Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
خود کلامی سے اچھی کوئی بات نہیں لیکن اس وقت تک جب کوئی سن نہ لے، کیونکہ دوسرے کی سماعت میں آنے پر بات بگڑ جاتی ہے، ہم کیا بولتے ہیں کون سنتا ہے، اس کا ہمیں کچھ اندازہ ہے اور کچھ نہیں بھی، جیسے ایک بار کسی فاقہ کش شخص نے گھر میں بیٹھے آسمان کی طرف دیکھ کر گلہ کیا کہ کوئی روزگار نہیں کوئی کام نہیں فاقے پڑ گئے، ایسے جینے سے بہتر ہے اٹھالے، کچھ دیر بعد ایک شخص نمودار ہوگیا، اس نے کہا چلو ۔ وہ بولا،کہاں اور تم کون ہو؟
جواب ملا ابھی تم نے خواہش کی، تمھاری دعا قبول ہوگئی، میں موت کا فرشتہ ہوں۔ تمھیں لینے آیا ہوں۔ اس آدمی نے پھر اوپر دیکھا اور بولا، میرے مولا،اب بندہ خود سے بات بھی نہیں کرسکتا”۔
ہماری بول چال اکثر ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہے، جس میں ہنسی مزاح، گپ شپ اور تھوڑا سا لاف زنی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے، یہ ضرور ہے کبھی کبھی سادگی میں زبان سے سچ نکل جاتا ہے، اسے بولنا اگرچہ مشکل کام ہے ہاں سرِ راہ آشکار ہو جائے صورتحال کچھ اور ہوجاتی ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا نے ہر بات کو پکڑنا شروع کردیا، ایک اعتبار سے اچھا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی کی پرائیویسی متاثر ہوجاتی ہے، سیاست سے وابستہ لوگ چونکہ میڈیا کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے ان کی کوئی ذاتی حرکت یا بات بھی زیرنظر آجاتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی کئی بار ایسا ہوا کہ خفیہ یا بند کمرے کی باتیں باہر نکلیں تو بڑے انکشاف منظر عام آگئے۔ یہی اس وقت کی بڑی خبر بھی بنتے رہے۔ پاکستان میں میڈیا ابھی آگے کا سفر طے کررہا ہے سماجی رابطے کی ذمہ داریاں لوگوں نے اپنے سر اٹھالی ہیں، ابلاغ کے حوالے سے دیکھا جائے تو کس تک کیا پہنچانا ہے، یہ فیصلہ ایک فرد اپنی سوچ کے مطابق خود ہی کرلیتا ہے۔ اور پھر کوئی بھی بات کسی دوسرے یا زیادہ افراد تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی وائرل صورت یعنی یہ اخذ کرلینا کہ فلاں فوٹیج یا خبر زیادہ لوگ دیکھ اور پڑھ چکے ہیں، اس کا فیصلہ کرکے اسے ٹی وی اور اخبار میں بھی جگہ دے دی جاتی ہے۔
تبدیلی کی ایسی لہر چل نکلی کہ ایک سنجیدہ نعرہ غیرسنجیدگی سے دوبارہ پختہ سوچ کی صورت اختیار کرتا نظر آنے لگا۔ مطلب حکومت کی تبدیلی کے پروگرام حکومت ہی جانے لیکن عام لوگ ایک اور طرح کی تبدیلی کے ماحول میں داخل ہوچکے ہیں۔ اسے انسانی ارتقاء کا حصہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ابلاغ کے نئے طریقے بھی نہ صرف نکالے جارہے ہیں بلکہ حادثاتی طور پر سامنے آرہے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہی ہے بات اور سوچ کی دوسرے تک منتقلی۔
ماضی کے حکمرانوں کی باتیں جنہیں کسی کیمرے میں ریکارڈ نہیں کیا ہوتا تھا وہ بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن جایا کرتی تھیں۔ ہاں ان کی صداقت پر سوالیہ نشان ضرور باقی رہ جاتا تھا۔
یہ سچ یا کبھی کبھار اندر کی بھڑاس، فطری عمل ہے، ہم جس کو بھی مخاطب ہوتے ہیں، اس سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، وہ درست ہوں یا غلط اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے ہاں اتنا ضرور ہے جو کچھ بھی بولا گیا ہوتا ہے، وہ بطور ثبوت کیمرے نے بمعہ تاثرات اور آواز محفوظ کرلیا ہوتا ہے۔ اب اس چیز کو کسی دوسرے تک پہنچانا یا زیادہ لوگوں کو دکھانا کس قدر اخلاقی طور پر درست ہے۔
میڈیا نے سیاستدانوں کی ہر بات نقل وحرکت پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے یہ اس کے فرائض میں شامل ہے، تو کیا پھر سیاستدانوں کو محتاط ہوجانا چاہیے کہ وہ کسی ایسی نشست ملاقات یا تقریب میں زبان کا غیر ضروری استعمال بند کردیں تاکہ انہیں کسی مشکل میں نہ پڑنا پڑے۔ بات سمیٹتے ہیں کہ کیا سرکاری افسر، اہم شخصیات اور مذہبی رہنما بھی اسی احتیاط سے کام لیں۔ زبان پر قابو رکھنے کے درس پر کاربند رہیں۔ سوچیں بے قابو ہوتی ہیں، لب کشائی سے کام بگڑ جاتا ہے۔ صرف اتنا تعین کرلیں کہ کتنا سچ کب اور کہاں بولنا ہے۔ حتیٰ کہ غصہ اور اندر کا غبار کس کے سامنے نکالنا ہے، یہ طے پاجائے تو پھر شرمندگی کے اس مقام سے بچا جاسکتا ہے، جن کا سامنا ان دنوں ہمارے ساستدانوں کو کرنا پڑرہا ہے۔ ورنہ کسی نے خوب کہا ہے سچ بولنا کوئی آسان کام نہیں اس پر نہ صرف قائم رہنا بلکہ اسے پوری طرح بھگتنا پڑتا ہے۔ میڈیا شاید اپنی روش نہ بدلے انہیں خود کو بدلنا ہوگا۔ سچ سوچ سمجھ کر بولنا ہوگا۔ یہ سیاستدانوں کے لیے نہیں ہم سب کیلئے بھی سبق ہے۔ کیونکہ ہماری بھی وڈیو وائرل ہوسکتی ہے۔
سچ کا سبق بچپن میں پڑھایا جاتا ہے مگر نہ جانے دنیا کی پکڑدھکڑ میں کہیں ذہن کے پچھلے خانوں میں پڑے پڑے اس پر دھول جم جاتی ہے، زندگی کی تلخیاں اور برے حالات بعض اوقات انسان کو کسی دکھی لمحے کے دوران پریشانی کے عالم میں ان اندر کے خانوں میں جانے پر مجبور کردیتے ہیں، جہاں خودبخود سچ کے سبق پر پڑی دھول صاف ہوجاتی ہے، بندہ احساس کرلیتا ہے کہ حقیقت کا سامنا کرنے میں ہی اس کی بقاء ہے، یہی اس کا اصل دفاع کرپائے گی، چیزوں کو چھپا چھپا کر اپنا آپ اتنا بگاڑ لیا ہوتا ہے کہ باتوں کے مفہوم تک سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ جسے چیزیں پوشیدہ رکھنے کی عادت پڑ جائے،وہ کھل کر کوئی بات نہیں کرپاتا، سب سے بڑھ کر اپنا اعتماد کھو چکا ہوتا ہے۔
سیاست میں وعدے اور نعرے پہلے اعتماد بناتے ہیں، پھر عمل نہ ہو پانے پر سب کچھ یکدم زمین بوس ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی خبر اور ابلاغ کا معاملہ ہے، درست واقعات، بالکل واضح انداز میں پیش کرنے پر سننے اور پڑھنے والے تک اپنا بھروسا بنا پاتے ہیں، غلط بیانی آئندہ کےلئے اپنی ساکھ کھو بیٹھتی ہے، سوشل میڈیا پر بات چیت اور مکالمے کے دوران بعض اوقات دروغ گوئی کا ایسا سلسلہ چل نکلتا ہے کہ سچ کا گمان ہوتا ہے، ایک کے بعد ایک ایسی اطلاعات آتی ہیں کہ انہیں اکثریت درست تسلیم کرلیتی ہے بلکہ کئی معاملات میں برسوں تک اس کو حقیقت ہی شمار کیا جاتا ہے، ہم کبھی کبھی ذاتی تسکین کی خاطر ایسی بات یا مزاح تخلیق کردیتے ہیں جس کا بظاہر کوئی سرپیر نہیں ہوتا، ہمیں اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے نتائج کس قدر برے آئیں گے۔ اپنی خوشی اپنا فائدہ دیکھتے ہیں ،دوسرے کا نقصان اس کی پریشانی یا تکلیف کبھی نظر نہیں آتی، انسانی نفسیات کا سیدھا سادہ اصول ہے، صاف صاف بات اور سچے جذبات باہمی تعلقات مضبوط بنانے میں راہ ہموار کرتے ہیں۔ ایسا نہ کر پانے کی صورت میں کمزور رشتے اور بداعتمادی کا واسطہ شاید آئے روز ایک دوسرے سے پڑتا رہتا ہے۔
معاشرہ اعتبار کے خسارے، ٹرسٹ ڈیفسٹ، کا بُری طرح شکار ہوچکا ہے، ہماری ساکھ صرف اسی صورت بہتر ہوسکتی ہے کہ جب ہم اپنے وعدے نبھائیں، درست بات درست موقع پر کریں، ایسے دعووں سے گریز کریں جن کا زمینی حقیقت سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ نئی نسل کو اپنے عمل سے اچھے برے میں فرق بتائیں۔ اپنے باہر کے جھوٹ میں چھپے اندر کے سچ کو کہیں سے تلاش کریں۔ اپنا بھروسا بنانا شاید ہمیں کوئی اہم کام نہیں لگتا سچ یہ ہے کہ اسی میں زندگی کا اطمینان اور خوشی بھی پوشیدہ ہے۔ دوسروں کا اعتبار حاصل کرنے والا انسان کتنا مضبوط اور پراعتماد ہوتا ہے،
بزرگوں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں، سب سے پہلے اپنے فرائض پر پوری توجہ دیں، کسی کوتاہی کو حائل نہ ہونے دیں، اس سے اعتماد اور سچ کے سفر کا آغاز ہوگا۔ اپنے اردگرد لوگوں سے رابطے میں انہیں زیادہ سنیں، تھوڑا سوچ کر جواب دیں، ایسے کسی لفظ کے استعمال سے گریز کریں جس کے نتیجے میں دوسرے کا دل دکھے، یا کوئی تلخی کی صورتحال پیدا ہوجائے۔ حتیٰ کہ اپنے مزاح کا بھی تھوڑا جائزہ لیں کچھ ایسا نہ بولیں جس سے کسی کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو۔ کسی کو کمتر سمجھنے سے بھی اعتماد بڑھتا نہیں بلکہ انسان خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔
بس کوشش کرکے اپنے جھوٹ میں چھپے سچ کو ڈھونڈنے کی راہیں ہموار کریں۔
خود کلامی سے اچھی کوئی بات نہیں لیکن اس وقت تک جب کوئی سن نہ لے، کیونکہ دوسرے کی سماعت میں آنے پر بات بگڑ جاتی ہے، ہم کیا بولتے ہیں کون سنتا ہے، اس کا ہمیں کچھ اندازہ ہے اور کچھ نہیں بھی، جیسے ایک بار کسی فاقہ کش شخص نے گھر میں بیٹھے آسمان کی طرف دیکھ کر گلہ کیا کہ کوئی روزگار نہیں کوئی کام نہیں فاقے پڑ گئے، ایسے جینے سے بہتر ہے اٹھالے، کچھ دیر بعد ایک شخص نمودار ہوگیا، اس نے کہا چلو ۔ وہ بولا،کہاں اور تم کون ہو؟
جواب ملا ابھی تم نے خواہش کی، تمھاری دعا قبول ہوگئی، میں موت کا فرشتہ ہوں۔ تمھیں لینے آیا ہوں۔ اس آدمی نے پھر اوپر دیکھا اور بولا، میرے مولا،اب بندہ خود سے بات بھی نہیں کرسکتا”۔
ہماری بول چال اکثر ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہے، جس میں ہنسی مزاح، گپ شپ اور تھوڑا سا لاف زنی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے، یہ ضرور ہے کبھی کبھی سادگی میں زبان سے سچ نکل جاتا ہے، اسے بولنا اگرچہ مشکل کام ہے ہاں سرِ راہ آشکار ہو جائے صورتحال کچھ اور ہوجاتی ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا نے ہر بات کو پکڑنا شروع کردیا، ایک اعتبار سے اچھا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی کی پرائیویسی متاثر ہوجاتی ہے، سیاست سے وابستہ لوگ چونکہ میڈیا کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے ان کی کوئی ذاتی حرکت یا بات بھی زیرنظر آجاتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی کئی بار ایسا ہوا کہ خفیہ یا بند کمرے کی باتیں باہر نکلیں تو بڑے انکشاف منظر عام آگئے۔ یہی اس وقت کی بڑی خبر بھی بنتے رہے۔ پاکستان میں میڈیا ابھی آگے کا سفر طے کررہا ہے سماجی رابطے کی ذمہ داریاں لوگوں نے اپنے سر اٹھالی ہیں، ابلاغ کے حوالے سے دیکھا جائے تو کس تک کیا پہنچانا ہے، یہ فیصلہ ایک فرد اپنی سوچ کے مطابق خود ہی کرلیتا ہے۔ اور پھر کوئی بھی بات کسی دوسرے یا زیادہ افراد تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی وائرل صورت یعنی یہ اخذ کرلینا کہ فلاں فوٹیج یا خبر زیادہ لوگ دیکھ اور پڑھ چکے ہیں، اس کا فیصلہ کرکے اسے ٹی وی اور اخبار میں بھی جگہ دے دی جاتی ہے۔
تبدیلی کی ایسی لہر چل نکلی کہ ایک سنجیدہ نعرہ غیرسنجیدگی سے دوبارہ پختہ سوچ کی صورت اختیار کرتا نظر آنے لگا۔ مطلب حکومت کی تبدیلی کے پروگرام حکومت ہی جانے لیکن عام لوگ ایک اور طرح کی تبدیلی کے ماحول میں داخل ہوچکے ہیں۔ اسے انسانی ارتقاء کا حصہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ابلاغ کے نئے طریقے بھی نہ صرف نکالے جارہے ہیں بلکہ حادثاتی طور پر سامنے آرہے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہی ہے بات اور سوچ کی دوسرے تک منتقلی۔
ماضی کے حکمرانوں کی باتیں جنہیں کسی کیمرے میں ریکارڈ نہیں کیا ہوتا تھا وہ بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن جایا کرتی تھیں۔ ہاں ان کی صداقت پر سوالیہ نشان ضرور باقی رہ جاتا تھا۔
یہ سچ یا کبھی کبھار اندر کی بھڑاس، فطری عمل ہے، ہم جس کو بھی مخاطب ہوتے ہیں، اس سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، وہ درست ہوں یا غلط اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے ہاں اتنا ضرور ہے جو کچھ بھی بولا گیا ہوتا ہے، وہ بطور ثبوت کیمرے نے بمعہ تاثرات اور آواز محفوظ کرلیا ہوتا ہے۔ اب اس چیز کو کسی دوسرے تک پہنچانا یا زیادہ لوگوں کو دکھانا کس قدر اخلاقی طور پر درست ہے۔
میڈیا نے سیاستدانوں کی ہر بات نقل وحرکت پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے یہ اس کے فرائض میں شامل ہے، تو کیا پھر سیاستدانوں کو محتاط ہوجانا چاہیے کہ وہ کسی ایسی نشست ملاقات یا تقریب میں زبان کا غیر ضروری استعمال بند کردیں تاکہ انہیں کسی مشکل میں نہ پڑنا پڑے۔ بات سمیٹتے ہیں کہ کیا سرکاری افسر، اہم شخصیات اور مذہبی رہنما بھی اسی احتیاط سے کام لیں۔ زبان پر قابو رکھنے کے درس پر کاربند رہیں۔ سوچیں بے قابو ہوتی ہیں، لب کشائی سے کام بگڑ جاتا ہے۔ صرف اتنا تعین کرلیں کہ کتنا سچ کب اور کہاں بولنا ہے۔ حتیٰ کہ غصہ اور اندر کا غبار کس کے سامنے نکالنا ہے، یہ طے پاجائے تو پھر شرمندگی کے اس مقام سے بچا جاسکتا ہے، جن کا سامنا ان دنوں ہمارے ساستدانوں کو کرنا پڑرہا ہے۔ ورنہ کسی نے خوب کہا ہے سچ بولنا کوئی آسان کام نہیں اس پر نہ صرف قائم رہنا بلکہ اسے پوری طرح بھگتنا پڑتا ہے۔ میڈیا شاید اپنی روش نہ بدلے انہیں خود کو بدلنا ہوگا۔ سچ سوچ سمجھ کر بولنا ہوگا۔ یہ سیاستدانوں کے لیے نہیں ہم سب کیلئے بھی سبق ہے۔ کیونکہ ہماری بھی وڈیو وائرل ہوسکتی ہے۔
سچ کا سبق بچپن میں پڑھایا جاتا ہے مگر نہ جانے دنیا کی پکڑدھکڑ میں کہیں ذہن کے پچھلے خانوں میں پڑے پڑے اس پر دھول جم جاتی ہے، زندگی کی تلخیاں اور برے حالات بعض اوقات انسان کو کسی دکھی لمحے کے دوران پریشانی کے عالم میں ان اندر کے خانوں میں جانے پر مجبور کردیتے ہیں، جہاں خودبخود سچ کے سبق پر پڑی دھول صاف ہوجاتی ہے، بندہ احساس کرلیتا ہے کہ حقیقت کا سامنا کرنے میں ہی اس کی بقاء ہے، یہی اس کا اصل دفاع کرپائے گی، چیزوں کو چھپا چھپا کر اپنا آپ اتنا بگاڑ لیا ہوتا ہے کہ باتوں کے مفہوم تک سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ جسے چیزیں پوشیدہ رکھنے کی عادت پڑ جائے،وہ کھل کر کوئی بات نہیں کرپاتا، سب سے بڑھ کر اپنا اعتماد کھو چکا ہوتا ہے۔
سیاست میں وعدے اور نعرے پہلے اعتماد بناتے ہیں، پھر عمل نہ ہو پانے پر سب کچھ یکدم زمین بوس ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی خبر اور ابلاغ کا معاملہ ہے، درست واقعات، بالکل واضح انداز میں پیش کرنے پر سننے اور پڑھنے والے تک اپنا بھروسا بنا پاتے ہیں، غلط بیانی آئندہ کےلئے اپنی ساکھ کھو بیٹھتی ہے، سوشل میڈیا پر بات چیت اور مکالمے کے دوران بعض اوقات دروغ گوئی کا ایسا سلسلہ چل نکلتا ہے کہ سچ کا گمان ہوتا ہے، ایک کے بعد ایک ایسی اطلاعات آتی ہیں کہ انہیں اکثریت درست تسلیم کرلیتی ہے بلکہ کئی معاملات میں برسوں تک اس کو حقیقت ہی شمار کیا جاتا ہے، ہم کبھی کبھی ذاتی تسکین کی خاطر ایسی بات یا مزاح تخلیق کردیتے ہیں جس کا بظاہر کوئی سرپیر نہیں ہوتا، ہمیں اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے نتائج کس قدر برے آئیں گے۔ اپنی خوشی اپنا فائدہ دیکھتے ہیں ،دوسرے کا نقصان اس کی پریشانی یا تکلیف کبھی نظر نہیں آتی، انسانی نفسیات کا سیدھا سادہ اصول ہے، صاف صاف بات اور سچے جذبات باہمی تعلقات مضبوط بنانے میں راہ ہموار کرتے ہیں۔ ایسا نہ کر پانے کی صورت میں کمزور رشتے اور بداعتمادی کا واسطہ شاید آئے روز ایک دوسرے سے پڑتا رہتا ہے۔
معاشرہ اعتبار کے خسارے، ٹرسٹ ڈیفسٹ، کا بُری طرح شکار ہوچکا ہے، ہماری ساکھ صرف اسی صورت بہتر ہوسکتی ہے کہ جب ہم اپنے وعدے نبھائیں، درست بات درست موقع پر کریں، ایسے دعووں سے گریز کریں جن کا زمینی حقیقت سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ نئی نسل کو اپنے عمل سے اچھے برے میں فرق بتائیں۔ اپنے باہر کے جھوٹ میں چھپے اندر کے سچ کو کہیں سے تلاش کریں۔ اپنا بھروسا بنانا شاید ہمیں کوئی اہم کام نہیں لگتا سچ یہ ہے کہ اسی میں زندگی کا اطمینان اور خوشی بھی پوشیدہ ہے۔ دوسروں کا اعتبار حاصل کرنے والا انسان کتنا مضبوط اور پراعتماد ہوتا ہے،
بزرگوں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں، سب سے پہلے اپنے فرائض پر پوری توجہ دیں، کسی کوتاہی کو حائل نہ ہونے دیں، اس سے اعتماد اور سچ کے سفر کا آغاز ہوگا۔ اپنے اردگرد لوگوں سے رابطے میں انہیں زیادہ سنیں، تھوڑا سوچ کر جواب دیں، ایسے کسی لفظ کے استعمال سے گریز کریں جس کے نتیجے میں دوسرے کا دل دکھے، یا کوئی تلخی کی صورتحال پیدا ہوجائے۔ حتیٰ کہ اپنے مزاح کا بھی تھوڑا جائزہ لیں کچھ ایسا نہ بولیں جس سے کسی کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو۔ کسی کو کمتر سمجھنے سے بھی اعتماد بڑھتا نہیں بلکہ انسان خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔
بس کوشش کرکے اپنے جھوٹ میں چھپے سچ کو ڈھونڈنے کی راہیں ہموار کریں۔
خود کلامی سے اچھی کوئی بات نہیں لیکن اس وقت تک جب کوئی سن نہ لے، کیونکہ دوسرے کی سماعت میں آنے پر بات بگڑ جاتی ہے، ہم کیا بولتے ہیں کون سنتا ہے، اس کا ہمیں کچھ اندازہ ہے اور کچھ نہیں بھی، جیسے ایک بار کسی فاقہ کش شخص نے گھر میں بیٹھے آسمان کی طرف دیکھ کر گلہ کیا کہ کوئی روزگار نہیں کوئی کام نہیں فاقے پڑ گئے، ایسے جینے سے بہتر ہے اٹھالے، کچھ دیر بعد ایک شخص نمودار ہوگیا، اس نے کہا چلو ۔ وہ بولا،کہاں اور تم کون ہو؟
جواب ملا ابھی تم نے خواہش کی، تمھاری دعا قبول ہوگئی، میں موت کا فرشتہ ہوں۔ تمھیں لینے آیا ہوں۔ اس آدمی نے پھر اوپر دیکھا اور بولا، میرے مولا،اب بندہ خود سے بات بھی نہیں کرسکتا”۔
ہماری بول چال اکثر ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہے، جس میں ہنسی مزاح، گپ شپ اور تھوڑا سا لاف زنی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے، یہ ضرور ہے کبھی کبھی سادگی میں زبان سے سچ نکل جاتا ہے، اسے بولنا اگرچہ مشکل کام ہے ہاں سرِ راہ آشکار ہو جائے صورتحال کچھ اور ہوجاتی ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا نے ہر بات کو پکڑنا شروع کردیا، ایک اعتبار سے اچھا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی کی پرائیویسی متاثر ہوجاتی ہے، سیاست سے وابستہ لوگ چونکہ میڈیا کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے ان کی کوئی ذاتی حرکت یا بات بھی زیرنظر آجاتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی کئی بار ایسا ہوا کہ خفیہ یا بند کمرے کی باتیں باہر نکلیں تو بڑے انکشاف منظر عام آگئے۔ یہی اس وقت کی بڑی خبر بھی بنتے رہے۔ پاکستان میں میڈیا ابھی آگے کا سفر طے کررہا ہے سماجی رابطے کی ذمہ داریاں لوگوں نے اپنے سر اٹھالی ہیں، ابلاغ کے حوالے سے دیکھا جائے تو کس تک کیا پہنچانا ہے، یہ فیصلہ ایک فرد اپنی سوچ کے مطابق خود ہی کرلیتا ہے۔ اور پھر کوئی بھی بات کسی دوسرے یا زیادہ افراد تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی وائرل صورت یعنی یہ اخذ کرلینا کہ فلاں فوٹیج یا خبر زیادہ لوگ دیکھ اور پڑھ چکے ہیں، اس کا فیصلہ کرکے اسے ٹی وی اور اخبار میں بھی جگہ دے دی جاتی ہے۔
تبدیلی کی ایسی لہر چل نکلی کہ ایک سنجیدہ نعرہ غیرسنجیدگی سے دوبارہ پختہ سوچ کی صورت اختیار کرتا نظر آنے لگا۔ مطلب حکومت کی تبدیلی کے پروگرام حکومت ہی جانے لیکن عام لوگ ایک اور طرح کی تبدیلی کے ماحول میں داخل ہوچکے ہیں۔ اسے انسانی ارتقاء کا حصہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ابلاغ کے نئے طریقے بھی نہ صرف نکالے جارہے ہیں بلکہ حادثاتی طور پر سامنے آرہے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہی ہے بات اور سوچ کی دوسرے تک منتقلی۔
ماضی کے حکمرانوں کی باتیں جنہیں کسی کیمرے میں ریکارڈ نہیں کیا ہوتا تھا وہ بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن جایا کرتی تھیں۔ ہاں ان کی صداقت پر سوالیہ نشان ضرور باقی رہ جاتا تھا۔
یہ سچ یا کبھی کبھار اندر کی بھڑاس، فطری عمل ہے، ہم جس کو بھی مخاطب ہوتے ہیں، اس سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، وہ درست ہوں یا غلط اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے ہاں اتنا ضرور ہے جو کچھ بھی بولا گیا ہوتا ہے، وہ بطور ثبوت کیمرے نے بمعہ تاثرات اور آواز محفوظ کرلیا ہوتا ہے۔ اب اس چیز کو کسی دوسرے تک پہنچانا یا زیادہ لوگوں کو دکھانا کس قدر اخلاقی طور پر درست ہے۔
میڈیا نے سیاستدانوں کی ہر بات نقل وحرکت پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے یہ اس کے فرائض میں شامل ہے، تو کیا پھر سیاستدانوں کو محتاط ہوجانا چاہیے کہ وہ کسی ایسی نشست ملاقات یا تقریب میں زبان کا غیر ضروری استعمال بند کردیں تاکہ انہیں کسی مشکل میں نہ پڑنا پڑے۔ بات سمیٹتے ہیں کہ کیا سرکاری افسر، اہم شخصیات اور مذہبی رہنما بھی اسی احتیاط سے کام لیں۔ زبان پر قابو رکھنے کے درس پر کاربند رہیں۔ سوچیں بے قابو ہوتی ہیں، لب کشائی سے کام بگڑ جاتا ہے۔ صرف اتنا تعین کرلیں کہ کتنا سچ کب اور کہاں بولنا ہے۔ حتیٰ کہ غصہ اور اندر کا غبار کس کے سامنے نکالنا ہے، یہ طے پاجائے تو پھر شرمندگی کے اس مقام سے بچا جاسکتا ہے، جن کا سامنا ان دنوں ہمارے ساستدانوں کو کرنا پڑرہا ہے۔ ورنہ کسی نے خوب کہا ہے سچ بولنا کوئی آسان کام نہیں اس پر نہ صرف قائم رہنا بلکہ اسے پوری طرح بھگتنا پڑتا ہے۔ میڈیا شاید اپنی روش نہ بدلے انہیں خود کو بدلنا ہوگا۔ سچ سوچ سمجھ کر بولنا ہوگا۔ یہ سیاستدانوں کے لیے نہیں ہم سب کیلئے بھی سبق ہے۔ کیونکہ ہماری بھی وڈیو وائرل ہوسکتی ہے۔
سچ کا سبق بچپن میں پڑھایا جاتا ہے مگر نہ جانے دنیا کی پکڑدھکڑ میں کہیں ذہن کے پچھلے خانوں میں پڑے پڑے اس پر دھول جم جاتی ہے، زندگی کی تلخیاں اور برے حالات بعض اوقات انسان کو کسی دکھی لمحے کے دوران پریشانی کے عالم میں ان اندر کے خانوں میں جانے پر مجبور کردیتے ہیں، جہاں خودبخود سچ کے سبق پر پڑی دھول صاف ہوجاتی ہے، بندہ احساس کرلیتا ہے کہ حقیقت کا سامنا کرنے میں ہی اس کی بقاء ہے، یہی اس کا اصل دفاع کرپائے گی، چیزوں کو چھپا چھپا کر اپنا آپ اتنا بگاڑ لیا ہوتا ہے کہ باتوں کے مفہوم تک سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ جسے چیزیں پوشیدہ رکھنے کی عادت پڑ جائے،وہ کھل کر کوئی بات نہیں کرپاتا، سب سے بڑھ کر اپنا اعتماد کھو چکا ہوتا ہے۔
سیاست میں وعدے اور نعرے پہلے اعتماد بناتے ہیں، پھر عمل نہ ہو پانے پر سب کچھ یکدم زمین بوس ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی خبر اور ابلاغ کا معاملہ ہے، درست واقعات، بالکل واضح انداز میں پیش کرنے پر سننے اور پڑھنے والے تک اپنا بھروسا بنا پاتے ہیں، غلط بیانی آئندہ کےلئے اپنی ساکھ کھو بیٹھتی ہے، سوشل میڈیا پر بات چیت اور مکالمے کے دوران بعض اوقات دروغ گوئی کا ایسا سلسلہ چل نکلتا ہے کہ سچ کا گمان ہوتا ہے، ایک کے بعد ایک ایسی اطلاعات آتی ہیں کہ انہیں اکثریت درست تسلیم کرلیتی ہے بلکہ کئی معاملات میں برسوں تک اس کو حقیقت ہی شمار کیا جاتا ہے، ہم کبھی کبھی ذاتی تسکین کی خاطر ایسی بات یا مزاح تخلیق کردیتے ہیں جس کا بظاہر کوئی سرپیر نہیں ہوتا، ہمیں اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے نتائج کس قدر برے آئیں گے۔ اپنی خوشی اپنا فائدہ دیکھتے ہیں ،دوسرے کا نقصان اس کی پریشانی یا تکلیف کبھی نظر نہیں آتی، انسانی نفسیات کا سیدھا سادہ اصول ہے، صاف صاف بات اور سچے جذبات باہمی تعلقات مضبوط بنانے میں راہ ہموار کرتے ہیں۔ ایسا نہ کر پانے کی صورت میں کمزور رشتے اور بداعتمادی کا واسطہ شاید آئے روز ایک دوسرے سے پڑتا رہتا ہے۔
معاشرہ اعتبار کے خسارے، ٹرسٹ ڈیفسٹ، کا بُری طرح شکار ہوچکا ہے، ہماری ساکھ صرف اسی صورت بہتر ہوسکتی ہے کہ جب ہم اپنے وعدے نبھائیں، درست بات درست موقع پر کریں، ایسے دعووں سے گریز کریں جن کا زمینی حقیقت سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ نئی نسل کو اپنے عمل سے اچھے برے میں فرق بتائیں۔ اپنے باہر کے جھوٹ میں چھپے اندر کے سچ کو کہیں سے تلاش کریں۔ اپنا بھروسا بنانا شاید ہمیں کوئی اہم کام نہیں لگتا سچ یہ ہے کہ اسی میں زندگی کا اطمینان اور خوشی بھی پوشیدہ ہے۔ دوسروں کا اعتبار حاصل کرنے والا انسان کتنا مضبوط اور پراعتماد ہوتا ہے،
بزرگوں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں، سب سے پہلے اپنے فرائض پر پوری توجہ دیں، کسی کوتاہی کو حائل نہ ہونے دیں، اس سے اعتماد اور سچ کے سفر کا آغاز ہوگا۔ اپنے اردگرد لوگوں سے رابطے میں انہیں زیادہ سنیں، تھوڑا سوچ کر جواب دیں، ایسے کسی لفظ کے استعمال سے گریز کریں جس کے نتیجے میں دوسرے کا دل دکھے، یا کوئی تلخی کی صورتحال پیدا ہوجائے۔ حتیٰ کہ اپنے مزاح کا بھی تھوڑا جائزہ لیں کچھ ایسا نہ بولیں جس سے کسی کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو۔ کسی کو کمتر سمجھنے سے بھی اعتماد بڑھتا نہیں بلکہ انسان خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔
بس کوشش کرکے اپنے جھوٹ میں چھپے سچ کو ڈھونڈنے کی راہیں ہموار کریں۔
خود کلامی سے اچھی کوئی بات نہیں لیکن اس وقت تک جب کوئی سن نہ لے، کیونکہ دوسرے کی سماعت میں آنے پر بات بگڑ جاتی ہے، ہم کیا بولتے ہیں کون سنتا ہے، اس کا ہمیں کچھ اندازہ ہے اور کچھ نہیں بھی، جیسے ایک بار کسی فاقہ کش شخص نے گھر میں بیٹھے آسمان کی طرف دیکھ کر گلہ کیا کہ کوئی روزگار نہیں کوئی کام نہیں فاقے پڑ گئے، ایسے جینے سے بہتر ہے اٹھالے، کچھ دیر بعد ایک شخص نمودار ہوگیا، اس نے کہا چلو ۔ وہ بولا،کہاں اور تم کون ہو؟
جواب ملا ابھی تم نے خواہش کی، تمھاری دعا قبول ہوگئی، میں موت کا فرشتہ ہوں۔ تمھیں لینے آیا ہوں۔ اس آدمی نے پھر اوپر دیکھا اور بولا، میرے مولا،اب بندہ خود سے بات بھی نہیں کرسکتا”۔
ہماری بول چال اکثر ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہے، جس میں ہنسی مزاح، گپ شپ اور تھوڑا سا لاف زنی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے، یہ ضرور ہے کبھی کبھی سادگی میں زبان سے سچ نکل جاتا ہے، اسے بولنا اگرچہ مشکل کام ہے ہاں سرِ راہ آشکار ہو جائے صورتحال کچھ اور ہوجاتی ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا نے ہر بات کو پکڑنا شروع کردیا، ایک اعتبار سے اچھا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی کی پرائیویسی متاثر ہوجاتی ہے، سیاست سے وابستہ لوگ چونکہ میڈیا کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے ان کی کوئی ذاتی حرکت یا بات بھی زیرنظر آجاتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی کئی بار ایسا ہوا کہ خفیہ یا بند کمرے کی باتیں باہر نکلیں تو بڑے انکشاف منظر عام آگئے۔ یہی اس وقت کی بڑی خبر بھی بنتے رہے۔ پاکستان میں میڈیا ابھی آگے کا سفر طے کررہا ہے سماجی رابطے کی ذمہ داریاں لوگوں نے اپنے سر اٹھالی ہیں، ابلاغ کے حوالے سے دیکھا جائے تو کس تک کیا پہنچانا ہے، یہ فیصلہ ایک فرد اپنی سوچ کے مطابق خود ہی کرلیتا ہے۔ اور پھر کوئی بھی بات کسی دوسرے یا زیادہ افراد تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی وائرل صورت یعنی یہ اخذ کرلینا کہ فلاں فوٹیج یا خبر زیادہ لوگ دیکھ اور پڑھ چکے ہیں، اس کا فیصلہ کرکے اسے ٹی وی اور اخبار میں بھی جگہ دے دی جاتی ہے۔
تبدیلی کی ایسی لہر چل نکلی کہ ایک سنجیدہ نعرہ غیرسنجیدگی سے دوبارہ پختہ سوچ کی صورت اختیار کرتا نظر آنے لگا۔ مطلب حکومت کی تبدیلی کے پروگرام حکومت ہی جانے لیکن عام لوگ ایک اور طرح کی تبدیلی کے ماحول میں داخل ہوچکے ہیں۔ اسے انسانی ارتقاء کا حصہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ابلاغ کے نئے طریقے بھی نہ صرف نکالے جارہے ہیں بلکہ حادثاتی طور پر سامنے آرہے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہی ہے بات اور سوچ کی دوسرے تک منتقلی۔
ماضی کے حکمرانوں کی باتیں جنہیں کسی کیمرے میں ریکارڈ نہیں کیا ہوتا تھا وہ بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن جایا کرتی تھیں۔ ہاں ان کی صداقت پر سوالیہ نشان ضرور باقی رہ جاتا تھا۔
یہ سچ یا کبھی کبھار اندر کی بھڑاس، فطری عمل ہے، ہم جس کو بھی مخاطب ہوتے ہیں، اس سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، وہ درست ہوں یا غلط اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے ہاں اتنا ضرور ہے جو کچھ بھی بولا گیا ہوتا ہے، وہ بطور ثبوت کیمرے نے بمعہ تاثرات اور آواز محفوظ کرلیا ہوتا ہے۔ اب اس چیز کو کسی دوسرے تک پہنچانا یا زیادہ لوگوں کو دکھانا کس قدر اخلاقی طور پر درست ہے۔
میڈیا نے سیاستدانوں کی ہر بات نقل وحرکت پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے یہ اس کے فرائض میں شامل ہے، تو کیا پھر سیاستدانوں کو محتاط ہوجانا چاہیے کہ وہ کسی ایسی نشست ملاقات یا تقریب میں زبان کا غیر ضروری استعمال بند کردیں تاکہ انہیں کسی مشکل میں نہ پڑنا پڑے۔ بات سمیٹتے ہیں کہ کیا سرکاری افسر، اہم شخصیات اور مذہبی رہنما بھی اسی احتیاط سے کام لیں۔ زبان پر قابو رکھنے کے درس پر کاربند رہیں۔ سوچیں بے قابو ہوتی ہیں، لب کشائی سے کام بگڑ جاتا ہے۔ صرف اتنا تعین کرلیں کہ کتنا سچ کب اور کہاں بولنا ہے۔ حتیٰ کہ غصہ اور اندر کا غبار کس کے سامنے نکالنا ہے، یہ طے پاجائے تو پھر شرمندگی کے اس مقام سے بچا جاسکتا ہے، جن کا سامنا ان دنوں ہمارے ساستدانوں کو کرنا پڑرہا ہے۔ ورنہ کسی نے خوب کہا ہے سچ بولنا کوئی آسان کام نہیں اس پر نہ صرف قائم رہنا بلکہ اسے پوری طرح بھگتنا پڑتا ہے۔ میڈیا شاید اپنی روش نہ بدلے انہیں خود کو بدلنا ہوگا۔ سچ سوچ سمجھ کر بولنا ہوگا۔ یہ سیاستدانوں کے لیے نہیں ہم سب کیلئے بھی سبق ہے۔ کیونکہ ہماری بھی وڈیو وائرل ہوسکتی ہے۔
سچ کا سبق بچپن میں پڑھایا جاتا ہے مگر نہ جانے دنیا کی پکڑدھکڑ میں کہیں ذہن کے پچھلے خانوں میں پڑے پڑے اس پر دھول جم جاتی ہے، زندگی کی تلخیاں اور برے حالات بعض اوقات انسان کو کسی دکھی لمحے کے دوران پریشانی کے عالم میں ان اندر کے خانوں میں جانے پر مجبور کردیتے ہیں، جہاں خودبخود سچ کے سبق پر پڑی دھول صاف ہوجاتی ہے، بندہ احساس کرلیتا ہے کہ حقیقت کا سامنا کرنے میں ہی اس کی بقاء ہے، یہی اس کا اصل دفاع کرپائے گی، چیزوں کو چھپا چھپا کر اپنا آپ اتنا بگاڑ لیا ہوتا ہے کہ باتوں کے مفہوم تک سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ جسے چیزیں پوشیدہ رکھنے کی عادت پڑ جائے،وہ کھل کر کوئی بات نہیں کرپاتا، سب سے بڑھ کر اپنا اعتماد کھو چکا ہوتا ہے۔
سیاست میں وعدے اور نعرے پہلے اعتماد بناتے ہیں، پھر عمل نہ ہو پانے پر سب کچھ یکدم زمین بوس ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی خبر اور ابلاغ کا معاملہ ہے، درست واقعات، بالکل واضح انداز میں پیش کرنے پر سننے اور پڑھنے والے تک اپنا بھروسا بنا پاتے ہیں، غلط بیانی آئندہ کےلئے اپنی ساکھ کھو بیٹھتی ہے، سوشل میڈیا پر بات چیت اور مکالمے کے دوران بعض اوقات دروغ گوئی کا ایسا سلسلہ چل نکلتا ہے کہ سچ کا گمان ہوتا ہے، ایک کے بعد ایک ایسی اطلاعات آتی ہیں کہ انہیں اکثریت درست تسلیم کرلیتی ہے بلکہ کئی معاملات میں برسوں تک اس کو حقیقت ہی شمار کیا جاتا ہے، ہم کبھی کبھی ذاتی تسکین کی خاطر ایسی بات یا مزاح تخلیق کردیتے ہیں جس کا بظاہر کوئی سرپیر نہیں ہوتا، ہمیں اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے نتائج کس قدر برے آئیں گے۔ اپنی خوشی اپنا فائدہ دیکھتے ہیں ،دوسرے کا نقصان اس کی پریشانی یا تکلیف کبھی نظر نہیں آتی، انسانی نفسیات کا سیدھا سادہ اصول ہے، صاف صاف بات اور سچے جذبات باہمی تعلقات مضبوط بنانے میں راہ ہموار کرتے ہیں۔ ایسا نہ کر پانے کی صورت میں کمزور رشتے اور بداعتمادی کا واسطہ شاید آئے روز ایک دوسرے سے پڑتا رہتا ہے۔
معاشرہ اعتبار کے خسارے، ٹرسٹ ڈیفسٹ، کا بُری طرح شکار ہوچکا ہے، ہماری ساکھ صرف اسی صورت بہتر ہوسکتی ہے کہ جب ہم اپنے وعدے نبھائیں، درست بات درست موقع پر کریں، ایسے دعووں سے گریز کریں جن کا زمینی حقیقت سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ نئی نسل کو اپنے عمل سے اچھے برے میں فرق بتائیں۔ اپنے باہر کے جھوٹ میں چھپے اندر کے سچ کو کہیں سے تلاش کریں۔ اپنا بھروسا بنانا شاید ہمیں کوئی اہم کام نہیں لگتا سچ یہ ہے کہ اسی میں زندگی کا اطمینان اور خوشی بھی پوشیدہ ہے۔ دوسروں کا اعتبار حاصل کرنے والا انسان کتنا مضبوط اور پراعتماد ہوتا ہے،
بزرگوں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں، سب سے پہلے اپنے فرائض پر پوری توجہ دیں، کسی کوتاہی کو حائل نہ ہونے دیں، اس سے اعتماد اور سچ کے سفر کا آغاز ہوگا۔ اپنے اردگرد لوگوں سے رابطے میں انہیں زیادہ سنیں، تھوڑا سوچ کر جواب دیں، ایسے کسی لفظ کے استعمال سے گریز کریں جس کے نتیجے میں دوسرے کا دل دکھے، یا کوئی تلخی کی صورتحال پیدا ہوجائے۔ حتیٰ کہ اپنے مزاح کا بھی تھوڑا جائزہ لیں کچھ ایسا نہ بولیں جس سے کسی کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو۔ کسی کو کمتر سمجھنے سے بھی اعتماد بڑھتا نہیں بلکہ انسان خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔
بس کوشش کرکے اپنے جھوٹ میں چھپے سچ کو ڈھونڈنے کی راہیں ہموار کریں۔