Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
شاعر،نقاد،دانشوراورماہرتعلیم قاسم یعقوب کے ادبی جریدے”نقاط“ کاسترواں شمارہ کرونالاک ڈاؤن کے دوران منظرعام پرآیاہے اور اپنی شاندار روایات کوقائم رکھے ہوئے ہے۔فیصل آباد سے بہترین اورمعیاری ادبی جرائد”آفرینش“،”الکلام“،”خیال“ اور”زرنگار“ شائع ہوئے لیکن زرنگارکے علاوہ دیگر دوتین شماروں سے زیادہ جاری نہ رہ سکے۔ زرنگاراپنے مدیرعلامہ ضیاالحسن کے اچانک انتقال کی وجہ سے بندہوگیا۔تاہم ”نقاط“ اپنی پوری آب وتاب سے اپنی اشاعت برقراررکھے ہوئے ہے۔ اس کے دوخصوصی شماروں نے ادبی حلقوں کی بھرپوردادوتحسین حاصل کی ہے۔”نقاط“ کا”اردونظم نمبر“ اپنے موضوع پرمنفرد اوریادگارشمارہ تھا جبکہ اس کاگزشتہ شمارہ”کتاب نمبر“ تھا۔جواپنی نوعیت کا پہلا اورمنفردنمبرتھا جس میں کتاب،صاحب کتاب اورمطالعے کے بارے میں بہترین مضامین شائع کیے گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
ماضی کے جھروکوں سے،نایاب تحریروں کامجموعہ | نعیم الرحمٰن
کولاژ کا گیارہواں شمارہ | نعیم الرحمٰن
بولتے اوراق ،قاری سے بات کرتی کتاب | نعیم الرحمٰن
”نقاط“ کاتازہ شمارہ پانچ سوبیس صفحات اورانتہائی قابلِ قدرمشمولات پرمشتمل ہے۔ اداریے میں قاسم یعقوب نے لکھا۔”دنیابھر اس وقت وباکی لپیٹ میں ہے۔اردوبولنے والوں کاخطہ پاکستان اورہندوستان البتہ اس وبا کے طرح مہلک اثرات کی زدمیں نہیں آیاجس طرح مغربی ممالک میں خوف ناک صورتِ حال بنی مگریہاں بھی سماجی سطح پرہروہ اقدام کرنا پڑ رہاہے جس سے اس وباکے مہلک پن کوروکا جاسکے۔وبائی امراض خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوف سے زندگی کولپیٹ لیتے ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہرچیزساکت ہوجاتی ہے۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال گزشتہ کچھ ماہ سے ہمارے خطے میں بھی موجود ہے۔ادب کا براہِ راست تعلق زندگی سے ہے۔زندگی ہی اقدارکومتعین کرتی ہے۔زندگی سماج سے جڑی معاشرتی سرگرمی ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب ایک سماجی سرگرمی ہے،عقیدائی رویہ نہیں ۔ادب زندگی سے جنم لیتاہے جب کہ زندگی ہرروزبدل رہی ہے۔نت نئے انکشافات ادب کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتے ہیں۔مابعدکوروناسماج بالکل نہیں توبہت حدتک بدل چکاہوگا۔نئی اقدارکے ساتھ زندگی آغازکرے گی۔ادب اس ساری صورتِ حال کابغورمشاہدہ کررہاہے اوراپناتجزیہ اورتبصرہ زندگی کی نئی لہرکے ساتھ متعین کرے گا۔نقاط کاسترہواں شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔کوشش کی گئی ہے کہ اس وقت کے ادب کی مجموعی صورتِ حال کاایک نقشہ سامنے آسکے۔مجموعی طور پرکورونائی صورتِ حال نے ادب پربھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔خوف اورزندگی کے انجماد نے ادب کوبھی متاثرکیامگراس کے اثرات ایک دم ادب پرظاہر نہیں ہوں گے،ایک فاصلے پرادب اس ساری صورتِ حال کواپناموضوع بنائے گا۔
اس شمارے میں اردولکھنے والوں کوصنف اورعلاقے، ددنوں اطراف سے نمائندگی دینے کی کاوش نظرآئے گی۔گذشتہ دنوں ہمارے بہت پیارے دوست علی یاسرہم سے اچانک جداہوگئے۔زند گی کی بے ثباتی کاپیغام دیتایہ خوبصورت شاعراورپیاراانسان ہمیں اداس کرگیا۔اس شمارے میں چندلفظوں کوجوڑ کرایک یاد کاہالابنایاگیا ہے۔خدا اس کے درجات کوبلند کرے۔کوئٹہ سے گل نصیرخان کاایک چھوٹاساگوشہ بھی ترتیب دیاگیاہے،جس کے لیے ادارہ عابدمیر صاحب کاشکرگزارہے۔یہ شمارہ پیش کرتے ہوئے یہ امید بھی ہے کہ ابھی تک کاغذاورکتاب کی حرمت قائم ہے۔“
”نقاط“ کا تازہ شمارہ بہترین اورطویل مقالات سے آراستہ ہے۔جنہوں نے اس کووقیع بنادیاہے۔پرچے کاآغاز”وسعت ِ خیال“ کے عنوان سے چارعمدہ مقالات سے ہواہے۔ان چاروں مقالات کوحوالہ جات سے مزیدقابلِ قدربنایاگیاہے۔ڈاکٹرسعادت سعیدکے مقالے کاعنوان ”لسانی لاتشکیلی معنویت“ ہے۔یہ لسانی تشکیلات پربہت عمدہ مضمون ہے۔جس میں نثروشعرکی خوبیوں اورخامیوں کوبڑی خوبی سے پیش کیاگیاہے۔ اقتباس دیکھیں۔”فلسفہ سپیسنگ! میری جگہ کی حفاظت ہے تومیں خوش ہوں! میراگھرآباد ہے تومیں خوش ہوں ! میرے بچوں کی تعلیم مکمل ہورہی ہے تومیں خوش ہوں۔میری بیٹیاں محفوظ ہیں تومیں خوش ہوں۔مجھے میڈیکل ٹریٹمنٹ میسرہے تومیں خوش ہوں۔میری اسپیس محفوظ ہے ۔اجتماعیت کاجنازہ دھوم سے نکلا ہے! ذاتی مفاد،ذاتی اغراض ،ذاتی ترقی،ذاتی فلاح! سماجی مفاد بھاڑمیں جائے۔مجھے کیا! اپنی نبیڑتو! ایسے میں شاعری کے تمام تراسٹرکچرزذاتی سپیس کے دائروں میں مقیدہوچکے ہیں۔معاصر شاعروں کانظریہ شعر ذاتیاتی اظہاریوں کی ناندوں میں جگالیاں کرنے کاشوقین ہے۔یوں لاشعرکے وروازے سے شایدتازہ ہواؤں کے جھونکے آسکیں۔ لاشعرکیاہے؟ایک بہت ہی مشکل تعریف تویہ کہ جوشعرنہ ہو،غیرشعرنہ ہو،نثرنہ ہووہ لاشعرہے!“
یہ بہت معلومات افزا اوردلچسپ تحریرہے۔ممتازادیب،نقاداورافسانہ نگارڈاکٹرناصرعباس نیرکی کتب تواترسے آرہی ہیں۔افسانوں کے مجموعے ”خاک کی مہک“ اور”فرشتہ نہیں آیا“ سفرنامہ”ہائیڈل برگ کی ڈائری“کے ساتھ ذوق مطالعہ کی جِلا کے لیے ”نظم کیسے پڑھیں“ بہت عمدہ کتاب ہے۔ناصرعباس نیر”پڑھناکیاہے؟“ کے ساتھ نقاط کی محفل میں شریک ہیں۔”انسانی متون کیسے پڑھے جائیں؟یہ سوال آج سے دوسوسال پہلے اٹھایاجاتاتواس کی نوعیت ہدایت آموزی کی ہوتی۔اس کے جواب میں متن پڑھنے کاہدایت نامہ تیارکیاجاتا۔ زبا ن،لغت،بلاغت،روایت،شرح اوراسی طرح کے روایتی علوم سے شناسائی پرزوردیاجاتا۔عین ممکن ہے کہ ایک متعلقہ متن کے عالم سے استفادے کی شرط بھی لازم رکھی جاتی۔مقصودمتن کی درست اورغیرمبہم تفہیم کی ایک مخصوص روایت کوبرقرار رکھناہوتا۔لیکن آج یہ سوال سیاسی جہت کاحامل ہے۔اب ہدایات صرف تیکنیکی مسائل کے سلسلے میں رواسمجھی جاتی ہیں۔مطالعہ۔۔جسے تعلیمی مقاصد کے سواانجام دیاجائے۔ تکنیکی مسئلہ نہیں ہے۔یہ اختیاراورانتخاب کامعاملہ ہے۔قاری کوحق حاصل ہے کہ وہ کیاپڑھے اورکیسے پڑھے۔قاری سے مرادایک بالغ نظر شخص ہے جودنیاکواپنی نظرسے دیکھنے میں یقین رکھتا ہے اوراپنی نظرکومعتبربھی جانتاہے۔جب ہم اس بالغ نظرشخص کویہ بتانے کی کوشش کریں کہ وہ فلاںکتاب پڑھے اوراس کے لیے مخصوص طریقہ اختیارکرے توگویاہم اس دنیامیں قدم رکھتے ہیں جسے ’معنی کی سیاست‘کہنا چاہیے۔کئی کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کواہم سمجھنا،دراصل اس کتاب کے معنی کوسماجی دنیامیں ترجیحی مقام دینے یاکم ازکم اسے قابلِ قبو ل بنانے کی سعی ہے۔“
عرفان جاویدنے اپنے افسانوں کے مجموعے اوردوشخصی خاکوں کی کتب”دروازے“ اور”سرخاب“ کے ذریعے اردوادب میں اپنی پہچان بنا ئی۔ان کے خاکے محض خاکے نہیںمذکورہ شخصیات کی زندگی کے مرقعے ہیں۔عرفان جاویدکاطویل مضمون”اخبارمیں لپٹی بوتل“فحش نگاری اور جنس کے موضوع پرہے۔جنس کوہمارے ہاں شجرممنوعہ بنادیاگیاہے۔جس کی وجہ سے بے شمارمسائل بھی جنم لیتے ہیں۔انہوں نے ایک امریکی ارب پتی کاواقعہ بیان کیاہے،جوافریقی ملک گیاتواس نے دیکھاکہ صبح کے وقت بچے اسکول جانے کے بجائے پلاسٹک کی بوتلیں اٹھائے کہیں جارہے ہیں۔پوچھنے پرپتہ چلاپانی کی کمی کے باعث یہ دوردریاپرپانی لینے جاتے ہیں۔امریکی نے اپنی فلاحی تنظیم کے ذریعے وہاں پمپ لگوادیے۔وہ کچھ عرصے بعد پمپوں کی کارکردگی دیکھنے آیاتودیکھاکہ بچے پمپ سے پانی لینے کے بجائے بوتلیں اٹھائے پھردریا کی جانب رواں دواں ہیں۔اس نے حیرت کااظہارکیاتوگاؤں کے مکھیا نے بتایاکہ آپ نے پمپ لگانے سے پہلے ہمارے مسئلے کاجائزہ نہیں لیا۔ہمارے گھربہت چھوٹے ہیں ایک کمرے میں کئی افراد رہتے ہیں۔ہم بچوں کواس لیے دوردریا پربھیجتے ہیں کہ میاں بیوی کوکچھ دیر تنہائی میسرآجائے اوراپنی جنسی تشنگی مٹاسکیں۔عرفان جاوید نے اس مسئلہ عمدگی سے اجاگرکیاہے،لکھتے ہیں۔”جنس کومختلف تاریخی ادواراور علاقائی ثقافتوں میں جن متنوع رنگوں،مختلف اندازاورمتضاد نظروں سے دیکھاگیاہے،کسی اوربنیادی انسانی جبلت کونہیں دیکھاگیا۔ماضی میں ہمارے ہاں اس پرخاصاسنجیدہ نوعیت کاکام ہواہے۔اس میں علی اقبال صاحب کی مرتب کردہ کتاب ’روشنی کم تپش زیادہ‘ ایک نہایت عمدہ اوروقیع تصنیف ہے،جس میں جنس کے موضوع پردوسوسات مضامین ،عدالتی فیصلے،انٹرویوزوغیرہ شامل ہیں۔
’اثبات‘ کاعریاں نگاری اورفحش نگاری پرخصوصی شمارہ بھی خاصے کی چیز ہے۔علی عباس جلال پوری صاحب کی’جنسیاتی مطالعے‘ تواسی موضوع سے مخصوص ہے البتہ ان کی دیگرتصانیف ’رسومِ اقوام‘،’عام فکری مغالطے‘،روایاتِ تمدنِ قدیم ‘ اور’خردنامہ جلال پوری‘ میں بھی اس موضوع کوچھواگیاہے۔ سبطِ حسن صاحب کی کتب”پاکستان کاتہذیبی ارتقا‘ اور’موسیٰ سے مارکس تک‘ اوردیگر بھی اسی موضوع کاضمنی طور پراحاطہ کرتی ہیں۔زبیررانا کی اعلیٰ تصنیف ’پاکستان،تہذیب کابحران ‘ میں کئی صفحات اورابواب جنس کے موضوع پرہیں۔علاوہ ازیں اردومیں درجنوں کتب اوربین الاقوا می سطح پرکتب جنس کے موضوع پرسنجیدہ اندازمیں احاطہ کرتی ہیں۔“
ملک کے ممتازدانشورجناب احمدجاوید نے کراچی کی ایک تقریب میں شاعرجون ایلیاپرگفتگوفرمائی تھی۔جس سے فن وادب کے کئی گوشوں پر نئے نکات سامنے آئے۔اس گفتگوکوعاصم رضا نے کمال ہنرمندی سے تحریرکے قالب میں ڈھالاہے۔’نقاط‘میں ’جون ایلیا:میان ویقین کے درمیان“ کے نام سے اس کی پہلی قسط پیش کی گئی ہے۔احمدجاوید نے بہت دلچسپ بات کہی ہے کہ جون ایلیاکی پوری شخصیت ہے کہ انکارکرنا بھی ہے اور انکار کی ذمہ داریوں سے بچنا بھی ہے اورانکارکی قیمت چکانے سے اپنی حفاظت بھی کرنی ہے۔اقرارکرنے والا اقرار کے نیتجے میں آنے والی مصیبت سے بھاگے تواس کااقرارمتاثرنہیں ہوتا۔لیکن انکارکرنے والا،انکارکے نتائج سے گریز اورپسپائی اختیار کرے تواس کاانکار متا ثرہوجاتاہے۔جون ایلیا طنزنگاری میں اکبرالہٰ آبادی کے ہم پلہ تھے۔وہ طنزمیں جیسی بلاغت پیداکرتے ہیں،وہ ان کے سواآپ کوکہیں نہیں ملے گی۔وہ ہجو،طنز اورتعلی کے امامِ حاضر ہیں۔ان کے طنزکامقصود اپنی تعلی ہوتاہے اورطنزکے شکارکی تحقیرواجب ہوجاتی ہے۔احمد جاویدکے خیالات سے قاری کوجون ایلیاکی تفہیم میں مددملے گی۔مضمون کی دوسری قسط کاقارئین کوانتظاررہے گا۔
مقالات کے بھرپورحصے کے بعد”فلم نگر“ میں دوفلموں کے بارے میں دوعمدہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔عامررضا نے”سیاست،سینما، سماج“ پرلکھاہے۔خرم سہیل جنہوں نے اپنی شاندارکتب سے شہرت حاصل کی اوراب ٹی وی پروگرام ’چائے خانہ‘ میں علم،ادب،فلم اورتھیٹر کے مشہورافراد سے ملاقاتیں کرارہے ہیں۔خرم سہیل نے”بین الاقوامی سینمامیں پاکستانی فنکار“ لکھا ہے۔جس سے بیرون ملک،ہالی ووڈ اورلالی ووڈ میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔”اظہارخیال“ کے عنوان سے چارمضا مین ہیں۔محمدحمیدشاہدکی تازہ مرتب کردہ کتاب”جُستجوگُفتگُو“ میں افسانہ ،ناول اورتخلیقی عمل کے بھیداورامکانات پربہت عمدہ تصنیف ہے۔ان کامضمون”فکشن کی تفہیم میں تنقیدکاکردار“ہے۔
ڈاکٹرشاہدشریف نے ”ترجمہ کاری میں نئی فنی ضروریات“ پرقلم فرسائی کی ہے۔ ڈاکٹرقسورعباس خان”پاکستان میں سبالٹرن سٹڈیزکی ضرورت“ پرلکھاہے ۔ اورفخرعالم نے ”حکیم ناصرخسرو: زندگی،ادب اورسیاحت “ پر قلم اٹھایاہے۔جس کے بعد”یادیں“معروف ادیب ،شاعر اورخاکہ نگارامجدعلی شاکرنے”وزیرآغا،آدمی کی جون اورتیسری آنکھ “ میں دانشور،شاعر،فلسفی اورادیب وزیرآغاکی یادیں تازہ کی ہیں۔
’خطوط‘ کے زیرِعنوان چنددلچسپ خطوط بھی اس شمارے میں شامل ہیں۔ان دنوں”سب رنگ کہانیاں“ کی اشاعت پرسب رنگ اوراس کے مدیرشکیل عادل زادہ کاسوشل میڈیا پرچرچاہے۔سہ ماہی”آج “ کے مدیراجمل کمال نے دوخطوط مدیرسب رنگ اورایک مکالمہ کے مبین مرزاکولکھے۔اس بارے میں اجمل کمال کاکہناہے ۔” یہ تین خط میں نے ادبی مجلہ”مکالمہ“ کے مدیرمبین مرزا اور”سب رنگ ڈائجسٹ“ کے مدیرشکیل عادل زادہ صاحبان کوبعض باتوں کی وضاحت کے لیے بغرضِ اشاعت ارسال کیے تھے۔ان دونوں مدیرحضرات نے ان خطوں کو شائع کرنا غیرضروری سمجھا۔تاہم،میری رائے میں ان باتوں کی وضاحت کی ضرورت تھی اوراب بھی ہے،اس لیے اپنے دوست اور”نقاط“ کے مدیرقاسم یعقوب کی فرمائش پران کے سپردکررہاہوں۔جواں نہ چھپ سکے،سویہاں آکے دم ہوئے۔“
ان دلچسپ خطوط کے علاوہ جنت سے مشتاق احمدیوسفی کاجنت سے قاسم یعقوب کے نام خط احمدوقارمیر نے لکھاہے اوریہ یوسفی صاحب کے انداز میں بہت عمدہ تحریرہے۔ڈاکٹرمحمدرؤف نے میرکے نام ایک طویل اوردلچسپ خط”ایام وبامیں اِک نامہ ہم میرکے نام ارقام کیا“ کے عنوان سے پیش کیا۔قدیم رنگ کی زبان میں یہ بہت عمدہ تحریرہے۔
نقاط کااگلاعنوان ”کتاب مطالعہ “ ہے۔جس میں محمدالیاس کبیر نے ”میرال الطحاوی کے ناول پرچندباتیں“ اورامان اللہ محسن نے”مرزا اطہر بیگ کاناول: صفرسے ایک تک “ کاتجزیہ کیاہے۔ڈاکٹررشیدامجد،بلال اسوداورنیل احمدنے بھی عمدہ مضامین لکھے ہیں۔اس حصے میں منیر فیاض کاطویل مضمون”عالمی افسانوی بیانیے کااجمالی ارتقا اورانواسی“اس حصے کاحاصل ہے۔فاضل مصنف نے کئی باراپنی کم مطالعہ کا ذکرکیاہے لیکن مضمون میں انہوں نے محمدحفیظ خان کے ناول”انواسی“ کاجائزہ جس طرح عالمی ادب کی روشنی میں لیاہے اورکئی اہم کتب کا حوالہ دیاہے۔اس سے ان کے وسیع المطالعہ ہونے کاعلم ہوتاہے۔
موجودہ کورونا وائرس کے دور میں ”وباکے دنوں میں“ کے عنوان سے محمدحمید شاہدنے”وبا،بارش اوربندش“ اورناول نگارمحمدعاطف علیم نے” ماں جب غضناک ہوتی ہے(کرونائی صورتِ حال پر) دوعمدہ تحریریں ہیں۔ڈاکٹرعبدالرؤف نے ”وبائی مراقبے میں ’ماہِ میر‘ پرایک نظر“ میں فلم ماہِ میرکاجائزہ عمدگی سے لیاہے۔
”عالمی ادب سے تراجم“محمدعاطف علیم نے لیوٹالیسٹائی کاترجمہ کیاہے۔زیف سید نے انتون چیخوف کا تعارف اورچیخوف پرآسٹن اسمتھ کی نظم کاترجمہ اوران کی چارکہانیوں کے خوبصورت تراجم کیے۔ہیں۔نوبل انعام یافتہ لیڈیا ڈیوس کی تین کہانیوں کے تراجم رابی وحیدنے کیے ہیں اوریہ تراجم میں بھی معیاری ہیں۔
افسانوں میں اس بارحال ہی میں انتقال کرنے والے افسانہ نگار،نقاد،دانشوراورمدیردنیازادڈاکٹرآصف فرخی کا”جوکہیں نہیں گیا“ سینئر ناول وافسانہ نگارمحمدالیاس کا”نام کے مسلمان“ شامل ہے۔محمدالیاس کے افسانوں کانیامجموعہ اورایک ناولٹ حال ہی میں شائع ہواہے۔ نئے پبلشرصریر نے ان کے افسانوں کاانتخاب بھی شائع کیاہے۔ افسانہ نگار،شاعراورمدیرمکالمہ مبین مرزا”چوہااورآدمی“اورمحمدعاطف علیم ”کچھ دیرغالب کے ساتھ“ ایک انوکھے خیال کے ساتھ لے کرآئے ہیں۔سولفظوں کی کہانی سے شہرت حاصل کرنے والے مبشرعلی زیدی کا مختصرافسانہ”وہم“ اسراراحمدشاکر”تھڑے کاافسانہ“ فرخ ندیم”ایمرجنسی میں لکھی کہانی“ اورفیصل ریحان ”رات “ کے ساتھ اس محفل میں شامل ہیں۔
مرحوم علی یاسرکی یاد میں کئی عمدہ مضامین اورگل خان نصیرپرخصوصی گوشہ بھی اس شمارے کااختصاص ہیں۔حصہ نظم میں گیارہ شعراکی اننچاس تخلیقات بھی نقاط میں شامل ہیں ۔سب سے آخر میں سترہ شعراءکی ایک سواٹھائیس غزلیات دی گئی ہیں۔جن میں کوئی بھی معروف شاعر شامل نہیں ۔اس کے باوجودکئی اشعار اورغزلیں بہت عمدہ ہیں۔اس طرح مجموعی طور پر”نقاط“ سترہ نثرونظم کی بہترین تخلیقات سے مزین ہے۔ جس کے لیے قاسم یعقوب کوبھرپورمبارک باد۔وباکے دنوں میں ادب کے قارئین کے لیے نقاط بہترین تحفہ ہے۔
شاعر،نقاد،دانشوراورماہرتعلیم قاسم یعقوب کے ادبی جریدے”نقاط“ کاسترواں شمارہ کرونالاک ڈاؤن کے دوران منظرعام پرآیاہے اور اپنی شاندار روایات کوقائم رکھے ہوئے ہے۔فیصل آباد سے بہترین اورمعیاری ادبی جرائد”آفرینش“،”الکلام“،”خیال“ اور”زرنگار“ شائع ہوئے لیکن زرنگارکے علاوہ دیگر دوتین شماروں سے زیادہ جاری نہ رہ سکے۔ زرنگاراپنے مدیرعلامہ ضیاالحسن کے اچانک انتقال کی وجہ سے بندہوگیا۔تاہم ”نقاط“ اپنی پوری آب وتاب سے اپنی اشاعت برقراررکھے ہوئے ہے۔ اس کے دوخصوصی شماروں نے ادبی حلقوں کی بھرپوردادوتحسین حاصل کی ہے۔”نقاط“ کا”اردونظم نمبر“ اپنے موضوع پرمنفرد اوریادگارشمارہ تھا جبکہ اس کاگزشتہ شمارہ”کتاب نمبر“ تھا۔جواپنی نوعیت کا پہلا اورمنفردنمبرتھا جس میں کتاب،صاحب کتاب اورمطالعے کے بارے میں بہترین مضامین شائع کیے گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
ماضی کے جھروکوں سے،نایاب تحریروں کامجموعہ | نعیم الرحمٰن
کولاژ کا گیارہواں شمارہ | نعیم الرحمٰن
بولتے اوراق ،قاری سے بات کرتی کتاب | نعیم الرحمٰن
”نقاط“ کاتازہ شمارہ پانچ سوبیس صفحات اورانتہائی قابلِ قدرمشمولات پرمشتمل ہے۔ اداریے میں قاسم یعقوب نے لکھا۔”دنیابھر اس وقت وباکی لپیٹ میں ہے۔اردوبولنے والوں کاخطہ پاکستان اورہندوستان البتہ اس وبا کے طرح مہلک اثرات کی زدمیں نہیں آیاجس طرح مغربی ممالک میں خوف ناک صورتِ حال بنی مگریہاں بھی سماجی سطح پرہروہ اقدام کرنا پڑ رہاہے جس سے اس وباکے مہلک پن کوروکا جاسکے۔وبائی امراض خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوف سے زندگی کولپیٹ لیتے ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہرچیزساکت ہوجاتی ہے۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال گزشتہ کچھ ماہ سے ہمارے خطے میں بھی موجود ہے۔ادب کا براہِ راست تعلق زندگی سے ہے۔زندگی ہی اقدارکومتعین کرتی ہے۔زندگی سماج سے جڑی معاشرتی سرگرمی ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب ایک سماجی سرگرمی ہے،عقیدائی رویہ نہیں ۔ادب زندگی سے جنم لیتاہے جب کہ زندگی ہرروزبدل رہی ہے۔نت نئے انکشافات ادب کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتے ہیں۔مابعدکوروناسماج بالکل نہیں توبہت حدتک بدل چکاہوگا۔نئی اقدارکے ساتھ زندگی آغازکرے گی۔ادب اس ساری صورتِ حال کابغورمشاہدہ کررہاہے اوراپناتجزیہ اورتبصرہ زندگی کی نئی لہرکے ساتھ متعین کرے گا۔نقاط کاسترہواں شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔کوشش کی گئی ہے کہ اس وقت کے ادب کی مجموعی صورتِ حال کاایک نقشہ سامنے آسکے۔مجموعی طور پرکورونائی صورتِ حال نے ادب پربھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔خوف اورزندگی کے انجماد نے ادب کوبھی متاثرکیامگراس کے اثرات ایک دم ادب پرظاہر نہیں ہوں گے،ایک فاصلے پرادب اس ساری صورتِ حال کواپناموضوع بنائے گا۔
اس شمارے میں اردولکھنے والوں کوصنف اورعلاقے، ددنوں اطراف سے نمائندگی دینے کی کاوش نظرآئے گی۔گذشتہ دنوں ہمارے بہت پیارے دوست علی یاسرہم سے اچانک جداہوگئے۔زند گی کی بے ثباتی کاپیغام دیتایہ خوبصورت شاعراورپیاراانسان ہمیں اداس کرگیا۔اس شمارے میں چندلفظوں کوجوڑ کرایک یاد کاہالابنایاگیا ہے۔خدا اس کے درجات کوبلند کرے۔کوئٹہ سے گل نصیرخان کاایک چھوٹاساگوشہ بھی ترتیب دیاگیاہے،جس کے لیے ادارہ عابدمیر صاحب کاشکرگزارہے۔یہ شمارہ پیش کرتے ہوئے یہ امید بھی ہے کہ ابھی تک کاغذاورکتاب کی حرمت قائم ہے۔“
”نقاط“ کا تازہ شمارہ بہترین اورطویل مقالات سے آراستہ ہے۔جنہوں نے اس کووقیع بنادیاہے۔پرچے کاآغاز”وسعت ِ خیال“ کے عنوان سے چارعمدہ مقالات سے ہواہے۔ان چاروں مقالات کوحوالہ جات سے مزیدقابلِ قدربنایاگیاہے۔ڈاکٹرسعادت سعیدکے مقالے کاعنوان ”لسانی لاتشکیلی معنویت“ ہے۔یہ لسانی تشکیلات پربہت عمدہ مضمون ہے۔جس میں نثروشعرکی خوبیوں اورخامیوں کوبڑی خوبی سے پیش کیاگیاہے۔ اقتباس دیکھیں۔”فلسفہ سپیسنگ! میری جگہ کی حفاظت ہے تومیں خوش ہوں! میراگھرآباد ہے تومیں خوش ہوں ! میرے بچوں کی تعلیم مکمل ہورہی ہے تومیں خوش ہوں۔میری بیٹیاں محفوظ ہیں تومیں خوش ہوں۔مجھے میڈیکل ٹریٹمنٹ میسرہے تومیں خوش ہوں۔میری اسپیس محفوظ ہے ۔اجتماعیت کاجنازہ دھوم سے نکلا ہے! ذاتی مفاد،ذاتی اغراض ،ذاتی ترقی،ذاتی فلاح! سماجی مفاد بھاڑمیں جائے۔مجھے کیا! اپنی نبیڑتو! ایسے میں شاعری کے تمام تراسٹرکچرزذاتی سپیس کے دائروں میں مقیدہوچکے ہیں۔معاصر شاعروں کانظریہ شعر ذاتیاتی اظہاریوں کی ناندوں میں جگالیاں کرنے کاشوقین ہے۔یوں لاشعرکے وروازے سے شایدتازہ ہواؤں کے جھونکے آسکیں۔ لاشعرکیاہے؟ایک بہت ہی مشکل تعریف تویہ کہ جوشعرنہ ہو،غیرشعرنہ ہو،نثرنہ ہووہ لاشعرہے!“
یہ بہت معلومات افزا اوردلچسپ تحریرہے۔ممتازادیب،نقاداورافسانہ نگارڈاکٹرناصرعباس نیرکی کتب تواترسے آرہی ہیں۔افسانوں کے مجموعے ”خاک کی مہک“ اور”فرشتہ نہیں آیا“ سفرنامہ”ہائیڈل برگ کی ڈائری“کے ساتھ ذوق مطالعہ کی جِلا کے لیے ”نظم کیسے پڑھیں“ بہت عمدہ کتاب ہے۔ناصرعباس نیر”پڑھناکیاہے؟“ کے ساتھ نقاط کی محفل میں شریک ہیں۔”انسانی متون کیسے پڑھے جائیں؟یہ سوال آج سے دوسوسال پہلے اٹھایاجاتاتواس کی نوعیت ہدایت آموزی کی ہوتی۔اس کے جواب میں متن پڑھنے کاہدایت نامہ تیارکیاجاتا۔ زبا ن،لغت،بلاغت،روایت،شرح اوراسی طرح کے روایتی علوم سے شناسائی پرزوردیاجاتا۔عین ممکن ہے کہ ایک متعلقہ متن کے عالم سے استفادے کی شرط بھی لازم رکھی جاتی۔مقصودمتن کی درست اورغیرمبہم تفہیم کی ایک مخصوص روایت کوبرقرار رکھناہوتا۔لیکن آج یہ سوال سیاسی جہت کاحامل ہے۔اب ہدایات صرف تیکنیکی مسائل کے سلسلے میں رواسمجھی جاتی ہیں۔مطالعہ۔۔جسے تعلیمی مقاصد کے سواانجام دیاجائے۔ تکنیکی مسئلہ نہیں ہے۔یہ اختیاراورانتخاب کامعاملہ ہے۔قاری کوحق حاصل ہے کہ وہ کیاپڑھے اورکیسے پڑھے۔قاری سے مرادایک بالغ نظر شخص ہے جودنیاکواپنی نظرسے دیکھنے میں یقین رکھتا ہے اوراپنی نظرکومعتبربھی جانتاہے۔جب ہم اس بالغ نظرشخص کویہ بتانے کی کوشش کریں کہ وہ فلاںکتاب پڑھے اوراس کے لیے مخصوص طریقہ اختیارکرے توگویاہم اس دنیامیں قدم رکھتے ہیں جسے ’معنی کی سیاست‘کہنا چاہیے۔کئی کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کواہم سمجھنا،دراصل اس کتاب کے معنی کوسماجی دنیامیں ترجیحی مقام دینے یاکم ازکم اسے قابلِ قبو ل بنانے کی سعی ہے۔“
عرفان جاویدنے اپنے افسانوں کے مجموعے اوردوشخصی خاکوں کی کتب”دروازے“ اور”سرخاب“ کے ذریعے اردوادب میں اپنی پہچان بنا ئی۔ان کے خاکے محض خاکے نہیںمذکورہ شخصیات کی زندگی کے مرقعے ہیں۔عرفان جاویدکاطویل مضمون”اخبارمیں لپٹی بوتل“فحش نگاری اور جنس کے موضوع پرہے۔جنس کوہمارے ہاں شجرممنوعہ بنادیاگیاہے۔جس کی وجہ سے بے شمارمسائل بھی جنم لیتے ہیں۔انہوں نے ایک امریکی ارب پتی کاواقعہ بیان کیاہے،جوافریقی ملک گیاتواس نے دیکھاکہ صبح کے وقت بچے اسکول جانے کے بجائے پلاسٹک کی بوتلیں اٹھائے کہیں جارہے ہیں۔پوچھنے پرپتہ چلاپانی کی کمی کے باعث یہ دوردریاپرپانی لینے جاتے ہیں۔امریکی نے اپنی فلاحی تنظیم کے ذریعے وہاں پمپ لگوادیے۔وہ کچھ عرصے بعد پمپوں کی کارکردگی دیکھنے آیاتودیکھاکہ بچے پمپ سے پانی لینے کے بجائے بوتلیں اٹھائے پھردریا کی جانب رواں دواں ہیں۔اس نے حیرت کااظہارکیاتوگاؤں کے مکھیا نے بتایاکہ آپ نے پمپ لگانے سے پہلے ہمارے مسئلے کاجائزہ نہیں لیا۔ہمارے گھربہت چھوٹے ہیں ایک کمرے میں کئی افراد رہتے ہیں۔ہم بچوں کواس لیے دوردریا پربھیجتے ہیں کہ میاں بیوی کوکچھ دیر تنہائی میسرآجائے اوراپنی جنسی تشنگی مٹاسکیں۔عرفان جاوید نے اس مسئلہ عمدگی سے اجاگرکیاہے،لکھتے ہیں۔”جنس کومختلف تاریخی ادواراور علاقائی ثقافتوں میں جن متنوع رنگوں،مختلف اندازاورمتضاد نظروں سے دیکھاگیاہے،کسی اوربنیادی انسانی جبلت کونہیں دیکھاگیا۔ماضی میں ہمارے ہاں اس پرخاصاسنجیدہ نوعیت کاکام ہواہے۔اس میں علی اقبال صاحب کی مرتب کردہ کتاب ’روشنی کم تپش زیادہ‘ ایک نہایت عمدہ اوروقیع تصنیف ہے،جس میں جنس کے موضوع پردوسوسات مضامین ،عدالتی فیصلے،انٹرویوزوغیرہ شامل ہیں۔
’اثبات‘ کاعریاں نگاری اورفحش نگاری پرخصوصی شمارہ بھی خاصے کی چیز ہے۔علی عباس جلال پوری صاحب کی’جنسیاتی مطالعے‘ تواسی موضوع سے مخصوص ہے البتہ ان کی دیگرتصانیف ’رسومِ اقوام‘،’عام فکری مغالطے‘،روایاتِ تمدنِ قدیم ‘ اور’خردنامہ جلال پوری‘ میں بھی اس موضوع کوچھواگیاہے۔ سبطِ حسن صاحب کی کتب”پاکستان کاتہذیبی ارتقا‘ اور’موسیٰ سے مارکس تک‘ اوردیگر بھی اسی موضوع کاضمنی طور پراحاطہ کرتی ہیں۔زبیررانا کی اعلیٰ تصنیف ’پاکستان،تہذیب کابحران ‘ میں کئی صفحات اورابواب جنس کے موضوع پرہیں۔علاوہ ازیں اردومیں درجنوں کتب اوربین الاقوا می سطح پرکتب جنس کے موضوع پرسنجیدہ اندازمیں احاطہ کرتی ہیں۔“
ملک کے ممتازدانشورجناب احمدجاوید نے کراچی کی ایک تقریب میں شاعرجون ایلیاپرگفتگوفرمائی تھی۔جس سے فن وادب کے کئی گوشوں پر نئے نکات سامنے آئے۔اس گفتگوکوعاصم رضا نے کمال ہنرمندی سے تحریرکے قالب میں ڈھالاہے۔’نقاط‘میں ’جون ایلیا:میان ویقین کے درمیان“ کے نام سے اس کی پہلی قسط پیش کی گئی ہے۔احمدجاوید نے بہت دلچسپ بات کہی ہے کہ جون ایلیاکی پوری شخصیت ہے کہ انکارکرنا بھی ہے اور انکار کی ذمہ داریوں سے بچنا بھی ہے اورانکارکی قیمت چکانے سے اپنی حفاظت بھی کرنی ہے۔اقرارکرنے والا اقرار کے نیتجے میں آنے والی مصیبت سے بھاگے تواس کااقرارمتاثرنہیں ہوتا۔لیکن انکارکرنے والا،انکارکے نتائج سے گریز اورپسپائی اختیار کرے تواس کاانکار متا ثرہوجاتاہے۔جون ایلیا طنزنگاری میں اکبرالہٰ آبادی کے ہم پلہ تھے۔وہ طنزمیں جیسی بلاغت پیداکرتے ہیں،وہ ان کے سواآپ کوکہیں نہیں ملے گی۔وہ ہجو،طنز اورتعلی کے امامِ حاضر ہیں۔ان کے طنزکامقصود اپنی تعلی ہوتاہے اورطنزکے شکارکی تحقیرواجب ہوجاتی ہے۔احمد جاویدکے خیالات سے قاری کوجون ایلیاکی تفہیم میں مددملے گی۔مضمون کی دوسری قسط کاقارئین کوانتظاررہے گا۔
مقالات کے بھرپورحصے کے بعد”فلم نگر“ میں دوفلموں کے بارے میں دوعمدہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔عامررضا نے”سیاست،سینما، سماج“ پرلکھاہے۔خرم سہیل جنہوں نے اپنی شاندارکتب سے شہرت حاصل کی اوراب ٹی وی پروگرام ’چائے خانہ‘ میں علم،ادب،فلم اورتھیٹر کے مشہورافراد سے ملاقاتیں کرارہے ہیں۔خرم سہیل نے”بین الاقوامی سینمامیں پاکستانی فنکار“ لکھا ہے۔جس سے بیرون ملک،ہالی ووڈ اورلالی ووڈ میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔”اظہارخیال“ کے عنوان سے چارمضا مین ہیں۔محمدحمیدشاہدکی تازہ مرتب کردہ کتاب”جُستجوگُفتگُو“ میں افسانہ ،ناول اورتخلیقی عمل کے بھیداورامکانات پربہت عمدہ تصنیف ہے۔ان کامضمون”فکشن کی تفہیم میں تنقیدکاکردار“ہے۔
ڈاکٹرشاہدشریف نے ”ترجمہ کاری میں نئی فنی ضروریات“ پرقلم فرسائی کی ہے۔ ڈاکٹرقسورعباس خان”پاکستان میں سبالٹرن سٹڈیزکی ضرورت“ پرلکھاہے ۔ اورفخرعالم نے ”حکیم ناصرخسرو: زندگی،ادب اورسیاحت “ پر قلم اٹھایاہے۔جس کے بعد”یادیں“معروف ادیب ،شاعر اورخاکہ نگارامجدعلی شاکرنے”وزیرآغا،آدمی کی جون اورتیسری آنکھ “ میں دانشور،شاعر،فلسفی اورادیب وزیرآغاکی یادیں تازہ کی ہیں۔
’خطوط‘ کے زیرِعنوان چنددلچسپ خطوط بھی اس شمارے میں شامل ہیں۔ان دنوں”سب رنگ کہانیاں“ کی اشاعت پرسب رنگ اوراس کے مدیرشکیل عادل زادہ کاسوشل میڈیا پرچرچاہے۔سہ ماہی”آج “ کے مدیراجمل کمال نے دوخطوط مدیرسب رنگ اورایک مکالمہ کے مبین مرزاکولکھے۔اس بارے میں اجمل کمال کاکہناہے ۔” یہ تین خط میں نے ادبی مجلہ”مکالمہ“ کے مدیرمبین مرزا اور”سب رنگ ڈائجسٹ“ کے مدیرشکیل عادل زادہ صاحبان کوبعض باتوں کی وضاحت کے لیے بغرضِ اشاعت ارسال کیے تھے۔ان دونوں مدیرحضرات نے ان خطوں کو شائع کرنا غیرضروری سمجھا۔تاہم،میری رائے میں ان باتوں کی وضاحت کی ضرورت تھی اوراب بھی ہے،اس لیے اپنے دوست اور”نقاط“ کے مدیرقاسم یعقوب کی فرمائش پران کے سپردکررہاہوں۔جواں نہ چھپ سکے،سویہاں آکے دم ہوئے۔“
ان دلچسپ خطوط کے علاوہ جنت سے مشتاق احمدیوسفی کاجنت سے قاسم یعقوب کے نام خط احمدوقارمیر نے لکھاہے اوریہ یوسفی صاحب کے انداز میں بہت عمدہ تحریرہے۔ڈاکٹرمحمدرؤف نے میرکے نام ایک طویل اوردلچسپ خط”ایام وبامیں اِک نامہ ہم میرکے نام ارقام کیا“ کے عنوان سے پیش کیا۔قدیم رنگ کی زبان میں یہ بہت عمدہ تحریرہے۔
نقاط کااگلاعنوان ”کتاب مطالعہ “ ہے۔جس میں محمدالیاس کبیر نے ”میرال الطحاوی کے ناول پرچندباتیں“ اورامان اللہ محسن نے”مرزا اطہر بیگ کاناول: صفرسے ایک تک “ کاتجزیہ کیاہے۔ڈاکٹررشیدامجد،بلال اسوداورنیل احمدنے بھی عمدہ مضامین لکھے ہیں۔اس حصے میں منیر فیاض کاطویل مضمون”عالمی افسانوی بیانیے کااجمالی ارتقا اورانواسی“اس حصے کاحاصل ہے۔فاضل مصنف نے کئی باراپنی کم مطالعہ کا ذکرکیاہے لیکن مضمون میں انہوں نے محمدحفیظ خان کے ناول”انواسی“ کاجائزہ جس طرح عالمی ادب کی روشنی میں لیاہے اورکئی اہم کتب کا حوالہ دیاہے۔اس سے ان کے وسیع المطالعہ ہونے کاعلم ہوتاہے۔
موجودہ کورونا وائرس کے دور میں ”وباکے دنوں میں“ کے عنوان سے محمدحمید شاہدنے”وبا،بارش اوربندش“ اورناول نگارمحمدعاطف علیم نے” ماں جب غضناک ہوتی ہے(کرونائی صورتِ حال پر) دوعمدہ تحریریں ہیں۔ڈاکٹرعبدالرؤف نے ”وبائی مراقبے میں ’ماہِ میر‘ پرایک نظر“ میں فلم ماہِ میرکاجائزہ عمدگی سے لیاہے۔
”عالمی ادب سے تراجم“محمدعاطف علیم نے لیوٹالیسٹائی کاترجمہ کیاہے۔زیف سید نے انتون چیخوف کا تعارف اورچیخوف پرآسٹن اسمتھ کی نظم کاترجمہ اوران کی چارکہانیوں کے خوبصورت تراجم کیے۔ہیں۔نوبل انعام یافتہ لیڈیا ڈیوس کی تین کہانیوں کے تراجم رابی وحیدنے کیے ہیں اوریہ تراجم میں بھی معیاری ہیں۔
افسانوں میں اس بارحال ہی میں انتقال کرنے والے افسانہ نگار،نقاد،دانشوراورمدیردنیازادڈاکٹرآصف فرخی کا”جوکہیں نہیں گیا“ سینئر ناول وافسانہ نگارمحمدالیاس کا”نام کے مسلمان“ شامل ہے۔محمدالیاس کے افسانوں کانیامجموعہ اورایک ناولٹ حال ہی میں شائع ہواہے۔ نئے پبلشرصریر نے ان کے افسانوں کاانتخاب بھی شائع کیاہے۔ افسانہ نگار،شاعراورمدیرمکالمہ مبین مرزا”چوہااورآدمی“اورمحمدعاطف علیم ”کچھ دیرغالب کے ساتھ“ ایک انوکھے خیال کے ساتھ لے کرآئے ہیں۔سولفظوں کی کہانی سے شہرت حاصل کرنے والے مبشرعلی زیدی کا مختصرافسانہ”وہم“ اسراراحمدشاکر”تھڑے کاافسانہ“ فرخ ندیم”ایمرجنسی میں لکھی کہانی“ اورفیصل ریحان ”رات “ کے ساتھ اس محفل میں شامل ہیں۔
مرحوم علی یاسرکی یاد میں کئی عمدہ مضامین اورگل خان نصیرپرخصوصی گوشہ بھی اس شمارے کااختصاص ہیں۔حصہ نظم میں گیارہ شعراکی اننچاس تخلیقات بھی نقاط میں شامل ہیں ۔سب سے آخر میں سترہ شعراءکی ایک سواٹھائیس غزلیات دی گئی ہیں۔جن میں کوئی بھی معروف شاعر شامل نہیں ۔اس کے باوجودکئی اشعار اورغزلیں بہت عمدہ ہیں۔اس طرح مجموعی طور پر”نقاط“ سترہ نثرونظم کی بہترین تخلیقات سے مزین ہے۔ جس کے لیے قاسم یعقوب کوبھرپورمبارک باد۔وباکے دنوں میں ادب کے قارئین کے لیے نقاط بہترین تحفہ ہے۔
شاعر،نقاد،دانشوراورماہرتعلیم قاسم یعقوب کے ادبی جریدے”نقاط“ کاسترواں شمارہ کرونالاک ڈاؤن کے دوران منظرعام پرآیاہے اور اپنی شاندار روایات کوقائم رکھے ہوئے ہے۔فیصل آباد سے بہترین اورمعیاری ادبی جرائد”آفرینش“،”الکلام“،”خیال“ اور”زرنگار“ شائع ہوئے لیکن زرنگارکے علاوہ دیگر دوتین شماروں سے زیادہ جاری نہ رہ سکے۔ زرنگاراپنے مدیرعلامہ ضیاالحسن کے اچانک انتقال کی وجہ سے بندہوگیا۔تاہم ”نقاط“ اپنی پوری آب وتاب سے اپنی اشاعت برقراررکھے ہوئے ہے۔ اس کے دوخصوصی شماروں نے ادبی حلقوں کی بھرپوردادوتحسین حاصل کی ہے۔”نقاط“ کا”اردونظم نمبر“ اپنے موضوع پرمنفرد اوریادگارشمارہ تھا جبکہ اس کاگزشتہ شمارہ”کتاب نمبر“ تھا۔جواپنی نوعیت کا پہلا اورمنفردنمبرتھا جس میں کتاب،صاحب کتاب اورمطالعے کے بارے میں بہترین مضامین شائع کیے گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
ماضی کے جھروکوں سے،نایاب تحریروں کامجموعہ | نعیم الرحمٰن
کولاژ کا گیارہواں شمارہ | نعیم الرحمٰن
بولتے اوراق ،قاری سے بات کرتی کتاب | نعیم الرحمٰن
”نقاط“ کاتازہ شمارہ پانچ سوبیس صفحات اورانتہائی قابلِ قدرمشمولات پرمشتمل ہے۔ اداریے میں قاسم یعقوب نے لکھا۔”دنیابھر اس وقت وباکی لپیٹ میں ہے۔اردوبولنے والوں کاخطہ پاکستان اورہندوستان البتہ اس وبا کے طرح مہلک اثرات کی زدمیں نہیں آیاجس طرح مغربی ممالک میں خوف ناک صورتِ حال بنی مگریہاں بھی سماجی سطح پرہروہ اقدام کرنا پڑ رہاہے جس سے اس وباکے مہلک پن کوروکا جاسکے۔وبائی امراض خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوف سے زندگی کولپیٹ لیتے ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہرچیزساکت ہوجاتی ہے۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال گزشتہ کچھ ماہ سے ہمارے خطے میں بھی موجود ہے۔ادب کا براہِ راست تعلق زندگی سے ہے۔زندگی ہی اقدارکومتعین کرتی ہے۔زندگی سماج سے جڑی معاشرتی سرگرمی ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب ایک سماجی سرگرمی ہے،عقیدائی رویہ نہیں ۔ادب زندگی سے جنم لیتاہے جب کہ زندگی ہرروزبدل رہی ہے۔نت نئے انکشافات ادب کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتے ہیں۔مابعدکوروناسماج بالکل نہیں توبہت حدتک بدل چکاہوگا۔نئی اقدارکے ساتھ زندگی آغازکرے گی۔ادب اس ساری صورتِ حال کابغورمشاہدہ کررہاہے اوراپناتجزیہ اورتبصرہ زندگی کی نئی لہرکے ساتھ متعین کرے گا۔نقاط کاسترہواں شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔کوشش کی گئی ہے کہ اس وقت کے ادب کی مجموعی صورتِ حال کاایک نقشہ سامنے آسکے۔مجموعی طور پرکورونائی صورتِ حال نے ادب پربھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔خوف اورزندگی کے انجماد نے ادب کوبھی متاثرکیامگراس کے اثرات ایک دم ادب پرظاہر نہیں ہوں گے،ایک فاصلے پرادب اس ساری صورتِ حال کواپناموضوع بنائے گا۔
اس شمارے میں اردولکھنے والوں کوصنف اورعلاقے، ددنوں اطراف سے نمائندگی دینے کی کاوش نظرآئے گی۔گذشتہ دنوں ہمارے بہت پیارے دوست علی یاسرہم سے اچانک جداہوگئے۔زند گی کی بے ثباتی کاپیغام دیتایہ خوبصورت شاعراورپیاراانسان ہمیں اداس کرگیا۔اس شمارے میں چندلفظوں کوجوڑ کرایک یاد کاہالابنایاگیا ہے۔خدا اس کے درجات کوبلند کرے۔کوئٹہ سے گل نصیرخان کاایک چھوٹاساگوشہ بھی ترتیب دیاگیاہے،جس کے لیے ادارہ عابدمیر صاحب کاشکرگزارہے۔یہ شمارہ پیش کرتے ہوئے یہ امید بھی ہے کہ ابھی تک کاغذاورکتاب کی حرمت قائم ہے۔“
”نقاط“ کا تازہ شمارہ بہترین اورطویل مقالات سے آراستہ ہے۔جنہوں نے اس کووقیع بنادیاہے۔پرچے کاآغاز”وسعت ِ خیال“ کے عنوان سے چارعمدہ مقالات سے ہواہے۔ان چاروں مقالات کوحوالہ جات سے مزیدقابلِ قدربنایاگیاہے۔ڈاکٹرسعادت سعیدکے مقالے کاعنوان ”لسانی لاتشکیلی معنویت“ ہے۔یہ لسانی تشکیلات پربہت عمدہ مضمون ہے۔جس میں نثروشعرکی خوبیوں اورخامیوں کوبڑی خوبی سے پیش کیاگیاہے۔ اقتباس دیکھیں۔”فلسفہ سپیسنگ! میری جگہ کی حفاظت ہے تومیں خوش ہوں! میراگھرآباد ہے تومیں خوش ہوں ! میرے بچوں کی تعلیم مکمل ہورہی ہے تومیں خوش ہوں۔میری بیٹیاں محفوظ ہیں تومیں خوش ہوں۔مجھے میڈیکل ٹریٹمنٹ میسرہے تومیں خوش ہوں۔میری اسپیس محفوظ ہے ۔اجتماعیت کاجنازہ دھوم سے نکلا ہے! ذاتی مفاد،ذاتی اغراض ،ذاتی ترقی،ذاتی فلاح! سماجی مفاد بھاڑمیں جائے۔مجھے کیا! اپنی نبیڑتو! ایسے میں شاعری کے تمام تراسٹرکچرزذاتی سپیس کے دائروں میں مقیدہوچکے ہیں۔معاصر شاعروں کانظریہ شعر ذاتیاتی اظہاریوں کی ناندوں میں جگالیاں کرنے کاشوقین ہے۔یوں لاشعرکے وروازے سے شایدتازہ ہواؤں کے جھونکے آسکیں۔ لاشعرکیاہے؟ایک بہت ہی مشکل تعریف تویہ کہ جوشعرنہ ہو،غیرشعرنہ ہو،نثرنہ ہووہ لاشعرہے!“
یہ بہت معلومات افزا اوردلچسپ تحریرہے۔ممتازادیب،نقاداورافسانہ نگارڈاکٹرناصرعباس نیرکی کتب تواترسے آرہی ہیں۔افسانوں کے مجموعے ”خاک کی مہک“ اور”فرشتہ نہیں آیا“ سفرنامہ”ہائیڈل برگ کی ڈائری“کے ساتھ ذوق مطالعہ کی جِلا کے لیے ”نظم کیسے پڑھیں“ بہت عمدہ کتاب ہے۔ناصرعباس نیر”پڑھناکیاہے؟“ کے ساتھ نقاط کی محفل میں شریک ہیں۔”انسانی متون کیسے پڑھے جائیں؟یہ سوال آج سے دوسوسال پہلے اٹھایاجاتاتواس کی نوعیت ہدایت آموزی کی ہوتی۔اس کے جواب میں متن پڑھنے کاہدایت نامہ تیارکیاجاتا۔ زبا ن،لغت،بلاغت،روایت،شرح اوراسی طرح کے روایتی علوم سے شناسائی پرزوردیاجاتا۔عین ممکن ہے کہ ایک متعلقہ متن کے عالم سے استفادے کی شرط بھی لازم رکھی جاتی۔مقصودمتن کی درست اورغیرمبہم تفہیم کی ایک مخصوص روایت کوبرقرار رکھناہوتا۔لیکن آج یہ سوال سیاسی جہت کاحامل ہے۔اب ہدایات صرف تیکنیکی مسائل کے سلسلے میں رواسمجھی جاتی ہیں۔مطالعہ۔۔جسے تعلیمی مقاصد کے سواانجام دیاجائے۔ تکنیکی مسئلہ نہیں ہے۔یہ اختیاراورانتخاب کامعاملہ ہے۔قاری کوحق حاصل ہے کہ وہ کیاپڑھے اورکیسے پڑھے۔قاری سے مرادایک بالغ نظر شخص ہے جودنیاکواپنی نظرسے دیکھنے میں یقین رکھتا ہے اوراپنی نظرکومعتبربھی جانتاہے۔جب ہم اس بالغ نظرشخص کویہ بتانے کی کوشش کریں کہ وہ فلاںکتاب پڑھے اوراس کے لیے مخصوص طریقہ اختیارکرے توگویاہم اس دنیامیں قدم رکھتے ہیں جسے ’معنی کی سیاست‘کہنا چاہیے۔کئی کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کواہم سمجھنا،دراصل اس کتاب کے معنی کوسماجی دنیامیں ترجیحی مقام دینے یاکم ازکم اسے قابلِ قبو ل بنانے کی سعی ہے۔“
عرفان جاویدنے اپنے افسانوں کے مجموعے اوردوشخصی خاکوں کی کتب”دروازے“ اور”سرخاب“ کے ذریعے اردوادب میں اپنی پہچان بنا ئی۔ان کے خاکے محض خاکے نہیںمذکورہ شخصیات کی زندگی کے مرقعے ہیں۔عرفان جاویدکاطویل مضمون”اخبارمیں لپٹی بوتل“فحش نگاری اور جنس کے موضوع پرہے۔جنس کوہمارے ہاں شجرممنوعہ بنادیاگیاہے۔جس کی وجہ سے بے شمارمسائل بھی جنم لیتے ہیں۔انہوں نے ایک امریکی ارب پتی کاواقعہ بیان کیاہے،جوافریقی ملک گیاتواس نے دیکھاکہ صبح کے وقت بچے اسکول جانے کے بجائے پلاسٹک کی بوتلیں اٹھائے کہیں جارہے ہیں۔پوچھنے پرپتہ چلاپانی کی کمی کے باعث یہ دوردریاپرپانی لینے جاتے ہیں۔امریکی نے اپنی فلاحی تنظیم کے ذریعے وہاں پمپ لگوادیے۔وہ کچھ عرصے بعد پمپوں کی کارکردگی دیکھنے آیاتودیکھاکہ بچے پمپ سے پانی لینے کے بجائے بوتلیں اٹھائے پھردریا کی جانب رواں دواں ہیں۔اس نے حیرت کااظہارکیاتوگاؤں کے مکھیا نے بتایاکہ آپ نے پمپ لگانے سے پہلے ہمارے مسئلے کاجائزہ نہیں لیا۔ہمارے گھربہت چھوٹے ہیں ایک کمرے میں کئی افراد رہتے ہیں۔ہم بچوں کواس لیے دوردریا پربھیجتے ہیں کہ میاں بیوی کوکچھ دیر تنہائی میسرآجائے اوراپنی جنسی تشنگی مٹاسکیں۔عرفان جاوید نے اس مسئلہ عمدگی سے اجاگرکیاہے،لکھتے ہیں۔”جنس کومختلف تاریخی ادواراور علاقائی ثقافتوں میں جن متنوع رنگوں،مختلف اندازاورمتضاد نظروں سے دیکھاگیاہے،کسی اوربنیادی انسانی جبلت کونہیں دیکھاگیا۔ماضی میں ہمارے ہاں اس پرخاصاسنجیدہ نوعیت کاکام ہواہے۔اس میں علی اقبال صاحب کی مرتب کردہ کتاب ’روشنی کم تپش زیادہ‘ ایک نہایت عمدہ اوروقیع تصنیف ہے،جس میں جنس کے موضوع پردوسوسات مضامین ،عدالتی فیصلے،انٹرویوزوغیرہ شامل ہیں۔
’اثبات‘ کاعریاں نگاری اورفحش نگاری پرخصوصی شمارہ بھی خاصے کی چیز ہے۔علی عباس جلال پوری صاحب کی’جنسیاتی مطالعے‘ تواسی موضوع سے مخصوص ہے البتہ ان کی دیگرتصانیف ’رسومِ اقوام‘،’عام فکری مغالطے‘،روایاتِ تمدنِ قدیم ‘ اور’خردنامہ جلال پوری‘ میں بھی اس موضوع کوچھواگیاہے۔ سبطِ حسن صاحب کی کتب”پاکستان کاتہذیبی ارتقا‘ اور’موسیٰ سے مارکس تک‘ اوردیگر بھی اسی موضوع کاضمنی طور پراحاطہ کرتی ہیں۔زبیررانا کی اعلیٰ تصنیف ’پاکستان،تہذیب کابحران ‘ میں کئی صفحات اورابواب جنس کے موضوع پرہیں۔علاوہ ازیں اردومیں درجنوں کتب اوربین الاقوا می سطح پرکتب جنس کے موضوع پرسنجیدہ اندازمیں احاطہ کرتی ہیں۔“
ملک کے ممتازدانشورجناب احمدجاوید نے کراچی کی ایک تقریب میں شاعرجون ایلیاپرگفتگوفرمائی تھی۔جس سے فن وادب کے کئی گوشوں پر نئے نکات سامنے آئے۔اس گفتگوکوعاصم رضا نے کمال ہنرمندی سے تحریرکے قالب میں ڈھالاہے۔’نقاط‘میں ’جون ایلیا:میان ویقین کے درمیان“ کے نام سے اس کی پہلی قسط پیش کی گئی ہے۔احمدجاوید نے بہت دلچسپ بات کہی ہے کہ جون ایلیاکی پوری شخصیت ہے کہ انکارکرنا بھی ہے اور انکار کی ذمہ داریوں سے بچنا بھی ہے اورانکارکی قیمت چکانے سے اپنی حفاظت بھی کرنی ہے۔اقرارکرنے والا اقرار کے نیتجے میں آنے والی مصیبت سے بھاگے تواس کااقرارمتاثرنہیں ہوتا۔لیکن انکارکرنے والا،انکارکے نتائج سے گریز اورپسپائی اختیار کرے تواس کاانکار متا ثرہوجاتاہے۔جون ایلیا طنزنگاری میں اکبرالہٰ آبادی کے ہم پلہ تھے۔وہ طنزمیں جیسی بلاغت پیداکرتے ہیں،وہ ان کے سواآپ کوکہیں نہیں ملے گی۔وہ ہجو،طنز اورتعلی کے امامِ حاضر ہیں۔ان کے طنزکامقصود اپنی تعلی ہوتاہے اورطنزکے شکارکی تحقیرواجب ہوجاتی ہے۔احمد جاویدکے خیالات سے قاری کوجون ایلیاکی تفہیم میں مددملے گی۔مضمون کی دوسری قسط کاقارئین کوانتظاررہے گا۔
مقالات کے بھرپورحصے کے بعد”فلم نگر“ میں دوفلموں کے بارے میں دوعمدہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔عامررضا نے”سیاست،سینما، سماج“ پرلکھاہے۔خرم سہیل جنہوں نے اپنی شاندارکتب سے شہرت حاصل کی اوراب ٹی وی پروگرام ’چائے خانہ‘ میں علم،ادب،فلم اورتھیٹر کے مشہورافراد سے ملاقاتیں کرارہے ہیں۔خرم سہیل نے”بین الاقوامی سینمامیں پاکستانی فنکار“ لکھا ہے۔جس سے بیرون ملک،ہالی ووڈ اورلالی ووڈ میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔”اظہارخیال“ کے عنوان سے چارمضا مین ہیں۔محمدحمیدشاہدکی تازہ مرتب کردہ کتاب”جُستجوگُفتگُو“ میں افسانہ ،ناول اورتخلیقی عمل کے بھیداورامکانات پربہت عمدہ تصنیف ہے۔ان کامضمون”فکشن کی تفہیم میں تنقیدکاکردار“ہے۔
ڈاکٹرشاہدشریف نے ”ترجمہ کاری میں نئی فنی ضروریات“ پرقلم فرسائی کی ہے۔ ڈاکٹرقسورعباس خان”پاکستان میں سبالٹرن سٹڈیزکی ضرورت“ پرلکھاہے ۔ اورفخرعالم نے ”حکیم ناصرخسرو: زندگی،ادب اورسیاحت “ پر قلم اٹھایاہے۔جس کے بعد”یادیں“معروف ادیب ،شاعر اورخاکہ نگارامجدعلی شاکرنے”وزیرآغا،آدمی کی جون اورتیسری آنکھ “ میں دانشور،شاعر،فلسفی اورادیب وزیرآغاکی یادیں تازہ کی ہیں۔
’خطوط‘ کے زیرِعنوان چنددلچسپ خطوط بھی اس شمارے میں شامل ہیں۔ان دنوں”سب رنگ کہانیاں“ کی اشاعت پرسب رنگ اوراس کے مدیرشکیل عادل زادہ کاسوشل میڈیا پرچرچاہے۔سہ ماہی”آج “ کے مدیراجمل کمال نے دوخطوط مدیرسب رنگ اورایک مکالمہ کے مبین مرزاکولکھے۔اس بارے میں اجمل کمال کاکہناہے ۔” یہ تین خط میں نے ادبی مجلہ”مکالمہ“ کے مدیرمبین مرزا اور”سب رنگ ڈائجسٹ“ کے مدیرشکیل عادل زادہ صاحبان کوبعض باتوں کی وضاحت کے لیے بغرضِ اشاعت ارسال کیے تھے۔ان دونوں مدیرحضرات نے ان خطوں کو شائع کرنا غیرضروری سمجھا۔تاہم،میری رائے میں ان باتوں کی وضاحت کی ضرورت تھی اوراب بھی ہے،اس لیے اپنے دوست اور”نقاط“ کے مدیرقاسم یعقوب کی فرمائش پران کے سپردکررہاہوں۔جواں نہ چھپ سکے،سویہاں آکے دم ہوئے۔“
ان دلچسپ خطوط کے علاوہ جنت سے مشتاق احمدیوسفی کاجنت سے قاسم یعقوب کے نام خط احمدوقارمیر نے لکھاہے اوریہ یوسفی صاحب کے انداز میں بہت عمدہ تحریرہے۔ڈاکٹرمحمدرؤف نے میرکے نام ایک طویل اوردلچسپ خط”ایام وبامیں اِک نامہ ہم میرکے نام ارقام کیا“ کے عنوان سے پیش کیا۔قدیم رنگ کی زبان میں یہ بہت عمدہ تحریرہے۔
نقاط کااگلاعنوان ”کتاب مطالعہ “ ہے۔جس میں محمدالیاس کبیر نے ”میرال الطحاوی کے ناول پرچندباتیں“ اورامان اللہ محسن نے”مرزا اطہر بیگ کاناول: صفرسے ایک تک “ کاتجزیہ کیاہے۔ڈاکٹررشیدامجد،بلال اسوداورنیل احمدنے بھی عمدہ مضامین لکھے ہیں۔اس حصے میں منیر فیاض کاطویل مضمون”عالمی افسانوی بیانیے کااجمالی ارتقا اورانواسی“اس حصے کاحاصل ہے۔فاضل مصنف نے کئی باراپنی کم مطالعہ کا ذکرکیاہے لیکن مضمون میں انہوں نے محمدحفیظ خان کے ناول”انواسی“ کاجائزہ جس طرح عالمی ادب کی روشنی میں لیاہے اورکئی اہم کتب کا حوالہ دیاہے۔اس سے ان کے وسیع المطالعہ ہونے کاعلم ہوتاہے۔
موجودہ کورونا وائرس کے دور میں ”وباکے دنوں میں“ کے عنوان سے محمدحمید شاہدنے”وبا،بارش اوربندش“ اورناول نگارمحمدعاطف علیم نے” ماں جب غضناک ہوتی ہے(کرونائی صورتِ حال پر) دوعمدہ تحریریں ہیں۔ڈاکٹرعبدالرؤف نے ”وبائی مراقبے میں ’ماہِ میر‘ پرایک نظر“ میں فلم ماہِ میرکاجائزہ عمدگی سے لیاہے۔
”عالمی ادب سے تراجم“محمدعاطف علیم نے لیوٹالیسٹائی کاترجمہ کیاہے۔زیف سید نے انتون چیخوف کا تعارف اورچیخوف پرآسٹن اسمتھ کی نظم کاترجمہ اوران کی چارکہانیوں کے خوبصورت تراجم کیے۔ہیں۔نوبل انعام یافتہ لیڈیا ڈیوس کی تین کہانیوں کے تراجم رابی وحیدنے کیے ہیں اوریہ تراجم میں بھی معیاری ہیں۔
افسانوں میں اس بارحال ہی میں انتقال کرنے والے افسانہ نگار،نقاد،دانشوراورمدیردنیازادڈاکٹرآصف فرخی کا”جوکہیں نہیں گیا“ سینئر ناول وافسانہ نگارمحمدالیاس کا”نام کے مسلمان“ شامل ہے۔محمدالیاس کے افسانوں کانیامجموعہ اورایک ناولٹ حال ہی میں شائع ہواہے۔ نئے پبلشرصریر نے ان کے افسانوں کاانتخاب بھی شائع کیاہے۔ افسانہ نگار،شاعراورمدیرمکالمہ مبین مرزا”چوہااورآدمی“اورمحمدعاطف علیم ”کچھ دیرغالب کے ساتھ“ ایک انوکھے خیال کے ساتھ لے کرآئے ہیں۔سولفظوں کی کہانی سے شہرت حاصل کرنے والے مبشرعلی زیدی کا مختصرافسانہ”وہم“ اسراراحمدشاکر”تھڑے کاافسانہ“ فرخ ندیم”ایمرجنسی میں لکھی کہانی“ اورفیصل ریحان ”رات “ کے ساتھ اس محفل میں شامل ہیں۔
مرحوم علی یاسرکی یاد میں کئی عمدہ مضامین اورگل خان نصیرپرخصوصی گوشہ بھی اس شمارے کااختصاص ہیں۔حصہ نظم میں گیارہ شعراکی اننچاس تخلیقات بھی نقاط میں شامل ہیں ۔سب سے آخر میں سترہ شعراءکی ایک سواٹھائیس غزلیات دی گئی ہیں۔جن میں کوئی بھی معروف شاعر شامل نہیں ۔اس کے باوجودکئی اشعار اورغزلیں بہت عمدہ ہیں۔اس طرح مجموعی طور پر”نقاط“ سترہ نثرونظم کی بہترین تخلیقات سے مزین ہے۔ جس کے لیے قاسم یعقوب کوبھرپورمبارک باد۔وباکے دنوں میں ادب کے قارئین کے لیے نقاط بہترین تحفہ ہے۔
شاعر،نقاد،دانشوراورماہرتعلیم قاسم یعقوب کے ادبی جریدے”نقاط“ کاسترواں شمارہ کرونالاک ڈاؤن کے دوران منظرعام پرآیاہے اور اپنی شاندار روایات کوقائم رکھے ہوئے ہے۔فیصل آباد سے بہترین اورمعیاری ادبی جرائد”آفرینش“،”الکلام“،”خیال“ اور”زرنگار“ شائع ہوئے لیکن زرنگارکے علاوہ دیگر دوتین شماروں سے زیادہ جاری نہ رہ سکے۔ زرنگاراپنے مدیرعلامہ ضیاالحسن کے اچانک انتقال کی وجہ سے بندہوگیا۔تاہم ”نقاط“ اپنی پوری آب وتاب سے اپنی اشاعت برقراررکھے ہوئے ہے۔ اس کے دوخصوصی شماروں نے ادبی حلقوں کی بھرپوردادوتحسین حاصل کی ہے۔”نقاط“ کا”اردونظم نمبر“ اپنے موضوع پرمنفرد اوریادگارشمارہ تھا جبکہ اس کاگزشتہ شمارہ”کتاب نمبر“ تھا۔جواپنی نوعیت کا پہلا اورمنفردنمبرتھا جس میں کتاب،صاحب کتاب اورمطالعے کے بارے میں بہترین مضامین شائع کیے گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
ماضی کے جھروکوں سے،نایاب تحریروں کامجموعہ | نعیم الرحمٰن
کولاژ کا گیارہواں شمارہ | نعیم الرحمٰن
بولتے اوراق ،قاری سے بات کرتی کتاب | نعیم الرحمٰن
”نقاط“ کاتازہ شمارہ پانچ سوبیس صفحات اورانتہائی قابلِ قدرمشمولات پرمشتمل ہے۔ اداریے میں قاسم یعقوب نے لکھا۔”دنیابھر اس وقت وباکی لپیٹ میں ہے۔اردوبولنے والوں کاخطہ پاکستان اورہندوستان البتہ اس وبا کے طرح مہلک اثرات کی زدمیں نہیں آیاجس طرح مغربی ممالک میں خوف ناک صورتِ حال بنی مگریہاں بھی سماجی سطح پرہروہ اقدام کرنا پڑ رہاہے جس سے اس وباکے مہلک پن کوروکا جاسکے۔وبائی امراض خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوف سے زندگی کولپیٹ لیتے ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہرچیزساکت ہوجاتی ہے۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال گزشتہ کچھ ماہ سے ہمارے خطے میں بھی موجود ہے۔ادب کا براہِ راست تعلق زندگی سے ہے۔زندگی ہی اقدارکومتعین کرتی ہے۔زندگی سماج سے جڑی معاشرتی سرگرمی ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب ایک سماجی سرگرمی ہے،عقیدائی رویہ نہیں ۔ادب زندگی سے جنم لیتاہے جب کہ زندگی ہرروزبدل رہی ہے۔نت نئے انکشافات ادب کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتے ہیں۔مابعدکوروناسماج بالکل نہیں توبہت حدتک بدل چکاہوگا۔نئی اقدارکے ساتھ زندگی آغازکرے گی۔ادب اس ساری صورتِ حال کابغورمشاہدہ کررہاہے اوراپناتجزیہ اورتبصرہ زندگی کی نئی لہرکے ساتھ متعین کرے گا۔نقاط کاسترہواں شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔کوشش کی گئی ہے کہ اس وقت کے ادب کی مجموعی صورتِ حال کاایک نقشہ سامنے آسکے۔مجموعی طور پرکورونائی صورتِ حال نے ادب پربھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔خوف اورزندگی کے انجماد نے ادب کوبھی متاثرکیامگراس کے اثرات ایک دم ادب پرظاہر نہیں ہوں گے،ایک فاصلے پرادب اس ساری صورتِ حال کواپناموضوع بنائے گا۔
اس شمارے میں اردولکھنے والوں کوصنف اورعلاقے، ددنوں اطراف سے نمائندگی دینے کی کاوش نظرآئے گی۔گذشتہ دنوں ہمارے بہت پیارے دوست علی یاسرہم سے اچانک جداہوگئے۔زند گی کی بے ثباتی کاپیغام دیتایہ خوبصورت شاعراورپیاراانسان ہمیں اداس کرگیا۔اس شمارے میں چندلفظوں کوجوڑ کرایک یاد کاہالابنایاگیا ہے۔خدا اس کے درجات کوبلند کرے۔کوئٹہ سے گل نصیرخان کاایک چھوٹاساگوشہ بھی ترتیب دیاگیاہے،جس کے لیے ادارہ عابدمیر صاحب کاشکرگزارہے۔یہ شمارہ پیش کرتے ہوئے یہ امید بھی ہے کہ ابھی تک کاغذاورکتاب کی حرمت قائم ہے۔“
”نقاط“ کا تازہ شمارہ بہترین اورطویل مقالات سے آراستہ ہے۔جنہوں نے اس کووقیع بنادیاہے۔پرچے کاآغاز”وسعت ِ خیال“ کے عنوان سے چارعمدہ مقالات سے ہواہے۔ان چاروں مقالات کوحوالہ جات سے مزیدقابلِ قدربنایاگیاہے۔ڈاکٹرسعادت سعیدکے مقالے کاعنوان ”لسانی لاتشکیلی معنویت“ ہے۔یہ لسانی تشکیلات پربہت عمدہ مضمون ہے۔جس میں نثروشعرکی خوبیوں اورخامیوں کوبڑی خوبی سے پیش کیاگیاہے۔ اقتباس دیکھیں۔”فلسفہ سپیسنگ! میری جگہ کی حفاظت ہے تومیں خوش ہوں! میراگھرآباد ہے تومیں خوش ہوں ! میرے بچوں کی تعلیم مکمل ہورہی ہے تومیں خوش ہوں۔میری بیٹیاں محفوظ ہیں تومیں خوش ہوں۔مجھے میڈیکل ٹریٹمنٹ میسرہے تومیں خوش ہوں۔میری اسپیس محفوظ ہے ۔اجتماعیت کاجنازہ دھوم سے نکلا ہے! ذاتی مفاد،ذاتی اغراض ،ذاتی ترقی،ذاتی فلاح! سماجی مفاد بھاڑمیں جائے۔مجھے کیا! اپنی نبیڑتو! ایسے میں شاعری کے تمام تراسٹرکچرزذاتی سپیس کے دائروں میں مقیدہوچکے ہیں۔معاصر شاعروں کانظریہ شعر ذاتیاتی اظہاریوں کی ناندوں میں جگالیاں کرنے کاشوقین ہے۔یوں لاشعرکے وروازے سے شایدتازہ ہواؤں کے جھونکے آسکیں۔ لاشعرکیاہے؟ایک بہت ہی مشکل تعریف تویہ کہ جوشعرنہ ہو،غیرشعرنہ ہو،نثرنہ ہووہ لاشعرہے!“
یہ بہت معلومات افزا اوردلچسپ تحریرہے۔ممتازادیب،نقاداورافسانہ نگارڈاکٹرناصرعباس نیرکی کتب تواترسے آرہی ہیں۔افسانوں کے مجموعے ”خاک کی مہک“ اور”فرشتہ نہیں آیا“ سفرنامہ”ہائیڈل برگ کی ڈائری“کے ساتھ ذوق مطالعہ کی جِلا کے لیے ”نظم کیسے پڑھیں“ بہت عمدہ کتاب ہے۔ناصرعباس نیر”پڑھناکیاہے؟“ کے ساتھ نقاط کی محفل میں شریک ہیں۔”انسانی متون کیسے پڑھے جائیں؟یہ سوال آج سے دوسوسال پہلے اٹھایاجاتاتواس کی نوعیت ہدایت آموزی کی ہوتی۔اس کے جواب میں متن پڑھنے کاہدایت نامہ تیارکیاجاتا۔ زبا ن،لغت،بلاغت،روایت،شرح اوراسی طرح کے روایتی علوم سے شناسائی پرزوردیاجاتا۔عین ممکن ہے کہ ایک متعلقہ متن کے عالم سے استفادے کی شرط بھی لازم رکھی جاتی۔مقصودمتن کی درست اورغیرمبہم تفہیم کی ایک مخصوص روایت کوبرقرار رکھناہوتا۔لیکن آج یہ سوال سیاسی جہت کاحامل ہے۔اب ہدایات صرف تیکنیکی مسائل کے سلسلے میں رواسمجھی جاتی ہیں۔مطالعہ۔۔جسے تعلیمی مقاصد کے سواانجام دیاجائے۔ تکنیکی مسئلہ نہیں ہے۔یہ اختیاراورانتخاب کامعاملہ ہے۔قاری کوحق حاصل ہے کہ وہ کیاپڑھے اورکیسے پڑھے۔قاری سے مرادایک بالغ نظر شخص ہے جودنیاکواپنی نظرسے دیکھنے میں یقین رکھتا ہے اوراپنی نظرکومعتبربھی جانتاہے۔جب ہم اس بالغ نظرشخص کویہ بتانے کی کوشش کریں کہ وہ فلاںکتاب پڑھے اوراس کے لیے مخصوص طریقہ اختیارکرے توگویاہم اس دنیامیں قدم رکھتے ہیں جسے ’معنی کی سیاست‘کہنا چاہیے۔کئی کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کواہم سمجھنا،دراصل اس کتاب کے معنی کوسماجی دنیامیں ترجیحی مقام دینے یاکم ازکم اسے قابلِ قبو ل بنانے کی سعی ہے۔“
عرفان جاویدنے اپنے افسانوں کے مجموعے اوردوشخصی خاکوں کی کتب”دروازے“ اور”سرخاب“ کے ذریعے اردوادب میں اپنی پہچان بنا ئی۔ان کے خاکے محض خاکے نہیںمذکورہ شخصیات کی زندگی کے مرقعے ہیں۔عرفان جاویدکاطویل مضمون”اخبارمیں لپٹی بوتل“فحش نگاری اور جنس کے موضوع پرہے۔جنس کوہمارے ہاں شجرممنوعہ بنادیاگیاہے۔جس کی وجہ سے بے شمارمسائل بھی جنم لیتے ہیں۔انہوں نے ایک امریکی ارب پتی کاواقعہ بیان کیاہے،جوافریقی ملک گیاتواس نے دیکھاکہ صبح کے وقت بچے اسکول جانے کے بجائے پلاسٹک کی بوتلیں اٹھائے کہیں جارہے ہیں۔پوچھنے پرپتہ چلاپانی کی کمی کے باعث یہ دوردریاپرپانی لینے جاتے ہیں۔امریکی نے اپنی فلاحی تنظیم کے ذریعے وہاں پمپ لگوادیے۔وہ کچھ عرصے بعد پمپوں کی کارکردگی دیکھنے آیاتودیکھاکہ بچے پمپ سے پانی لینے کے بجائے بوتلیں اٹھائے پھردریا کی جانب رواں دواں ہیں۔اس نے حیرت کااظہارکیاتوگاؤں کے مکھیا نے بتایاکہ آپ نے پمپ لگانے سے پہلے ہمارے مسئلے کاجائزہ نہیں لیا۔ہمارے گھربہت چھوٹے ہیں ایک کمرے میں کئی افراد رہتے ہیں۔ہم بچوں کواس لیے دوردریا پربھیجتے ہیں کہ میاں بیوی کوکچھ دیر تنہائی میسرآجائے اوراپنی جنسی تشنگی مٹاسکیں۔عرفان جاوید نے اس مسئلہ عمدگی سے اجاگرکیاہے،لکھتے ہیں۔”جنس کومختلف تاریخی ادواراور علاقائی ثقافتوں میں جن متنوع رنگوں،مختلف اندازاورمتضاد نظروں سے دیکھاگیاہے،کسی اوربنیادی انسانی جبلت کونہیں دیکھاگیا۔ماضی میں ہمارے ہاں اس پرخاصاسنجیدہ نوعیت کاکام ہواہے۔اس میں علی اقبال صاحب کی مرتب کردہ کتاب ’روشنی کم تپش زیادہ‘ ایک نہایت عمدہ اوروقیع تصنیف ہے،جس میں جنس کے موضوع پردوسوسات مضامین ،عدالتی فیصلے،انٹرویوزوغیرہ شامل ہیں۔
’اثبات‘ کاعریاں نگاری اورفحش نگاری پرخصوصی شمارہ بھی خاصے کی چیز ہے۔علی عباس جلال پوری صاحب کی’جنسیاتی مطالعے‘ تواسی موضوع سے مخصوص ہے البتہ ان کی دیگرتصانیف ’رسومِ اقوام‘،’عام فکری مغالطے‘،روایاتِ تمدنِ قدیم ‘ اور’خردنامہ جلال پوری‘ میں بھی اس موضوع کوچھواگیاہے۔ سبطِ حسن صاحب کی کتب”پاکستان کاتہذیبی ارتقا‘ اور’موسیٰ سے مارکس تک‘ اوردیگر بھی اسی موضوع کاضمنی طور پراحاطہ کرتی ہیں۔زبیررانا کی اعلیٰ تصنیف ’پاکستان،تہذیب کابحران ‘ میں کئی صفحات اورابواب جنس کے موضوع پرہیں۔علاوہ ازیں اردومیں درجنوں کتب اوربین الاقوا می سطح پرکتب جنس کے موضوع پرسنجیدہ اندازمیں احاطہ کرتی ہیں۔“
ملک کے ممتازدانشورجناب احمدجاوید نے کراچی کی ایک تقریب میں شاعرجون ایلیاپرگفتگوفرمائی تھی۔جس سے فن وادب کے کئی گوشوں پر نئے نکات سامنے آئے۔اس گفتگوکوعاصم رضا نے کمال ہنرمندی سے تحریرکے قالب میں ڈھالاہے۔’نقاط‘میں ’جون ایلیا:میان ویقین کے درمیان“ کے نام سے اس کی پہلی قسط پیش کی گئی ہے۔احمدجاوید نے بہت دلچسپ بات کہی ہے کہ جون ایلیاکی پوری شخصیت ہے کہ انکارکرنا بھی ہے اور انکار کی ذمہ داریوں سے بچنا بھی ہے اورانکارکی قیمت چکانے سے اپنی حفاظت بھی کرنی ہے۔اقرارکرنے والا اقرار کے نیتجے میں آنے والی مصیبت سے بھاگے تواس کااقرارمتاثرنہیں ہوتا۔لیکن انکارکرنے والا،انکارکے نتائج سے گریز اورپسپائی اختیار کرے تواس کاانکار متا ثرہوجاتاہے۔جون ایلیا طنزنگاری میں اکبرالہٰ آبادی کے ہم پلہ تھے۔وہ طنزمیں جیسی بلاغت پیداکرتے ہیں،وہ ان کے سواآپ کوکہیں نہیں ملے گی۔وہ ہجو،طنز اورتعلی کے امامِ حاضر ہیں۔ان کے طنزکامقصود اپنی تعلی ہوتاہے اورطنزکے شکارکی تحقیرواجب ہوجاتی ہے۔احمد جاویدکے خیالات سے قاری کوجون ایلیاکی تفہیم میں مددملے گی۔مضمون کی دوسری قسط کاقارئین کوانتظاررہے گا۔
مقالات کے بھرپورحصے کے بعد”فلم نگر“ میں دوفلموں کے بارے میں دوعمدہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔عامررضا نے”سیاست،سینما، سماج“ پرلکھاہے۔خرم سہیل جنہوں نے اپنی شاندارکتب سے شہرت حاصل کی اوراب ٹی وی پروگرام ’چائے خانہ‘ میں علم،ادب،فلم اورتھیٹر کے مشہورافراد سے ملاقاتیں کرارہے ہیں۔خرم سہیل نے”بین الاقوامی سینمامیں پاکستانی فنکار“ لکھا ہے۔جس سے بیرون ملک،ہالی ووڈ اورلالی ووڈ میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔”اظہارخیال“ کے عنوان سے چارمضا مین ہیں۔محمدحمیدشاہدکی تازہ مرتب کردہ کتاب”جُستجوگُفتگُو“ میں افسانہ ،ناول اورتخلیقی عمل کے بھیداورامکانات پربہت عمدہ تصنیف ہے۔ان کامضمون”فکشن کی تفہیم میں تنقیدکاکردار“ہے۔
ڈاکٹرشاہدشریف نے ”ترجمہ کاری میں نئی فنی ضروریات“ پرقلم فرسائی کی ہے۔ ڈاکٹرقسورعباس خان”پاکستان میں سبالٹرن سٹڈیزکی ضرورت“ پرلکھاہے ۔ اورفخرعالم نے ”حکیم ناصرخسرو: زندگی،ادب اورسیاحت “ پر قلم اٹھایاہے۔جس کے بعد”یادیں“معروف ادیب ،شاعر اورخاکہ نگارامجدعلی شاکرنے”وزیرآغا،آدمی کی جون اورتیسری آنکھ “ میں دانشور،شاعر،فلسفی اورادیب وزیرآغاکی یادیں تازہ کی ہیں۔
’خطوط‘ کے زیرِعنوان چنددلچسپ خطوط بھی اس شمارے میں شامل ہیں۔ان دنوں”سب رنگ کہانیاں“ کی اشاعت پرسب رنگ اوراس کے مدیرشکیل عادل زادہ کاسوشل میڈیا پرچرچاہے۔سہ ماہی”آج “ کے مدیراجمل کمال نے دوخطوط مدیرسب رنگ اورایک مکالمہ کے مبین مرزاکولکھے۔اس بارے میں اجمل کمال کاکہناہے ۔” یہ تین خط میں نے ادبی مجلہ”مکالمہ“ کے مدیرمبین مرزا اور”سب رنگ ڈائجسٹ“ کے مدیرشکیل عادل زادہ صاحبان کوبعض باتوں کی وضاحت کے لیے بغرضِ اشاعت ارسال کیے تھے۔ان دونوں مدیرحضرات نے ان خطوں کو شائع کرنا غیرضروری سمجھا۔تاہم،میری رائے میں ان باتوں کی وضاحت کی ضرورت تھی اوراب بھی ہے،اس لیے اپنے دوست اور”نقاط“ کے مدیرقاسم یعقوب کی فرمائش پران کے سپردکررہاہوں۔جواں نہ چھپ سکے،سویہاں آکے دم ہوئے۔“
ان دلچسپ خطوط کے علاوہ جنت سے مشتاق احمدیوسفی کاجنت سے قاسم یعقوب کے نام خط احمدوقارمیر نے لکھاہے اوریہ یوسفی صاحب کے انداز میں بہت عمدہ تحریرہے۔ڈاکٹرمحمدرؤف نے میرکے نام ایک طویل اوردلچسپ خط”ایام وبامیں اِک نامہ ہم میرکے نام ارقام کیا“ کے عنوان سے پیش کیا۔قدیم رنگ کی زبان میں یہ بہت عمدہ تحریرہے۔
نقاط کااگلاعنوان ”کتاب مطالعہ “ ہے۔جس میں محمدالیاس کبیر نے ”میرال الطحاوی کے ناول پرچندباتیں“ اورامان اللہ محسن نے”مرزا اطہر بیگ کاناول: صفرسے ایک تک “ کاتجزیہ کیاہے۔ڈاکٹررشیدامجد،بلال اسوداورنیل احمدنے بھی عمدہ مضامین لکھے ہیں۔اس حصے میں منیر فیاض کاطویل مضمون”عالمی افسانوی بیانیے کااجمالی ارتقا اورانواسی“اس حصے کاحاصل ہے۔فاضل مصنف نے کئی باراپنی کم مطالعہ کا ذکرکیاہے لیکن مضمون میں انہوں نے محمدحفیظ خان کے ناول”انواسی“ کاجائزہ جس طرح عالمی ادب کی روشنی میں لیاہے اورکئی اہم کتب کا حوالہ دیاہے۔اس سے ان کے وسیع المطالعہ ہونے کاعلم ہوتاہے۔
موجودہ کورونا وائرس کے دور میں ”وباکے دنوں میں“ کے عنوان سے محمدحمید شاہدنے”وبا،بارش اوربندش“ اورناول نگارمحمدعاطف علیم نے” ماں جب غضناک ہوتی ہے(کرونائی صورتِ حال پر) دوعمدہ تحریریں ہیں۔ڈاکٹرعبدالرؤف نے ”وبائی مراقبے میں ’ماہِ میر‘ پرایک نظر“ میں فلم ماہِ میرکاجائزہ عمدگی سے لیاہے۔
”عالمی ادب سے تراجم“محمدعاطف علیم نے لیوٹالیسٹائی کاترجمہ کیاہے۔زیف سید نے انتون چیخوف کا تعارف اورچیخوف پرآسٹن اسمتھ کی نظم کاترجمہ اوران کی چارکہانیوں کے خوبصورت تراجم کیے۔ہیں۔نوبل انعام یافتہ لیڈیا ڈیوس کی تین کہانیوں کے تراجم رابی وحیدنے کیے ہیں اوریہ تراجم میں بھی معیاری ہیں۔
افسانوں میں اس بارحال ہی میں انتقال کرنے والے افسانہ نگار،نقاد،دانشوراورمدیردنیازادڈاکٹرآصف فرخی کا”جوکہیں نہیں گیا“ سینئر ناول وافسانہ نگارمحمدالیاس کا”نام کے مسلمان“ شامل ہے۔محمدالیاس کے افسانوں کانیامجموعہ اورایک ناولٹ حال ہی میں شائع ہواہے۔ نئے پبلشرصریر نے ان کے افسانوں کاانتخاب بھی شائع کیاہے۔ افسانہ نگار،شاعراورمدیرمکالمہ مبین مرزا”چوہااورآدمی“اورمحمدعاطف علیم ”کچھ دیرغالب کے ساتھ“ ایک انوکھے خیال کے ساتھ لے کرآئے ہیں۔سولفظوں کی کہانی سے شہرت حاصل کرنے والے مبشرعلی زیدی کا مختصرافسانہ”وہم“ اسراراحمدشاکر”تھڑے کاافسانہ“ فرخ ندیم”ایمرجنسی میں لکھی کہانی“ اورفیصل ریحان ”رات “ کے ساتھ اس محفل میں شامل ہیں۔
مرحوم علی یاسرکی یاد میں کئی عمدہ مضامین اورگل خان نصیرپرخصوصی گوشہ بھی اس شمارے کااختصاص ہیں۔حصہ نظم میں گیارہ شعراکی اننچاس تخلیقات بھی نقاط میں شامل ہیں ۔سب سے آخر میں سترہ شعراءکی ایک سواٹھائیس غزلیات دی گئی ہیں۔جن میں کوئی بھی معروف شاعر شامل نہیں ۔اس کے باوجودکئی اشعار اورغزلیں بہت عمدہ ہیں۔اس طرح مجموعی طور پر”نقاط“ سترہ نثرونظم کی بہترین تخلیقات سے مزین ہے۔ جس کے لیے قاسم یعقوب کوبھرپورمبارک باد۔وباکے دنوں میں ادب کے قارئین کے لیے نقاط بہترین تحفہ ہے۔