آؤ کراچی کے مرنے کا تماشہ دیکھیں۔ یہ شہر کہ جو مشرق کی دلہن کہلاتا تھا، جو دنیا میں عروس البلاد کے نام سے مشہور تھا، جہاں کبھی رات نہی ہوتی تھی آؤ! پاکستانیوں اس کراچی کے مرنے کا تماشہ دیکھیں، جس طرح سے اس شہر کے مرنے کا تماشہ سارا ملک دیکھ رہا ہے اور خوش ہورہا ہے کہ کراچی مررہا ہے، آؤ! کراچی والوں تم بھی اس شہر کو مرتے دیکھو اس شہر کے مرنے کا تماشہ دیکھو۔ یہ شہر جو سارے ملک کو پالنے کا دعویدار ہے۔ جو یہ دعوی کرتاہے کہ وہ سب سے غریب پرور شہر ہے، جو شہر ہر زبان بولنے والے کو روزگار دیتا ہے، جہاں ہر زبان کے بولنے والا ، ہر شہر کا رہنے والا اپنے اور اپنے بچوں کے لئے رزق کماتا ہے، جو سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے جس میں کوئی بھوکا نہیں سوتا، آئیے،اس مرتے ہوئے شہر کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔
جسے بھی دیکھو گزشتہ 30 سال کا رونا روتا ہے۔ ارے 30 سال سے پہلے ان ظالم حکمرانوں نے کراچی کو کونسا نواز دیا تھا، گزشتہ دنوں اخبارات میں 1970 اور 1977 کی بارشوں کی تصاویر شائع ہوئیں اس شہر کا یہی حال تھا، اس وقت بھی نالے ابلتے تھے، گٹر بہتے تھے، کرنٹ لگنے سے لوگ مرتے تھے لیکن اس وقت یہ دولت کا پجاری نوٹنکی میڈیا نہیں ہوتا تھا۔سارے شہر کو لوٹ لیا گیا۔ 30 سال سے تو کراچی والے برباد تھے لیکن 2018ء میں ایک مرتبہ پھر کراچی والوں نے اپنے غلط فیصلہ کو دہرایا لیکن اب کے بار تبدیلی کو اقتدار کا ہما سمجھ لیا گیا۔ ووٹ تو اپنوں کے لئے کے نتیجے میں وسیم اختر جیسا نااہل میئر بن گیا اور تبدیلی کے سرخیل کو وزیراعظم سلیکٹ کرلیا گیا، کراچی والوں نے پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی نے کراچی والوں کو اپنا نہیں سمجھا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ شہر کراچی مرنے کے قریب پہنچ گیا۔
لوگ اصل حقائق کی طرف کیوں نہی آت؟ے اس پر بات کیوں نہیں کرتے، پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کا کراچی سے دارالحکومت تبدیل کرنے کا فیصلہ ایک متعصبانہ فیصلہ تھا۔ ہر ڈکٹیٹر کی طرح وہ عوام کی قوت سے خوفزدہ رہتے تھے اور اس فوجی جنرل کے اس فیصلے کے نتیجے میں کراچی تو برباد ہوا سو ہوا لیکن مشرقی پاکستان بھی ہم سے علیحدہ ہوگیا، مشرقی پاکستان کے ذہین اور جمہوریت پسند عوام نے اپنا راستہ علیحدہ کرلیا۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح جو جنرل ایوب خان اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک غدار تھیں، کا ساتھ دیکر مشرقی پاکستان کے جمہوریت پسندوں نے شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں پاکستان کو متحد رکھنے کے لئے آخری کوشش کی لیکن محترمہ فاطمہ جناح کو ہرادیا گیا، فیصلے تو بیلٹ بکس کے ذریعے نہیں بلکہ بندوق کی نوک پر کئے جارہے تھے اور وہ روایت بقیہ پاکستان میں آج بھی جاری ہے، عدالتوں کے ذریعے منتخب وزراءاعظم کو پھانسی چڑھانا، جلاوطن کرنا، نااہل قرار دینا یہ سب آج بھی جاری ہے، RTS بند کرکے پولنگ بوتھ میں تماشہ کرکے، 55 حلقوں کے رزلٹ روک کر آج بھی عوام کے حقوق کو روندا جارہا ہے اور ہم سب اس تماشے میں شریک ہیں جس طرح اس کراچی کے مرنے میں ہم سب شریک ہیں۔