Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اقبال نظرکی زیرِ ادارت ادبی جریدے ”کولاژ“ کاشمارہ نمبر گیارہ حال ہی میں شائع ہواہے۔”کولاژ“ نے بہت کم وقت میں ادبی حلقوں میں اپنا معیاراوراعتبار قائم کردیاہے۔کراچی حالیہ برسوں میں اردوادبی جرائد کامرکزبن گیاہے۔اجمل کمال تین عشروں سے”آج“ کے ذریعے دنیاکی تمام زبانوں میں شائع ہونے والے ناولوں سے اردوقارئین کومتعارف کرارہے ہیں۔”آج“ کے ایک سودس شمارے شائع ہو چکے ہیں اورآئندہ ماہ کروناوباکے دوران اس کے چارشمارے ایک ساتھ منظرعام پرآرہے ہیں۔
آصف فرخی نے ”دنیازاد“ میں ملکی اور غیرملکی تازہ ترین ادب شائع کیا،لیکن اچانک موت نے مایہ نازافسانہ نگار،مترجم ہم سے چھین لیا۔مبین مرزاکے”مکالمہ “ کا گولڈن جوبلی نمبر ”ناول نمبر“ کی شکل میں شائع ہونے والاہے۔مرحوم احسن سلیم کے ”اجرا“ کوخورشیداقبال بہت عمدگی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اجر ا”مشتاق احمدیوسفی نمبر“ کے دو ایڈیشن شائع ہونے کے باوجوداس کی مانگ ختم نہیں ہوئی۔پرچے کاتازہ شمارہ منفردادیب اورمدیرسب رنگ کے بارے میں ”شکیل عادل زادہ نمبر“ ہے۔ضیا الرحمٰن ضیا”ادبی ڈائجسٹ“ شائع کررہے ہیں۔
حجاب عباسی ”ادب عالیہ “ نکال رہی ہیں۔جس کاگذشتہ شمارہ دوجلدوں پرمبنی ”نظم نمبر“تھا۔اس کے علاوہ ارتقا“،”زیست“،”رنگ ِ ادب“ اورکئی اورادبی جرائد بھی کراچی سے نکل رہے ہیں۔انہیں جرائدکے ساتھ مدیر اقبال نظرکے ”کولاژ“ نے پہلے ہی شمارے سے اپنی پہچان بنالی ۔خصوصاً ”کولاژ“ کاپانچواں شمارہ بے حدمقبول ہوا۔جو بھارت کے عالمی شہرت یافتہ شاعر،افسانہ نگار،فلم ساز،ہدایت کار،منظرنامہ نگارسمپورن سنگھ عرف گلزارکے حوالے سے خصوصی شمارہ تھا۔اس نمبرکو بک کارنرجہلم نے کتابی صورت میں بھی شائع کیا۔یہ پاکستان سے شائع ہونے والاگلزارپرواحد خاص شمارہ ہے۔جس نے دنیابھر میں ”کولاژ “کی پہچان بنائی۔
اقبال نظراردوکے نامورغزل گوشاعرنظرامروہوی کے صاحبزادے ہیں۔اس خانوادے کے بارے میں بجاطور پرکہاجاسکتاہے۔”ایں خانہ ہمہ آفتاب است“۔ اقبال نظرعمدہ افسانہ وانشائیہ نگار اورکولاژ جیسے منفرد پرچے کے مدیر ہیں۔ان کے افسانوں کامجموعہ ”کہانیاں محبت والیاں“ بہت مقبول ہوا۔جس کے بارے میں گلزار نے کہاکہ ”سچ تویہ ہے کہ اقبال نظرکوسانس لیتی زندگی کے ہرپہلوسے محبت ہے ۔ذِکرہومحبت کا،اوربھربیاں۔اس کا!“۔کولاژ میں ان کی فکرانگیز تحریر”درویش نامہ “ کاقارئین کوانتظار رہتاہے۔ان تحریروں پرمبنی ان کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔ان کے بھائی انجم ایازملک کے نامور مصور اورمجسمہ ساز ہیں۔کولاژ کی تزئین وآرائش بھی انجم ایازہی کرتے ہیں۔آسٹریلیامیں مقیم تیسرے بھائی جاویدنظرمشہورکرکٹ کوچ ہیں ، ساتھ ہی نظمیں،خاکے اورافسانے بھی لکھتے ہیں۔ان کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔جاویدنظرآسٹریلیامیں کوچہ ثقافت بھی سجاتے ہیں،اوراس طرح خود بھی اپنی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔
”کولاژ“کاتازہ شمارہ حسبِ سابق بہترین مضامین،عمدہ نظم ونثرسے آراستہ ہے۔پرچے کی اشاعت میں تاخیر پرقابوپانے کے لیے اقبال نظرنے ایک باردوشمارے ایک ساتھ شائع کیے تھے۔اس مرتبہ کولاژکی ضخامت دوسوسولہ صفحات تک محدود کرکے تازہ شمارہ جلد لے آئے ہیں۔یہ ایک بہتراقدام ہے۔ جس سے قارئین کوبروقت اوربہترین ادبی موادتاخیرکے بغیرپڑھنے کومل سکے گا،اوریہ امید بھی بندھی ہے کہ اگلے شمارے کی اشاعت میں بھی تاخیر نہیں ہوگی۔
شمارے کاآغازمنفرد لہجے کے شاعرسلیم کوثرکی حمدِ باری تعالیٰ اورنعتِ رسولِ مقبول سے کیاگیاہے۔جن کے دو،دواشعارپیش ہیں۔
بیان کیسے ہو کس میں طاقت ہے میرے اللہ
جو تیری شان اور تیری عظمت ہے میرے اللہ
کتابِ عالم کے ہر ورق پر لکھا محمدﷺ
یہ خوش نویسی تری کتابت ہے میرے اللہ
اُڑے گی خاک مری ایک دن مدینے میں
یہی یقین تو شامل ہے میرے جینے میں
گلے ملا تھا جو اک شخص سے مدینے میں
مہک جو ہو گئی شامل میرے پسینے میں
خصوصی مطالعہ کے تحت اس شمارے کاخاص مضمون باصرسلطان کاظمی کی ”نَےِ ناشنیدہ ءغالب، اورناصرکاظمی“ ہے۔جس کاتعارف غالب کے مصرعے میں تحریف کرتے ہوئے اقبال نظرنے ”غالب ِ خستہ کے بغیر ’سارے ‘کام بند ہیں“ کے عنوان سے کرایاہے۔” محبی باصرسلطان کاظمی عالمی اردو کانفر نس میں کراچی تشریف لائے تواُس بات کاانکشاف ہواکہ ان کے پاس اپنے والد ناصر کاظمی کے مختلف شعراءکرام پرانتخاب کردہ اشعارکا ایک سرمایہ ءگراں مایہ موجود ہے۔یہ تومعلوم نہیں ہوسکاکہ ناصر صاحب نے اُن منتخب اشعارکے ضمن میں کوئی مضمون بھی تحریر کیاہے یا نہیں ، لیکن میرے لیے یہی شافی وکافی تھاکہ ناصر صاحب کے انتخاب کردہ اشعارباصرصاحب کے حوالے سے میری دسترس میں آجائیں اور میں انہیں بااہتمام کولاژ کاحصہ بناسکوں۔
غالب صدی کے حوالے سے باصرسلطان کاظمی نے بہترجانا کے سب سے پہلے غالب کے چنیدہ اشعارکوناصر صاحب نے منتخب کیے تھے،اپنے مضمون کاحصہ بنائیں۔ کام وسیع اوروقیع تھا اورانہی دنوں باصرصاحب کوان مصروفیات سے گزرناپڑا جوضروری اورفوری تھیں، وہ پُرخلوص انداز میں نیک نیتی کے ساتھ مجھے یقین دلاتے رہے کہ سارا میٹردویاتین دن میں مکمل ہوجائے گا،انہوں نے ضروری کاموں کوبھی موخرکردیااورمیں توپہلے ہی سارے کام چھوڑے بیٹھاتھا کہ مضمون موصول ہوتومیں اپنے حصے کاکام مکمل کروں،آپ جانیے انتظارکی مصروفیات ساری مصروفیات سے بڑھ کرہوتی ہیں اورپھرجیسے جیسے تاخیرہوتی گئی مجھے یوں لگنے لگا۔غالبِ خستہ کے بغیرسارے کام بند ہیں۔“
بہرحال بصدمشکل اورانتظارکے اقبال نظرکومضمون موصول ہوگیا، اورقارئین کویہ عمدہ مضمون پڑھنے کے لیے میسرآگیا۔باصرسلطان کے مطابق۔ ”پاپاکی وفات کے بعدپہلے دس برس توان کی غیرمطبوعہ غزلوں اورنظموں کے مجموعوں،منظوم ڈراموں اورنثرکی اشاعت میں صرف ہوئے۔اس کے بعد ان کے کاغذات ،ڈائریوں اورکتابوں کے ذخیرے سے ملنے والے متعدد شعراءکے انتخاب شائع ہونے کامرحلہ آیا۔ میر اورنظیرکے انتخاب توانہوں نے الگ الگ کاپیوں میں خوشخط نقل کردیے تھے جبکہ کلیاتِ ولی،انشا،مہتابِ داغ اورگلزارداغ میں اپنے منتخب کردہ اشعار پرنشان لگائے ہوئے تھے۔“ غرض قارئین کے لیے ایسے کئی اورمضامین کی بھی خوش خبری ہے۔
تازہ کولاژ میں افسانوں کاحصہ تقریباً نوے صفحات پرمشتمل ہے۔جس میں سمیع آہوجا،رشیدامجد،طاہراقبال،خالدفتح محمد،مشرف عالم ذوقی ،جتیندربلو،اے خیال اورڈاکٹرشیرشاہ سید جیسے سینئرافسانہ نگاروں کے افسانے اورسیدراشد اشرف کاترجمہ،اسد محمودخان،سعدیہ ،خاورسعید جمالی اورجاویدنظرکی تخلیقات کوبھی جگہ دی گئی ہے۔سینئرتخلیق کاروں پرکوئی تبصرہ توسورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔خاور سعید جمالی نے افسانہ ” پشاورچپل“ میں ایک محنت کش موچی کے کام کی عمدہ تصویرکشی کی ہے۔اس کے کام کوافسانہ نگارہی بعدازمرگ خراجِ تحسین پیش نہیں کرتا،قاری بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتاہے۔جاوید نظرآسٹریلیاسے ”قریہءعشق کے مسافر“ لے کرآئے ہیں۔جس میں تارکین وطن کی مشکلات کوایک نئے زاویے سے پیش کیاہے۔آسٹریلیاجانے کاخواہش مندامجدپیسے کی کمی کی وجہ سے پہلے کوریاجانے پرمجبور ہوتا ہے کہ کچھ رقم کماکرآسٹریلیاجاسکے۔وہاں ایک سالہ قیام میں اسے جومشکلات پیش آتی ہیں ۔وہ اوراس کے ساتھ کام کرنے والی فلپائنی چن ژی کس طرح ایک پاکستانی رحیم خان کی قربانی کی وجہ سے اس جہنم سے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں اورپہلے فلپائن اورپھرآسٹریلیاپہنچ جاتے ہیں۔ تارکین وطن کی ایسی بے شمارکہانیاں ہیں۔جاویدنظران مشکلات کوبخوبی سامنے لائے ہیں۔
حصہ غزل میں دس شعراءکی بیس غزلیں شامل ہیں۔منتخب اشعار:
بچ نہیں سکتی یہ کرنے سے دعاکتنی بھی ہو
ریت کی دیوار چاہے خوش نماکتنی بھی ہو
اب تو منزل پر پہنچ کرہی رکیں گے یہ قدم
ہو تھکن کتنی بھی، آتش زیر پاکتنی بھی ہو (مرتضیٰ برلاس)
خدا توفیق دے جس کو، وہی عزت کماتا ہے
فضا تبدیل کرتاہے ، دلوں میں گھربناتاہے
اُسے فرصت نہیں خود اپنے سائے سے بھی ملنے کی
مگر وہ زندگی بھر دوسروں کے کام آتا ہے (سلیم کوثر)
مضامین میں مسلم شمیم ”اکیسویں صدی۔ادب اورادیب“ لے کرآئے ہیں۔جبکہ جسٹس (ر) حاذق الخیری نے حسن منظرکے تازہ ترین ناول ”اے فلکِ ناانصاف“ پر عمدہ تبصرہ کیاہے۔لکھتے ہیں۔” حکومتوں کاعروج وزوال قدرت کے کارخانے میں ازل سے چلاآرہاہے۔ فرعون تھا،نہ رہا،رومن ایمپائر،اشوکا،چندرگپت موریا،مغلیہ سلطنت سب تاریخ کاحصہ بن چلے ہیں۔جناب حسن منظرنے آخر الذکردورکی ایک بہت ہی اہم اورمتنازع شخصیت کواپنے ناول” اے فلکِ ناانصاف“ کے لیے چُنا ہے جس کی پیدائش سے پہلے جہانگیرنے اپنے بیٹے شاہ جہان سے کہاکہ اب کے تیرے بیٹے بومطیع کانام میں رکھوں گا۔چنانچہ جہانگیرکے حکم کے مطابق اس کانام اورنگ زیب رکھاگیا ۔ جب کہ بوخرم شاہجہان ِ دوراں نے اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کودیکھتے ہوئے اُسے عالمگیرکے خطاب سے نوازا۔اورنگ زیب عالمگیرجس کاذکرناول میں اس کے نسبی نام بومطیع سے کیاگیاہے،کشمیرسے راس کماری تک اورکابل سے لے کرآسام تک حکمران تھا۔خطہ ءارض پراتنے وسیع و عریض علاقے پرکسی کی حکومت نہیں رہی۔“
معروف شاعرفراست رضوی ”زندہ لفظوں کاشاعر۔ سلیم کوثر“میں سلیم کوثرکے فن اورشخصیت پر بہت خوبصورت مضمون تحریرکیاہے۔کینیڈا سے اشفاق حسین صاحب نے ”ہمارے سروربھائی “ میں مرحوم سروربارہ بنکوی کوبھرپور خراجِ تحسین پیش کیاہے۔صحافی اورافسانہ نگار اخلاق احمدمضمون”خالدفتح محمد،کولاژکے آئینے میں“ افسانہ وناول نگارخالد فتح محمدکے فن کی تفسیرکولاژ میں شائع ہونے والے افسانوں کی روشنی میں کی ہے۔جبکہ داؤد کاکڑنے”کنگ خان“ کے نام سے پاکستان کے پہلے سپراسٹاراسکواش لی جنڈ ہاشم خان کا بہترین خاکہ لکھا ہے ۔جس میں عظیم ہاشم خان کے بارے میں کئی نئے انکشافات بھی سامنے آتے ہیں۔ڈاکٹرغلام شبیر رانا اردو کے مشہورناول نگارمرزاہادی رسوا کے ”امراؤ جان ادا“ ایک مطالعہ میں اس کی تفہیم کی ہے۔ آخرمیں مدیرکولاژ کاتحریرکردہ ممتازرفیق کاخاکہ ”سنگ پھینکے ہیں اوروں کی طرف“ ہے ۔جس میں مرحوم ادیب سے اپنے تعلق خاطر کوواضح کیاہے۔رسالہ کا آخری حصہ نظموں پرمشتمل ہے۔جس میں ٹیگورکی نظموں کاگلزار کا کیاترجمہ،علی محمدفرشی،شاہین مفتی،شہزادنیئر،کرامت بخاری اورنسیم نارش کی نظمیں دی گئی ہیں۔غرض ضخامت قدرے کم ہونے پربھی کولاژ کی دلچسپی میں کوئی کمی نہیں۔اوراس کاتازہ شمارہ بھی نظم ونثرکی عمدہ تخلیقات سے مزین ہے۔
اقبال نظرکی زیرِ ادارت ادبی جریدے ”کولاژ“ کاشمارہ نمبر گیارہ حال ہی میں شائع ہواہے۔”کولاژ“ نے بہت کم وقت میں ادبی حلقوں میں اپنا معیاراوراعتبار قائم کردیاہے۔کراچی حالیہ برسوں میں اردوادبی جرائد کامرکزبن گیاہے۔اجمل کمال تین عشروں سے”آج“ کے ذریعے دنیاکی تمام زبانوں میں شائع ہونے والے ناولوں سے اردوقارئین کومتعارف کرارہے ہیں۔”آج“ کے ایک سودس شمارے شائع ہو چکے ہیں اورآئندہ ماہ کروناوباکے دوران اس کے چارشمارے ایک ساتھ منظرعام پرآرہے ہیں۔
آصف فرخی نے ”دنیازاد“ میں ملکی اور غیرملکی تازہ ترین ادب شائع کیا،لیکن اچانک موت نے مایہ نازافسانہ نگار،مترجم ہم سے چھین لیا۔مبین مرزاکے”مکالمہ “ کا گولڈن جوبلی نمبر ”ناول نمبر“ کی شکل میں شائع ہونے والاہے۔مرحوم احسن سلیم کے ”اجرا“ کوخورشیداقبال بہت عمدگی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اجر ا”مشتاق احمدیوسفی نمبر“ کے دو ایڈیشن شائع ہونے کے باوجوداس کی مانگ ختم نہیں ہوئی۔پرچے کاتازہ شمارہ منفردادیب اورمدیرسب رنگ کے بارے میں ”شکیل عادل زادہ نمبر“ ہے۔ضیا الرحمٰن ضیا”ادبی ڈائجسٹ“ شائع کررہے ہیں۔
حجاب عباسی ”ادب عالیہ “ نکال رہی ہیں۔جس کاگذشتہ شمارہ دوجلدوں پرمبنی ”نظم نمبر“تھا۔اس کے علاوہ ارتقا“،”زیست“،”رنگ ِ ادب“ اورکئی اورادبی جرائد بھی کراچی سے نکل رہے ہیں۔انہیں جرائدکے ساتھ مدیر اقبال نظرکے ”کولاژ“ نے پہلے ہی شمارے سے اپنی پہچان بنالی ۔خصوصاً ”کولاژ“ کاپانچواں شمارہ بے حدمقبول ہوا۔جو بھارت کے عالمی شہرت یافتہ شاعر،افسانہ نگار،فلم ساز،ہدایت کار،منظرنامہ نگارسمپورن سنگھ عرف گلزارکے حوالے سے خصوصی شمارہ تھا۔اس نمبرکو بک کارنرجہلم نے کتابی صورت میں بھی شائع کیا۔یہ پاکستان سے شائع ہونے والاگلزارپرواحد خاص شمارہ ہے۔جس نے دنیابھر میں ”کولاژ “کی پہچان بنائی۔
اقبال نظراردوکے نامورغزل گوشاعرنظرامروہوی کے صاحبزادے ہیں۔اس خانوادے کے بارے میں بجاطور پرکہاجاسکتاہے۔”ایں خانہ ہمہ آفتاب است“۔ اقبال نظرعمدہ افسانہ وانشائیہ نگار اورکولاژ جیسے منفرد پرچے کے مدیر ہیں۔ان کے افسانوں کامجموعہ ”کہانیاں محبت والیاں“ بہت مقبول ہوا۔جس کے بارے میں گلزار نے کہاکہ ”سچ تویہ ہے کہ اقبال نظرکوسانس لیتی زندگی کے ہرپہلوسے محبت ہے ۔ذِکرہومحبت کا،اوربھربیاں۔اس کا!“۔کولاژ میں ان کی فکرانگیز تحریر”درویش نامہ “ کاقارئین کوانتظار رہتاہے۔ان تحریروں پرمبنی ان کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔ان کے بھائی انجم ایازملک کے نامور مصور اورمجسمہ ساز ہیں۔کولاژ کی تزئین وآرائش بھی انجم ایازہی کرتے ہیں۔آسٹریلیامیں مقیم تیسرے بھائی جاویدنظرمشہورکرکٹ کوچ ہیں ، ساتھ ہی نظمیں،خاکے اورافسانے بھی لکھتے ہیں۔ان کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔جاویدنظرآسٹریلیامیں کوچہ ثقافت بھی سجاتے ہیں،اوراس طرح خود بھی اپنی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔
”کولاژ“کاتازہ شمارہ حسبِ سابق بہترین مضامین،عمدہ نظم ونثرسے آراستہ ہے۔پرچے کی اشاعت میں تاخیر پرقابوپانے کے لیے اقبال نظرنے ایک باردوشمارے ایک ساتھ شائع کیے تھے۔اس مرتبہ کولاژکی ضخامت دوسوسولہ صفحات تک محدود کرکے تازہ شمارہ جلد لے آئے ہیں۔یہ ایک بہتراقدام ہے۔ جس سے قارئین کوبروقت اوربہترین ادبی موادتاخیرکے بغیرپڑھنے کومل سکے گا،اوریہ امید بھی بندھی ہے کہ اگلے شمارے کی اشاعت میں بھی تاخیر نہیں ہوگی۔
شمارے کاآغازمنفرد لہجے کے شاعرسلیم کوثرکی حمدِ باری تعالیٰ اورنعتِ رسولِ مقبول سے کیاگیاہے۔جن کے دو،دواشعارپیش ہیں۔
بیان کیسے ہو کس میں طاقت ہے میرے اللہ
جو تیری شان اور تیری عظمت ہے میرے اللہ
کتابِ عالم کے ہر ورق پر لکھا محمدﷺ
یہ خوش نویسی تری کتابت ہے میرے اللہ
اُڑے گی خاک مری ایک دن مدینے میں
یہی یقین تو شامل ہے میرے جینے میں
گلے ملا تھا جو اک شخص سے مدینے میں
مہک جو ہو گئی شامل میرے پسینے میں
خصوصی مطالعہ کے تحت اس شمارے کاخاص مضمون باصرسلطان کاظمی کی ”نَےِ ناشنیدہ ءغالب، اورناصرکاظمی“ ہے۔جس کاتعارف غالب کے مصرعے میں تحریف کرتے ہوئے اقبال نظرنے ”غالب ِ خستہ کے بغیر ’سارے ‘کام بند ہیں“ کے عنوان سے کرایاہے۔” محبی باصرسلطان کاظمی عالمی اردو کانفر نس میں کراچی تشریف لائے تواُس بات کاانکشاف ہواکہ ان کے پاس اپنے والد ناصر کاظمی کے مختلف شعراءکرام پرانتخاب کردہ اشعارکا ایک سرمایہ ءگراں مایہ موجود ہے۔یہ تومعلوم نہیں ہوسکاکہ ناصر صاحب نے اُن منتخب اشعارکے ضمن میں کوئی مضمون بھی تحریر کیاہے یا نہیں ، لیکن میرے لیے یہی شافی وکافی تھاکہ ناصر صاحب کے انتخاب کردہ اشعارباصرصاحب کے حوالے سے میری دسترس میں آجائیں اور میں انہیں بااہتمام کولاژ کاحصہ بناسکوں۔
غالب صدی کے حوالے سے باصرسلطان کاظمی نے بہترجانا کے سب سے پہلے غالب کے چنیدہ اشعارکوناصر صاحب نے منتخب کیے تھے،اپنے مضمون کاحصہ بنائیں۔ کام وسیع اوروقیع تھا اورانہی دنوں باصرصاحب کوان مصروفیات سے گزرناپڑا جوضروری اورفوری تھیں، وہ پُرخلوص انداز میں نیک نیتی کے ساتھ مجھے یقین دلاتے رہے کہ سارا میٹردویاتین دن میں مکمل ہوجائے گا،انہوں نے ضروری کاموں کوبھی موخرکردیااورمیں توپہلے ہی سارے کام چھوڑے بیٹھاتھا کہ مضمون موصول ہوتومیں اپنے حصے کاکام مکمل کروں،آپ جانیے انتظارکی مصروفیات ساری مصروفیات سے بڑھ کرہوتی ہیں اورپھرجیسے جیسے تاخیرہوتی گئی مجھے یوں لگنے لگا۔غالبِ خستہ کے بغیرسارے کام بند ہیں۔“
بہرحال بصدمشکل اورانتظارکے اقبال نظرکومضمون موصول ہوگیا، اورقارئین کویہ عمدہ مضمون پڑھنے کے لیے میسرآگیا۔باصرسلطان کے مطابق۔ ”پاپاکی وفات کے بعدپہلے دس برس توان کی غیرمطبوعہ غزلوں اورنظموں کے مجموعوں،منظوم ڈراموں اورنثرکی اشاعت میں صرف ہوئے۔اس کے بعد ان کے کاغذات ،ڈائریوں اورکتابوں کے ذخیرے سے ملنے والے متعدد شعراءکے انتخاب شائع ہونے کامرحلہ آیا۔ میر اورنظیرکے انتخاب توانہوں نے الگ الگ کاپیوں میں خوشخط نقل کردیے تھے جبکہ کلیاتِ ولی،انشا،مہتابِ داغ اورگلزارداغ میں اپنے منتخب کردہ اشعار پرنشان لگائے ہوئے تھے۔“ غرض قارئین کے لیے ایسے کئی اورمضامین کی بھی خوش خبری ہے۔
تازہ کولاژ میں افسانوں کاحصہ تقریباً نوے صفحات پرمشتمل ہے۔جس میں سمیع آہوجا،رشیدامجد،طاہراقبال،خالدفتح محمد،مشرف عالم ذوقی ،جتیندربلو،اے خیال اورڈاکٹرشیرشاہ سید جیسے سینئرافسانہ نگاروں کے افسانے اورسیدراشد اشرف کاترجمہ،اسد محمودخان،سعدیہ ،خاورسعید جمالی اورجاویدنظرکی تخلیقات کوبھی جگہ دی گئی ہے۔سینئرتخلیق کاروں پرکوئی تبصرہ توسورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔خاور سعید جمالی نے افسانہ ” پشاورچپل“ میں ایک محنت کش موچی کے کام کی عمدہ تصویرکشی کی ہے۔اس کے کام کوافسانہ نگارہی بعدازمرگ خراجِ تحسین پیش نہیں کرتا،قاری بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتاہے۔جاوید نظرآسٹریلیاسے ”قریہءعشق کے مسافر“ لے کرآئے ہیں۔جس میں تارکین وطن کی مشکلات کوایک نئے زاویے سے پیش کیاہے۔آسٹریلیاجانے کاخواہش مندامجدپیسے کی کمی کی وجہ سے پہلے کوریاجانے پرمجبور ہوتا ہے کہ کچھ رقم کماکرآسٹریلیاجاسکے۔وہاں ایک سالہ قیام میں اسے جومشکلات پیش آتی ہیں ۔وہ اوراس کے ساتھ کام کرنے والی فلپائنی چن ژی کس طرح ایک پاکستانی رحیم خان کی قربانی کی وجہ سے اس جہنم سے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں اورپہلے فلپائن اورپھرآسٹریلیاپہنچ جاتے ہیں۔ تارکین وطن کی ایسی بے شمارکہانیاں ہیں۔جاویدنظران مشکلات کوبخوبی سامنے لائے ہیں۔
حصہ غزل میں دس شعراءکی بیس غزلیں شامل ہیں۔منتخب اشعار:
بچ نہیں سکتی یہ کرنے سے دعاکتنی بھی ہو
ریت کی دیوار چاہے خوش نماکتنی بھی ہو
اب تو منزل پر پہنچ کرہی رکیں گے یہ قدم
ہو تھکن کتنی بھی، آتش زیر پاکتنی بھی ہو (مرتضیٰ برلاس)
خدا توفیق دے جس کو، وہی عزت کماتا ہے
فضا تبدیل کرتاہے ، دلوں میں گھربناتاہے
اُسے فرصت نہیں خود اپنے سائے سے بھی ملنے کی
مگر وہ زندگی بھر دوسروں کے کام آتا ہے (سلیم کوثر)
مضامین میں مسلم شمیم ”اکیسویں صدی۔ادب اورادیب“ لے کرآئے ہیں۔جبکہ جسٹس (ر) حاذق الخیری نے حسن منظرکے تازہ ترین ناول ”اے فلکِ ناانصاف“ پر عمدہ تبصرہ کیاہے۔لکھتے ہیں۔” حکومتوں کاعروج وزوال قدرت کے کارخانے میں ازل سے چلاآرہاہے۔ فرعون تھا،نہ رہا،رومن ایمپائر،اشوکا،چندرگپت موریا،مغلیہ سلطنت سب تاریخ کاحصہ بن چلے ہیں۔جناب حسن منظرنے آخر الذکردورکی ایک بہت ہی اہم اورمتنازع شخصیت کواپنے ناول” اے فلکِ ناانصاف“ کے لیے چُنا ہے جس کی پیدائش سے پہلے جہانگیرنے اپنے بیٹے شاہ جہان سے کہاکہ اب کے تیرے بیٹے بومطیع کانام میں رکھوں گا۔چنانچہ جہانگیرکے حکم کے مطابق اس کانام اورنگ زیب رکھاگیا ۔ جب کہ بوخرم شاہجہان ِ دوراں نے اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کودیکھتے ہوئے اُسے عالمگیرکے خطاب سے نوازا۔اورنگ زیب عالمگیرجس کاذکرناول میں اس کے نسبی نام بومطیع سے کیاگیاہے،کشمیرسے راس کماری تک اورکابل سے لے کرآسام تک حکمران تھا۔خطہ ءارض پراتنے وسیع و عریض علاقے پرکسی کی حکومت نہیں رہی۔“
معروف شاعرفراست رضوی ”زندہ لفظوں کاشاعر۔ سلیم کوثر“میں سلیم کوثرکے فن اورشخصیت پر بہت خوبصورت مضمون تحریرکیاہے۔کینیڈا سے اشفاق حسین صاحب نے ”ہمارے سروربھائی “ میں مرحوم سروربارہ بنکوی کوبھرپور خراجِ تحسین پیش کیاہے۔صحافی اورافسانہ نگار اخلاق احمدمضمون”خالدفتح محمد،کولاژکے آئینے میں“ افسانہ وناول نگارخالد فتح محمدکے فن کی تفسیرکولاژ میں شائع ہونے والے افسانوں کی روشنی میں کی ہے۔جبکہ داؤد کاکڑنے”کنگ خان“ کے نام سے پاکستان کے پہلے سپراسٹاراسکواش لی جنڈ ہاشم خان کا بہترین خاکہ لکھا ہے ۔جس میں عظیم ہاشم خان کے بارے میں کئی نئے انکشافات بھی سامنے آتے ہیں۔ڈاکٹرغلام شبیر رانا اردو کے مشہورناول نگارمرزاہادی رسوا کے ”امراؤ جان ادا“ ایک مطالعہ میں اس کی تفہیم کی ہے۔ آخرمیں مدیرکولاژ کاتحریرکردہ ممتازرفیق کاخاکہ ”سنگ پھینکے ہیں اوروں کی طرف“ ہے ۔جس میں مرحوم ادیب سے اپنے تعلق خاطر کوواضح کیاہے۔رسالہ کا آخری حصہ نظموں پرمشتمل ہے۔جس میں ٹیگورکی نظموں کاگلزار کا کیاترجمہ،علی محمدفرشی،شاہین مفتی،شہزادنیئر،کرامت بخاری اورنسیم نارش کی نظمیں دی گئی ہیں۔غرض ضخامت قدرے کم ہونے پربھی کولاژ کی دلچسپی میں کوئی کمی نہیں۔اوراس کاتازہ شمارہ بھی نظم ونثرکی عمدہ تخلیقات سے مزین ہے۔
اقبال نظرکی زیرِ ادارت ادبی جریدے ”کولاژ“ کاشمارہ نمبر گیارہ حال ہی میں شائع ہواہے۔”کولاژ“ نے بہت کم وقت میں ادبی حلقوں میں اپنا معیاراوراعتبار قائم کردیاہے۔کراچی حالیہ برسوں میں اردوادبی جرائد کامرکزبن گیاہے۔اجمل کمال تین عشروں سے”آج“ کے ذریعے دنیاکی تمام زبانوں میں شائع ہونے والے ناولوں سے اردوقارئین کومتعارف کرارہے ہیں۔”آج“ کے ایک سودس شمارے شائع ہو چکے ہیں اورآئندہ ماہ کروناوباکے دوران اس کے چارشمارے ایک ساتھ منظرعام پرآرہے ہیں۔
آصف فرخی نے ”دنیازاد“ میں ملکی اور غیرملکی تازہ ترین ادب شائع کیا،لیکن اچانک موت نے مایہ نازافسانہ نگار،مترجم ہم سے چھین لیا۔مبین مرزاکے”مکالمہ “ کا گولڈن جوبلی نمبر ”ناول نمبر“ کی شکل میں شائع ہونے والاہے۔مرحوم احسن سلیم کے ”اجرا“ کوخورشیداقبال بہت عمدگی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اجر ا”مشتاق احمدیوسفی نمبر“ کے دو ایڈیشن شائع ہونے کے باوجوداس کی مانگ ختم نہیں ہوئی۔پرچے کاتازہ شمارہ منفردادیب اورمدیرسب رنگ کے بارے میں ”شکیل عادل زادہ نمبر“ ہے۔ضیا الرحمٰن ضیا”ادبی ڈائجسٹ“ شائع کررہے ہیں۔
حجاب عباسی ”ادب عالیہ “ نکال رہی ہیں۔جس کاگذشتہ شمارہ دوجلدوں پرمبنی ”نظم نمبر“تھا۔اس کے علاوہ ارتقا“،”زیست“،”رنگ ِ ادب“ اورکئی اورادبی جرائد بھی کراچی سے نکل رہے ہیں۔انہیں جرائدکے ساتھ مدیر اقبال نظرکے ”کولاژ“ نے پہلے ہی شمارے سے اپنی پہچان بنالی ۔خصوصاً ”کولاژ“ کاپانچواں شمارہ بے حدمقبول ہوا۔جو بھارت کے عالمی شہرت یافتہ شاعر،افسانہ نگار،فلم ساز،ہدایت کار،منظرنامہ نگارسمپورن سنگھ عرف گلزارکے حوالے سے خصوصی شمارہ تھا۔اس نمبرکو بک کارنرجہلم نے کتابی صورت میں بھی شائع کیا۔یہ پاکستان سے شائع ہونے والاگلزارپرواحد خاص شمارہ ہے۔جس نے دنیابھر میں ”کولاژ “کی پہچان بنائی۔
اقبال نظراردوکے نامورغزل گوشاعرنظرامروہوی کے صاحبزادے ہیں۔اس خانوادے کے بارے میں بجاطور پرکہاجاسکتاہے۔”ایں خانہ ہمہ آفتاب است“۔ اقبال نظرعمدہ افسانہ وانشائیہ نگار اورکولاژ جیسے منفرد پرچے کے مدیر ہیں۔ان کے افسانوں کامجموعہ ”کہانیاں محبت والیاں“ بہت مقبول ہوا۔جس کے بارے میں گلزار نے کہاکہ ”سچ تویہ ہے کہ اقبال نظرکوسانس لیتی زندگی کے ہرپہلوسے محبت ہے ۔ذِکرہومحبت کا،اوربھربیاں۔اس کا!“۔کولاژ میں ان کی فکرانگیز تحریر”درویش نامہ “ کاقارئین کوانتظار رہتاہے۔ان تحریروں پرمبنی ان کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔ان کے بھائی انجم ایازملک کے نامور مصور اورمجسمہ ساز ہیں۔کولاژ کی تزئین وآرائش بھی انجم ایازہی کرتے ہیں۔آسٹریلیامیں مقیم تیسرے بھائی جاویدنظرمشہورکرکٹ کوچ ہیں ، ساتھ ہی نظمیں،خاکے اورافسانے بھی لکھتے ہیں۔ان کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔جاویدنظرآسٹریلیامیں کوچہ ثقافت بھی سجاتے ہیں،اوراس طرح خود بھی اپنی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔
”کولاژ“کاتازہ شمارہ حسبِ سابق بہترین مضامین،عمدہ نظم ونثرسے آراستہ ہے۔پرچے کی اشاعت میں تاخیر پرقابوپانے کے لیے اقبال نظرنے ایک باردوشمارے ایک ساتھ شائع کیے تھے۔اس مرتبہ کولاژکی ضخامت دوسوسولہ صفحات تک محدود کرکے تازہ شمارہ جلد لے آئے ہیں۔یہ ایک بہتراقدام ہے۔ جس سے قارئین کوبروقت اوربہترین ادبی موادتاخیرکے بغیرپڑھنے کومل سکے گا،اوریہ امید بھی بندھی ہے کہ اگلے شمارے کی اشاعت میں بھی تاخیر نہیں ہوگی۔
شمارے کاآغازمنفرد لہجے کے شاعرسلیم کوثرکی حمدِ باری تعالیٰ اورنعتِ رسولِ مقبول سے کیاگیاہے۔جن کے دو،دواشعارپیش ہیں۔
بیان کیسے ہو کس میں طاقت ہے میرے اللہ
جو تیری شان اور تیری عظمت ہے میرے اللہ
کتابِ عالم کے ہر ورق پر لکھا محمدﷺ
یہ خوش نویسی تری کتابت ہے میرے اللہ
اُڑے گی خاک مری ایک دن مدینے میں
یہی یقین تو شامل ہے میرے جینے میں
گلے ملا تھا جو اک شخص سے مدینے میں
مہک جو ہو گئی شامل میرے پسینے میں
خصوصی مطالعہ کے تحت اس شمارے کاخاص مضمون باصرسلطان کاظمی کی ”نَےِ ناشنیدہ ءغالب، اورناصرکاظمی“ ہے۔جس کاتعارف غالب کے مصرعے میں تحریف کرتے ہوئے اقبال نظرنے ”غالب ِ خستہ کے بغیر ’سارے ‘کام بند ہیں“ کے عنوان سے کرایاہے۔” محبی باصرسلطان کاظمی عالمی اردو کانفر نس میں کراچی تشریف لائے تواُس بات کاانکشاف ہواکہ ان کے پاس اپنے والد ناصر کاظمی کے مختلف شعراءکرام پرانتخاب کردہ اشعارکا ایک سرمایہ ءگراں مایہ موجود ہے۔یہ تومعلوم نہیں ہوسکاکہ ناصر صاحب نے اُن منتخب اشعارکے ضمن میں کوئی مضمون بھی تحریر کیاہے یا نہیں ، لیکن میرے لیے یہی شافی وکافی تھاکہ ناصر صاحب کے انتخاب کردہ اشعارباصرصاحب کے حوالے سے میری دسترس میں آجائیں اور میں انہیں بااہتمام کولاژ کاحصہ بناسکوں۔
غالب صدی کے حوالے سے باصرسلطان کاظمی نے بہترجانا کے سب سے پہلے غالب کے چنیدہ اشعارکوناصر صاحب نے منتخب کیے تھے،اپنے مضمون کاحصہ بنائیں۔ کام وسیع اوروقیع تھا اورانہی دنوں باصرصاحب کوان مصروفیات سے گزرناپڑا جوضروری اورفوری تھیں، وہ پُرخلوص انداز میں نیک نیتی کے ساتھ مجھے یقین دلاتے رہے کہ سارا میٹردویاتین دن میں مکمل ہوجائے گا،انہوں نے ضروری کاموں کوبھی موخرکردیااورمیں توپہلے ہی سارے کام چھوڑے بیٹھاتھا کہ مضمون موصول ہوتومیں اپنے حصے کاکام مکمل کروں،آپ جانیے انتظارکی مصروفیات ساری مصروفیات سے بڑھ کرہوتی ہیں اورپھرجیسے جیسے تاخیرہوتی گئی مجھے یوں لگنے لگا۔غالبِ خستہ کے بغیرسارے کام بند ہیں۔“
بہرحال بصدمشکل اورانتظارکے اقبال نظرکومضمون موصول ہوگیا، اورقارئین کویہ عمدہ مضمون پڑھنے کے لیے میسرآگیا۔باصرسلطان کے مطابق۔ ”پاپاکی وفات کے بعدپہلے دس برس توان کی غیرمطبوعہ غزلوں اورنظموں کے مجموعوں،منظوم ڈراموں اورنثرکی اشاعت میں صرف ہوئے۔اس کے بعد ان کے کاغذات ،ڈائریوں اورکتابوں کے ذخیرے سے ملنے والے متعدد شعراءکے انتخاب شائع ہونے کامرحلہ آیا۔ میر اورنظیرکے انتخاب توانہوں نے الگ الگ کاپیوں میں خوشخط نقل کردیے تھے جبکہ کلیاتِ ولی،انشا،مہتابِ داغ اورگلزارداغ میں اپنے منتخب کردہ اشعار پرنشان لگائے ہوئے تھے۔“ غرض قارئین کے لیے ایسے کئی اورمضامین کی بھی خوش خبری ہے۔
تازہ کولاژ میں افسانوں کاحصہ تقریباً نوے صفحات پرمشتمل ہے۔جس میں سمیع آہوجا،رشیدامجد،طاہراقبال،خالدفتح محمد،مشرف عالم ذوقی ،جتیندربلو،اے خیال اورڈاکٹرشیرشاہ سید جیسے سینئرافسانہ نگاروں کے افسانے اورسیدراشد اشرف کاترجمہ،اسد محمودخان،سعدیہ ،خاورسعید جمالی اورجاویدنظرکی تخلیقات کوبھی جگہ دی گئی ہے۔سینئرتخلیق کاروں پرکوئی تبصرہ توسورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔خاور سعید جمالی نے افسانہ ” پشاورچپل“ میں ایک محنت کش موچی کے کام کی عمدہ تصویرکشی کی ہے۔اس کے کام کوافسانہ نگارہی بعدازمرگ خراجِ تحسین پیش نہیں کرتا،قاری بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتاہے۔جاوید نظرآسٹریلیاسے ”قریہءعشق کے مسافر“ لے کرآئے ہیں۔جس میں تارکین وطن کی مشکلات کوایک نئے زاویے سے پیش کیاہے۔آسٹریلیاجانے کاخواہش مندامجدپیسے کی کمی کی وجہ سے پہلے کوریاجانے پرمجبور ہوتا ہے کہ کچھ رقم کماکرآسٹریلیاجاسکے۔وہاں ایک سالہ قیام میں اسے جومشکلات پیش آتی ہیں ۔وہ اوراس کے ساتھ کام کرنے والی فلپائنی چن ژی کس طرح ایک پاکستانی رحیم خان کی قربانی کی وجہ سے اس جہنم سے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں اورپہلے فلپائن اورپھرآسٹریلیاپہنچ جاتے ہیں۔ تارکین وطن کی ایسی بے شمارکہانیاں ہیں۔جاویدنظران مشکلات کوبخوبی سامنے لائے ہیں۔
حصہ غزل میں دس شعراءکی بیس غزلیں شامل ہیں۔منتخب اشعار:
بچ نہیں سکتی یہ کرنے سے دعاکتنی بھی ہو
ریت کی دیوار چاہے خوش نماکتنی بھی ہو
اب تو منزل پر پہنچ کرہی رکیں گے یہ قدم
ہو تھکن کتنی بھی، آتش زیر پاکتنی بھی ہو (مرتضیٰ برلاس)
خدا توفیق دے جس کو، وہی عزت کماتا ہے
فضا تبدیل کرتاہے ، دلوں میں گھربناتاہے
اُسے فرصت نہیں خود اپنے سائے سے بھی ملنے کی
مگر وہ زندگی بھر دوسروں کے کام آتا ہے (سلیم کوثر)
مضامین میں مسلم شمیم ”اکیسویں صدی۔ادب اورادیب“ لے کرآئے ہیں۔جبکہ جسٹس (ر) حاذق الخیری نے حسن منظرکے تازہ ترین ناول ”اے فلکِ ناانصاف“ پر عمدہ تبصرہ کیاہے۔لکھتے ہیں۔” حکومتوں کاعروج وزوال قدرت کے کارخانے میں ازل سے چلاآرہاہے۔ فرعون تھا،نہ رہا،رومن ایمپائر،اشوکا،چندرگپت موریا،مغلیہ سلطنت سب تاریخ کاحصہ بن چلے ہیں۔جناب حسن منظرنے آخر الذکردورکی ایک بہت ہی اہم اورمتنازع شخصیت کواپنے ناول” اے فلکِ ناانصاف“ کے لیے چُنا ہے جس کی پیدائش سے پہلے جہانگیرنے اپنے بیٹے شاہ جہان سے کہاکہ اب کے تیرے بیٹے بومطیع کانام میں رکھوں گا۔چنانچہ جہانگیرکے حکم کے مطابق اس کانام اورنگ زیب رکھاگیا ۔ جب کہ بوخرم شاہجہان ِ دوراں نے اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کودیکھتے ہوئے اُسے عالمگیرکے خطاب سے نوازا۔اورنگ زیب عالمگیرجس کاذکرناول میں اس کے نسبی نام بومطیع سے کیاگیاہے،کشمیرسے راس کماری تک اورکابل سے لے کرآسام تک حکمران تھا۔خطہ ءارض پراتنے وسیع و عریض علاقے پرکسی کی حکومت نہیں رہی۔“
معروف شاعرفراست رضوی ”زندہ لفظوں کاشاعر۔ سلیم کوثر“میں سلیم کوثرکے فن اورشخصیت پر بہت خوبصورت مضمون تحریرکیاہے۔کینیڈا سے اشفاق حسین صاحب نے ”ہمارے سروربھائی “ میں مرحوم سروربارہ بنکوی کوبھرپور خراجِ تحسین پیش کیاہے۔صحافی اورافسانہ نگار اخلاق احمدمضمون”خالدفتح محمد،کولاژکے آئینے میں“ افسانہ وناول نگارخالد فتح محمدکے فن کی تفسیرکولاژ میں شائع ہونے والے افسانوں کی روشنی میں کی ہے۔جبکہ داؤد کاکڑنے”کنگ خان“ کے نام سے پاکستان کے پہلے سپراسٹاراسکواش لی جنڈ ہاشم خان کا بہترین خاکہ لکھا ہے ۔جس میں عظیم ہاشم خان کے بارے میں کئی نئے انکشافات بھی سامنے آتے ہیں۔ڈاکٹرغلام شبیر رانا اردو کے مشہورناول نگارمرزاہادی رسوا کے ”امراؤ جان ادا“ ایک مطالعہ میں اس کی تفہیم کی ہے۔ آخرمیں مدیرکولاژ کاتحریرکردہ ممتازرفیق کاخاکہ ”سنگ پھینکے ہیں اوروں کی طرف“ ہے ۔جس میں مرحوم ادیب سے اپنے تعلق خاطر کوواضح کیاہے۔رسالہ کا آخری حصہ نظموں پرمشتمل ہے۔جس میں ٹیگورکی نظموں کاگلزار کا کیاترجمہ،علی محمدفرشی،شاہین مفتی،شہزادنیئر،کرامت بخاری اورنسیم نارش کی نظمیں دی گئی ہیں۔غرض ضخامت قدرے کم ہونے پربھی کولاژ کی دلچسپی میں کوئی کمی نہیں۔اوراس کاتازہ شمارہ بھی نظم ونثرکی عمدہ تخلیقات سے مزین ہے۔
اقبال نظرکی زیرِ ادارت ادبی جریدے ”کولاژ“ کاشمارہ نمبر گیارہ حال ہی میں شائع ہواہے۔”کولاژ“ نے بہت کم وقت میں ادبی حلقوں میں اپنا معیاراوراعتبار قائم کردیاہے۔کراچی حالیہ برسوں میں اردوادبی جرائد کامرکزبن گیاہے۔اجمل کمال تین عشروں سے”آج“ کے ذریعے دنیاکی تمام زبانوں میں شائع ہونے والے ناولوں سے اردوقارئین کومتعارف کرارہے ہیں۔”آج“ کے ایک سودس شمارے شائع ہو چکے ہیں اورآئندہ ماہ کروناوباکے دوران اس کے چارشمارے ایک ساتھ منظرعام پرآرہے ہیں۔
آصف فرخی نے ”دنیازاد“ میں ملکی اور غیرملکی تازہ ترین ادب شائع کیا،لیکن اچانک موت نے مایہ نازافسانہ نگار،مترجم ہم سے چھین لیا۔مبین مرزاکے”مکالمہ “ کا گولڈن جوبلی نمبر ”ناول نمبر“ کی شکل میں شائع ہونے والاہے۔مرحوم احسن سلیم کے ”اجرا“ کوخورشیداقبال بہت عمدگی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اجر ا”مشتاق احمدیوسفی نمبر“ کے دو ایڈیشن شائع ہونے کے باوجوداس کی مانگ ختم نہیں ہوئی۔پرچے کاتازہ شمارہ منفردادیب اورمدیرسب رنگ کے بارے میں ”شکیل عادل زادہ نمبر“ ہے۔ضیا الرحمٰن ضیا”ادبی ڈائجسٹ“ شائع کررہے ہیں۔
حجاب عباسی ”ادب عالیہ “ نکال رہی ہیں۔جس کاگذشتہ شمارہ دوجلدوں پرمبنی ”نظم نمبر“تھا۔اس کے علاوہ ارتقا“،”زیست“،”رنگ ِ ادب“ اورکئی اورادبی جرائد بھی کراچی سے نکل رہے ہیں۔انہیں جرائدکے ساتھ مدیر اقبال نظرکے ”کولاژ“ نے پہلے ہی شمارے سے اپنی پہچان بنالی ۔خصوصاً ”کولاژ“ کاپانچواں شمارہ بے حدمقبول ہوا۔جو بھارت کے عالمی شہرت یافتہ شاعر،افسانہ نگار،فلم ساز،ہدایت کار،منظرنامہ نگارسمپورن سنگھ عرف گلزارکے حوالے سے خصوصی شمارہ تھا۔اس نمبرکو بک کارنرجہلم نے کتابی صورت میں بھی شائع کیا۔یہ پاکستان سے شائع ہونے والاگلزارپرواحد خاص شمارہ ہے۔جس نے دنیابھر میں ”کولاژ “کی پہچان بنائی۔
اقبال نظراردوکے نامورغزل گوشاعرنظرامروہوی کے صاحبزادے ہیں۔اس خانوادے کے بارے میں بجاطور پرکہاجاسکتاہے۔”ایں خانہ ہمہ آفتاب است“۔ اقبال نظرعمدہ افسانہ وانشائیہ نگار اورکولاژ جیسے منفرد پرچے کے مدیر ہیں۔ان کے افسانوں کامجموعہ ”کہانیاں محبت والیاں“ بہت مقبول ہوا۔جس کے بارے میں گلزار نے کہاکہ ”سچ تویہ ہے کہ اقبال نظرکوسانس لیتی زندگی کے ہرپہلوسے محبت ہے ۔ذِکرہومحبت کا،اوربھربیاں۔اس کا!“۔کولاژ میں ان کی فکرانگیز تحریر”درویش نامہ “ کاقارئین کوانتظار رہتاہے۔ان تحریروں پرمبنی ان کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔ان کے بھائی انجم ایازملک کے نامور مصور اورمجسمہ ساز ہیں۔کولاژ کی تزئین وآرائش بھی انجم ایازہی کرتے ہیں۔آسٹریلیامیں مقیم تیسرے بھائی جاویدنظرمشہورکرکٹ کوچ ہیں ، ساتھ ہی نظمیں،خاکے اورافسانے بھی لکھتے ہیں۔ان کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔جاویدنظرآسٹریلیامیں کوچہ ثقافت بھی سجاتے ہیں،اوراس طرح خود بھی اپنی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔
”کولاژ“کاتازہ شمارہ حسبِ سابق بہترین مضامین،عمدہ نظم ونثرسے آراستہ ہے۔پرچے کی اشاعت میں تاخیر پرقابوپانے کے لیے اقبال نظرنے ایک باردوشمارے ایک ساتھ شائع کیے تھے۔اس مرتبہ کولاژکی ضخامت دوسوسولہ صفحات تک محدود کرکے تازہ شمارہ جلد لے آئے ہیں۔یہ ایک بہتراقدام ہے۔ جس سے قارئین کوبروقت اوربہترین ادبی موادتاخیرکے بغیرپڑھنے کومل سکے گا،اوریہ امید بھی بندھی ہے کہ اگلے شمارے کی اشاعت میں بھی تاخیر نہیں ہوگی۔
شمارے کاآغازمنفرد لہجے کے شاعرسلیم کوثرکی حمدِ باری تعالیٰ اورنعتِ رسولِ مقبول سے کیاگیاہے۔جن کے دو،دواشعارپیش ہیں۔
بیان کیسے ہو کس میں طاقت ہے میرے اللہ
جو تیری شان اور تیری عظمت ہے میرے اللہ
کتابِ عالم کے ہر ورق پر لکھا محمدﷺ
یہ خوش نویسی تری کتابت ہے میرے اللہ
اُڑے گی خاک مری ایک دن مدینے میں
یہی یقین تو شامل ہے میرے جینے میں
گلے ملا تھا جو اک شخص سے مدینے میں
مہک جو ہو گئی شامل میرے پسینے میں
خصوصی مطالعہ کے تحت اس شمارے کاخاص مضمون باصرسلطان کاظمی کی ”نَےِ ناشنیدہ ءغالب، اورناصرکاظمی“ ہے۔جس کاتعارف غالب کے مصرعے میں تحریف کرتے ہوئے اقبال نظرنے ”غالب ِ خستہ کے بغیر ’سارے ‘کام بند ہیں“ کے عنوان سے کرایاہے۔” محبی باصرسلطان کاظمی عالمی اردو کانفر نس میں کراچی تشریف لائے تواُس بات کاانکشاف ہواکہ ان کے پاس اپنے والد ناصر کاظمی کے مختلف شعراءکرام پرانتخاب کردہ اشعارکا ایک سرمایہ ءگراں مایہ موجود ہے۔یہ تومعلوم نہیں ہوسکاکہ ناصر صاحب نے اُن منتخب اشعارکے ضمن میں کوئی مضمون بھی تحریر کیاہے یا نہیں ، لیکن میرے لیے یہی شافی وکافی تھاکہ ناصر صاحب کے انتخاب کردہ اشعارباصرصاحب کے حوالے سے میری دسترس میں آجائیں اور میں انہیں بااہتمام کولاژ کاحصہ بناسکوں۔
غالب صدی کے حوالے سے باصرسلطان کاظمی نے بہترجانا کے سب سے پہلے غالب کے چنیدہ اشعارکوناصر صاحب نے منتخب کیے تھے،اپنے مضمون کاحصہ بنائیں۔ کام وسیع اوروقیع تھا اورانہی دنوں باصرصاحب کوان مصروفیات سے گزرناپڑا جوضروری اورفوری تھیں، وہ پُرخلوص انداز میں نیک نیتی کے ساتھ مجھے یقین دلاتے رہے کہ سارا میٹردویاتین دن میں مکمل ہوجائے گا،انہوں نے ضروری کاموں کوبھی موخرکردیااورمیں توپہلے ہی سارے کام چھوڑے بیٹھاتھا کہ مضمون موصول ہوتومیں اپنے حصے کاکام مکمل کروں،آپ جانیے انتظارکی مصروفیات ساری مصروفیات سے بڑھ کرہوتی ہیں اورپھرجیسے جیسے تاخیرہوتی گئی مجھے یوں لگنے لگا۔غالبِ خستہ کے بغیرسارے کام بند ہیں۔“
بہرحال بصدمشکل اورانتظارکے اقبال نظرکومضمون موصول ہوگیا، اورقارئین کویہ عمدہ مضمون پڑھنے کے لیے میسرآگیا۔باصرسلطان کے مطابق۔ ”پاپاکی وفات کے بعدپہلے دس برس توان کی غیرمطبوعہ غزلوں اورنظموں کے مجموعوں،منظوم ڈراموں اورنثرکی اشاعت میں صرف ہوئے۔اس کے بعد ان کے کاغذات ،ڈائریوں اورکتابوں کے ذخیرے سے ملنے والے متعدد شعراءکے انتخاب شائع ہونے کامرحلہ آیا۔ میر اورنظیرکے انتخاب توانہوں نے الگ الگ کاپیوں میں خوشخط نقل کردیے تھے جبکہ کلیاتِ ولی،انشا،مہتابِ داغ اورگلزارداغ میں اپنے منتخب کردہ اشعار پرنشان لگائے ہوئے تھے۔“ غرض قارئین کے لیے ایسے کئی اورمضامین کی بھی خوش خبری ہے۔
تازہ کولاژ میں افسانوں کاحصہ تقریباً نوے صفحات پرمشتمل ہے۔جس میں سمیع آہوجا،رشیدامجد،طاہراقبال،خالدفتح محمد،مشرف عالم ذوقی ،جتیندربلو،اے خیال اورڈاکٹرشیرشاہ سید جیسے سینئرافسانہ نگاروں کے افسانے اورسیدراشد اشرف کاترجمہ،اسد محمودخان،سعدیہ ،خاورسعید جمالی اورجاویدنظرکی تخلیقات کوبھی جگہ دی گئی ہے۔سینئرتخلیق کاروں پرکوئی تبصرہ توسورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔خاور سعید جمالی نے افسانہ ” پشاورچپل“ میں ایک محنت کش موچی کے کام کی عمدہ تصویرکشی کی ہے۔اس کے کام کوافسانہ نگارہی بعدازمرگ خراجِ تحسین پیش نہیں کرتا،قاری بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتاہے۔جاوید نظرآسٹریلیاسے ”قریہءعشق کے مسافر“ لے کرآئے ہیں۔جس میں تارکین وطن کی مشکلات کوایک نئے زاویے سے پیش کیاہے۔آسٹریلیاجانے کاخواہش مندامجدپیسے کی کمی کی وجہ سے پہلے کوریاجانے پرمجبور ہوتا ہے کہ کچھ رقم کماکرآسٹریلیاجاسکے۔وہاں ایک سالہ قیام میں اسے جومشکلات پیش آتی ہیں ۔وہ اوراس کے ساتھ کام کرنے والی فلپائنی چن ژی کس طرح ایک پاکستانی رحیم خان کی قربانی کی وجہ سے اس جہنم سے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں اورپہلے فلپائن اورپھرآسٹریلیاپہنچ جاتے ہیں۔ تارکین وطن کی ایسی بے شمارکہانیاں ہیں۔جاویدنظران مشکلات کوبخوبی سامنے لائے ہیں۔
حصہ غزل میں دس شعراءکی بیس غزلیں شامل ہیں۔منتخب اشعار:
بچ نہیں سکتی یہ کرنے سے دعاکتنی بھی ہو
ریت کی دیوار چاہے خوش نماکتنی بھی ہو
اب تو منزل پر پہنچ کرہی رکیں گے یہ قدم
ہو تھکن کتنی بھی، آتش زیر پاکتنی بھی ہو (مرتضیٰ برلاس)
خدا توفیق دے جس کو، وہی عزت کماتا ہے
فضا تبدیل کرتاہے ، دلوں میں گھربناتاہے
اُسے فرصت نہیں خود اپنے سائے سے بھی ملنے کی
مگر وہ زندگی بھر دوسروں کے کام آتا ہے (سلیم کوثر)
مضامین میں مسلم شمیم ”اکیسویں صدی۔ادب اورادیب“ لے کرآئے ہیں۔جبکہ جسٹس (ر) حاذق الخیری نے حسن منظرکے تازہ ترین ناول ”اے فلکِ ناانصاف“ پر عمدہ تبصرہ کیاہے۔لکھتے ہیں۔” حکومتوں کاعروج وزوال قدرت کے کارخانے میں ازل سے چلاآرہاہے۔ فرعون تھا،نہ رہا،رومن ایمپائر،اشوکا،چندرگپت موریا،مغلیہ سلطنت سب تاریخ کاحصہ بن چلے ہیں۔جناب حسن منظرنے آخر الذکردورکی ایک بہت ہی اہم اورمتنازع شخصیت کواپنے ناول” اے فلکِ ناانصاف“ کے لیے چُنا ہے جس کی پیدائش سے پہلے جہانگیرنے اپنے بیٹے شاہ جہان سے کہاکہ اب کے تیرے بیٹے بومطیع کانام میں رکھوں گا۔چنانچہ جہانگیرکے حکم کے مطابق اس کانام اورنگ زیب رکھاگیا ۔ جب کہ بوخرم شاہجہان ِ دوراں نے اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کودیکھتے ہوئے اُسے عالمگیرکے خطاب سے نوازا۔اورنگ زیب عالمگیرجس کاذکرناول میں اس کے نسبی نام بومطیع سے کیاگیاہے،کشمیرسے راس کماری تک اورکابل سے لے کرآسام تک حکمران تھا۔خطہ ءارض پراتنے وسیع و عریض علاقے پرکسی کی حکومت نہیں رہی۔“
معروف شاعرفراست رضوی ”زندہ لفظوں کاشاعر۔ سلیم کوثر“میں سلیم کوثرکے فن اورشخصیت پر بہت خوبصورت مضمون تحریرکیاہے۔کینیڈا سے اشفاق حسین صاحب نے ”ہمارے سروربھائی “ میں مرحوم سروربارہ بنکوی کوبھرپور خراجِ تحسین پیش کیاہے۔صحافی اورافسانہ نگار اخلاق احمدمضمون”خالدفتح محمد،کولاژکے آئینے میں“ افسانہ وناول نگارخالد فتح محمدکے فن کی تفسیرکولاژ میں شائع ہونے والے افسانوں کی روشنی میں کی ہے۔جبکہ داؤد کاکڑنے”کنگ خان“ کے نام سے پاکستان کے پہلے سپراسٹاراسکواش لی جنڈ ہاشم خان کا بہترین خاکہ لکھا ہے ۔جس میں عظیم ہاشم خان کے بارے میں کئی نئے انکشافات بھی سامنے آتے ہیں۔ڈاکٹرغلام شبیر رانا اردو کے مشہورناول نگارمرزاہادی رسوا کے ”امراؤ جان ادا“ ایک مطالعہ میں اس کی تفہیم کی ہے۔ آخرمیں مدیرکولاژ کاتحریرکردہ ممتازرفیق کاخاکہ ”سنگ پھینکے ہیں اوروں کی طرف“ ہے ۔جس میں مرحوم ادیب سے اپنے تعلق خاطر کوواضح کیاہے۔رسالہ کا آخری حصہ نظموں پرمشتمل ہے۔جس میں ٹیگورکی نظموں کاگلزار کا کیاترجمہ،علی محمدفرشی،شاہین مفتی،شہزادنیئر،کرامت بخاری اورنسیم نارش کی نظمیں دی گئی ہیں۔غرض ضخامت قدرے کم ہونے پربھی کولاژ کی دلچسپی میں کوئی کمی نہیں۔اوراس کاتازہ شمارہ بھی نظم ونثرکی عمدہ تخلیقات سے مزین ہے۔