• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں

اپنے نغموں سے اقلیتیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے والے راحت اندوری کا انتقال

وہ ادیب ہی کیا جسے بدلتے سیاسی منظر نامے کی چیخ سنائی نہ دے راحت یہ چیخ سنتا تھا اور جب وہ لکھتا تھا تو اس کی چیخ ساری دنیا کی چیخ بن جاتی تھی

آوازہ ڈیسک by آوازہ ڈیسک
August 11, 2020
in اہم خبریں
0
اپنے نغموں سے اقلیتیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے والے راحت اندوری کا انتقال
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

 اپنی بامعنی، ظریفانہ اور مزاحمتی شاعری سے سامعین، ناظرین اور قارئین کے دل میں گھر کر لینے والے ڈاکٹر راحت اندوری کورونا کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر خالق حقیقی سے جاملے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 70 برس تھی۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

معروف ادیب اور قلم کار مشرف عالم ذوقی نے انھیں اپنے منفرد انداز میں یاد کیا ہے:

وہ مشاعروں میں قہقہہ لگاتے ہوئے حکومت کو چیلنج کرتا تھا . اس کا قہقہہ مشہور تھا . سیاہ چہرے پر طنز کی بجلیاں کوندتیں اور اس کی اسکی مسکراہٹ سے ہزاروں تیر برستے اور کروڑوں لہو لہان ہو جاتے . میں کیوں لکھتا اس پر ؟ لکھتا تو سنجیدہ مہذب دانشوروں کے درمیان نشانہ بن جاتا ..بازارو اور مشاعرہ باز .. یہ کویی شاعری ہے ؟ مگر ایوان سیاست میں اسی کے نام سے زلزلہ آ جاتا تھا . جب وہ کہتا تھا ،
تمہارے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے .
اور اتنا کہہ کر وہ تیز قہقہہ لگاتا جیسے حکمرانوں کو تنبیہ کر رہا ہو کہ سنبھل جاؤ .. ہم بھی کسی آندھی ، کسی طوفان سے کم نہیں .. ہم سے مت ٹکراو .
مشرف عالم ذوقی
سنجیدہ فلسفوں کا کاروبار کرنے والے ، جدیدیت اور پختہ ادب کی پہچان رکھنے والو ، ایک کہانی سنو . ایک ملاح تھا .اس کی کشتی میں ایک دانشور سوار ہوا . دانشور نے پوچھا ، کیا تاریخ سے تمہاری واقفیت ہے ؟ ادب سے ہے ؟ سائنس سے ہے ؟ جغرافیہ سے ہے .؟ ملاح ہر بار انکار میں گردن ہلا دیتا . اور دانشور ہر سوال کے بعد کہتا ، نہیں جانتے ، تمہاری زندگی بیکار ہے . اس درمیان کشتی میں پانی بھرنے لگا . ملاح نے دانشور سے سوال کیا ، آپ تیرنا جانتے ہیں ؟ دانشور نے انکار کیا – نہیں جانتا . دریا میں کودنے سے قبل ملاح نے کہا ، پھر آپ کی زندگی بیکار ہے .
طوفان آ چکا .آندھیوں نے ہزاروں گھر پھونک دیے .بند کمروں میں ادب کی نمائش کرنے والے کیا جانیں کہ راحت اندوری کیا تھا ؟ منور رانا کی ضرورت کیوں ہے ؟ —– فسطائی طاقتیں پوری شدّت اور منصوبوں کے ساتھ مذہب ،مشترکہ وراثت اور تہذیب پر حملہ کر رہی ہیں …. دانشوری کو طاق پر رکھیے —کیا آپ حکومت کے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملا سکتے ہیں ؟ منور رانا اور راحت اندوری جیسوں کی آواز پوری دنیا کو ہلا دینے کی طاقت رکھتی ہے . سنجیدہ ادب لکھنے والوں اور سنجیدہ قاری کا قصور یہ کہ وہ ابن صفی کو تو ضروری تسلیم کرتا ہے مگر راحت اندوری تک پہچنے میں روح فنا ہو جاتی ہے . آزادی یوں ہی مل گیی ؟ کیا اس وقت یہ پروپیگنڈا ضروری نہیں تھا کہ غلامی کی مخالفت کی جائے .آزادی کی چیخ کو آواز دی جائے اور اس وقت آزادی کے نغمے کس نے نہیں لکھے . سب نے لکھے . ہم آج اس مہذب دور میں زیادہ غلامی کے شکار ہیں . موب لنچنگ ، فسادات ، دو قانون . مسلمانوں کا الگ ، غیر مسلموں کا الگ . کوئی ادیب ہے جو مسلمانوں کے لئے جنگ کر رہا ہو .جنگ راحت کرتا تھا . ڈرتا نہیں تھا .بیباک تھا . کپل شرما شو میں بھی دو بار دعوت ملی .دونوں دفعہ چھا گیا اور پیغام بھی دے گیا کہ تمہارے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے ..
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی
کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں
ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے
وہ گونگا نہیں تھا ، بولنا جانتا تھا . وہ اپنی قیمت پہچانتا تھا .. وہ جنگجو تھا . جب ضرورت ہوتی ، وہ بیدار کرنے آ جاتا . اب کورونا نے حقیقت سامنے رکھ دی اور یہ سوال خدا سے بھی ہے ..خدا ، میرے خدا ، راحت کا جرم سنگین اور سیاسی ایوانوں میں بیٹھے خداؤں کو معافی ؟ یہ کیسا انصاف میرے خدا . کورونا اپنے ساتھ کیسے کیسے لوگوں کو لے گیا ، ان لوگوں کو جن کے دم سے زندگی اور کائنات کا حسن باقی تھا . اور جو نفرتیں پھیلا رہے ہیں ، جو آگ لگا رہے ہیں ، جو ملک کو زخمی کر رہے ہیں ، تیری خوبصورت دنیا میں داغ لگا رہے ہیں ، انھیں زندہ رہنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے . یہ تفریق کیوں خدا ؟ یہ کیسا انصاف ؟
میں پھر ان سوالوں پر آتا ہوں . . آزادی کے بعد کے فرقہ وارانہ فسادات –ادب کا خیمہ خاموش رہا — 1984ہوا۔ پھر1992 — کویی ہلچل اس خیمے میں نظر نہیں آئی — کچھ ہلکی پھلکی علامتی کہانیاں لکھ دی گئیں۔1992 کے بعد کا منظر نامہ دیکھ لیجئے — خاموشی کی روایت قائم ہے …. سیاسی عدم بیداری کی فضا قلم کے محافظ پیدا نہیں کرتی — جدیدیت کے علمبردار وں کو کوئی غرض نہیں کہ ملک کہاں جا رہا ہے– بیمار مریضوں ،سوکھی انتڑیوں کے باسی مردہ قصّوں میں اگر زندگی کی حرارت نہیں تو یہ قصّے فقط الفاظ کی بھول بھلیاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں–ترقی پسند زندہ مکالمے کرتے تھے –بیانات دیتے تھے ۔حق کے لئے جنگ کرتے تھے ۔ 1992کے بعد کا عام رویہ ہے کہ ادب کو عام اذہان اور مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں۔نیند میں سویے ادیبوں پر آپ فخر کر سکتے ہیں تو کیجئے …لیکن وہ ادیب ہی کیا جسے بدلتے سیاسی منظر نامے کی چیخ سنائی نہ دے
راحت یہ چیخ سنتا تھا . اور جب وہ لکھتا تھا تو اس کی چیخ ساری دنیا کی چیخ بن جاتی تھی .
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں
’میرے اندر سے ایک ایک کرکے سب ہوگیا رخصت
مگر اندر جو باقی ہے اسے ایمان کہتے ہیں‘
میں من کی بات بہت من لگا کے سنتا ہوں۔
یہ تو نہیں ہے تیرا اشتہار بولتا ہے۔
کچھ اور کام اسے جیسے آتا ہی نہیں۔
مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے .
میں اس کے چہرے کو دیکھتا حضرت بلال حبشی کی یاد تازہ ہو جاتی . وہ چہرے سے سیاہ مگر اندر سے تندور .اور ایسے تندور کی ابھی ضرورت تھی . جب اسلام کی عظمت کا آفتاب بلند ہوا ، مکہ کی وادیوں سے اذاں کی جو پہلی آواز گونجی وہ حضرت بلال کی تھی . مودی کی اس انداز میں خبر کون لے گا کہ وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے . .. کون کہیگا ، تیرے باپ کا ہندوستان … یہ راحت ہی کہہ سکتے تھے اور راحت ہی چلے گئے . اپنے نغموں سے اقلیتوں کے زخم پر مرہم رکھنے والا ، راحت پہچانے والا چلا گیا
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: راحت اندوریشاعریمزاحمتی شاعریمشرف عالم ذوقی
Previous Post

کیا بیروت پر حملہ عرب اسپرنگ کا آغاز ہے؟

Next Post

کورونا بحران میں قیادت کیلئے نئی صلاحیتں درکار ہیں

آوازہ ڈیسک

آوازہ ڈیسک

Next Post
کورونا بحران میں قیادت کیلئے نئی صلاحیتں درکار ہیں

کورونا بحران میں قیادت کیلئے نئی صلاحیتں درکار ہیں

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions