Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہمارے وطن کی سیاست عجیب ہے، یہاں پر کوئی بیزار کُن (مایوس کُن کی بات نہیں) لمحہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم جیسے شوقیہ لکھاریوں کا شوق پورا ہوتا ہےاور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے “مزدوروں کی بھی دکانیں چلتی ہیں۔
کہا جاتا ہے بعض عادی وارداتیے واردات کرنے سے پہلے علاقے کے تھانے کو “نیوٹرل” کردیتے ہیں واردات کے وقت ساری نفری مجوزہ موقع واردات سے دور کسی اور جگہ مصروف ہوتی ہے تاکہ اگر کوئی کال کر دے تو بھی پولیس کے پہنچتے پہنچتے ڈاکو واردات کرکے نکل چُکے ہوتے اس کے بعد تھانے کو حصہ اور لُٹنے والوں کے آنسو باقی رہ جاتے ہیں۔
بات تو شروع ہوئی تھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے، اچانک ہی سرپرستان نے نیوٹرل یا غیر جانبدار ہونے کا اعلان کردیا ۔ بات اتنی سی ہے کہ یہ کانگڑی پہلوان شھرکے بڑے ڈان کے زیر سایہ محلے بھر کو نچاتا رہاہے۔ محلے والوں کے لئے کانگڑی کو دوچار ہاتھ رسید کرکے سیدھا کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا پر بڑے ڈان سے لڑنے کی ہمت کون کرے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
اس طرح بھائی کی دکانداری و دادا گیری بھی چلتی رہی اور “ایک پیج کمائی” بھی جاری رہی، اب مسئلہ یہ ہے کہ بڑے والے نے مُحلّے میں کانگڑی بھائی کی سرپرستی سے دستبرداری کا اعلان کردیا ۔ویسے دستبردار تو اس وقت ہوتے جب اعلانیہ گود لیتے یہاں پر گود اُٹھائی رسم غیراعلانیہ ہوئی لیکن اعلان لاتعلقی سرعام ۔
اب بیچارہ کانگڑی پہلوان کیا کرے، نہ صرف اس کی سلطنت دھڑام سے گرتی نظر آرہی ہے بلکہ پورا محلہ اس سے حساب کتاب بھی برابر کرنے کے لئے بیتاب ہے تنگ آمد بجنگ آمد اب وہ ڈان سے بھی لڑے اور محلے والوں کے مشترکہ لشکر سے بھی ۔
ادھر ایک ہم ہیں زمانہ اُدھر۔۔۔۔
بڑے والے نے بھی زیادتی کی ایسے اندھیروں میں بننے والے رشتے ختم کرنے کا اعلان سرعام نہیں کیا جاتا، اعلان عام درحقیقت رشتے ختم ہونے کا اعلان ہی نہیں بلکہ محلے والوں کو حساب کتاب صاف کرنے کااجازت نامہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اور ساتھ میں نئے بچّے جمورے کی ضرورت ہے کا اشتہار بھی۔
یہ بھی دیکھئے:
امریکامیں ٹرمپ کی واپسی کا امکان پیدا ہو گیا
آج اردو شاعری کی خاتون اول محترمہ ادا جعفری کی برسی ہے
جو آج “ضدّی بچّے” سے جان چھڑانے کے لیے نیوٹرل ہوسکتے ہیں وہ کل نئے جمورے کو لانے کے لئے اپنی نیوٹرلٹی کا پاندان لپیٹ بھی سکتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن کے عدم اعتماد “اُن” کی مرضی سے ضدی بچّے سے جان چھڑائی اور اب ۔۔۔بی فاختہ (اپوزیشن ) کے سارے دکھ سہنے کے بعد ۔۔۔نئے وزیراعظم والے انڈے کھانے کے لیے اچانک ہی کوئی انہی کا “کوّا”۔۔۔ سامنے آجائے۔
وہ صرف کھیل کے پہلے حصے میں ضدی و خود سر بچّے سے جان چھڑانے کے لئے “نیوٹرل” ہیں ۔ایک لحاظ سے “وہ” اپنی جنگ “محلے والوں” سے لڑوا کر کوئی تعجب نہیں ہو گا جب آخر میں ن و پیپلز پارٹی اور مولانا کوخالی ہاتھ ہی گھر بھیج دیں ۔۔کیا نیا وزیر اعظم اپوزیشن کے اسکرپٹ کے مطابق ہوگا یا “اُن” کے؟
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ اور ان بازی گروں کے لئے تو ویسے بھی دھوکہ دینا (یعنی deception ) تو جنگی چالوں کا اہم ترین حربہ ہوتا ہے اوراس میں ان سے زیادہ طاق کون ہوسکتا ہے۔
بظاہر ان کا ارادہ طلاق تک تو ٹھنڈے ٹھار بیٹھنے کا تھا پر لیکن نکاح ثانی کے وقت۔۔ اچانک ہی ۔۔ خبردار یہ شادی نہیں ہو سکتی ۔۔۔اپنی مرضی کی ہی دلہن لیکر آنا ہے ۔۔یعنی باراتی کسی اور کے اور رخصتی کسی اور کی۔۔۔جسے “پیا” چاہے وہی سہاگن ۔۔
ویسے بھی پی ٹئ آئی کوئی سیاسی جماعت تو ہے نہیں بس ایک “کانگڑی پہلوان” فین کلب ہے اس لئے زلزلے کا ایک جھٹکا پوری عمارت گرا سکتا ہے۔ باقی رہ جائیں گے صرف ڈائی ہارڈ فین۔۔۔۔مجھے تو کانگڑی پہلوان بھی اصغر خان بنتا نظر آرہا ہے کہ پارٹی رہے گی۔۔ پر وہ نہیں ۔۔۔
سچّی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی اچھا انتخاب نہیں ہے۔ کانگڑی پہلوان خود پرست نااہل تووغیرہ وغیرہ تو ہے لیکن واحد بات یہ ہے کہ یہ وہ شخص ہے جو ہمارے وطن پر مسلط نادیدہ سائیوں کو برہنہ کرسکتا ہے)۔
اس کا تبدیلی خواب بھی اتنا ہی سیاسی منجن ہے جتنا دوسرے گروپوں کی نام نہاد جمھوریت و ووٹ کی عزت کا۔ووٹ کی عزت نہ یہ دیتا ہے اور نہ دوسرے۔ ساری کہانی صرف اور صرف ذاتی یا خاندانی اقتدار کی ہے۔
اب دھمکی یہ بھی دی جارہی ہے کہ بھائی اقتدار سے باہر آکر “خطرناک” ہو جائیں ۔ خیر کوشش تو پوری کریں گے ۔۔ پر حاجی صاحب کو بلیک میل کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اُس عشوہ طراز جس کے جسم کے نشیب و فراز سے پورا محلہ واقف ہوتا ہے اسے کون بلیک میل کرسکتا ہے؟
اس ساری کہانی میں صرف سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو خود کو حاجی صاحب بنا کر پیش کرتے ہیں ورنہ “عشوہ طراز” سے سب واقف ہیں۔یہ بھی کہ وہ بھی اتنے ہی خطرناک ہوں گے جتنی ریحام خان طلاق کے بعد حجلہ عروسی کی چٹخارے اور ایڈونچر سے بھرپور کہانیاں سناتی پھر رہی ہیں۔
یہ بھی “ایک پیج والے” بے نکاحی رشتے میں داد عیش دیتے رہے ہیں بڑا تیرا مارا تو اس کی مووی سڑکوں پر چلے گی۔۔ اس میں “کسی “ کو شرمندگی تو ہو سکتی ہے لیکن کونسی خفیہ بات ہے؟
بہتر ہے کہ “خطرناک” ہو ہی جائیں، شاید اسی طرح ان دیکھے سائیوں کی تاریکی کم ہونے کا کم ہونے کا سامان پیدا ہو۔
دوسری خطرناکی سڑکوں پر احتجاج کرنے کی صلاحیت۔۔ کسی کے مستقبل کے رویوں یا امکانات کا تعین اس کے ماضی کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
میں ان کی سیاست کا حافظ تو نہیں ہوں پھر بھی میری یادداشت کے مطابق بھائی نے صحیح معنوں میں احتجاج کی سیاست دو مواقعوں پر کی تھی دونوں مرتبہ کسی “ایمپائر” کا اشارہ ساتھ تھا۔
پہلی مرتبہ 2014 میں جس میں درحقیقت طاہر القادری کے لوگوں نے ان کے بازوے شمشیر زن کا کردار ادا کیا تھا۔ اور چند دنوں میں ان کے پیچھے ہٹنے کے بعد صرف اور صرف song and dance show رہ گیا تھا، بمشکل سانحہ اے پی ایس کے بہانے اسے ختم کرنے کا موقع ملا۔
دوسرا دھرنا 2016 میں پانامہ لیک کے کاندھوں پر۔۔ اس میں بھی پرویز خٹک کی قیادت میں پشاور سے آنے والے قافلے نے تو واقعتاً حوصلہ دکھایا ۔ ورنہ ہمارے عظیم جنگجو اپنی باقیماندہ کچن کیبنٹ کے ساتھ پورا دن بنی گالہ سے باہر بھی نہیں نکلے وقتاً فوقتاً پریس کے سامنے ڈنٹر پیل کر اپنی جوانی کا مظاہرہ ضرور کرتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس کے بہانے سپریم کورٹ کو اس معاملے کی براہ راست سماعت کرنے کا موقرمل گیا جو نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی و نااہلی پر منتج ہوئی۔
لیکن ان دونوں واقعات میں سوائے محدود تعداد میں کارکنان کے حوصلے و قربانیوں کےکم از کم اس فقیر نے اس جنگجو سردار کی جانب سے کسی حیرت انگیز جرّات و ہمت کا مظاہرہ نہیں دیکھا۔ پہلو میں دل کا شور تو اب بھی بہت سُنتے ہیں لیکن کیا کوئی قطرہ خوں بھی نکلے گا؟
جہاں تک جاں فروش سر ہتھیلی پر رکھنے والے کارکنان کی بات ہے یقیناً یہاں بھی ملیں گے پر کتنے ؟
وہ کہتے ہیں نا بھوکا بٹیر بہت لڑتا ہے، اسی لئے جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے مڈل و لوئیر کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکنان ، بلکہ پیپلزپارٹی بھی سندھ سے افرادی قوت برآمد کرکے اچھا شو کرلیتی ہے۔لیکن مسلم لیگ ن کا حامی مڈل کلاس یا اپر کلاس کا کاروباری طبقہ ہے جو ووٹ دے سکتا ہے، محددد حدتک احتجاجی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے لیکن گرم و سرد کی حدّتیں و شدّتیں برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔
عسکری تربیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جتنا پسینہ تربیت کے میدان میں بہاؤ گے اتنا ہی خون میدان جنگ میں بچاؤ گے، ن لیگ کے کارکنان و حامی ووٹ دینے کے لئے تیار لیکن احتجاجی سیاست میں خون بہانے کی تربیت ہی نہیں تو میدان سے بھاگنے میں کیا لیڈر کیا کارکن سب ایک ہیں۔ کسی کے پلیٹلیٹس اوپر نیچے ہو جاتے ہیں کسی کی کمر ۔۔ اور کوئی صرف گھر میں گوشہ عافیت تلاش کرلیتا ہے۔
اس سے ملتا جُلتا معاملہ پی ٹئ آئی کا بھی ہے اس کا حامی نسبتاً جوان و نوجوان تعلیم یافتہ پروفیشنل، اور اپرمڈل و اپر کلاس کا سے تعلق رکھنے والا ہے وہ بھی یقیناً “محفوظ” مقامات پر احتجاج کے رنگوں میں بہار کا اضافہ کرنے پہنچ سکتاہے پر جب “سخت مقامات” کی توقع ہو وہاں پر وہاں پر سر ہتھیلی پر رکھنے والے کم ہی ہوں گے۔
واضح رہے کہ PTI کی 22 سال کی “جدو جہد” میں 1999 کے بعد جنرل مشرف کے ساتھ سیاسی رومانس کا وقفہ بھی شامل ہے۔ اس کے بعد 2011 سے ان کی سیاست سایہِ ایمپائیر میں چلتی رہی جس نے 2018 میں حجلہ اقتدار میں بٹھا دیا۔ “ایک پیج یا پلیٹ” جس میں سب مل جُل کر کھاتے یا پڑھتے تھے کی برکات سے لشٹم پشٹم ساڑہے تین تین سال گذر ہی گئے پھر پیج پھٹ گیا اور پلیٹ ٹوٹ گئی۔
یہ وہ فوج ہے جس کا مورال تو اونچا ہو سکتا ہے لیکن “جنگ آزما” نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا لاڈلہ سردار اپنی فوج کو دست شفقت کے زیر سایہ میدان جنگ میں پسینہ بہانے کی بجائے سوشل میڈیا پر پر شور آواز کے ساتھ بھونپو بجانے کی تربیت دیتے دیتے، میدان میں “خطرناک” ہونے کے لئے جھونک دے گا تو کیا ہوگا؟
یقینا اس ڈرائنگ روم یا سوشل میڈیا کی فوج کو طاہرالقادری یا جماعت اسلامی جیسے بازوے شمشیر زن کی کمک کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی تو بوجوہ اس میدان میں موجود نہیں ہے۔
ویسے بھی دینی جماعتوں میں جتنی توہین و تضحیک ان کی سپاہ نے مولانا فضل الرحمن کی اس سے بدرجہا کم ہی سہی لیکن ان کا نشانہ دوم ہمیشہ ہی جماعت اسلامی اور سراج الحق رہے ہیں۔ اس لیے ان کی طرف سے نہ ہی سمجھیں ۔
دوسرے فریق کا رویہ نسبتا بہتر ہے کارکنان تو کچھ حدتک مسلکی بنیاد پر جماعت سے محدود طور پر نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن قیادت نے خود کو ان باتوں سے دور ہی رکھا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں تو گنجائش بن سکتی ہے لیکن جماعت اسلامی کو ملنا ملانا کچھ نہیں ہے۔دونوں فریقوں میں سے کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کی بہ نسبت میدان سے باھر بیٹھ کر تماشا دیکھنا ہی مناسب ہے۔
اگر اکھاڑے میں کودنا ہی ہے تو اپنی شرائط پر جن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی کے مہم کے تناظر میں ایک تحریری معاہدہ جب میں جماعت مطالبات بشمول منصفانہ مردم شماری کی ضمانت اور عام انتخابات 2023 میں ہونے کی صورت میں نکی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ایک اچھّی ابتدا ہو سکتی ہے۔
یقیناً اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں، لیکن 70 سال میں نہ جانے کتنی غلطیاں کی ہیں ایک غلطی اور سہی۔۔ کم از کم نری سیاست کے لیے خود کو کسی کا قابل استعمال ٹشو پیپر بننے سے سائڈ لائن پر بیٹھنا ہی بہتر ہے۔
ہمارے وطن کی سیاست عجیب ہے، یہاں پر کوئی بیزار کُن (مایوس کُن کی بات نہیں) لمحہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم جیسے شوقیہ لکھاریوں کا شوق پورا ہوتا ہےاور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے “مزدوروں کی بھی دکانیں چلتی ہیں۔
کہا جاتا ہے بعض عادی وارداتیے واردات کرنے سے پہلے علاقے کے تھانے کو “نیوٹرل” کردیتے ہیں واردات کے وقت ساری نفری مجوزہ موقع واردات سے دور کسی اور جگہ مصروف ہوتی ہے تاکہ اگر کوئی کال کر دے تو بھی پولیس کے پہنچتے پہنچتے ڈاکو واردات کرکے نکل چُکے ہوتے اس کے بعد تھانے کو حصہ اور لُٹنے والوں کے آنسو باقی رہ جاتے ہیں۔
بات تو شروع ہوئی تھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے، اچانک ہی سرپرستان نے نیوٹرل یا غیر جانبدار ہونے کا اعلان کردیا ۔ بات اتنی سی ہے کہ یہ کانگڑی پہلوان شھرکے بڑے ڈان کے زیر سایہ محلے بھر کو نچاتا رہاہے۔ محلے والوں کے لئے کانگڑی کو دوچار ہاتھ رسید کرکے سیدھا کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا پر بڑے ڈان سے لڑنے کی ہمت کون کرے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
اس طرح بھائی کی دکانداری و دادا گیری بھی چلتی رہی اور “ایک پیج کمائی” بھی جاری رہی، اب مسئلہ یہ ہے کہ بڑے والے نے مُحلّے میں کانگڑی بھائی کی سرپرستی سے دستبرداری کا اعلان کردیا ۔ویسے دستبردار تو اس وقت ہوتے جب اعلانیہ گود لیتے یہاں پر گود اُٹھائی رسم غیراعلانیہ ہوئی لیکن اعلان لاتعلقی سرعام ۔
اب بیچارہ کانگڑی پہلوان کیا کرے، نہ صرف اس کی سلطنت دھڑام سے گرتی نظر آرہی ہے بلکہ پورا محلہ اس سے حساب کتاب بھی برابر کرنے کے لئے بیتاب ہے تنگ آمد بجنگ آمد اب وہ ڈان سے بھی لڑے اور محلے والوں کے مشترکہ لشکر سے بھی ۔
ادھر ایک ہم ہیں زمانہ اُدھر۔۔۔۔
بڑے والے نے بھی زیادتی کی ایسے اندھیروں میں بننے والے رشتے ختم کرنے کا اعلان سرعام نہیں کیا جاتا، اعلان عام درحقیقت رشتے ختم ہونے کا اعلان ہی نہیں بلکہ محلے والوں کو حساب کتاب صاف کرنے کااجازت نامہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اور ساتھ میں نئے بچّے جمورے کی ضرورت ہے کا اشتہار بھی۔
یہ بھی دیکھئے:
امریکامیں ٹرمپ کی واپسی کا امکان پیدا ہو گیا
آج اردو شاعری کی خاتون اول محترمہ ادا جعفری کی برسی ہے
جو آج “ضدّی بچّے” سے جان چھڑانے کے لیے نیوٹرل ہوسکتے ہیں وہ کل نئے جمورے کو لانے کے لئے اپنی نیوٹرلٹی کا پاندان لپیٹ بھی سکتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن کے عدم اعتماد “اُن” کی مرضی سے ضدی بچّے سے جان چھڑائی اور اب ۔۔۔بی فاختہ (اپوزیشن ) کے سارے دکھ سہنے کے بعد ۔۔۔نئے وزیراعظم والے انڈے کھانے کے لیے اچانک ہی کوئی انہی کا “کوّا”۔۔۔ سامنے آجائے۔
وہ صرف کھیل کے پہلے حصے میں ضدی و خود سر بچّے سے جان چھڑانے کے لئے “نیوٹرل” ہیں ۔ایک لحاظ سے “وہ” اپنی جنگ “محلے والوں” سے لڑوا کر کوئی تعجب نہیں ہو گا جب آخر میں ن و پیپلز پارٹی اور مولانا کوخالی ہاتھ ہی گھر بھیج دیں ۔۔کیا نیا وزیر اعظم اپوزیشن کے اسکرپٹ کے مطابق ہوگا یا “اُن” کے؟
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ اور ان بازی گروں کے لئے تو ویسے بھی دھوکہ دینا (یعنی deception ) تو جنگی چالوں کا اہم ترین حربہ ہوتا ہے اوراس میں ان سے زیادہ طاق کون ہوسکتا ہے۔
بظاہر ان کا ارادہ طلاق تک تو ٹھنڈے ٹھار بیٹھنے کا تھا پر لیکن نکاح ثانی کے وقت۔۔ اچانک ہی ۔۔ خبردار یہ شادی نہیں ہو سکتی ۔۔۔اپنی مرضی کی ہی دلہن لیکر آنا ہے ۔۔یعنی باراتی کسی اور کے اور رخصتی کسی اور کی۔۔۔جسے “پیا” چاہے وہی سہاگن ۔۔
ویسے بھی پی ٹئ آئی کوئی سیاسی جماعت تو ہے نہیں بس ایک “کانگڑی پہلوان” فین کلب ہے اس لئے زلزلے کا ایک جھٹکا پوری عمارت گرا سکتا ہے۔ باقی رہ جائیں گے صرف ڈائی ہارڈ فین۔۔۔۔مجھے تو کانگڑی پہلوان بھی اصغر خان بنتا نظر آرہا ہے کہ پارٹی رہے گی۔۔ پر وہ نہیں ۔۔۔
سچّی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی اچھا انتخاب نہیں ہے۔ کانگڑی پہلوان خود پرست نااہل تووغیرہ وغیرہ تو ہے لیکن واحد بات یہ ہے کہ یہ وہ شخص ہے جو ہمارے وطن پر مسلط نادیدہ سائیوں کو برہنہ کرسکتا ہے)۔
اس کا تبدیلی خواب بھی اتنا ہی سیاسی منجن ہے جتنا دوسرے گروپوں کی نام نہاد جمھوریت و ووٹ کی عزت کا۔ووٹ کی عزت نہ یہ دیتا ہے اور نہ دوسرے۔ ساری کہانی صرف اور صرف ذاتی یا خاندانی اقتدار کی ہے۔
اب دھمکی یہ بھی دی جارہی ہے کہ بھائی اقتدار سے باہر آکر “خطرناک” ہو جائیں ۔ خیر کوشش تو پوری کریں گے ۔۔ پر حاجی صاحب کو بلیک میل کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اُس عشوہ طراز جس کے جسم کے نشیب و فراز سے پورا محلہ واقف ہوتا ہے اسے کون بلیک میل کرسکتا ہے؟
اس ساری کہانی میں صرف سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو خود کو حاجی صاحب بنا کر پیش کرتے ہیں ورنہ “عشوہ طراز” سے سب واقف ہیں۔یہ بھی کہ وہ بھی اتنے ہی خطرناک ہوں گے جتنی ریحام خان طلاق کے بعد حجلہ عروسی کی چٹخارے اور ایڈونچر سے بھرپور کہانیاں سناتی پھر رہی ہیں۔
یہ بھی “ایک پیج والے” بے نکاحی رشتے میں داد عیش دیتے رہے ہیں بڑا تیرا مارا تو اس کی مووی سڑکوں پر چلے گی۔۔ اس میں “کسی “ کو شرمندگی تو ہو سکتی ہے لیکن کونسی خفیہ بات ہے؟
بہتر ہے کہ “خطرناک” ہو ہی جائیں، شاید اسی طرح ان دیکھے سائیوں کی تاریکی کم ہونے کا کم ہونے کا سامان پیدا ہو۔
دوسری خطرناکی سڑکوں پر احتجاج کرنے کی صلاحیت۔۔ کسی کے مستقبل کے رویوں یا امکانات کا تعین اس کے ماضی کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
میں ان کی سیاست کا حافظ تو نہیں ہوں پھر بھی میری یادداشت کے مطابق بھائی نے صحیح معنوں میں احتجاج کی سیاست دو مواقعوں پر کی تھی دونوں مرتبہ کسی “ایمپائر” کا اشارہ ساتھ تھا۔
پہلی مرتبہ 2014 میں جس میں درحقیقت طاہر القادری کے لوگوں نے ان کے بازوے شمشیر زن کا کردار ادا کیا تھا۔ اور چند دنوں میں ان کے پیچھے ہٹنے کے بعد صرف اور صرف song and dance show رہ گیا تھا، بمشکل سانحہ اے پی ایس کے بہانے اسے ختم کرنے کا موقع ملا۔
دوسرا دھرنا 2016 میں پانامہ لیک کے کاندھوں پر۔۔ اس میں بھی پرویز خٹک کی قیادت میں پشاور سے آنے والے قافلے نے تو واقعتاً حوصلہ دکھایا ۔ ورنہ ہمارے عظیم جنگجو اپنی باقیماندہ کچن کیبنٹ کے ساتھ پورا دن بنی گالہ سے باہر بھی نہیں نکلے وقتاً فوقتاً پریس کے سامنے ڈنٹر پیل کر اپنی جوانی کا مظاہرہ ضرور کرتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس کے بہانے سپریم کورٹ کو اس معاملے کی براہ راست سماعت کرنے کا موقرمل گیا جو نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی و نااہلی پر منتج ہوئی۔
لیکن ان دونوں واقعات میں سوائے محدود تعداد میں کارکنان کے حوصلے و قربانیوں کےکم از کم اس فقیر نے اس جنگجو سردار کی جانب سے کسی حیرت انگیز جرّات و ہمت کا مظاہرہ نہیں دیکھا۔ پہلو میں دل کا شور تو اب بھی بہت سُنتے ہیں لیکن کیا کوئی قطرہ خوں بھی نکلے گا؟
جہاں تک جاں فروش سر ہتھیلی پر رکھنے والے کارکنان کی بات ہے یقیناً یہاں بھی ملیں گے پر کتنے ؟
وہ کہتے ہیں نا بھوکا بٹیر بہت لڑتا ہے، اسی لئے جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے مڈل و لوئیر کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکنان ، بلکہ پیپلزپارٹی بھی سندھ سے افرادی قوت برآمد کرکے اچھا شو کرلیتی ہے۔لیکن مسلم لیگ ن کا حامی مڈل کلاس یا اپر کلاس کا کاروباری طبقہ ہے جو ووٹ دے سکتا ہے، محددد حدتک احتجاجی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے لیکن گرم و سرد کی حدّتیں و شدّتیں برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔
عسکری تربیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جتنا پسینہ تربیت کے میدان میں بہاؤ گے اتنا ہی خون میدان جنگ میں بچاؤ گے، ن لیگ کے کارکنان و حامی ووٹ دینے کے لئے تیار لیکن احتجاجی سیاست میں خون بہانے کی تربیت ہی نہیں تو میدان سے بھاگنے میں کیا لیڈر کیا کارکن سب ایک ہیں۔ کسی کے پلیٹلیٹس اوپر نیچے ہو جاتے ہیں کسی کی کمر ۔۔ اور کوئی صرف گھر میں گوشہ عافیت تلاش کرلیتا ہے۔
اس سے ملتا جُلتا معاملہ پی ٹئ آئی کا بھی ہے اس کا حامی نسبتاً جوان و نوجوان تعلیم یافتہ پروفیشنل، اور اپرمڈل و اپر کلاس کا سے تعلق رکھنے والا ہے وہ بھی یقیناً “محفوظ” مقامات پر احتجاج کے رنگوں میں بہار کا اضافہ کرنے پہنچ سکتاہے پر جب “سخت مقامات” کی توقع ہو وہاں پر وہاں پر سر ہتھیلی پر رکھنے والے کم ہی ہوں گے۔
واضح رہے کہ PTI کی 22 سال کی “جدو جہد” میں 1999 کے بعد جنرل مشرف کے ساتھ سیاسی رومانس کا وقفہ بھی شامل ہے۔ اس کے بعد 2011 سے ان کی سیاست سایہِ ایمپائیر میں چلتی رہی جس نے 2018 میں حجلہ اقتدار میں بٹھا دیا۔ “ایک پیج یا پلیٹ” جس میں سب مل جُل کر کھاتے یا پڑھتے تھے کی برکات سے لشٹم پشٹم ساڑہے تین تین سال گذر ہی گئے پھر پیج پھٹ گیا اور پلیٹ ٹوٹ گئی۔
یہ وہ فوج ہے جس کا مورال تو اونچا ہو سکتا ہے لیکن “جنگ آزما” نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا لاڈلہ سردار اپنی فوج کو دست شفقت کے زیر سایہ میدان جنگ میں پسینہ بہانے کی بجائے سوشل میڈیا پر پر شور آواز کے ساتھ بھونپو بجانے کی تربیت دیتے دیتے، میدان میں “خطرناک” ہونے کے لئے جھونک دے گا تو کیا ہوگا؟
یقینا اس ڈرائنگ روم یا سوشل میڈیا کی فوج کو طاہرالقادری یا جماعت اسلامی جیسے بازوے شمشیر زن کی کمک کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی تو بوجوہ اس میدان میں موجود نہیں ہے۔
ویسے بھی دینی جماعتوں میں جتنی توہین و تضحیک ان کی سپاہ نے مولانا فضل الرحمن کی اس سے بدرجہا کم ہی سہی لیکن ان کا نشانہ دوم ہمیشہ ہی جماعت اسلامی اور سراج الحق رہے ہیں۔ اس لیے ان کی طرف سے نہ ہی سمجھیں ۔
دوسرے فریق کا رویہ نسبتا بہتر ہے کارکنان تو کچھ حدتک مسلکی بنیاد پر جماعت سے محدود طور پر نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن قیادت نے خود کو ان باتوں سے دور ہی رکھا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں تو گنجائش بن سکتی ہے لیکن جماعت اسلامی کو ملنا ملانا کچھ نہیں ہے۔دونوں فریقوں میں سے کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کی بہ نسبت میدان سے باھر بیٹھ کر تماشا دیکھنا ہی مناسب ہے۔
اگر اکھاڑے میں کودنا ہی ہے تو اپنی شرائط پر جن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی کے مہم کے تناظر میں ایک تحریری معاہدہ جب میں جماعت مطالبات بشمول منصفانہ مردم شماری کی ضمانت اور عام انتخابات 2023 میں ہونے کی صورت میں نکی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ایک اچھّی ابتدا ہو سکتی ہے۔
یقیناً اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں، لیکن 70 سال میں نہ جانے کتنی غلطیاں کی ہیں ایک غلطی اور سہی۔۔ کم از کم نری سیاست کے لیے خود کو کسی کا قابل استعمال ٹشو پیپر بننے سے سائڈ لائن پر بیٹھنا ہی بہتر ہے۔
ہمارے وطن کی سیاست عجیب ہے، یہاں پر کوئی بیزار کُن (مایوس کُن کی بات نہیں) لمحہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم جیسے شوقیہ لکھاریوں کا شوق پورا ہوتا ہےاور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے “مزدوروں کی بھی دکانیں چلتی ہیں۔
کہا جاتا ہے بعض عادی وارداتیے واردات کرنے سے پہلے علاقے کے تھانے کو “نیوٹرل” کردیتے ہیں واردات کے وقت ساری نفری مجوزہ موقع واردات سے دور کسی اور جگہ مصروف ہوتی ہے تاکہ اگر کوئی کال کر دے تو بھی پولیس کے پہنچتے پہنچتے ڈاکو واردات کرکے نکل چُکے ہوتے اس کے بعد تھانے کو حصہ اور لُٹنے والوں کے آنسو باقی رہ جاتے ہیں۔
بات تو شروع ہوئی تھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے، اچانک ہی سرپرستان نے نیوٹرل یا غیر جانبدار ہونے کا اعلان کردیا ۔ بات اتنی سی ہے کہ یہ کانگڑی پہلوان شھرکے بڑے ڈان کے زیر سایہ محلے بھر کو نچاتا رہاہے۔ محلے والوں کے لئے کانگڑی کو دوچار ہاتھ رسید کرکے سیدھا کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا پر بڑے ڈان سے لڑنے کی ہمت کون کرے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
اس طرح بھائی کی دکانداری و دادا گیری بھی چلتی رہی اور “ایک پیج کمائی” بھی جاری رہی، اب مسئلہ یہ ہے کہ بڑے والے نے مُحلّے میں کانگڑی بھائی کی سرپرستی سے دستبرداری کا اعلان کردیا ۔ویسے دستبردار تو اس وقت ہوتے جب اعلانیہ گود لیتے یہاں پر گود اُٹھائی رسم غیراعلانیہ ہوئی لیکن اعلان لاتعلقی سرعام ۔
اب بیچارہ کانگڑی پہلوان کیا کرے، نہ صرف اس کی سلطنت دھڑام سے گرتی نظر آرہی ہے بلکہ پورا محلہ اس سے حساب کتاب بھی برابر کرنے کے لئے بیتاب ہے تنگ آمد بجنگ آمد اب وہ ڈان سے بھی لڑے اور محلے والوں کے مشترکہ لشکر سے بھی ۔
ادھر ایک ہم ہیں زمانہ اُدھر۔۔۔۔
بڑے والے نے بھی زیادتی کی ایسے اندھیروں میں بننے والے رشتے ختم کرنے کا اعلان سرعام نہیں کیا جاتا، اعلان عام درحقیقت رشتے ختم ہونے کا اعلان ہی نہیں بلکہ محلے والوں کو حساب کتاب صاف کرنے کااجازت نامہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اور ساتھ میں نئے بچّے جمورے کی ضرورت ہے کا اشتہار بھی۔
یہ بھی دیکھئے:
امریکامیں ٹرمپ کی واپسی کا امکان پیدا ہو گیا
آج اردو شاعری کی خاتون اول محترمہ ادا جعفری کی برسی ہے
جو آج “ضدّی بچّے” سے جان چھڑانے کے لیے نیوٹرل ہوسکتے ہیں وہ کل نئے جمورے کو لانے کے لئے اپنی نیوٹرلٹی کا پاندان لپیٹ بھی سکتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن کے عدم اعتماد “اُن” کی مرضی سے ضدی بچّے سے جان چھڑائی اور اب ۔۔۔بی فاختہ (اپوزیشن ) کے سارے دکھ سہنے کے بعد ۔۔۔نئے وزیراعظم والے انڈے کھانے کے لیے اچانک ہی کوئی انہی کا “کوّا”۔۔۔ سامنے آجائے۔
وہ صرف کھیل کے پہلے حصے میں ضدی و خود سر بچّے سے جان چھڑانے کے لئے “نیوٹرل” ہیں ۔ایک لحاظ سے “وہ” اپنی جنگ “محلے والوں” سے لڑوا کر کوئی تعجب نہیں ہو گا جب آخر میں ن و پیپلز پارٹی اور مولانا کوخالی ہاتھ ہی گھر بھیج دیں ۔۔کیا نیا وزیر اعظم اپوزیشن کے اسکرپٹ کے مطابق ہوگا یا “اُن” کے؟
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ اور ان بازی گروں کے لئے تو ویسے بھی دھوکہ دینا (یعنی deception ) تو جنگی چالوں کا اہم ترین حربہ ہوتا ہے اوراس میں ان سے زیادہ طاق کون ہوسکتا ہے۔
بظاہر ان کا ارادہ طلاق تک تو ٹھنڈے ٹھار بیٹھنے کا تھا پر لیکن نکاح ثانی کے وقت۔۔ اچانک ہی ۔۔ خبردار یہ شادی نہیں ہو سکتی ۔۔۔اپنی مرضی کی ہی دلہن لیکر آنا ہے ۔۔یعنی باراتی کسی اور کے اور رخصتی کسی اور کی۔۔۔جسے “پیا” چاہے وہی سہاگن ۔۔
ویسے بھی پی ٹئ آئی کوئی سیاسی جماعت تو ہے نہیں بس ایک “کانگڑی پہلوان” فین کلب ہے اس لئے زلزلے کا ایک جھٹکا پوری عمارت گرا سکتا ہے۔ باقی رہ جائیں گے صرف ڈائی ہارڈ فین۔۔۔۔مجھے تو کانگڑی پہلوان بھی اصغر خان بنتا نظر آرہا ہے کہ پارٹی رہے گی۔۔ پر وہ نہیں ۔۔۔
سچّی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی اچھا انتخاب نہیں ہے۔ کانگڑی پہلوان خود پرست نااہل تووغیرہ وغیرہ تو ہے لیکن واحد بات یہ ہے کہ یہ وہ شخص ہے جو ہمارے وطن پر مسلط نادیدہ سائیوں کو برہنہ کرسکتا ہے)۔
اس کا تبدیلی خواب بھی اتنا ہی سیاسی منجن ہے جتنا دوسرے گروپوں کی نام نہاد جمھوریت و ووٹ کی عزت کا۔ووٹ کی عزت نہ یہ دیتا ہے اور نہ دوسرے۔ ساری کہانی صرف اور صرف ذاتی یا خاندانی اقتدار کی ہے۔
اب دھمکی یہ بھی دی جارہی ہے کہ بھائی اقتدار سے باہر آکر “خطرناک” ہو جائیں ۔ خیر کوشش تو پوری کریں گے ۔۔ پر حاجی صاحب کو بلیک میل کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اُس عشوہ طراز جس کے جسم کے نشیب و فراز سے پورا محلہ واقف ہوتا ہے اسے کون بلیک میل کرسکتا ہے؟
اس ساری کہانی میں صرف سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو خود کو حاجی صاحب بنا کر پیش کرتے ہیں ورنہ “عشوہ طراز” سے سب واقف ہیں۔یہ بھی کہ وہ بھی اتنے ہی خطرناک ہوں گے جتنی ریحام خان طلاق کے بعد حجلہ عروسی کی چٹخارے اور ایڈونچر سے بھرپور کہانیاں سناتی پھر رہی ہیں۔
یہ بھی “ایک پیج والے” بے نکاحی رشتے میں داد عیش دیتے رہے ہیں بڑا تیرا مارا تو اس کی مووی سڑکوں پر چلے گی۔۔ اس میں “کسی “ کو شرمندگی تو ہو سکتی ہے لیکن کونسی خفیہ بات ہے؟
بہتر ہے کہ “خطرناک” ہو ہی جائیں، شاید اسی طرح ان دیکھے سائیوں کی تاریکی کم ہونے کا کم ہونے کا سامان پیدا ہو۔
دوسری خطرناکی سڑکوں پر احتجاج کرنے کی صلاحیت۔۔ کسی کے مستقبل کے رویوں یا امکانات کا تعین اس کے ماضی کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
میں ان کی سیاست کا حافظ تو نہیں ہوں پھر بھی میری یادداشت کے مطابق بھائی نے صحیح معنوں میں احتجاج کی سیاست دو مواقعوں پر کی تھی دونوں مرتبہ کسی “ایمپائر” کا اشارہ ساتھ تھا۔
پہلی مرتبہ 2014 میں جس میں درحقیقت طاہر القادری کے لوگوں نے ان کے بازوے شمشیر زن کا کردار ادا کیا تھا۔ اور چند دنوں میں ان کے پیچھے ہٹنے کے بعد صرف اور صرف song and dance show رہ گیا تھا، بمشکل سانحہ اے پی ایس کے بہانے اسے ختم کرنے کا موقع ملا۔
دوسرا دھرنا 2016 میں پانامہ لیک کے کاندھوں پر۔۔ اس میں بھی پرویز خٹک کی قیادت میں پشاور سے آنے والے قافلے نے تو واقعتاً حوصلہ دکھایا ۔ ورنہ ہمارے عظیم جنگجو اپنی باقیماندہ کچن کیبنٹ کے ساتھ پورا دن بنی گالہ سے باہر بھی نہیں نکلے وقتاً فوقتاً پریس کے سامنے ڈنٹر پیل کر اپنی جوانی کا مظاہرہ ضرور کرتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس کے بہانے سپریم کورٹ کو اس معاملے کی براہ راست سماعت کرنے کا موقرمل گیا جو نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی و نااہلی پر منتج ہوئی۔
لیکن ان دونوں واقعات میں سوائے محدود تعداد میں کارکنان کے حوصلے و قربانیوں کےکم از کم اس فقیر نے اس جنگجو سردار کی جانب سے کسی حیرت انگیز جرّات و ہمت کا مظاہرہ نہیں دیکھا۔ پہلو میں دل کا شور تو اب بھی بہت سُنتے ہیں لیکن کیا کوئی قطرہ خوں بھی نکلے گا؟
جہاں تک جاں فروش سر ہتھیلی پر رکھنے والے کارکنان کی بات ہے یقیناً یہاں بھی ملیں گے پر کتنے ؟
وہ کہتے ہیں نا بھوکا بٹیر بہت لڑتا ہے، اسی لئے جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے مڈل و لوئیر کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکنان ، بلکہ پیپلزپارٹی بھی سندھ سے افرادی قوت برآمد کرکے اچھا شو کرلیتی ہے۔لیکن مسلم لیگ ن کا حامی مڈل کلاس یا اپر کلاس کا کاروباری طبقہ ہے جو ووٹ دے سکتا ہے، محددد حدتک احتجاجی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے لیکن گرم و سرد کی حدّتیں و شدّتیں برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔
عسکری تربیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جتنا پسینہ تربیت کے میدان میں بہاؤ گے اتنا ہی خون میدان جنگ میں بچاؤ گے، ن لیگ کے کارکنان و حامی ووٹ دینے کے لئے تیار لیکن احتجاجی سیاست میں خون بہانے کی تربیت ہی نہیں تو میدان سے بھاگنے میں کیا لیڈر کیا کارکن سب ایک ہیں۔ کسی کے پلیٹلیٹس اوپر نیچے ہو جاتے ہیں کسی کی کمر ۔۔ اور کوئی صرف گھر میں گوشہ عافیت تلاش کرلیتا ہے۔
اس سے ملتا جُلتا معاملہ پی ٹئ آئی کا بھی ہے اس کا حامی نسبتاً جوان و نوجوان تعلیم یافتہ پروفیشنل، اور اپرمڈل و اپر کلاس کا سے تعلق رکھنے والا ہے وہ بھی یقیناً “محفوظ” مقامات پر احتجاج کے رنگوں میں بہار کا اضافہ کرنے پہنچ سکتاہے پر جب “سخت مقامات” کی توقع ہو وہاں پر وہاں پر سر ہتھیلی پر رکھنے والے کم ہی ہوں گے۔
واضح رہے کہ PTI کی 22 سال کی “جدو جہد” میں 1999 کے بعد جنرل مشرف کے ساتھ سیاسی رومانس کا وقفہ بھی شامل ہے۔ اس کے بعد 2011 سے ان کی سیاست سایہِ ایمپائیر میں چلتی رہی جس نے 2018 میں حجلہ اقتدار میں بٹھا دیا۔ “ایک پیج یا پلیٹ” جس میں سب مل جُل کر کھاتے یا پڑھتے تھے کی برکات سے لشٹم پشٹم ساڑہے تین تین سال گذر ہی گئے پھر پیج پھٹ گیا اور پلیٹ ٹوٹ گئی۔
یہ وہ فوج ہے جس کا مورال تو اونچا ہو سکتا ہے لیکن “جنگ آزما” نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا لاڈلہ سردار اپنی فوج کو دست شفقت کے زیر سایہ میدان جنگ میں پسینہ بہانے کی بجائے سوشل میڈیا پر پر شور آواز کے ساتھ بھونپو بجانے کی تربیت دیتے دیتے، میدان میں “خطرناک” ہونے کے لئے جھونک دے گا تو کیا ہوگا؟
یقینا اس ڈرائنگ روم یا سوشل میڈیا کی فوج کو طاہرالقادری یا جماعت اسلامی جیسے بازوے شمشیر زن کی کمک کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی تو بوجوہ اس میدان میں موجود نہیں ہے۔
ویسے بھی دینی جماعتوں میں جتنی توہین و تضحیک ان کی سپاہ نے مولانا فضل الرحمن کی اس سے بدرجہا کم ہی سہی لیکن ان کا نشانہ دوم ہمیشہ ہی جماعت اسلامی اور سراج الحق رہے ہیں۔ اس لیے ان کی طرف سے نہ ہی سمجھیں ۔
دوسرے فریق کا رویہ نسبتا بہتر ہے کارکنان تو کچھ حدتک مسلکی بنیاد پر جماعت سے محدود طور پر نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن قیادت نے خود کو ان باتوں سے دور ہی رکھا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں تو گنجائش بن سکتی ہے لیکن جماعت اسلامی کو ملنا ملانا کچھ نہیں ہے۔دونوں فریقوں میں سے کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کی بہ نسبت میدان سے باھر بیٹھ کر تماشا دیکھنا ہی مناسب ہے۔
اگر اکھاڑے میں کودنا ہی ہے تو اپنی شرائط پر جن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی کے مہم کے تناظر میں ایک تحریری معاہدہ جب میں جماعت مطالبات بشمول منصفانہ مردم شماری کی ضمانت اور عام انتخابات 2023 میں ہونے کی صورت میں نکی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ایک اچھّی ابتدا ہو سکتی ہے۔
یقیناً اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں، لیکن 70 سال میں نہ جانے کتنی غلطیاں کی ہیں ایک غلطی اور سہی۔۔ کم از کم نری سیاست کے لیے خود کو کسی کا قابل استعمال ٹشو پیپر بننے سے سائڈ لائن پر بیٹھنا ہی بہتر ہے۔
ہمارے وطن کی سیاست عجیب ہے، یہاں پر کوئی بیزار کُن (مایوس کُن کی بات نہیں) لمحہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم جیسے شوقیہ لکھاریوں کا شوق پورا ہوتا ہےاور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے “مزدوروں کی بھی دکانیں چلتی ہیں۔
کہا جاتا ہے بعض عادی وارداتیے واردات کرنے سے پہلے علاقے کے تھانے کو “نیوٹرل” کردیتے ہیں واردات کے وقت ساری نفری مجوزہ موقع واردات سے دور کسی اور جگہ مصروف ہوتی ہے تاکہ اگر کوئی کال کر دے تو بھی پولیس کے پہنچتے پہنچتے ڈاکو واردات کرکے نکل چُکے ہوتے اس کے بعد تھانے کو حصہ اور لُٹنے والوں کے آنسو باقی رہ جاتے ہیں۔
بات تو شروع ہوئی تھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے، اچانک ہی سرپرستان نے نیوٹرل یا غیر جانبدار ہونے کا اعلان کردیا ۔ بات اتنی سی ہے کہ یہ کانگڑی پہلوان شھرکے بڑے ڈان کے زیر سایہ محلے بھر کو نچاتا رہاہے۔ محلے والوں کے لئے کانگڑی کو دوچار ہاتھ رسید کرکے سیدھا کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا پر بڑے ڈان سے لڑنے کی ہمت کون کرے۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
اس طرح بھائی کی دکانداری و دادا گیری بھی چلتی رہی اور “ایک پیج کمائی” بھی جاری رہی، اب مسئلہ یہ ہے کہ بڑے والے نے مُحلّے میں کانگڑی بھائی کی سرپرستی سے دستبرداری کا اعلان کردیا ۔ویسے دستبردار تو اس وقت ہوتے جب اعلانیہ گود لیتے یہاں پر گود اُٹھائی رسم غیراعلانیہ ہوئی لیکن اعلان لاتعلقی سرعام ۔
اب بیچارہ کانگڑی پہلوان کیا کرے، نہ صرف اس کی سلطنت دھڑام سے گرتی نظر آرہی ہے بلکہ پورا محلہ اس سے حساب کتاب بھی برابر کرنے کے لئے بیتاب ہے تنگ آمد بجنگ آمد اب وہ ڈان سے بھی لڑے اور محلے والوں کے مشترکہ لشکر سے بھی ۔
ادھر ایک ہم ہیں زمانہ اُدھر۔۔۔۔
بڑے والے نے بھی زیادتی کی ایسے اندھیروں میں بننے والے رشتے ختم کرنے کا اعلان سرعام نہیں کیا جاتا، اعلان عام درحقیقت رشتے ختم ہونے کا اعلان ہی نہیں بلکہ محلے والوں کو حساب کتاب صاف کرنے کااجازت نامہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اور ساتھ میں نئے بچّے جمورے کی ضرورت ہے کا اشتہار بھی۔
یہ بھی دیکھئے:
امریکامیں ٹرمپ کی واپسی کا امکان پیدا ہو گیا
آج اردو شاعری کی خاتون اول محترمہ ادا جعفری کی برسی ہے
جو آج “ضدّی بچّے” سے جان چھڑانے کے لیے نیوٹرل ہوسکتے ہیں وہ کل نئے جمورے کو لانے کے لئے اپنی نیوٹرلٹی کا پاندان لپیٹ بھی سکتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن کے عدم اعتماد “اُن” کی مرضی سے ضدی بچّے سے جان چھڑائی اور اب ۔۔۔بی فاختہ (اپوزیشن ) کے سارے دکھ سہنے کے بعد ۔۔۔نئے وزیراعظم والے انڈے کھانے کے لیے اچانک ہی کوئی انہی کا “کوّا”۔۔۔ سامنے آجائے۔
وہ صرف کھیل کے پہلے حصے میں ضدی و خود سر بچّے سے جان چھڑانے کے لئے “نیوٹرل” ہیں ۔ایک لحاظ سے “وہ” اپنی جنگ “محلے والوں” سے لڑوا کر کوئی تعجب نہیں ہو گا جب آخر میں ن و پیپلز پارٹی اور مولانا کوخالی ہاتھ ہی گھر بھیج دیں ۔۔کیا نیا وزیر اعظم اپوزیشن کے اسکرپٹ کے مطابق ہوگا یا “اُن” کے؟
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ اور ان بازی گروں کے لئے تو ویسے بھی دھوکہ دینا (یعنی deception ) تو جنگی چالوں کا اہم ترین حربہ ہوتا ہے اوراس میں ان سے زیادہ طاق کون ہوسکتا ہے۔
بظاہر ان کا ارادہ طلاق تک تو ٹھنڈے ٹھار بیٹھنے کا تھا پر لیکن نکاح ثانی کے وقت۔۔ اچانک ہی ۔۔ خبردار یہ شادی نہیں ہو سکتی ۔۔۔اپنی مرضی کی ہی دلہن لیکر آنا ہے ۔۔یعنی باراتی کسی اور کے اور رخصتی کسی اور کی۔۔۔جسے “پیا” چاہے وہی سہاگن ۔۔
ویسے بھی پی ٹئ آئی کوئی سیاسی جماعت تو ہے نہیں بس ایک “کانگڑی پہلوان” فین کلب ہے اس لئے زلزلے کا ایک جھٹکا پوری عمارت گرا سکتا ہے۔ باقی رہ جائیں گے صرف ڈائی ہارڈ فین۔۔۔۔مجھے تو کانگڑی پہلوان بھی اصغر خان بنتا نظر آرہا ہے کہ پارٹی رہے گی۔۔ پر وہ نہیں ۔۔۔
سچّی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی اچھا انتخاب نہیں ہے۔ کانگڑی پہلوان خود پرست نااہل تووغیرہ وغیرہ تو ہے لیکن واحد بات یہ ہے کہ یہ وہ شخص ہے جو ہمارے وطن پر مسلط نادیدہ سائیوں کو برہنہ کرسکتا ہے)۔
اس کا تبدیلی خواب بھی اتنا ہی سیاسی منجن ہے جتنا دوسرے گروپوں کی نام نہاد جمھوریت و ووٹ کی عزت کا۔ووٹ کی عزت نہ یہ دیتا ہے اور نہ دوسرے۔ ساری کہانی صرف اور صرف ذاتی یا خاندانی اقتدار کی ہے۔
اب دھمکی یہ بھی دی جارہی ہے کہ بھائی اقتدار سے باہر آکر “خطرناک” ہو جائیں ۔ خیر کوشش تو پوری کریں گے ۔۔ پر حاجی صاحب کو بلیک میل کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اُس عشوہ طراز جس کے جسم کے نشیب و فراز سے پورا محلہ واقف ہوتا ہے اسے کون بلیک میل کرسکتا ہے؟
اس ساری کہانی میں صرف سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو خود کو حاجی صاحب بنا کر پیش کرتے ہیں ورنہ “عشوہ طراز” سے سب واقف ہیں۔یہ بھی کہ وہ بھی اتنے ہی خطرناک ہوں گے جتنی ریحام خان طلاق کے بعد حجلہ عروسی کی چٹخارے اور ایڈونچر سے بھرپور کہانیاں سناتی پھر رہی ہیں۔
یہ بھی “ایک پیج والے” بے نکاحی رشتے میں داد عیش دیتے رہے ہیں بڑا تیرا مارا تو اس کی مووی سڑکوں پر چلے گی۔۔ اس میں “کسی “ کو شرمندگی تو ہو سکتی ہے لیکن کونسی خفیہ بات ہے؟
بہتر ہے کہ “خطرناک” ہو ہی جائیں، شاید اسی طرح ان دیکھے سائیوں کی تاریکی کم ہونے کا کم ہونے کا سامان پیدا ہو۔
دوسری خطرناکی سڑکوں پر احتجاج کرنے کی صلاحیت۔۔ کسی کے مستقبل کے رویوں یا امکانات کا تعین اس کے ماضی کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
میں ان کی سیاست کا حافظ تو نہیں ہوں پھر بھی میری یادداشت کے مطابق بھائی نے صحیح معنوں میں احتجاج کی سیاست دو مواقعوں پر کی تھی دونوں مرتبہ کسی “ایمپائر” کا اشارہ ساتھ تھا۔
پہلی مرتبہ 2014 میں جس میں درحقیقت طاہر القادری کے لوگوں نے ان کے بازوے شمشیر زن کا کردار ادا کیا تھا۔ اور چند دنوں میں ان کے پیچھے ہٹنے کے بعد صرف اور صرف song and dance show رہ گیا تھا، بمشکل سانحہ اے پی ایس کے بہانے اسے ختم کرنے کا موقع ملا۔
دوسرا دھرنا 2016 میں پانامہ لیک کے کاندھوں پر۔۔ اس میں بھی پرویز خٹک کی قیادت میں پشاور سے آنے والے قافلے نے تو واقعتاً حوصلہ دکھایا ۔ ورنہ ہمارے عظیم جنگجو اپنی باقیماندہ کچن کیبنٹ کے ساتھ پورا دن بنی گالہ سے باہر بھی نہیں نکلے وقتاً فوقتاً پریس کے سامنے ڈنٹر پیل کر اپنی جوانی کا مظاہرہ ضرور کرتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس کے بہانے سپریم کورٹ کو اس معاملے کی براہ راست سماعت کرنے کا موقرمل گیا جو نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی و نااہلی پر منتج ہوئی۔
لیکن ان دونوں واقعات میں سوائے محدود تعداد میں کارکنان کے حوصلے و قربانیوں کےکم از کم اس فقیر نے اس جنگجو سردار کی جانب سے کسی حیرت انگیز جرّات و ہمت کا مظاہرہ نہیں دیکھا۔ پہلو میں دل کا شور تو اب بھی بہت سُنتے ہیں لیکن کیا کوئی قطرہ خوں بھی نکلے گا؟
جہاں تک جاں فروش سر ہتھیلی پر رکھنے والے کارکنان کی بات ہے یقیناً یہاں بھی ملیں گے پر کتنے ؟
وہ کہتے ہیں نا بھوکا بٹیر بہت لڑتا ہے، اسی لئے جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے مڈل و لوئیر کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکنان ، بلکہ پیپلزپارٹی بھی سندھ سے افرادی قوت برآمد کرکے اچھا شو کرلیتی ہے۔لیکن مسلم لیگ ن کا حامی مڈل کلاس یا اپر کلاس کا کاروباری طبقہ ہے جو ووٹ دے سکتا ہے، محددد حدتک احتجاجی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے لیکن گرم و سرد کی حدّتیں و شدّتیں برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔
عسکری تربیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جتنا پسینہ تربیت کے میدان میں بہاؤ گے اتنا ہی خون میدان جنگ میں بچاؤ گے، ن لیگ کے کارکنان و حامی ووٹ دینے کے لئے تیار لیکن احتجاجی سیاست میں خون بہانے کی تربیت ہی نہیں تو میدان سے بھاگنے میں کیا لیڈر کیا کارکن سب ایک ہیں۔ کسی کے پلیٹلیٹس اوپر نیچے ہو جاتے ہیں کسی کی کمر ۔۔ اور کوئی صرف گھر میں گوشہ عافیت تلاش کرلیتا ہے۔
اس سے ملتا جُلتا معاملہ پی ٹئ آئی کا بھی ہے اس کا حامی نسبتاً جوان و نوجوان تعلیم یافتہ پروفیشنل، اور اپرمڈل و اپر کلاس کا سے تعلق رکھنے والا ہے وہ بھی یقیناً “محفوظ” مقامات پر احتجاج کے رنگوں میں بہار کا اضافہ کرنے پہنچ سکتاہے پر جب “سخت مقامات” کی توقع ہو وہاں پر وہاں پر سر ہتھیلی پر رکھنے والے کم ہی ہوں گے۔
واضح رہے کہ PTI کی 22 سال کی “جدو جہد” میں 1999 کے بعد جنرل مشرف کے ساتھ سیاسی رومانس کا وقفہ بھی شامل ہے۔ اس کے بعد 2011 سے ان کی سیاست سایہِ ایمپائیر میں چلتی رہی جس نے 2018 میں حجلہ اقتدار میں بٹھا دیا۔ “ایک پیج یا پلیٹ” جس میں سب مل جُل کر کھاتے یا پڑھتے تھے کی برکات سے لشٹم پشٹم ساڑہے تین تین سال گذر ہی گئے پھر پیج پھٹ گیا اور پلیٹ ٹوٹ گئی۔
یہ وہ فوج ہے جس کا مورال تو اونچا ہو سکتا ہے لیکن “جنگ آزما” نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا لاڈلہ سردار اپنی فوج کو دست شفقت کے زیر سایہ میدان جنگ میں پسینہ بہانے کی بجائے سوشل میڈیا پر پر شور آواز کے ساتھ بھونپو بجانے کی تربیت دیتے دیتے، میدان میں “خطرناک” ہونے کے لئے جھونک دے گا تو کیا ہوگا؟
یقینا اس ڈرائنگ روم یا سوشل میڈیا کی فوج کو طاہرالقادری یا جماعت اسلامی جیسے بازوے شمشیر زن کی کمک کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی تو بوجوہ اس میدان میں موجود نہیں ہے۔
ویسے بھی دینی جماعتوں میں جتنی توہین و تضحیک ان کی سپاہ نے مولانا فضل الرحمن کی اس سے بدرجہا کم ہی سہی لیکن ان کا نشانہ دوم ہمیشہ ہی جماعت اسلامی اور سراج الحق رہے ہیں۔ اس لیے ان کی طرف سے نہ ہی سمجھیں ۔
دوسرے فریق کا رویہ نسبتا بہتر ہے کارکنان تو کچھ حدتک مسلکی بنیاد پر جماعت سے محدود طور پر نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن قیادت نے خود کو ان باتوں سے دور ہی رکھا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں تو گنجائش بن سکتی ہے لیکن جماعت اسلامی کو ملنا ملانا کچھ نہیں ہے۔دونوں فریقوں میں سے کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کی بہ نسبت میدان سے باھر بیٹھ کر تماشا دیکھنا ہی مناسب ہے۔
اگر اکھاڑے میں کودنا ہی ہے تو اپنی شرائط پر جن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی کے مہم کے تناظر میں ایک تحریری معاہدہ جب میں جماعت مطالبات بشمول منصفانہ مردم شماری کی ضمانت اور عام انتخابات 2023 میں ہونے کی صورت میں نکی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ایک اچھّی ابتدا ہو سکتی ہے۔
یقیناً اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں، لیکن 70 سال میں نہ جانے کتنی غلطیاں کی ہیں ایک غلطی اور سہی۔۔ کم از کم نری سیاست کے لیے خود کو کسی کا قابل استعمال ٹشو پیپر بننے سے سائڈ لائن پر بیٹھنا ہی بہتر ہے۔