سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکو کو اشتراکیت نواز افراد کا مکہ کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ مکہ کا لوگوں کے لیے مکہ ہونا تھا کیونکہ کم علم مسلمانوں کا جم غفیر مکہ کی تعظیم کو تقدیس کا چولا پہنانے کا مرتکب پوتا ہے۔ ماسکو سے متعلق بھی بائیں بازو کے عقیدہ پرستوں کا تصور کچھ اسی قسم کا ہوا کرتا تھا۔ اصل میں مکہ وحدانیت پرستی کا مرکز تھا اور ماسکو کو اشتراکیت پرستی کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ تعظیم اور تقدیس میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا عقیدے اور عقیدت میں۔ عقیدہ یا ایمان منطقی یا الوہی (یاد رہے الوہیت بالکل بھی منطق سے مبرّا نہیں، یہ اور بات ہے کہ منطق کے کچھ زاویے شعور سے بالا تر ہیں) اصولوں کو تسلیم کرکے ان پر عمل درآمد کرنے کی دیانت دارانہ سعی کا نام ہے جبکہ عقیدت کسی فرد، مقام یا معاملے سے بلاجواز والہانہ بلکہ مجنونانہ وابستگی سے عبارت ہوتی ہے چونکہ عقیدت احترام سے فروتر ہوتی ہے اس لیے وہ بیشتر اوقات عقیدے یا ایمان کی اصل ہئیت کو مسخ کرنے کا موجب بن جایا کرتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے کسی کو یہ کہتے سنا ہے کہ اسے اللہ تعالٰی سے عقیدت ہے یا کسی ملک میں توہین الٰہی سے متعلق کوئی قانون ہے؟ نہیں ناں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ سے پیار کیا جا سکتا ہے، لو لگائی جا سکتی ہے، احترام و تعظیم پیار کا جزو ہوتے ہیں مگر عقیدت کوئی بہت ہی دنیاوی قسم کی سی شے ہے۔ میں نے اس دور میں بھی جب میں باقاعدہ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کا رکن تھا، ماسکو سے عقیدت روا نہیں رکھی تھی چہ جائیکہ کسی شہر کا احترام کرنے کی بدعت کا مرتکب ہوتا۔
لیکن اب میں اس شہر کا احترام کروں گا کیونکہ مجھے اس شہر سے ہی مدینہ منورہ اور وہاں سے مکہ مکرمہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی ، جس کے بارے میں میں نے سوچا تک نہیں تھا۔ یوں میرے لیے یہ بدعت “نعمت البدعۃ” یعنی اچھی بدعت ہوگی۔ ایمان کی ضرورت اور اہمیت بھی مجھ پر ادھیڑ عمری میں اسی شہر میں منکشف ہوئی تھی۔ میں نے کچی عمر میں ہی آباء کے مذہب کو بقول وراثت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 9 مئی 1999 کو پیش آنے والے ایک حادثے کے بعد میری چولیں جو مقام سے ہٹی ہوئی تھیں بتدریج اپنے درست مقام پہ واپس آنا شروع ہو گئی تھیں جبکہ میرے سابق ہم خیال لوگوں کے مطابق میری چولیں پہلے درست مقام پر تھیں اور اب ہلنا شروع ہو گئی ہیں۔ بہر حال ایک یکسر تبدیلی کا عمل جاری ہے، سفر حج بھی اسی تبدیلی کا حصہ تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
ماسکو سے مکہ: ایک جدید مسلمان کا سفر حج | ڈاکٹر مجاہد مرزا
جب تک اللہ راستہ نہ دکھائے تب تک راستہ دکھائی نہیں دے سکتا اور جب تک اللہ کی ہدایت دل میں جگہ نہ پالے تب تک کوئی بھی اس راستے کو اختیار نہیں کر سکتا جو اس نے انسان کے لیے متعین کیا ہوا ہے یعنی صراط المستقیم۔ مگر کیا کریں ہم انسان ہیں ہمارے اختیار کردہ راستے میں ہماری ذات کی غلطیوں کی وجہ سے کجی ہوتی رہتی ہے۔ یقینا” اگر آپ کی مذہب کے ساتھ وابستگی نہیں ہے تو آپ کو اس قسم کی باتیں بوڑھوں یا ملاؤں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کی سی لگیں گی لیکن اگر آپ مذہب سے شیفتگی کی بجائے ایک عقلی تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو یہ باتیں دو جمع دو چار کی طرح سادہ اور سچی لگیں گی۔ میری دعا یہی ہے کہ اللہ سب کو ہدایت کاملہ عنایت فرمائے۔
اصل میں نور حبیب شاہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے چین دکھانے اپنے ساتھ لے جائے گا۔ اس کا ٹیکسٹائل کا کاروبار چین کے ساتھ وابستہ ہے دوسرے وہ مجھے وہاں کے راحت بخش مساج کے بارے میں قائل کر چکا تھا۔ نور حبیب شاہ ایک وزیری پٹھان ہے، جس کے نام کی وجہ سے بشمول میرے اکثر لوگ اسے شاہ جی سمجھتے ہیں۔ مبالغہ آرائی میں یہ صاحب ید طولٰی رکھتے ہیں، اس لیے مساج سے متعلق اس کے ذکر کو میں دس بارہ پہ تقسیم کر دیتا تھا البتہ مجھے چین دیکھنے کا شوق تھا اور ہے تاہم چین ساتھ لے کر جانے کا اس کا وعدہ “سعید خان کی باتیں” ہی رہا۔ گورنمنٹ ہائی سکول علی پور میں کہیں آٹھویں جماعت میں آ کر ایک سیاہ و سپید نوجوان پٹھان ہمارا ہم جماعت ہوا تھا، نام اس کا تھا سعید خان اور قیام اس کا سکول کے ہوسٹل میں تھا۔ باتیں بڑی بناتا تھا۔ جب اس کی کہی باتیں پوری نہ ہو پاتیں اور کوئی اس سے توجیہہ طلب کر لیتا تو وہ کہہ دیا کرتا تھا “وہ تو سعید خان کی باتیں تھیں”۔
گذشتہ برس نور حبیب شاہ نے اپنی تاتار اہلیہ کے ہمراہ حج کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کا پاکستانی پاسپورٹ یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا تھا کہ وہ سفر حج اپنے ملک سے ہی کر سکتا ہے۔ اس سال اس نے روسی پاسپورٹ حاصل کر لیا تھا۔ میں نے گرم لوہے پہ چوٹ ماری تھی کہ چین تو نہیں لے گئے اس سال حج تو کرواؤ گے ناں؟ اس نے حامی بھر لی تھی۔ پھر اسے دل کی تکلیف ہو گئی تھی۔ ماسکو کے ڈاکٹروں نے اسے بہت خوفزدہ کر دیا تھا اور اوپن ہارٹ سرجری کی تجویز دی تھی۔ وہ پاکستان چلا گیا تھا۔ آغا خان ہسپتال میں اسے stent چڑھائے گئے تھے، جس کے بعد وہ اپنے شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان استراحت کرنے چلا گیا تھا۔ اگست کے اوخر میں لوٹا تو میں نے اس سے استفسار کیا کہ کیا حج پر جانے کا ارادہ ہے تو اس نے جواب اثبات میں دیا تھا۔ میں نے ماسکو کی تاریخی مسجد، جو ریڈیو صدائے روس کے میرے دفتر کے نزدیک ہی ہے اور جہاں میں نماز ظہر جماعت کے ساتھ پڑھتا ہوں، کے دفتر سے معلوم کیا تو وہاں روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ عمرہ وحج کے سربراہ رشیت حضرت خالیکوو کی معاون آئے نارا نے بتایا کہ نشستیں تو پوری ہو چکی ہیں لیکن اگر رشید حضرت کہہ دیں تو میں آپ کا نام لکھ سکتی ہوں بصورت دیگر میں آپ کا نام آئندہ برس کے حج کے لیے ہی درج کر سکتی ہوں۔ دوسری جانب میری ہم کارخواتین کی چھٹیاں بھی ایام حج کے دوران ہی پہلے سے طے تھیں مطلب یہ کہ حج کے سفر کے راستے میں دوہڑی رکاوٹیں پیدا ہو چکی تھیں۔ میں نے حبیب شاہ کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا اور دفتر والوں پہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں ملازمت ختم ہو جانے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس سفرسعید پہ روانہ ہو جاؤں گا۔