”بولتے اوراق“ ڈاکترتنزیلہ عروج کی مرتب کردہ کتاب ہے۔جسے صریرپبلی کیشنزنے بہت خوبصورتی سے شائع کیاہے۔کتاب میں احمدندیم قاسمی،مستنصرحسین تارڑ،بانوقدسیہ،عبداللہ حسین،منوبھائی،شمس الرحمٰن فاروقی، کشورناہید،خالدہ حسین،رشیدامجد،منشایاد، مسعود اشعر ،فتح محمدملک،انورمسعود،رضاعلی عابدی،انورسن رائے،خورشیدرضوی،جلیل عالی،سعادت سعید،زبیررضوی،عتیق اللہ،ابوالکلام قاسمی ، ابصار عبدالعلی،سلمیٰ اعوان،بشریٰ رحمٰن،نیلوفراقبال،نذیرقیصر،محمدحمیدشاہد،باصرسلطان کاظمی،یاسمین حمیداورغافرشہزادسمیت اردو کے اکتیس قلم کاروں سے مکالمے،مصاحبے،مخاطبے ،ملاقاتیں یکجاکی گئی ہیں۔جودورِ حاضرکے بہترین نظم گوشاعر نصیراحمدناصر کی زیرِ ادارت شائع ہو نے والے منفردادبی مجلے”تسطیر“ کے تین ادوار میں شائع ہوئے۔ ”ادیبوں کابچپن“ کے عنوان سے ڈاکٹرعظمیٰ سلیم کے مختصر انٹرویوز ،”لمسِ رفتہ“کے نام سے مستنصرحسین تارڑ کی ناول نگارعبداللہ حسین سے بعدازموت منفردخیالی بات چیت،نصیراحمدناصرکی عکسی مفتی کی کتاب ”پاکستانی ثقافت سے استِغراقی مکالمہ اورآسیہ تنویرکا ڈاکٹرغافرشہزاد سے وٹس ایپ مکالمہ شامل کیاگیاہے۔
یہ اپنے نوعیت کی منفردقاری سے بات کرتی کتاب ہے۔جس میں شامل مکالمے،مصاحبے،مخاطبے اورملاقاتوں سے مختلف اہلِ قلم کی فن اور شخصیت،ان کے بچپن، ادبی کارنامے،ادب میں ان کے نقطہ نظرکے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ایک ادبی جریدے میں بیس سال کے دوران چھپنے والی ان تحریروں کویکجاکرنے سے ان تک ایسے قارئین کی بھی رسائی ہوگئی ،جورسالے میں انہیں نہیں پڑھ سکے تھے،جبکہ تسطیرکے قاری کے لیے بھی یہ قندِ مکرردلچسپی کاباعث ہوگی۔صریرپبلی کیشن نے گذشتہ سال سے کتابوں کی اشاعت کاسفرشروع کیا ہے ۔عمدہ کتابت، طباعت اور جلدبندی کے ساتھ انہوں نے کتب کی قیمتیں بھی مناسب رکھی ہیں۔تین سوچھتیس صفحات پرمبنی ”بولتے اوراق“ کی چھ سواسی روپے قیمت بھی مناسب ہے۔
ڈاکٹرتنزیلہ عروج نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردوکیااورنیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز،اسلام آباد سے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔عملی زندگی کاآغازانہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی،اسلام آبادسے بطورلیکچرارکیا۔کچھ عرصہ ایرڈ ایگریکلچریونیور سٹی ،راولپنڈی میں بھی درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں سے بھی منسلک رہیں۔ آج کل یونیورسٹی آف لورالائی ،بلوچستان میں اسسٹنٹ پروفیسرایجوکیشن کے طور پرتعینات ہیں۔مختلف تعلیمی اورسماجی موضوعات پران کے کئی مقالے قومی اورعالمی سطح کے جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔کتب بینی کی رسیااورشعروادب سے دلچسپی رکھتی ہیں۔تعریف وتوصیف اور صلے سے بے نیازاپناکام دلجمعی اورمحنت سے کرتے رہناان کاخاص وصف ہے۔موجودہ نظامِ تعلیم اورتدریسی ضابطوں کوبہتری کی طرف لے جانے کی خواہاں ہیں۔
”بولتے اوراق“ کے پیش لفظ میں ڈاکٹرتنزیلہ عروج لکھتی ہیں۔”انٹرویونگاری آج ایک باقاعدہ فن بن چکی ہے۔اگرسوال وجواب کوانٹرویو کی ابتدائی شکل سمجھاجائے تویہ کہناغلط نہ ہوکہ اس فن کاآغازافلاطون،ارسطو اورسقراط سے ہواجواپنے طالب علموں کے درمیان گھرے ہوتے اوران کے سوالات کے جوابات منطقی دلائل سے دیتے یاان سے مزیدسوالات ابھارتے۔انہوں نے دنیاکومباحثے یاگفت وشنید کے نئے اندازسے روشناس کرایابالخصوص سقراط نے جسے بعد میں مکالمہ کے سقراطی طریقہ کارکانام دیاگیا۔مغربی ادب میں اس فن کوبہت پہلے سے عروج حاصل ہوگیاتھالیکن بیسویں صدی کے دوران اردومیں بھی ایسے انٹرویونگارسامنے آئے جنہوں نے اس فن میں نہ صرف اپنی شناخت قائم کی بلکہ برصغیرکی سطح پراُن کوبلندمقام ومرتبہ بھی حاصل ہوا۔انٹرویوایک ایساآئینہ ہے جس کے ذریعہ آپ کسی شخصیت کے افکاروخیالات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں اوراس کی زندگی کی واضح اورمستند معلومات سامنے آجاتی ہیں۔
نصیراحمدناصرہم سب کے ،محبوب شاعر ہیں،جن کی نظمیں دنیاکی بہترین شاعری میں شمارہوتی ہیں۔خوش قسمتی سے اسلام آباد میں قیام کے دوران ،مجھے مسلسل ان کی صحبت میسر رہی اوراردوشعروادب کے بارے میں بہت کچھ جاننے،سیکھنے اورپڑھنے کوملا۔اس سے پہلے میں نے ”تسطیر“ کے دوتین شمارے ہی پڑھ رکھے تھے۔ان سے ملنے کے بعد مجھے تمام شمارے پڑھنے کاموقع ملا۔مجھے یہ بھی اندازہ ہواکہ اس میں شائع شدہ ادبی موادانتہائی اہم اور ہمیشہ محفوظ رکھنے اورہرنسل کے پڑھے جانے کے قابل ہے۔پرانے شمارے ناپید ہونے کے باعث بہت سی نظروں سے اوجھل ہے۔یہیں سے مجھے اس میں شائع شدہ ادبی شاہکاروں کوکتابی شکل میں مرتب کرنے کاخیال آیا۔”بولتے اوراق“ نے نام سے انٹرویوز پرمبنی یہ اس سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔اس کانام بھی مدیرتسطیرنصیراحمدناصرنے تجویزکیاہے۔“
بولتے اوراق کا پہلا انٹرویوقرة العین طاہرکا شاعر،افسانہ نگاراورمدیرفنون احمدندیم قاسمی سے ہے۔قاسمی صاحب نے اپنی ادبی جدوجہد کے بارے میںبتایا۔” انگہ سے لاہور تک کے مراحل بے شمارہیں۔بہاولپورکے صادق ایجرٹن کالج سے1935ءمیں گریجویشن کی۔تین چار سال بیکاری میں گزارے۔ 1939ء میں محکمہ آبکاری میں بحیثیت سب انسپکٹرملازمت کاآغاز ہوا،مگرڈیڑھ دوبرس کے بعد وہاں سے بھاگا اورلاہورمیں اپنے محسن مولاناعبدالمجیدسالک کے ہاں آکردم لیا۔انہوں نے ہفت روزہ’پھول‘ اور’تہذیبِ نسواں ‘ میں میری ادارت کا بندوبست فرمادیا۔میں نے اس کے ساتھ ہی رسالہ”ادب لطیف“ کی بھی ادارت سنبھال لی۔پہلاافسانہ ”بدنصیب بت تراش“ اختر شیرانی کے رسالہ ”رومان“ میںشائع ہوا۔لاہورمیں قیام کے بعدپشاورریڈیوسے بحیثیت اسکرپٹ رائٹروابستہ ہو گیا۔1948ءمیں لاہور آکر رسالہ”نقوش“ جاری کیا۔مجھے انجمن ترقی پسندمصنفین کاجنرل سیکریٹری منتخب کیاگیا اوراس کی پاداش میں چھ ماہ نظربندی بھی بھگتی۔رہائی کے بعدروزنامہ ”امروز“ کی ادارت سنبھالی۔ ایوب خان نے پاکستان پرقبضہ کرلیاتومیں پھرجیل میں تھا۔ پھرایوب خان نے اپنے پڑھے لکھے مشیروں کے مشور ے سے امروز،پاکستان ٹائمزاورلیل ونہارپرقبضہ کرلیا۔میں نے امروزکی ادارت سے مستعفی ہونے کے بعد رسالہ ”فنون“ جاری کیاجوابھی تک چل رہاہے۔1974ءمیں مجلسِ ترقی ادب کی نظامت سنبھالی۔ہرتین برس بعد اس کے کنٹریکٹ میں اضافہ ہوتارہا چنانچہ اب تک اس ادارے کاڈائریکٹرہوں۔“
مستنصرحسین تارڑسے گفتگوبھی قرہ العین طاہرنے کی ہے۔انہوں نے افسانے کے مقابلے میں ناول کم لکھے جانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ۔”ہماراتجربہ مختصر ہے ۔وہ افسانے میں توسماسکتاہے،ناول میں نہیں۔پھرافسانہ لکھ کرآپ کافی ہاؤس میں پڑھیں۔واہ واہ ہوگی۔سب جان جائیں گے آپ نے افسانہ لکھاہے۔پھرحلقہ ارباب ذوق میں پڑھیں،تعریف وتنقید ہوگی،صبح اخبارمیں کوریج آئے گی۔ابھی دوست احباب کوعلم ہوجائے گاکہ آپ نے افسانہ تخلیق کیاہے۔پھرآپ دوتین رسالوں کووہ افسانہ بھیج دیں۔وہاں چھپ جائے گا۔سبھی لوگ پڑھیں گے۔آئندہ شماروں میں تبصرے،تعریف چھپتی رہے گی۔یعنی آپ نے چھ صفحے کاافسانہ چھ دن میں لکھ لیا،توچھ ماہ تک آپ ادب کی دنیا میں لازماً،اس ایک افسانے کی بدولت موضوع گفتگورہ سکتے ہیں۔ہرماہ آپ ایک افسانہ لکھ لیں،دوسال میں چوبیس افسانے ،آپ کا مجموعہ تیارہوجائے گا۔پھرناول لکھنے میں اتناتردوکیوں کریں۔کئی سال اسے سوچنے میں،بننے میں لگادیں۔پھرلکھنے میں ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔پارسااورطوائف کے درمیان جتنی زندگی ہے،وہ تخلیق کارکاتجربہ نہیں ہے۔جسمانی طور پربھی ضروری نہیں ہے کہ سب تجربے آپ نے کیے ہوں۔تخلیق کارسے آپ شریف آدمی ہونے کی توقع نہ رکھیں۔کسی بھی تخلیق کارنے نارمل زندگی نہیں گزاری۔تخلیق کارکبھی نارمل نہیں ہوتا۔اگرزندگی نارمل ہوگی توتجربے بھی نارمل ہوں گے۔وہ ڈائری ہوسکتی ہے،تخلیق نہیں ہوسکتی۔عالمی ادب کے بڑے بڑے ادیبوں کودیکھیے،دوستوفسکی ،جواری تھا،بہترین ادب تخلیق کیا۔ناول کے لیے کشٹ کاٹنے پڑتے ہیں۔عبداللہ حسین اورقرة العین حیدر کے تجربے ان کی تحریروں میں ڈھلے ہیں۔وہ صرف مشاہدہ نہیں کرتے بلکہ اس میں جذب ہوجاتے ہیں۔“
افسانہ نگارخالدہ حسین کواردوکے بڑے ناموں میں شمارکیاجاسکتاہے۔انہوں نے اردوافسانے کونیا لہجہ اورنیاروپ دیا۔ان کی تخلیقات میں ”مصروف عورت“،”ہیں خواب میں ہنوز“،”پہچان“،”دروازہ“،”میں یہاں ہوں“،”جینے کی راہ“ اورایک ناول ”کاغذی گھاٹ“شامل ہیں ۔ان سے مکالمہ طاہرہ غوری اورقرة العین طاہرہ نے کیاہے۔
سینئرافسانہ نگاررشیدامجدسے گفتگوقرة العین طاہرہ نے کی ہے۔رشیدامجد نے بتایاکہ وہ ایک ورکشاپ میں ٹائم کیپرتھے۔دفتر میں حاضری مکمل کرنے کے بعدمطالعہ کاکافی وقت مل جاتاتھا۔وہیں اعجازحسین بھی تھے۔جواعجازراہی کے قلمی نام سے لکھتے تھے۔ان ہی کی تحریک پر لکھناشروع کیا۔اختررشیدنازکے نام سے دوتین کہانیاں چھپ گئیں توسلسلہ چل نکلا۔غلام رسول طار ق کی ہدایت پررشیدامجدکانام اپنایا۔ مرزاادیب نے ادب لطیف میں پہلی کہانی”لیمپ پوسٹ “ شائع کی اوراس کی بہت تعریف بھی کی۔رشیدامجدنے اپنی آپ بیتی کاپہلا حصہ ”تمنابے تاب“ کے نام سے لکھا۔پھراسے ”عاشقی صبرطلب“ کے نام سے آگے بڑھایا۔اب اس میں مزید اضافے کررہے ہیں۔جس کی ایک قسط سہ ماہی لوح میں ”نہیں منت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری“کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
صریر پبلی کیشنز نے حال ہی میں رشید امجد کے افسانوں کے پانچ مجموعے ”کہانی نے خواب دیکھا“،”سمندرمجھے بلاتاہے“،”گملے میں اگاہواشہر“،”لیمپ پوسٹ“ اور”سناٹا بولتاہے“ شائع کیے ہیں۔
اردواورپنجابی کے نامورافسانہ وناول نگارمنشایاد سے انٹرویوبھی قرة العین طاہرہ نے کیاہے۔انہوں نے بتایاکہ بچپن میں رسالے”ہدایت“ کے دیے عنوان”مجھے بہت افسوس ہوا“ پرکہانی گھڑ کرلکھی۔لیکن کہانی چھپ کرآئی کوتودوستوں نے اس من گھڑت واقعہ کوسچ سمجھا۔تب مجھے احساس ہواکہ مجھے کہانی گھڑنے کاہنرآتاہے۔مرحوم منشایاد کے افسانوں کے نو مجموعے ”ماس اورمٹی“،”تماشا“،”بندمٹھی میں جگنو“ ،”خلااندرخلاف“ ،”درخت آدمی“،”وقت سمندر“،”پانی میں گھراگھر“،”خواب سرائے“ اور”ایک کنکرٹھہرے پانی میں کے علاوہ ”شہر افسانہ “ کے نام سے ان کے افسانوں کاانتخاب شائع ہوئے۔انہوں نے ایک پنجابی ناول ”ٹانواں ٹانواںتارا“ لکھا۔جس کی ٹی وی پرڈرامائی تشکیل بھی ہوئی۔پھراسی ناول کے ڈرامائی ورژن کوانہوں نے اردوناول”راہیں“ کے نام سے تحریرکیا۔
تسطیرکے دوسرے دورمیں عارف وقارکامستنصرحسین تارڑسے انٹرویو بھی کتاب میں شامل ہے۔جس میں انہوں نے روس میں اپنی مقبو لیت کے بارے میں بتایا۔2017ءمیں تسطیرکاتیسرا اورموجودہ دوربک کارنرجہلم کے زیرِ اہتمام شروع ہوا۔اس دورمیں تسطیرکے نو شمارے شائع ہوچکے ہیں اوردسواں اگست میں شائع ہورہاہے۔اس میں بھارتی شاعر،نقاد،ناول وافسانہ نگار اورادبی جریدے شب خون کے مدیر”شمس الرحمٰن فاروقی“کے علاوہ دیگربھارتی ادیب،شاعراورنقادجن میں ذہن جدیدکے مرحوم ایڈیٹر”زبیررضوی“،” پروفیسرعتیق اللہ“،”ابوالکلام قاسمی“،”قاضی افضال حسین“سے بھارتی انٹرویونگاروں کے مخاطبے شامل کیے گئے ہیں۔جن سے بھارت میں ادبی پیش رفت کااندازہ کیاجاسکتاہے۔
پاکستان کے معروف صحافی ،ادیب اوردانشورانورسن رائے سے نثری نظم کے حوالے سے عمرفرحت نے عمدہ گفتگو کی ہے۔جلیل عالی،ڈاکٹر سعادت سعید سے بات چیت محمدنعیم الرحمٰن اورمحمدحمیدشاہد سے مہک تنویر نے کی ہے۔ڈاکٹرعظمیٰ سلیم کے ”ادیبوں کابچپن “ کے عنوان سے بانوقدسیہ،منوبھائی،کشورناہید،خورشیدحسن رضوی،مسعوداشعر،فتح محمدملک،انورمسعود،رضاعلی عابدی،بشریٰ رحمٰن، سلمیٰ اعوان،ابصارعبدا لعلی،نذیرقیصر،یاسمین حمید،باصرسلطان کاظمی اورمحمدحمیدشاہد سے مختصرمکالمہ کیاگیاہے۔”لمسِ رفتہ“ کے نام سے مستنصرحسین تارڑ نے ناول نگار”عبداللہ حسین سے بعدازمرگ ایک گفتگو“ کی ہے۔نصیراحمدناصرنے عکسی مفتی کی کتاب ”پاکستانی ثقافت“ سے ایک استغراقی مکالمہ کیاہے۔کتاب کے آخرمیں ڈاکٹرغافرشہزاد سے آسیہ تنویرکاایک وٹس ایپ مکالمہ کوبھی جگہ دی گئی ہے۔
’بولتے اوراق “ قارئین سے بات کرتی کتاب ہے۔جس میں ان کے فیورٹ ادیب وشاعرانہیں اپنی زندگی،بچپن،فنی ارتقااوراپنے دورکے ادبی سرگرمیوں کے بارے میںاپنی زبان سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ کتاب دیرتک اوردورتک اپنی تازگی برقرار رکھے گی۔