروں کی طرح وہ نیوز روم میں کشیدگی پیدا نہیں کرتے تھے، کبھی لطیفہ سنایا، کبھی کوئی شعر۔ کسی نے اچھی خبر بنائی یا پھڑکتی ہوئی سرخی نکال دی تو پہلے چھوٹے شیشوں کی عینک کے اوپر سے گھور کراُسے دیکھا، گھبرا کر اس نے نگاہیں جھکا لیں تو زور دار قہقہہ لگا کر کہا، شاباش، آج تو تو نے کمال کر دیا۔ یوں آہستہ آہستہ رات بھیگتی جاتی اور اخبار کی کاپی مکمل ہوتی جاتی مگر اس روز کچھ مختلف ہوا۔
انھوں نے بے چینی سے بجنے والے فون کا چونگا اٹھایا اور دوسری طرف جو کوئی بھی تھا، اس کا پرجوش خیر مقدم کیا، اس کے بعد کچھ دیر وہ خاموشی سے بات سنتے رہے جیسے ہی بات ختم ہوئی انھوں دھیرے سے فون کریڈل پر رکھا، اس کے بعد ہنگامہ ہو گیا۔ کبھی اونچی آواز سے نہ بولنے والے شخص نے ایک ایسی آواز میں جس سے ہم واقف نہ تھے، ہدایت کی کہ اوئے، جلدی کرو اوئے، وہ آ رہا ہے، اس کے بعد وہ کام جس کے نمٹتے نمٹتے رات ساڑھے بارہ ایک بجے بج جاتا تھا، ہم نے کوئی دس بجے ہی نمٹا لیا، اس کے بعد سوچنے لگے کہ ایسی کیا قیامت آگئی ہے جو ہم پر بے صبری کی ایسی کیفیت طاری ہوئی جیسی جلدی جلدی ٹھنڈا گرم کھانے والے کی ہوتی ہے۔ پھر کچھ دیر بعد واقعی قیامت آگئی۔
یہ بھی دیکھئے:
یہ واقعہ ان اچھے دنوں کا ہے جب اخبارات کے دفتر سات پہروں نہیں ہوتے تھے جس کا جی چاہتا سیڑھیاں چڑھ اوپر آ جاتا اور حسب مرتبہ ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، کاتب، کاپی پیسٹر سے ہاتھ ملا کر باتوں میں مصروف ہو جاتا۔ خیال یہی تھا جس کسی کو آنا ہے، دبے پاں آکر بیٹھ جائے گا اور اٹھنے کا نام نہیں لے گا لیکن آنے والا جب آیا تو اس نے تو بیٹھ کر ہی نہیں دیا۔ مشتاق سہیل صاحب سے جلدی جلدی کاندھے ملائے اور ڈیسک والوں سے ہاتھ، اس کے بعد طویل قہقہہ لگاتے ہوئے نیوز روم کی طویل میز کی ایک طرف سے دوسری طرف یوں پہنچا کہ نک سک سے درست پورا یو ٹرن بن گیا۔ اس ٹرن کی تکمیل کے بعد سیاہ داڑھی اور لمبے بالوں والے اس شخص نے کھڑے ہو کر ٹائی کی ناٹ درست کی اور کہا کہ پھر چلیں سہیل بھائی؟سہیل بھائی دعوت قبول کرنے میں سنت کے قائل ہیں لیکن کسی افرا تفری میں وہ عام طور پر نہیں پڑتے تھے۔ وہ ایک مہربان لیکن ذرا مضحکہ اڑانے والی مسکراہٹ کے ساتھ ٹھوڑی تلے ہتھیلی کا کنارہ رکھ کر اس کی طرف خاموشی سے دیکھتے رہے۔
آنے والے نے ٹائی سے نمٹ کر مسکراتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا اور اوہو ہو کہتا پیچھے ہٹا اور میز کو یو کو ٹرن میں بدلنے والے اختتام پر رکھی خالی کرسی پر ٹکتے ہوئے کہا:
‘ایئر پورٹ سے آتے ہوئے میں یہیں اتر گیا اور سامان میں نے ہوٹل بھیج دیا، یہ جوش و خروش شاید اس وجہ سے ہو گا، میں ٹی وی دیکھتا ہوں تاکہ کام میں مداخلت نہ ہو’۔
ٹیلی ویژن پر ان دنوں دھوپ کنارے نام کا مقبول ڈرامہ چل رہا تھا جس میں ساجد حسن ایک حاضر جواب لیکن مزاحیہ ڈاکٹر کا کردار ادا کر رہے تھے، مرینا خان کی کسی احمقانہ حرکت کے جواب میں انھوں نے اپنی عادت کے مطابق منھ ہی منھ میں کوئی ذو معنی جملہ کہا تو خاموشی سے ٹی وی دیکھنے کے دعوے دار نے پلٹ کر ایک اور قہقہہ لگایا اور تبصرہ کیا کہ یہ تو بڑا خوف ناک اداکار ہے مشتاق بھائی۔یہ ہنگامہ جو اس وقت نیوز روز میں برپا تھا، اس کے اثرات صرف یہیں تک محدود نہ تھے۔ کچھ دیر پہلے جب یہ مہمان گھومتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ کر دفتر کے صدر دروازے پر پہنچا تھا تو اسے سلیم دکھائی دیا۔
سلیم نیوز روم کا نائب قاصد تھا جو کسی کام سے باہر جا رہا تھا۔ آنے والے نے دفتر سے سہم کر فرار ہونے والے کے کاندھے پر دھپا مار کر کہا کہ ابے، تو کدھر جا رہا ہے، اس سے پہلے کہ اسے کوئی جواب ملتا، سلیم کواس نے لپٹا لیا۔نیوز روم سے کئی سو قدم کے فاصلے پر یہ جو کارروائی ہو رہی تھی، اس کے گونجتے ہوئے نعرے ہمارے کانوں تک پہنچ چکے تھے اور ہمارے ہمارے باس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی کہ دیکھا، میں نے کتنی دانش مندی سے کام لیا۔
یہ بھی پڑھئے:
گیارہ مارچ: آج نامور نقاد اور افسانہ نگار ممتاز شیریں کی برسی ہے
ریاست ذہنی افلاس کا شکار کیوں؟
تحریک عدم اعتماد اور حامد میر بحالی ساتھ ساتھ کیوں؟
اس شخص سے میری یہ پہلی ملاقات تھی جسے آپ طاہر حنفی کے نام سے جانتے ہیں۔ اُس شام جلدی جلدی کام نمٹا کر ہم دفتر سے نکلے تو کوالالمپور یا شاید بلغراد کی پرواز سے سیدھا ہمارے دفتر لینڈ کرنے والے اس شخص نے گاڑی کا انتظار کرنے کے بجائے بے تکلفی کے ساتھ مشتاق صاحب کے پرانے لمریٹا پر بیٹھ جانا ہی مناسب جانا، یوں یہ قافلہ جس کی دم پر یہ عاجز لٹک رہا تھا، کراچی کے اس ہوٹل کی لابی میں جا براجا جس کا نام بدل کر شہر کے سارے رومانس ہی کا ستیا ناس کر دیا گیا ہے۔
رات کے ڈیڑھ دو بج رہے تھے اور ہم لوگ دائرے کی صورت میں روشنی بکھیرنے والے ایک ہرے بھرے فانوس کے نیچے بیٹھے کافی کے منتظر تھے۔ بڑے ہوٹلوں میں بیٹھنے والے کم ہوں، خواہ زیادہ، ان کی سروس کی رفتار ہمیشہ سست ہوتی ہے۔ کچھ دیر تک کافی نہ پہنچی تو ذرا سے فاصلے پر فرنٹ ڈیسک کے مسکراتے ہوئے نوجوان کو اس شخص نے پکارا اور کہا کہ یار کچھ تم ہی ہماری داد رسی کرو۔ وہ بے چارہ شرمندگی کے عالم میں کانٹر کے پیچھے سے نکلا اور ہمارے پاس آن موجود ہوا۔ کافی وغیرہ کے لیے سرزنش تو ایک بہانہ تھا، اصل میں تو اس کا انٹرویو مطلوب تھا۔
معلوم ہوا کہ یہ لڑکا صبح یونیورسٹی جاتا ہے اور شام میں یہ نوکری کر کے اپنا اور گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ اس انکشاف پر کہ نوجوان محنتی اور ذہین ہے، ہمارے میزبان کا دل پسیجا اور کہا کہ تمھیں دیکھ کر مجھے بھی اپنا لڑکپن یاد آ گیا ہے، لو،ادھر ہمارے ساتھ بیٹھو، بڑے ہوٹلوں کا عملہ مہمانوں کے ساتھ کبھی بیٹھتا ہے جو وہ بیٹھتا، شرماتے ہوئے نے کہا کہ سر کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ خیر، انھیں بھی اس کے بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کی پروا نہیں تھی، باتوں سے غرض تھی اور وہ ہو رہی تھیں۔ اس شب اس اجنبی لڑکے سے اس شخص نے اتنی باتیں کیں کہ وہ ان کا مرید ہو گیا۔ اُس مرید کا اِس مرشد کو کوئی کوئی فائدہ پہنچا یا نہیں، اِس کی خبر تو انھیں ہی ہوگی، ہمارا خوب فائدہ ہوا۔
لڑکا محنتی تھا، جلد ہی ترقی کرتے کرتے کسی اچھے عہدے پر پہنچ گیا اور ہر سال نو پر اُس دلچسپ ملاقات کی یاد دہانی کے طور پر وہ ہمیں تحائف کا ایک پیکٹ ضرور بھیجا کرتا۔ اتفاق سے کبھی اس کے ہوٹل میں جانا ہوتا اور اسے خبر ہو جاتی تو وہ ضرور ملنے کو بھی آیا کرتا۔اس ہنگامہ آرائی کے بعد اس محبت خیزی کے مظاہرے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی اسرار تو ہے اس شخص میں۔
آنے والے دنوں میں یہ شخص کئی بار بیرون ملک گیا اور واپسی پر ہر مرتبہ اس نے ہم غریبوں سے بھی ملاقات ضروری سمجھی۔ اس شخص کی دوستی مشتاق سہیل صاحب سے تھی، بشیر صدیقی، جعفری صاحبان اور خالد سعید صاحب وغیرہ سینئر تھے، میں بے چارہ اپرنٹس ٹائپ جو دن میں یونیورسٹی ہوتا اور گزر اوقات کے لیے شام مزدوری میں گزار دیتا، بوجہ اپنی حیثیت کے لیے دیے اور خاموش رہا کرتا مگر ایک روز کیفیت بدل گئی۔
یہ شخص اس شام شاید بیجنگ سے لوٹا تھا اور اپنے متاثرین میں بانٹنے کے لیے اس کے بیگ میں گرین ٹی کے بہت سے ڈبے تھے۔ ہلکے نیلے رنگ کا خوب صورت سا ایک ایک ڈبہ ہر ایک شخص کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد یہ آدمی اس خالی کرسی پر بیٹھ گیا جو میرے پہلو میں رکھی تھی۔یہ ہماری سیاست کاوہ زمانہ تھا جب مارشل لا کے باوصف سیاست دانوں کے لیے ہر بات آسانی سے کہہ دینی ممکن نہ ہوتی تھی لہٰذا وہ اخبارات سے غائب رہتے لیکن پیر صاحب پگارا مختلف آدمی تھے۔ وہ کچھ ایسی مختلف اور بعض صورتوں میں اتنی عجیب بلکہ کبھی کبھی معیوب سی بات کہہ دیتے جسے اخبارات میں یوں جگہ ملتی جیسے فلمی ستاروں کو ملا کرتی ہے۔
وہ کوئی ایسا ہی بیان تھا، اصلاح کے لیے نیوز ایڈیٹر نے جسے میرے سپرد کیا۔ میں نے بیان پڑھا اور محظوظ ہوا لیکن اس عجیب و غریب بیان کی اصلاح میرے جیسے نو آموز صحافی کے بس کی بات نہ تھی، اس لیے ذرا بے زاری کے ساتھ کاغذ کا وہ ٹکڑا میز پر رکھ دیا۔ اس ہنگامہ پرور شخص نے جو اس وقت بھی کچھ سکون سے نہیں بیٹھا تھا، کمال مہربانی سے گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور خبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں اسے دیکھ لوں؟ خبر کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے ایک سوال مزید کیا، کیسا ہے یہ بیان؟
سرگودھا کی مقامی یعنی جانگلی زبان میں میں الم غلم باتوں کے لیے بزرگ بکڑ واہ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے ہیں، جانے کیاسبب تھا کہ یہی لفظ اس وقت میری زبان پر آیا اور میں نے اس کی ادائیگی میں کوئی تکلف بھی محسوس نہ کیا۔ بکڑ واہ جیسا لفظ پیر صاحب پگارا شریف جیسی ہستی کے کتنا نامناسب تھا، اس کا مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھا لیکن خیر یہ گزری کہ طاہر حنفی اس لفظ کے حقیقی معنوں کو تو نہ سمجھ سکے لیکن انھیں یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ اس نوخیز نے کچھ اچھا لفظ استعمال نہیں کیا۔
میری بات سن کر کسی وقت خاموش نہ رہنے والا یہ شخص کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر نرمی کے ساتھ کہا، میں آپ کو ایک واقعہ سنآؤں؟مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا، مجھے ایک دلچسپ بات بھی سننے کو ملتی اور باس کے مہمان کی وجہ سے کام میں کچھ رعایت بھی مل جاتی۔ نیوز روم کے نو آموز کارکن کے ذہن میں کیا تھا، اس سے بے نیاز ہو کر انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں داستان سرائی شروع کر دی۔
یہ ان زمانوں کا واقعہ تھا جب جنرل ضیا الحق مارشل لا کے نفاذ کے بعد اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔ اس سلسلے میں کئی سیاست دانوں سے وہ ملے، ان میں ایک پیر صاحب پگارا بھی تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے درمیان بعض معاملات پر بالآخر سودا طے پا گیا لیکن ابتدا میں اختلافات بھی رہے۔ ایسے ہی اختلافات کے بعد انھوں نے ایک بیان جاری کیا۔ طاہر بتاتے ہیں کہ پیر صاحب کی باتیں سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں انھیں لکھوں کیسے؟ بس تھوڑی دیر ہی لگی، طاہر کہنے لگے۔ میں نے پیر صاحب کے مزاج پر غور کیا، ان کے پر لطف بیان ایک ایک کر کے ذہن میں دہرائے پھر لکھا، وہ مجھے سموسہ کھلانا چاہتے تھے، میں نے گلاب جامن پر اصرار کیا۔
بات ختم کر کے ادھر طاہر حنفی نے چائے کی پیالی اٹھائی،ادھر میں خبر اٹھائی اور تیزی سے نمٹا کر باس کی طرف بڑھائی، اس سے پہلے کہ وہ اسے پکڑتے، طاہر نے پکڑ کر ایک نگاہ اس پر ڈالی اور اتنی بلند آواز میں جو نیوز روم میں گونج اٹھی۔ کہا، مزہ آ گیا یار۔ اس روز مزہ صرف طاہر حنفی کو نہیں آیا، مجھے ہی نہیں آیا بلکہ باس کو بھی آ گیا، اس دن کے بعد پیر صاحب پگارا کی جب بھی کوئی خبر آتی، وہ اسے میرے سپرد کر دیتے کیوں کہ پیر صاحب کی خاص لفظیات اور مزاج کی وجہ سے اسے مشکل خبر سمجھا جاتا تھا اور اکثر لوگ اسے بنانے میں پس و پیش کیا کرتے تھے۔ طاہر حنفی کے سموسے اور گلاب جامن نے اس روز جو چابی میرے ہاتھ میں دی تھی، پیر صاحب کی پوری سیاسی زندگی میں میرے کام آتی رہی۔
یہ بھی شاید اسی دن کی بات ہے، میرے میز کے نیچے کیبنٹ پر پیلے رنگ کا چھوٹا سا ایک فائل رکھا تھا جس پر میں نے بٹر پیپر کی مدد سے سید فخر امام کا اسکیچ ڈرا کر رکھا تھا۔ میں ان دنوں بی اے آنرز ابلاغ عامہ کے پہلے سال کا طالب علم تھا اور سمسٹر اسائنمنٹ کے طور پر اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے سلسلے میں اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کا کونٹینٹ انالیسس کیا تھا۔ طاہر کی نگاہ جانے کیسے اس پر پڑ گئی۔ کہنے لگے، میں اسے دیکھ لوں؟ پچیس تیس صفحات پر مشتمل اس مضمون کو جلدی جلدی انھوں نے پڑھا اور کہا کہ کمال ہے یار، آج تک ایسی کوئی چیز میری نگاہ سے نہیں گزری۔ بی اے آنرز سال اول کے طالب علم کے لیے یہ تعریف ساحل کی پستی سے اٹھا کر کے ٹو کی چوٹی پر بٹھا دینے والی تھی۔ میں ابھی کیفیت سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ کہنے لگے، اس کی ایک کاپی مجھے دے دیں۔آپ کیا کریں گے، طاہر بھائی؟ میں نے حیرت سے سوال کیا تو انھوں نے ایک اور دھماکہ کر دی۔ میں اسے قومی اسمبلی کی لائبریری میں رکھواؤں گا۔
میرے استاد محترم پروفیسر طاہر مسعود جب کبھی یہ دیکھتے کہ کوئی کسی کی اس کی اہلیت سے بڑھ کر تعریف کر رہا ہے تو کہا کرتے، یار، اس کی انا کو گنے کا رس مت پلا۔ قومی اسمبلی والی بات سن کر مجھے بھی یہی لگا لیکن سچی بات یہ ہے کہ خوشی بھی بہت ہوئی، کئی روز تک مجھے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے میں ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ انھوں نے وہ فضول سا مضمون قومی اسمبلی کی لائبریری میں کبھی نہیں رکھوایا ہو گا لیکن ان کے اس جملے سے میرے اعتماد کو جو ہارس پاور میسر آئی، اس نے میرے سفر مزید آسان اور تیز رفتار بنا دیا۔
یہ ہے وہ طاہر حنفی جسے شاید پنڈی وال اور اسلام آبادی شاید نہ جانتے ہوں یا کم جانتے ہوں۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں یہ علم ہو کہ یہ شخص کسی زمانے میں اسٹوڈنٹ لیڈر تھا، کچھ لوگوں کو خبر ہوگی کہ بلا کا مقرر تھا، بیشتر کی تان قومی اسمبلی کی افسری پر جا کر ٹوٹتی ہوگی۔ بالکل اسی طرح میری نگاہ میں بھی طاہر حنفی سرکار کا فرماں بردار ہونے کے باوجود نرا صحافی تھا لیکن چند برس ہوتے ہیں، کڑکتی سردیوں کے ایک موسم میں مجھ پر حیرت کا ایک اور پہاڑ ٹوٹا جب میں نے یہ شعر پڑھا ؎
شہر نے اوڑھی برف کی چادر
ساجن، اب تم لوٹ بھی آؤ
شعر اور صحافت ایسا اینٹ کتے کا بیر بھی نہیں لیکن اس کے باوجود مجھے حیرت ہوئی اور میں نے سوچا کہ یہ شخص تو چھپا رستم نکلا۔ اس کے بعد ڈھونڈ ڈھونڈ کر میں نے اس کے شعر پڑھنے شروع کیے۔ اس زمانے سے لے کر اب تک طاہر حنفی نہایت تیزی کے ساتھ چار شعری مجموعوں کے مصنف ہو چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں انھیں پڑھوں اور ان پر سر بھی دھنوں لیکن میں ابھی تک برف کی چادر والے شعرکے سحر میں ہوں، اس شعر کے سحر نکلوں تو آگے بڑھوں۔ تو بھائی طاہر حنفی، جب تک میں اس شعر کی گرفت میں ہوں، آگے بڑھنے سے قاصر ہوں۔ وہ تم تھے جو بات بات لوگوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیا کرتے تھے، مجھ سے اس سے زیادہ کی امید ہرگز نہ رکھنا۔