”ماضی کے جھروکوں سے“راشداشرف کی مرتب کردہ کتاب ہے۔جس میں قیام پاکستان سے قبل اوربعدکے رسائل وجرائدسے نایاب تحریروں کا انتخاب کیاگیاہے۔راشداشرف کی ”زندہ کتابیں“ میں اردوکی نایاب اورگمشدہ کتب کوشاندارانداز میں اورکم قیمت پرشائع کیا جارہا ہے ۔زندہ کتابیں میں زیادہ ترآپ بیتیاں اورشخصی خاکے شائع کیے گئے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ راشداشرف صاحب نے بعض نئی کتب اوردیگرموضوعات پر بھی بہترین کتابیں چھاپی ہیں۔جن میں مظہرمحمودشیرانی مرحوم کے خاکوں کی آخری کتاب”وہ کہاں گئے“شامل ہے۔شکاریات پرپانچ کتابوں میں نے اس موضوع پراُردو میں شائع ہونے والی شاہکارتحریروں کویکجاکردیاگیاہے۔ راشداشرف نے”ماضی کے جھرو کو ں سے“ میں1960ءکی دہائی تک ادبی رسائل وجرائد میں چھپنے والے مضامین کاانتخاب کیاہے۔یہ پرانی اورنایاب تحریریں آج کے قارئین کے لیے انتہائی دلچسپی کاباعث ہیں۔
کتاب کے بارے میں مرتب کاکہناہے ۔”بعض لوگوں کے نزدیک ماضی کی کھوج میں رہنامثبت عمل ہے اوربعضوں کے نزدیک یہ محض تضیع اوقات ٹھہرا۔سچ پوچھئے تورسائل وجرائدمیں ایسے ایسے موتی پنہاں ہیں کہ تلاش شروع کیجئے تویہ فیصلہ کرنا مشکل کہ کسے چھوڑیے اور کسے محفوظ کیجئے ۔پچاس تاسترکی دہائیوں میں ادبی رسائل میں بڑے لوگ لکھاکرتے تھے۔موضوع معمولی ہومگران کاقلم چھوتے ہی اس میں ایک جان پڑ جاتی تھی۔آج بھی موضوعات کی کمی نہیں مگرلکھنے والانہیں رہا۔اردو وسیارہ ڈائجسٹ کامکمل ریکارڈ دیکھ کرتوراقم ورطہءحیرت میں پڑگیا۔ ساٹھ اورسترکی دہائیوں میں ان میں بے شمارایسے مضامین شائع ہوئے کہ جن کی تازگی آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے ۔ زیرِ نظرانتخاب کے آخر میں ”شب گزیدہ “ کے عنوان سے باذوق قارئین کے لیے ایک کہانی خصوصی طور پرشامل کی ہے۔امریکی تاریخ ’کالوں‘ یعنی نیگروز کے ساتھ ہونے والے ہتک آمیزرویوں کے موضوع پریہ ایک حساس اوردل گداز تحریر ہے۔مجھے یقین ہے کہ آپ اس کتاب کوپسند فرمائیں گے۔“
یہ بھی پڑھئے:
کولاژ کا گیارہواں شمارہ | نعیم الرحمٰن
بولتے اوراق ،قاری سے بات کرتی کتاب | نعیم الرحمٰن
نایاب لوگوں کا نایاب تذکرہ| نعیم الرحمٰن
کتاب میں شامل مضامین کے انتخاب میں اس بات کوملحوظ خاطررکھاگیاہے کہ منتخب کردہ تحریریں خشک نہ ہوںمباداپڑھنے والااکتاجائے۔ رسائل وجرائد کے بحرِذخارکوکھنگالناآسان نہیں۔کیسے کیسے آبدارموتی اس کی تہہ میں پوشیدہ ہیں۔مرتب نے ایسے ہی رسائل کی مدد سے ” اُردو کے نادرونایاب شخصی خاکے“ کی دوضخیم جلدیں مرتب کی تھیں۔خودنوشت آپ بیتیوں اوردیگرمتفرق کتب سے ”حیرت کدہ“ اور”دل ہی توہے“ جیسی دلچسپ کتابیں مرتب کیں۔’ماورائے عقل اورمافوق الفطرت واقعات پرمبنی’حیرت کدہ “ کی دوسری جلد بھی زیرِ طبع ہے۔ راشداشرف”ڈائجسٹ کہانیاں “ بھی ترتیب دے رہے ہیں۔جواسی ماہ شائع ہونے والی ہے۔
ڈاکٹر پرویز حیدرنے ”ماضی کے جھروکوں سے“ کے تعارف میں لکھاہے۔” ماضی کوشایدہرشخص کویاد کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔انسانی فطرت ہے کہ گزرے وقت کوضرور یادکرتاہے۔راشداشرف بھائی انجینئرہونے کے ساتھ ساتھ اوربھی بہت کچھ ہیں۔اُن کومعلوم ہے کہ لوگ کیاپڑھناچاہتے ہیں۔اسی انہوں نے پرانی تحریروں کوکھنگال کراُن میں سے بہت موتی ڈھونڈ نکالے اوربہترین ادب ،میگزین اور کتابوں سے دلچسپ مضامین کومنتخب کرکے انہیں ایک کتاب میں اکٹھاکیاہے۔“
کتاب میں 31مضامین شامل ہیں۔جن میں1947ءسے پہلے کے بھی بہت سے مضامین ہیں،جوتاریخی اہمیت کے حامل بھی ہیں۔جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیںاورانتہائی دلچسپ ہیں۔پہلا مضمون”پچاس برس کی یادداشتیں“ ہی انتہائی دلچسپ ہے۔اسی طرح فہمیدہ ریاض کا محمدخالداختر پرتحریرکردہ مضمون نہایت اہم اورنایاب ہے۔ایک بہت اہم مضمون اے حمید صاحب کاہے۔انہوں نے ’جلیانوالہ باغ‘ سانحے پراپنے والد سے انٹرویوکیاتھا۔جوخود اُس واقعے کے عینی شاہد تھے۔داو¿د رہبر نے ماڈل ٹاو¿ن لاہور پربہت عمدہ مضمون لکھاہے۔
کتاب کا پہلا مضمون مسٹرجی ای سی ویکفیلڈکا”پچاس برس کی یادداشتیں“ ہے۔مسٹرویکفیلڈبرصغیرمیں نصف صدی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔اُنہوں نے اپنے دلچسپ مشاہدات اورحیرت انگیز تجربات اپنی کتاب ’یادداشتوں‘ میں قلم بند کیے جن میں شہزادوں اورمہاراجوں کے اَن کہے واقعات بھی سمٹ آئے ہیں۔ایک دلچسپ واقعہ ہے۔”افغان امیرشیرعلی خان ہندوستان کے دورے پرآئے تواباجان نے ایک مقام پراُن کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔رخصت ہوتے وقت امیرنے اُنہیں بلابھیجااورشکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ آپ نے میرے آرام کی خاطراچھے انتظامات کیے۔اباجان نے معروف فارسی محاورے کے مطابق کہہ دیاکہ یہ سب آپ ہی کاہے۔اس پرامیر نے خیمے کے اندرموجود ہرچیزباندھنے کاحکم دیا اوروہ ساری اشیاواقعی افغانستان لے گیاجن میں ایک پیانوبھی شامل تھا۔بعد میں مالیات کے حکام برسوں اباجان کے پیچھے پڑے رہے کہ آپ نے اتنی قیمتی اشیاامیرکومفت پیش کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیاہے۔“
”ایک مرتبہ نقب زنوں کاایک مشہورگروہ گرفتارہوا،جنہوں نے پولیس کی نگرانی میں ہمارے سامنے اپنے فن کے جوہردکھائے۔گروہ میں ایک کم عمرلڑکا بھی شامل تھا جوکچے مکان کی دیوارکے ساتھ رینگ کرکچھ اوپرچڑھااورپھراس نے اپنے کپڑوں میں سے ایک گوہ نکالی جو ڈیڑھ فٹ لمبی ہوتی ہے اورپنجاب کے دیہات میں عام ملتی ہے۔گوہ کی کمرکے ساتھ ایک ریشمی ڈوری بندھی تھی۔لڑکے نے اُسے چھت کی طرف اُچھالااورجب وہ منڈیرپرپہنچ گئی تواس نے ڈوری اپنے ساتھیوں کوتھمادی۔اس دوران گوہ نے اپنے پنجے چھت پرمضبوطی سے گاڑ لیے تھے۔لڑکا ریشمی ڈوری کے سہارے چھت پرچڑھااورپھر اس نے ایک مضبوط رسہ اوپر باندھ کرنیچے لٹکادیا۔پھرایک اورآدمی اوپرپہنچا۔ ان دونوں نے مل کرچھت میں شگاف کیا۔لڑکااس شگاف سے کمرے کے اندراُترگیااورپھراس نے دروازے کھول دیے تاکہ دوسرے ساتھی اندرداخل ہوسکیں۔“
ویکفیلڈ کاطویل مضمون ایسے بے شمارواقعات سے بھراہوااورانتہائی دلچسپ ہے۔مظفرحسین شمیم کا ”موسیقی کاایک یادگارمقابلہ“ان کی کتاب تذکرہ کلکتہ کاایک حصہ اوراپنی جگہ مکمل ہے۔اس کتاب میں مختلف علم وفن سے تعلق رکھنے والے ایسے باکمالوں کاذکرکیاگیاہے جو انیس سوبیس اورتیس کے درمیان کلکتہ میں موجود تھے۔یہ اقتباس دیکھیں۔” موسیقی سے دلچسپی رکھنے والاکون ساایساشخص ہوگاجس نے گوہر جان کلکتہ والی کانام نہ سُناہوگا۔مگرجس نے گوہرکودیکھاوہ اس گوہرسے مختلف تھی جس کی ایک نگاہِ غلط اندازکے منتظربڑے بڑے سیٹھ،ساہو کار اورراجہ مہاراجہ رہاکرتے تھے۔اب گوہرشباب کاسفرطے کرکے بڑھاپے کی منزل میں داخل ہوچکی تھی لیکن اس کے بانکپن میں اب بھی کمی نہ آئی تھی۔اُ س کی بڑی بڑی آنکھیں،سُتواں ناک،کشادہ پیشانی،باریک ابرو،کمرسے نیچے تک لہراتی ہوئی زلفیں،نکھری ہوئی رنگت ، صراحی دارگردن، باریک لب اورشمشادقامتی اب بھی مجھے یاد ہے۔گوہرکی طبیعت میں ایک خاص قسم کی شان پائی جاتی تھی۔اس نے اپنا بنگلہ فری اسکول اسٹریٹ میں ہوبہوگورنمنٹ ہاؤس کے نمونے پربنوایاتھا۔فرق صرف اتناتھاکہ گوہرکابنگلہ گورنمنٹ ہاؤس سے تھوڑا چھوٹا تھا۔بادشاہ انگلستان کے متعلق مشہورتھاکہ وہ سولہ گھوڑوں کی بگھی میں بیٹھ کرنکلتے ہیں ۔گوہرنے اپنے ایک خاص قسم کی نہایت خوبصورت لینڈوگاڑی تیارکرائی تھی جس میں بارہ گھوڑے جوتے جاتے تھے۔ وہ شام کوسولہ سنگھارکرکے اسی لینڈوگاڑی میں سوارہوکرڈلہوزی اسکوائر سے ہوتے ہوئے گورنمنٹ ہاؤس کاچکرکاٹ کرایڈن گارڈن جاتی اوروہاں سے کرزن پارک اورچورنگی ہوتے ہوئے اپنے بنگلے کوواپس ہوتی تھی۔گوہرجان موسیقی کے فن میں صرف جانکی بائی الہٰ آباد والی کواپناحریف سمجھتی اورآگرہ والی ملکہ کوبھی ایک حدتک اہمیت دیتی ورنہ کسی گانے والی کوخاطرمیں نہ لاتی۔گوہرجان اورجانکی بائی ایک محفل میں جمع نہ ہوتی تھیں۔ایک بارکلکتہ کے اہلِ ذوق نے فیصلہ کیاکہ ہولی کے موقعہ پرگوہرجان اورجانکی بائی کوایک محفل میں جمع کیاجائے۔اس مضمون میں اسی مقابلہ موسیقی کادلچسپ ذکرہے جوپڑھنے سے تعلق رکھتاہے۔
شاعرہ اورنثرنگارفہمیدہ ریاض کااردوکے منفرد مزاح نگارمحمدخالداختر پرمضمون بھی خاصے کی چیزہے۔”بہت زمانے کی بات ہے۔ جب میں حیدرآبادکے ایک کالج میں پڑھتی تھی۔میں نے نئی نظمیں لکھنی شروع کردی تھیں جواحمدندیم قاسمی کے ’فنون‘ میں شائع ہورہی تھیںفنون میں ایک شخص کی تحریروں نے مجھے بے حدلبھایا جس کانام میرے لیے آشنانہ تھا۔یہ محمدخالداخترتھے۔بے ڈھب نام کی طرح تحریریں بھی عجیب وغریب تھیں۔اُنہیں کسی صفِ تحریرکے احاطے میں لاناتقریباً ناممکن تھا۔کبھی اُن کالکھاہواکوئی سفرنامہ نظرآتا،کبھی یہ مشاہیرکوخطوط تحریرکرتے،کبھی کتابوں پرتبصرے لکھ ڈالتے۔کبھی کبھارمہینوں میں ان کی کوئی باضابطہ کہانی بھی نظرآجاتی۔ان سب تحریروں میں عجیب بات یہ تھی کہ ان کاسفرنامہ کوئی کہانی معلوم ہوتا،کتابوں پرتبصرے بے حددلچسپ ،انشائیے جیسے لگتے،جبکہ ان کی لکھی ہوئی کہانی کوئی سفرنامہ معلوم ہوتی۔محمدخالداخترجوکچھ بھی لکھتے وہ بالکل ایسانہیں ہوتاتھاجیساکی عموماً لکھاجاتاہے۔تبصرہ تبصرے جیسا،کہانی کہانی جیسی اورسفرنامہ سفرنامے جیسا۔ان کی تمام تحریروں میں ایک ناقابل بیان لطفی سے روشنی اورمسکراہٹ پھیلی ہوئی نظرآتی ۔ان تحریروں کی زبان بھی بالکل اپنی ہی طرح کی تھی۔ایسی زبان بھی کوئی دوسرا نہیں لکھتا۔“
محمدخالداخترجیسے مصنف کاذکر اورپھر بیان فہمیدہ ریاض کا۔یہ ایک بہت دلچسپ اوریادگارتحریرہے۔محمدخالداخترنے اپنامعرکتہ آرا ناول” بیس سوگیارہ“ پچاس کی دہائی میں کراچی میں لکھاتھا۔پڑھنے والاآج بھی حیرت زدہ رہ جاتاہے کہ 1950ءمیں یہ مصنف پاکستان میں آنے والے فوجی انقلابوں اورحکمرانوں کی پیش گوئی کیونکرکرسکا۔سراج نظامی نے اپنے دورکے چند غیرمعمولی شخصیات پر”فن اورفنکار“ لکھاہے۔جس میں منفردموسیقار”سڑی خان“،”بندے علی خان“،”مبارک علی خان“،”کالے خان“،”مرچ خان“،”استادبندوخان“ اور”عاشق علی خان“ ادیب ”مولوی نذیراحمددہلوی“،”علامہ راشدالخیری“،”پطرس بخاری“،” شوکت تھانوی“شاعر ”میرتقی میر“،”محمد علی جوہر“،”مولانا گرامی “ ،” ناظم“،”حسرت موہانی“،”علامہ اقبال“ ،”ظفرعلی خان“،”جگرمرادآبادی“اورمصور”گیوٹو“ ،”لیونارڈو“،”گیو وینی“ اور”فرہاس“ کے بارے میں مختصر اوردلچسپ باتیں بیان کی ہیں۔
چمن علی غوری نے”ہمیں کیابراتھامرنااگرایک بار ہوتا“ میں بہت دلچسپ انداز میں زندگی کی مختلف حقیقتیں پیش کی ہیں۔انہیں کس طرح کئی بارموت کاسامناکرنا پڑا۔اُن کااندازِ بیان بہت عمدہ ہے۔ایسی ہی ایک دلچسپ آپ بیتی دلاورحسین لودھی کی”داستاں دوسرے دلاورکی “ ہے۔انہوں نے کالج کے مشاعرے کاذکرکیاہے۔جس میں ہری چنداخترنے ایک لکھنوی استادکے الفاظ سے مزین مگرمعنی سے معریٰ اشعارکا مذاق یوں اُڑایا۔
کہا سرحد پہ جابیٹھوں، کہاسرحد پی جابیٹھو کہاافغان کا ڈر ہے، کہاافغان تو ہوگا
کہامیں چین کو جاؤں، کہاتو چین کو جاؤ کہاجاپان کا ڈرہے،کہاجاپان توہوگا
کہا میں اونٹ پربیٹھوں، کہاتم اونٹ پربیٹھو کہا کوہان کا ڈر ہے،کہاکوہان توہوگا
میاں غلام قادر کی آپ بیتی ”گاہے گاہے بازخواں “ کے عنوان سے ہے اوریہ بھی بہت دلچسپ آپ بیتی ہے۔ٍٍٍٍٍٍٍگذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں فضل حق قریشی دہلوی کی آغاحشرکاشمیری سے ملاقات اورمرزامحمدسعید کا”ہندوستانی ناٹک اورآغاحشر“ اردوکے اس عظیم ڈرامہ نگار کے بارے میں یادگارتحریریں ہیں۔اُردو کے اہم ادبی جریدے ”عالمگیر“ کے مدیرحافظ محمدعالم نے پرچے کی سلورجوبلی کے موقع پر”میری کہانی میری زبانی“ عالمگیرکے اجراءاورمقبولیت کے بارے میں بتایاہے۔نقی محمدخان خورجوی نے ”گزشتہ لکھنو“ کی یادیں تازہ کی ہیں۔نقی خان کی آپ بیتی ”عمررفتہ“ گذشتہ سال شائع ہوئی جس کاشماراُردو کی بہترین آپ بیتیوں میں کیاجائے گا۔”شخص وعکس“میں مشہورشاعرناصر کاظمی نے میراجی کی شخصیت اورفن کوخراجِ تحسین پیش کیاہے۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کامضمون ”میری ادبی زندگی“بھی ”ماضی کے جھروکوں سے“ کی اہم تحریرہے۔صوفی صاحب نے اپنی ادبی زندگی اورہم عصروں کاذکرکیاہے۔ناصرکاظمی کی وفات پرخدیجہ مستور کاتاثراتی مضمون بھی خاصے کی چیز ہے۔رضیہ بانو نے اپنے والدوحشت کلکتوی کی یادیں ”میرے اباجان“ میں پیش کی ہیں۔جگن ناتھ آزاد نے شیخ عبدالقادرسے چند یادگارملاقاتوں کابیان کیاہے۔محمدخالد اخترنے ”عودِ پاک۔مختارمسعودکے نام“ سے لکھاہے۔موضوع عنوان ہی سے عیاں ہے۔
شاہداحمددہلوی،ہاجرہ مسرور،صادق الخیری،داؤد رہبرعبدالرحمٰن چغتائی،منیراحمدشیخ،ناصرنذیرفراق اورسیدعشرت حسین جیسے ادباءودانشوروں کے مضامین نے ”ماضی کے جھروکوں سے“ کوایک بہترین کتاب بنادیاہے۔اس عمدہ کاوش پرراشداشرف صاحب کوبھرپور مبارک باد۔امید ہے زندہ کتابیں کاقافلہ اسی طرح کامیابی سے اپنی منازل طے کرتارہے گا۔بہت جلداس کی سنچری بھی مکمل ہونے والی ہے۔