اس میں کوئی دورائے نہیں کہ رواں سال دنیا خاص طور سے مسلمان ملکوں کے لیے بہت کٹھن رہا ہے۔حالیہ بیروت پر ہوئے دھماکوں نے ایک دنیا کو غم میں مبتلا کردیا ہے۔دھماکوں کی آواز 240 کلومیٹر تک سنی گئی،اموات کی تعداد 220 تک پہنچ گئی ہیں،6000 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔
آدھا شہر تباہ ہوچکا ہے،نوے فیصد ہوٹلز برباد ہوچکے ہیں۔ابتدائی نقصان کا تخمینہ 5 ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔ایک ہی لمحے میں کتنے ہی افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ان دھماکوں کی وجہ سے جو خوف عوام میں بیٹھ گیا ہے اس کی شدت کو لفظوں میں ڈھالا نہیں جاسکتا ہر طرف لاشیں ہیں۔برطانوی یونیورسٹی شیفیلڈ سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ بیروت دھماکے کی شدت دوسری جنگ عظیم میں جاپانی شہر ہیروشیما پر گرایا گیا ایٹم بم کی شدت کا دسواں حصہ تھا۔یہ دھماکہ بظاہر ایک گودام میں موجود امونیم نائٹریٹ کے ذخیرے میں ہوا ہے(بی بی سی نیوز)۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل نے منی ایٹم بم کا تجربہ کر کے بیروت پہ حملہ کیا ہے،اگر نہیں بھی گرایا تو بھی بیروت پر ہوئے حملہ میں اسرائیل پوری طرح ملوث ہے کیونکہ 2018 میں نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں اپنے پلے کارڈ پر جن تین لوکیشنز کو مارک کرکے دنیا کو دکھا کر کہا تھا کہ یہاں حزب اللہ کی میزائل فیکٹری ہے اور ساتھ ہی دھمکانے والے انداز میں کہا تھا کہ ہمیں سب پتہ ہے(ان کے اس جملے سے کئی لوگوں نے یہ مطلب لیا تھا کہ وہ جلد یا بدیر ان تین جگہوں پر حملہ کردیں گے)ان میں سے ایک لوکیشن یہ بھی تھی جس پر حملہ ہوا ہے۔لیکن اسرائیل اس پورے معاملے سے انکاری نظر آتا ہے۔لیکن جس طرح اس بیروت حملہ پہ اسرائیل میں خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے اس سے شک اسرائیل پہ ہی جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بیروت دھماکا، مفرور جہاز راں اور لاوارث جہاز | اعظم علی
حال ہی میں ایک اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ میں ایک قانون دان کا کہنا تھا کہ بیروت پر حملہ خدا کی طرف سے ایک بہت بڑا انعام تھا۔اسرائیل میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس حملہ میں حزب اللہ کے وہ میزائل مارے گئے ہیں جن سے حزب اللہ نے اسرائیلی پورٹ اڑانا تھا لہذا اس حملہ نے اسرائیل پر سے ایک بڑے خطرے کو ٹال دیا ہے۔یاد رہے کچھ عرصہ قبل حزب اللہ کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اسرائیل کی حائفہ پورٹ پر حملہ کرکے اسے راکھ کا ڈھیر بنادیں گے۔
یاد رہے یہ دھماکے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب لبنان کی معیشت شدید بحران کا شکار ہے،لبنان میں جاری اقتصادی بحران کی وجہ سے ہی لبنانی وزیر خارجہ نے استعفی دیا ہے،حکومت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں،لبنانی عوام اس وقت شدید غصہ میں ہے جس کا مظاہرہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جب فرانسی وزیر اعظم میکرون لبنان پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے حکومت ائیرپورٹ پر موجود نہیں تھی۔حکومت کو ڈر تھا کہ اگر وہ باہر نکلے گی تو مشتعل عوام کوئی بڑا قدم اٹھا لیں گے۔اوپر سے کورونا کی وجہ سے بھی صورتحال نہایت خراب تھی ہسپتال بھرے ہوئے تھے اور جمعہ کو سابق صدر رفیق تحریری کے قتل کے مقدمہ کا بھی فیصلہ آنا تھا۔
بیروت دھماکوں کے بعد احتجاج میں شدت آچکی ہے۔وزیر اعظم حسن دیاب کابینہ سمیت مستعفی ہوچکے ہیں۔انھوں نے صدارتی محل میں جا کر اپنا استعفیٰ پیش کیا۔اس موقعہ پر ان کا کہنا تھا کہ بیروت سانحہ اتنا بڑا ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
لبنانی پولیس نے بیروت میں پارلیمنٹ کے قرہب سڑک بند کرنے اور پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کے لیے آنسو گیس کی فائرنگ بھی کی ہے جس کی وجہ سے متعدد لوگ زخمی ہوگئے ہیں۔ریڈکراس کے مطابق ان مظاہروں میں 170 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ لبنان میں عوامی مظاہرے عرب اسپرنگ کا آغاز ہوسکتے ہیں اور پھر یہ احتجاج دوسرے عرب ممالک میں بھی ایکسپورٹ ہوسکتا ہے۔
پہلے عرب اسپرنگ کا جو خمیازہ عرب ملکوں کو بھگتنا پڑا تھا اس دفعہ کے عرب اسپرنگ کی شدت اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ اس دفعہ کا عرب اسپرنگ آخری عرب اسپرنگ ہوگا اور عرب دنیا کو توڑ کررکھ دے گا۔جو کہ ایک اچھا اشارہ نہیں ہے۔لہذا عرب ملکوں اور دنیا کو چاہیے کہ ان دھماکوں پر سیاست نہ کریں بلکہ اس مشکل گھڑی میں لبنان کے ساتھ کھڑے ہوں اور مشتعل لبنانی عوام کو حوصلہ دیں تاکہ ایک اور ملک میں خون کی ہولی نہ کھیلی جایے۔