مسیحائی ایک ایسا پیشہ ہے جو انسان سے ایک نوکری سے کچھ زیادہ کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو پیسے کمانے کے ساتھ خدمت خلق کرنے کا جذبہ بھی چاہتا ہے۔اکثر میٹرک میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے والے میڈیکل کے طلبا طالبات سے ایک ہی جملہ سنتے ہیں۔ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کریں گے۔ لیکن ڈاکٹر بن جانے کے بعد بیشتر کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔ وہ اس مقدس پیشے کی اہمیت اور نزاکت سے بے بہرہ نظر آتے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں اور تیمارداروں کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں۔
جبکہ اگر آپ پرائیوٹ ہسپتال کے اسپشلسٹ ڈاکٹر کاایک ہفتہ پہلے اپوائنمنٹ لیکر بھی جائیں تو5 سے 6 گھنٹے کے طویل انتظار کی اذیت جھیلنا ضروری ہے۔ چونکہ موصوف اس دوران جان پہچان والوں کا تفصیلی معائنہ کررہے ہوتے ہیں ۔ اور اگر کاونٹر پر موجود اسٹاف سے انتظار کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے تو آپ کو لگے گا آپ دیواروں سے بات کررہے ہیں وہیں موجود اسٹاف یا تو آپ کو مکمل نظرانداز کرکے اپنے کام میں مصروف رہے گا یا انکا دل جواب دینے کا کیا تو صرف اتنا ہی جواب دیتے ہیں پتہ نہیں اب حال یہ ہے سرکاری ہو یا نجی ہسپتال دھکے کھائے بغیر علاج ممکن نہیں
دور حاضر میں ایسے ڈاکٹرز کی اولین ترجیح اپنا کلینک بنانا ہے۔کلینک میں ڈاکٹر کی ٹائمنگ کے ساتھ انکی فیس بھی علاقے کی مناسبت سےلکھی ہوتی ہے۔اگر کلینک نارتھ کراچی میں ہے تو فیس 600۔اور اگر کلینک ناظم آباد میں ہے تو فیس 800 ہوگی۔ کلینک کے دوران اگر آپ نے مریض کو بغیر ٹوکن کے ارجنٹ دیکھانا ہے تو فیس 1500 ہوگی۔ مریض کو مہنگے ٹیسٹ لکھ کر دینے کے ساتھ ان لیبارٹریز سے ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی جائے گی جو انہیں کمیشن دیتا ہے۔ اور ایسے ہی مریض کو دوائیاں بھی صرف وہ لکھ کر دی جاتی ہیں جو فارما کمپنی انہیں مہنگے تحفوں سے نوازتی ہے۔ مثلا گاڑی کے ٹائر۔ گھر کا فریج ۔اے سی ۔ فرنیچر ۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں کی بکنگ اور ملائشیا ۔ سنگاپور کے سیر سپاٹے کےلئے ٹور پیکج وغیرہ۔ پیسے کے علاوہ ساری عیاشیاں جب مفت میں ہی مل رہی ہو تو ڈاکٹر کے اندر انسانیت کی خدمت کا جذبہ اور مسیحا پن مر جاتا ہے۔اس وقت صرف لالچ اور حرص انکو بے حسی کی انتہا پر پہنچا دیتی ہے۔ جن کے لئے آپ صرف نمونہ ہیں۔ تجربات کی غرض آپ پر نت نئے تجربات کرتے ہیں۔ آپ کی زندگی۔ تڑپ۔ تکلیف اور آپ سے جڑے لوگوں کے احساسات اور دکھ انکے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
سرکاری ہسپتالوں ایسی کالی بھیڑوں کے باعث مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ 9 بجے ڈاکٹر تشریف لاتے ہیں سب سے پہلے آکر ناشتہ اور چائے کا لطف اٹھاتے ہیں پھر اگر فرائض کی ادائیگی کا دل چاہا تو مجبوری میں وارڈ کا ایک آدھ چکر لگا لیتے ہیں۔ لیکن اس دوران وارڈ کو بلکل خالی کردیا جاتاہے صرف مریض ہوتے ہیں۔ مریض کا اگر کوئی اپنا ڈاکٹر سے بات کرنے کی جسارت کرنے کے لئے رک بھی جائے تو اسے مریض کی حالت سے مطمئین کرنے کے بجائے بے عزت کرکے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ سارے کام انٹرن شپ پر آئے لڑکے لڑکیوں سے لیے جارہے ہوتے ہیں۔ انہیں سکھانے کے لئے مریض کو بکرا بنادیا جاتا ہے۔ یہ ناتجربہ کار ڈاکٹر مریض کو حال سے بے حال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
اکثر بیشتر میڈیا پر دیکھا جاتاہے کہ فلاں ہسپتال پر مریض کے رشتے داروں نے دھاوا بول دیا۔ ڈاکٹر اور اسٹاف کی خوب پٹائی کی۔ ہسپتال کی میں توڑ پھوڑ کی۔ڈاکٹرز اور ہسپتال عملے کی بے حسی اور غفلت مریض کے رشتے داروں کو اس طرزعمل پر اکساتے ہیں
کہتے ہیں ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے ۔ بلکل ایسے ہی ان چند کالی بھیڑوں کی وجہ لوگ اس مقدس پیشے سے اتنے بد ذہن ہوگئے ہیں کہ کورونا جیسی خطرناک وبا کے حوالے سے ڈاکٹر سے زیادہ افواہوں ۔ غلط معلومات جھوٹی خبروں پر یقین کرتے ہیں
اس صورتحال میں اپنے پیشے سے مخلص اور انسانیت کا درد سمجھنے والے ڈاکٹرز, نرسوں اور بیشمار میڈیکل سٹاف کو ایک طرف کورونا جیسی خطرناک وبا کا چیلنج ہے تو دوسری طرف لوگوں کے ایسے رویوں کا۔
کوئی سمجھتا ہے کورونا بین الاقوامی طاقتوں کی سازش ہے جسکے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ جس میں ڈاکٹر حضرات ملوث ہیں۔ جو عام انسان کو بھی کورونا کا مریض بناتے ہیں۔ بلکہ زہر کا انجیکشن لگا کر باہر ممالک سے پیسے بٹور رہے ہیں ۔
تو کوئی کہتا ہے کورونا وائرس اتنا ہے نہیں جتنا بڑھا چڑھا کر بتایا جارہا ہے۔
کرپٹ ڈاکٹرز ایسی مافیا بن چکی ہے ۔ جسے لگام ڈالنے کی کوشش بھی کی جائے تو یہ کام بند کرکے سڑکوں پر آبیٹھتے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریض تڑپے یا مرے اسکی پرواہ کسی کو نہیں انہیں صرف اپنے مطالبات پورے ہونے سے مطلب ہوتا ہے۔
حکومت پاکستان کو اس پیشے کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں کو قابو کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہسپتالوں کے لئے قوانین بنائیں جائیں۔ ہسپتال سے منسلک لیبارٹریز کے ٹیسٹ کی پابندی یاں ختم کی جائے ۔ میڈیکل طالب علموں یا انٹرنیز اپنے سینئر کے زیر نگرانی مریض کو چیک کریں ڈاکٹروں کے رویوں ان کے کام کاج کے طریقوں کا معیار چیک ہونا چاہیئے ۔ مریضوں کو تڑپتا چھوڑ شغل یا فون میں مصروف رہنے والے ڈاکٹرز کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ محلوں میں کلینک چلانے والے ڈاکٹرز کی جانچ پڑتال ہونا چاہیئے۔ ماہر اور قابل ڈاکٹرز تک مریضوں کی رسائی آسان بنائی جائے۔ لوگوں کو معیاری میڈیکل سہولت فراہم کیا جائے جو انکا بنیادی حق ہے۔ ایسے قوانین سے عام آدمی کا ڈاکٹر وں پر اعتماد بحال ہوگا۔