کرکٹ کھیلتے تھے، کوچ نے سمجھایا کہ جب مشکل میں پھنس جاؤ تو سادہ ترین طریقہ استعمال کرتے ہوئے مشکل سے نکلنے کی کوشش کرو. ایسے موقع پر تجربات سے پرہیز کرو. کرکٹ میں ہی نہیں عام زندگی میں اس اصول کو پلے باندھ لیا اور بہت سی آسانیاں حاصل ہوئیں. کاش وطن عزیز پاکستان میں بھی کوئی اسے سمجھ لیتا. اس وقت دنیا مشکل کا شکار ہے. کرونا نے ہر شے کو دہلا کے رکھ دیا. کاروبار تباہ ہو گئے. معیشت لڑکھڑانے لگی. ہر طرف بے یقینی اور خوف کے سائے منڈھلا رہے ہیں. ایسے میں ضروری تھا کہ تجربات کرنے کی بجائے سادہ ترین طریقے استعمال کرتے ہوئے عوام کو زندہ رہنے کا ماحول فراہم کرتے مگر ایسا ہو جائے تو پھر افسر شاہی کون کہے۔
پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ افسر شاہی کو اپنی عقل اور دانش پر جس قدر اعتماد ہے یہ صرف جہالت کی وجہ سے ہی ممکن ہے. یہ لوگ ہر معاملے خود کو عقل کل سمجھتے ہیں. مشورہ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں. ان کی تربیت کا حصہ ہے کہ تمھارے علاوہ سب عقل سے محروم ہیں. ایسے لوگوں سے حماقتیں ہی سرزد ہو سکتی ہیں. آن لائن کلاسز بھی ایسا ہی معاملہ ہے. ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے بیٹھے کسی افسر کو خیال آیا کہ کیوں نہ بچوں کو آن لائن تعلیم دی جائے. یہ نیا خیال تھا اور مابعد جدید عہد میں ہر نئی چیز کے دام اچھے لگتے ہیں. اس افسر نے ایک خام سا منصوبہ بنا کر وزیر با تدبیر کو پیش کیا ہوگا اور اپنی چرب زبانی سے یقین دلا دیا ہوگا کہ آن لائن کلاسز کے منصوبے پر عملدرآمد کے بعد اس کی مقبولیت کا گراف آسمان کو چھونے لگے گا. افسر شاہی کو ہی اپنی عقل پر اعتماد نہیں بلکہ آج کل کے نئے نئے وزیروں کو بھی ان پر ہی اعتماد ہے. یہ وزیر وہی لوگ ہیں جنھیں کل تک کسی سیکشن افسر یا اسٹنٹ کمشنر بلکہ نائب تحصیل دار سے علیک سلیک پر فخر ہوا کرتا. اب جب سیکشن افسر کی بجائے کوئی انیس یا بیس گریڈ کا افسر “سر” کہ کر تجویز پیش کرے تو وزیر باتدبیر کی گردن کیسے نفی میں ہل سکتی ہے.
آن لائن کلاسز سوائے ایک دکھاوے کے اور کچھ نہیں. دکھاوا بھی ایسا کہ جس میں فائدہ نام کو بھی نہیں. نقصان اتنے کہ گنتی ممکن نہیں. یہ ایک ایسی فضول سرگرمی ہے کہ جس کے لیے نہ تو طلبہ تیار ہیں اور نہ ہی اساتذہ. افسر شاہی نے حکم صادر کر رکھا تھا کہ کسی بچے کے پاس سمارٹ فون نہ ہو اور اگر کسی کے پاس یہ نظر آجائے تو کالج انتظامیہ اسے جرمانہ کرے. اب افسر شاہی کے اندھوں کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی اور انھوں نے آن لائن کلاسز کلاسز کا حکم جاری کر دیا. وہ استاد جو پہلے طلبہ کو سمارٹ فون استعمال کرنے پر جرمانہ کرتے وہی اساتذہ اب طلبہ کی منت سماجت میں مصروف ہیں کہ وہ سمارٹ فون خرید لیں. مہنگائی اور کرونا کے نتیجے میں پیدا ہوئے والی بے روزگاری میں والدین بچوں کو سمارٹ فون لے کر دیں گے جس کے دام بہرحال اتنے ہیں کہ اس سے ایک ڈیڑھ ماہ چولہا جلایا جاسکتا ہے.. بچوں کی تعداد کے تناسب سے اخراجات دیکھے جا سکتے ہیں. چلیں کسی طرح مانگ تانگ کے والدین نے بچوں کو سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ لے دیا. اب مرحلہ آتا ہے انٹرنیٹ کنکشن کا. کس کو نہیں معلوم کہ انٹرنیٹ کی لہریں ہر جگہ ایک سی نہیں پہنچتیں. جہاں پہنچتی وہاں بھی ان کی شدت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے. اب اگر بچے یہ بہانہ بنا دیں کہ انٹرنیٹ کی لہریں کمزور تھیں تو استاد بے چارہ کیا کہ سکتا ہے. خود اساتذہ کے ساتھ بھی یہی مسائل ہیں. سب کو ایک سی انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں.
آن لائن کلاسز کے مسائل کا سامنا خواتین کو بہت زیادہ ہو رہا ہے. خاص طور پر وہ خواتین جو قصباتی کالجوں میں پڑھاتی ہیں. ایک خاتون پروفیسر نے مجھے بتایا کہ ان آن لائن کلاسز کی وجہ سے سے ان کی زندگی شدید متاثر ہوئی ہے. پوچھنے پر بتایا کہ ان کی ذمہ داری لگی کہ وہ بچیوں کے گروپس بنا کر انھیں آن لائن کلاسز میں شامل کریں. پروفیسر صاحبہ نے بچیوں کو فون کرنے شروع کیے تو ہر مرتبہ فون کسی مرد نے اٹھایا. لاہور جیسے شہر میں بھی متوسط طبقے کے گھرانے انٹر میں لڑکیوں کو موبائل-فون نہیں لے کر دیتے. قصبات میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا. کالج میں چونکہ فون نمبر درج کروانا ضروری ہوتا ہے اس لیے اکثر بچیاں اپنے گھر کے کسی مرد کا نمبر دے دیتی ہیں. جب اس خاتون نے لڑکیوں کے گھروں میں رابطے کیے تو اس کا نمبر پورے شہر کے مردوں کے پاس پہنچ گیا. وہ خاتون کہتی ہیں کہ اس سرگرمی کی وجہ سے وہ اپنی پرائیویٹ زندگی سے محروم ہو گئی ہیں اور انھیں بدترین “ایوو ٹیزنگ” کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. سارا دن عجیب و غریب پیغامات وصول کرتے اور انھیں مٹاتے گزر جاتا ہے. یہ مسئلہ صرف ایک خاتون کا نہیں بلکہ کالجز میں پڑھانے والی اکثر خواتین اس عذاب سے گزر رہی ہیں مگر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والے اس مصیبت کو کیا جانیں.
برطانیہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے جب آن لائن پڑھائی کا فیصلہ کیا تو پہلے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ہر طالب علم کے پاس اشارات کو وصول کرنے والا جدید آلا ہو. پھر وہاں انٹرنیٹ کے طاقت ور اشاروں کو بھی یقینی بنایا گیا اس کے بعد آن لائن کلاسز کا ڈول ڈالا گیا. ہمارے یہاں کسی قسم کی تیاری کے بنا ہی اتنی بڑی سرگرمی شروع کروا دی گئی. جب لوگوں کو روٹی کے لالے پڑے تھے اس وقت والدین پر سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ کا اضافی بوجھ لاد دیا گیا
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اب حکم جاری کیا گیا ہے کہ استاد اپنے سبق کو ریکارڈ کرے. اس ریکارڈنگ میں اس کی تصویر بھی آنی چاہیے. ایک سبق کا دورانیہ عام طور پر چالیس منٹ سے ڈیڑھ گھنٹے تک کا ہوتا ہے. اگر کوئی استاد دن میں تین سبق پڑھاتا ہو تو وقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے. حکم یہ ہے کہ استاد یہ سبق ریکارڈ کرے اور اس کے بعد کالج انتظامیہ کو مہیا کرے جو اسے افسران بالا کو ارسال کردے گی. اب کوئی پوچھے کہ حضور آپ کا فرمان سر آنکھوں پر مگر اس کی تعمیل کی صورت بھی تو سمجھادیں. اکثر اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ موبائل فون کے ذریعے سبق پڑھاتے ہیں اور اس پر ریکارڈنگ کی سہولت موجود نہیں. جب ریکارڈنگ ہی نہیں ہو گی تو آگے کیسے بھیجیں گے. چلیں جیسے تیسے ریکارڈنگ کر بھی لی جائے تو کیا کالجوں اور محکمہ تعلیم کے دفاتر میں یہ سہولت موجود ہے ہے کہ وہ ساری ریکارڈنگ کو جمع رکھ سکے. میری معلومات کے مطابق ایسا ممکن نہیں. پھر یہ بھی حکم ہے کہ ریکارڈنگ تصویری ہو. یہ حکم بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور خواتین کو اس پر سخت اعتراض ہے. ان کا کہنا ہے کہ وہ بے پردہ مردوں کے سامنے نہیں آنا چاہتیں. اگر سبق پڑھاتے ہوئے تصویر کا آنا لازم ہے تو یہ خدشہ بہرحال رہے گا گھر کے مرد بھی اس سبق کے ذریعے اس خاتون کو دیکھ لیں جب کہ وہ کسی صورت اس کی خواہش مند نہیں.
ایک بات تو یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان آن لائن کلاسز کا فائدہ نہ تو طلبہ کو ہوا ہے نہ اساتذہ کو. بہت سے اساتذہ نے بتایا کہ جب وہ آن لائن کلاسز لیتے ہیں تو طلبہ کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے دوسری طرف والدین کو یہ گلہ ہے کہ اب طلبہ و طالبات آن لائن کلاسز کے بہانے ہر وقت موبائل فون سے چمٹتے رہتے ہیں. کچھ واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہ سرگرمی افسر شاہی نے صرف موبائل فون بنانے والوں اور ان موبائل کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہے. اگرچہ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں لاکھوں کی تعداد میں سمارٹ فون خریدے گئے. پھر انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی موبائل کمپنیوں کے کاروبار کو بھی رنگ لگ گئے ہیں. واقفان حال تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ افسر شاہی کسی پر خواہ مخواہ مہربان نہیں ہوتی اور ان آن لائن کلاسز کے پیچھے بھی کروڑوں کے نذرانے موجود ہیں. ایک صاحب نے اعداد و شمار کی مدد سے بتایا کہ فرض کریں کہ اس سرگرمی سے پنجاب میں دس لاکھ سمارٹ فون اضافی بکتے ہیں؟ ایک لاکھ لیپ ٹاپ مزید خریدے جاتے ہیں. موبائل کمپنیاں کے کاروبار میں چالیس سے پچاس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے تو اس میں سے چالیس پچاس کروڑ لاہور سیکرٹریٹ کو دان کردیا جائے تو اس میں کون سا نقصان ہے. اب ان واقفان حال کی تائید کرنے کی ہمت تو ہم خود میں پاتے نہیں. ہم بہت کمزور ہیں. ہمیں اپنی زندگی اور ملازمت دونوں بہت عزیز ہیں. بیوروکریسی پہ تنقید سے بھلے لاپتہ افراد میں شامل نہ ہوں لیکن اس منہ زور ادارے کے پاس یہ طاقت تو بہرحال ہے کہ انسان کو اپنی زندگی سے نفرت کرنے پر مجبور کردے. کیا مشکل ہے کہ ناقد کے گھر سے اسلحہ یا منشیات برآمد ہو جائے. دہشت گردی کی کوئی دفعہ لگا کر قید میں ڈال دیا جائے. اس لیے ہم واقفان حال کی تائید سے معذور ہیں البتہ یہ ضرور عرض کریں گے کہ آج کل لیپ ٹاپ کی قیمت میں کافی اضافہ ہو گیا ہے. کچھ علاقوں میں تو یہ باقاعدہ بلیک ہو رہا ہے. اگر واقفان حال کی بات درست ہو بھی تو اس میں کیا برائی ہے. اسے نہ تو کمیشن کہا جا سکتا ہے اور بہ ہی اسے کک بیکس کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے. نہ ہی یہ پوری طرح رشوت کہی جاسکتی ہے. لاہور لاٹ صاحب کے دفتر سے یہی حکم جاری ہوا ہے نا کہ بچوں کو تعلیم دو. اس پر ان کی تعریف کرنی چاہیے کہ یہ ان دنوں میں بھی بچوں کی تعلیم کے لیے فکر سے گھلے جارہے ہیں جب عام طور پر تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہوا کرتی ہیں اور پورے پنجاب میں کسی قسم کی تعلیمی سرگرمی نہیں ہوتی.
پنجاب میں بے شمار ایسے کالج موجود ہیں جہاں اساتذہ کی کمی ہے. کچھ کالج تو ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی استاد ہی موجود نہیں. سیشن کے آغاز میں پرنسپل چھے ماہ کے لیے استاد بھرتی کرلیتا ہے اور وہ جیسے تیسے تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں. ہم تو ہمت نہیں پاتے مگر شاید کوئی اور سر پھرا پوچھ لے کہ جناب ان کالجز میں تعلیم کی کیا صورت ہو گی؟ کیا یہ طلبہ آپ کی اس جدید طریقے سے دی گئی تعلیم سے محروم ہی رہیں گے. ذمہ دار ذرائع کے مطابق اس وقت آدھے سے زیادہ طلبہ آن لائن کلاسز کے سلسلے سے بوجوہ منسلک نہیں. ممکن ہے کالج کھلنے کے بعد تدریس کا سلسلہ از سر نو شروع کیا جائے. اگر ایسا ہوا تو پھر آج کل کی یہ سرگرمی اور والدین کے اخراجات کس کھاتے جائیں گے. خیر ہم تو خود میں یہ ہمت نہیں پاتے کہ افسر شاہی کے منشیوں کے احکامات کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی جسارت کریں البتہ یہ ضرور عرض کریں گے کہ جب مسائل کا شکار ہو جائیں تو چیزوں کو سادہ کرلیں