Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کل شام بیروت میں ہونے والے خوفناک دہماکے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 135پہنچ گئی اور 5 ہزار افراد زخمی ہیںُ۔سینکڑوں ابھی تک ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہلاکتوں کے تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے۔
بیروت کے گورنر مروان عبود کا کہنا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور حکومت انکے لئے خوراک رہائش فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ 2750 ٹن ایمونیم نائیٹریٹ 2014ء میں ایک لاوارث روسی جہاز سے ضبط کرکے بیروت کی بندرگاہ کے گودام میں رکھّا گیا تھا جو کل دھماکے سے پھٹ کیا۔
اطلاعات کے مطابق 2013 ءکے آخر میں روسی مال بردار جہاز MV Rhosus جارجیا سے موزمبیق کے راستے میں فنّی خرابی کی بناء پر بیروت کی بندرگاہ میں داخل ہوا۔ وہاں پر بین القوامی جہاز رانی کے ادارے کے جائزے کے بعد اسےسفر جاری رکھنے سے روک دیا گیا۔
جہاز کا مالک کون تھا؟؟؟
ریکارڈ کے مطابق جہاز MV Rhosus کی ضبطگی کے وقت ایک روسی شھری گریچشکن کی ملکیت تھا کہا جاتا ہے اس وقت یہ شخص قبرص میں مقیم ہے۔

کچھ عرصے کے بعد جہاز کا مالک جہاز کو لاوارث چھوڑ کر غائب ہو گیا اور جہاز پر لدے ہوئے سامان کے مالکان نے بھی سامان کے حصول میں دلچسپی نہیں لی۔ اس دوران کئی قرض دہندگان نے اپنی رقم کی وصولی کا دعوی کرنے کوشش کی لیکن جہاز و سامان کے مالکان کو تلاش نہیں کیا جاسکا۔
اسوقت جہاز کے کپتان بورس پروکوشوو نے آج ایک انٹرویو میں تصدیق کی ہے کہ 2013ء میں گریچشکن ہی جہاز کا مالک تھا اور یہ بھی بتایا کہ اسوقت جہاز باٹومی کی بندرگاہ سے موزمبیق کے لئے ایمونیم نائیٹریٹ لیکر جارہا تھا کہ فنّی خرابی کی بناء پر بیروت میں رکنا پڑا جہاں اسے ضبط کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
بیروت دھماکہ دہشتگردی یا حادثہ کیا دھماکے کے پیچھے اسرائیل ہے ؟ | معصوم رضوی
اس نے یہ بھی بتایا یہ ایک پُرانا جہاز تھا اور چونکہ کوئی اسکی نگہداشت بھی نہیں کررہا تھا اس لئے کہا جاتا ہے کہ دوتین سالوں قبل ہی ڈوب بھی چُکا ہے۔
بورس پروکوشوو نے یہ بھی بتایا کہ جہاز کا مالک عملے کے لاکھوں ڈالر کی تنخواہیں دبا کر بیٹھا ہے اور کیونکہ اب وہ روس میں نہیں رہتا اس لئےاسے تلاش کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاز کا زیادہ تر عملہ یوکرائن سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ جہاز کا مالک انکی تنخواہیں اور دیگر اخراجات کی ادائیگی سے قاصر تھا اس کہے وہ سب کچھ عرصے تک بیروت میں پھنس گئے تھے۔
اس نے اس دھماکے کی ذمہ داری بھی لبنانی حکام پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات یہ ہے انہیں جہاز سے پورٹ کی فیسیں وصول کرنے کی بجائے اسی وقت جان چھڑالینی چاہیے تھی ۔ دوسری بات یہ بھی کہ چونکہ ایمونیم نائیٹریٹ کے کارگو کا بھی کوئی دعویدار سامنے آرہا تھا تو بجائے اتنے عرصے تک اپنے ہاں رکھنے کے اسے اپنی زراعت (ایمونیم نائیٹریٹ بم بنانے ہی نہیں بلکہ اس کا اصل استعمال زیادہ ترکھاد بنانے میں استعمال ہوتا ہے)۔
2015ء میں جہاز کے عملے کے وکلاء نے عدالت کے ذریعے عملے کو جو بیروت میں پھنسا ہوا تھا کو اپنے گھر واپسی کی اجازت دلوائی ، لیکن چونکہ جہاز پر لدا ہوا سامان خطرناک کارگو تھا اے جہاز سے اُتار کر بندرگاہ کے گودام میں رکھ دیا گیا۔ جو کل دہماکے کے ساتھ پھٹ کر کم از کم 100 اموات اور پانچ ہزار سے زائد زخمیوں کا باعث بنا۔
لبنانی حکام ابھی تک واقعے کی وجوہات کے بارے میں خاموش ہیں لیکن ایک ٹیلیویژن رپورٹ کے مطابق ابتدائی معلومات کے مطابق دھماکہ گودام میں کئے جانے والے ویلڈنگ کے شعلے سے وہاں رکھّے ہوئے ایمونیم نائیٹریٹ کو آگ لگنے سے ہوا۔
غیرجانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ ہولناک دہماکے کے بعد نارنجی رنگ کے بادل ممکنہ طور پر نائیٹریٹ کے دہماکے کے بعد پیدا ہونے والی زہریلی نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے تھے ۔
کل شام بیروت میں ہونے والے خوفناک دہماکے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 135پہنچ گئی اور 5 ہزار افراد زخمی ہیںُ۔سینکڑوں ابھی تک ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہلاکتوں کے تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے۔
بیروت کے گورنر مروان عبود کا کہنا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور حکومت انکے لئے خوراک رہائش فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ 2750 ٹن ایمونیم نائیٹریٹ 2014ء میں ایک لاوارث روسی جہاز سے ضبط کرکے بیروت کی بندرگاہ کے گودام میں رکھّا گیا تھا جو کل دھماکے سے پھٹ کیا۔
اطلاعات کے مطابق 2013 ءکے آخر میں روسی مال بردار جہاز MV Rhosus جارجیا سے موزمبیق کے راستے میں فنّی خرابی کی بناء پر بیروت کی بندرگاہ میں داخل ہوا۔ وہاں پر بین القوامی جہاز رانی کے ادارے کے جائزے کے بعد اسےسفر جاری رکھنے سے روک دیا گیا۔
جہاز کا مالک کون تھا؟؟؟
ریکارڈ کے مطابق جہاز MV Rhosus کی ضبطگی کے وقت ایک روسی شھری گریچشکن کی ملکیت تھا کہا جاتا ہے اس وقت یہ شخص قبرص میں مقیم ہے۔

کچھ عرصے کے بعد جہاز کا مالک جہاز کو لاوارث چھوڑ کر غائب ہو گیا اور جہاز پر لدے ہوئے سامان کے مالکان نے بھی سامان کے حصول میں دلچسپی نہیں لی۔ اس دوران کئی قرض دہندگان نے اپنی رقم کی وصولی کا دعوی کرنے کوشش کی لیکن جہاز و سامان کے مالکان کو تلاش نہیں کیا جاسکا۔
اسوقت جہاز کے کپتان بورس پروکوشوو نے آج ایک انٹرویو میں تصدیق کی ہے کہ 2013ء میں گریچشکن ہی جہاز کا مالک تھا اور یہ بھی بتایا کہ اسوقت جہاز باٹومی کی بندرگاہ سے موزمبیق کے لئے ایمونیم نائیٹریٹ لیکر جارہا تھا کہ فنّی خرابی کی بناء پر بیروت میں رکنا پڑا جہاں اسے ضبط کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
بیروت دھماکہ دہشتگردی یا حادثہ کیا دھماکے کے پیچھے اسرائیل ہے ؟ | معصوم رضوی
اس نے یہ بھی بتایا یہ ایک پُرانا جہاز تھا اور چونکہ کوئی اسکی نگہداشت بھی نہیں کررہا تھا اس لئے کہا جاتا ہے کہ دوتین سالوں قبل ہی ڈوب بھی چُکا ہے۔
بورس پروکوشوو نے یہ بھی بتایا کہ جہاز کا مالک عملے کے لاکھوں ڈالر کی تنخواہیں دبا کر بیٹھا ہے اور کیونکہ اب وہ روس میں نہیں رہتا اس لئےاسے تلاش کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاز کا زیادہ تر عملہ یوکرائن سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ جہاز کا مالک انکی تنخواہیں اور دیگر اخراجات کی ادائیگی سے قاصر تھا اس کہے وہ سب کچھ عرصے تک بیروت میں پھنس گئے تھے۔
اس نے اس دھماکے کی ذمہ داری بھی لبنانی حکام پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات یہ ہے انہیں جہاز سے پورٹ کی فیسیں وصول کرنے کی بجائے اسی وقت جان چھڑالینی چاہیے تھی ۔ دوسری بات یہ بھی کہ چونکہ ایمونیم نائیٹریٹ کے کارگو کا بھی کوئی دعویدار سامنے آرہا تھا تو بجائے اتنے عرصے تک اپنے ہاں رکھنے کے اسے اپنی زراعت (ایمونیم نائیٹریٹ بم بنانے ہی نہیں بلکہ اس کا اصل استعمال زیادہ ترکھاد بنانے میں استعمال ہوتا ہے)۔
2015ء میں جہاز کے عملے کے وکلاء نے عدالت کے ذریعے عملے کو جو بیروت میں پھنسا ہوا تھا کو اپنے گھر واپسی کی اجازت دلوائی ، لیکن چونکہ جہاز پر لدا ہوا سامان خطرناک کارگو تھا اے جہاز سے اُتار کر بندرگاہ کے گودام میں رکھ دیا گیا۔ جو کل دہماکے کے ساتھ پھٹ کر کم از کم 100 اموات اور پانچ ہزار سے زائد زخمیوں کا باعث بنا۔
لبنانی حکام ابھی تک واقعے کی وجوہات کے بارے میں خاموش ہیں لیکن ایک ٹیلیویژن رپورٹ کے مطابق ابتدائی معلومات کے مطابق دھماکہ گودام میں کئے جانے والے ویلڈنگ کے شعلے سے وہاں رکھّے ہوئے ایمونیم نائیٹریٹ کو آگ لگنے سے ہوا۔
غیرجانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ ہولناک دہماکے کے بعد نارنجی رنگ کے بادل ممکنہ طور پر نائیٹریٹ کے دہماکے کے بعد پیدا ہونے والی زہریلی نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے تھے ۔
کل شام بیروت میں ہونے والے خوفناک دہماکے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 135پہنچ گئی اور 5 ہزار افراد زخمی ہیںُ۔سینکڑوں ابھی تک ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہلاکتوں کے تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے۔
بیروت کے گورنر مروان عبود کا کہنا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور حکومت انکے لئے خوراک رہائش فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ 2750 ٹن ایمونیم نائیٹریٹ 2014ء میں ایک لاوارث روسی جہاز سے ضبط کرکے بیروت کی بندرگاہ کے گودام میں رکھّا گیا تھا جو کل دھماکے سے پھٹ کیا۔
اطلاعات کے مطابق 2013 ءکے آخر میں روسی مال بردار جہاز MV Rhosus جارجیا سے موزمبیق کے راستے میں فنّی خرابی کی بناء پر بیروت کی بندرگاہ میں داخل ہوا۔ وہاں پر بین القوامی جہاز رانی کے ادارے کے جائزے کے بعد اسےسفر جاری رکھنے سے روک دیا گیا۔
جہاز کا مالک کون تھا؟؟؟
ریکارڈ کے مطابق جہاز MV Rhosus کی ضبطگی کے وقت ایک روسی شھری گریچشکن کی ملکیت تھا کہا جاتا ہے اس وقت یہ شخص قبرص میں مقیم ہے۔

کچھ عرصے کے بعد جہاز کا مالک جہاز کو لاوارث چھوڑ کر غائب ہو گیا اور جہاز پر لدے ہوئے سامان کے مالکان نے بھی سامان کے حصول میں دلچسپی نہیں لی۔ اس دوران کئی قرض دہندگان نے اپنی رقم کی وصولی کا دعوی کرنے کوشش کی لیکن جہاز و سامان کے مالکان کو تلاش نہیں کیا جاسکا۔
اسوقت جہاز کے کپتان بورس پروکوشوو نے آج ایک انٹرویو میں تصدیق کی ہے کہ 2013ء میں گریچشکن ہی جہاز کا مالک تھا اور یہ بھی بتایا کہ اسوقت جہاز باٹومی کی بندرگاہ سے موزمبیق کے لئے ایمونیم نائیٹریٹ لیکر جارہا تھا کہ فنّی خرابی کی بناء پر بیروت میں رکنا پڑا جہاں اسے ضبط کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
بیروت دھماکہ دہشتگردی یا حادثہ کیا دھماکے کے پیچھے اسرائیل ہے ؟ | معصوم رضوی
اس نے یہ بھی بتایا یہ ایک پُرانا جہاز تھا اور چونکہ کوئی اسکی نگہداشت بھی نہیں کررہا تھا اس لئے کہا جاتا ہے کہ دوتین سالوں قبل ہی ڈوب بھی چُکا ہے۔
بورس پروکوشوو نے یہ بھی بتایا کہ جہاز کا مالک عملے کے لاکھوں ڈالر کی تنخواہیں دبا کر بیٹھا ہے اور کیونکہ اب وہ روس میں نہیں رہتا اس لئےاسے تلاش کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاز کا زیادہ تر عملہ یوکرائن سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ جہاز کا مالک انکی تنخواہیں اور دیگر اخراجات کی ادائیگی سے قاصر تھا اس کہے وہ سب کچھ عرصے تک بیروت میں پھنس گئے تھے۔
اس نے اس دھماکے کی ذمہ داری بھی لبنانی حکام پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات یہ ہے انہیں جہاز سے پورٹ کی فیسیں وصول کرنے کی بجائے اسی وقت جان چھڑالینی چاہیے تھی ۔ دوسری بات یہ بھی کہ چونکہ ایمونیم نائیٹریٹ کے کارگو کا بھی کوئی دعویدار سامنے آرہا تھا تو بجائے اتنے عرصے تک اپنے ہاں رکھنے کے اسے اپنی زراعت (ایمونیم نائیٹریٹ بم بنانے ہی نہیں بلکہ اس کا اصل استعمال زیادہ ترکھاد بنانے میں استعمال ہوتا ہے)۔
2015ء میں جہاز کے عملے کے وکلاء نے عدالت کے ذریعے عملے کو جو بیروت میں پھنسا ہوا تھا کو اپنے گھر واپسی کی اجازت دلوائی ، لیکن چونکہ جہاز پر لدا ہوا سامان خطرناک کارگو تھا اے جہاز سے اُتار کر بندرگاہ کے گودام میں رکھ دیا گیا۔ جو کل دہماکے کے ساتھ پھٹ کر کم از کم 100 اموات اور پانچ ہزار سے زائد زخمیوں کا باعث بنا۔
لبنانی حکام ابھی تک واقعے کی وجوہات کے بارے میں خاموش ہیں لیکن ایک ٹیلیویژن رپورٹ کے مطابق ابتدائی معلومات کے مطابق دھماکہ گودام میں کئے جانے والے ویلڈنگ کے شعلے سے وہاں رکھّے ہوئے ایمونیم نائیٹریٹ کو آگ لگنے سے ہوا۔
غیرجانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ ہولناک دہماکے کے بعد نارنجی رنگ کے بادل ممکنہ طور پر نائیٹریٹ کے دہماکے کے بعد پیدا ہونے والی زہریلی نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے تھے ۔
کل شام بیروت میں ہونے والے خوفناک دہماکے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 135پہنچ گئی اور 5 ہزار افراد زخمی ہیںُ۔سینکڑوں ابھی تک ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہلاکتوں کے تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے۔
بیروت کے گورنر مروان عبود کا کہنا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور حکومت انکے لئے خوراک رہائش فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ 2750 ٹن ایمونیم نائیٹریٹ 2014ء میں ایک لاوارث روسی جہاز سے ضبط کرکے بیروت کی بندرگاہ کے گودام میں رکھّا گیا تھا جو کل دھماکے سے پھٹ کیا۔
اطلاعات کے مطابق 2013 ءکے آخر میں روسی مال بردار جہاز MV Rhosus جارجیا سے موزمبیق کے راستے میں فنّی خرابی کی بناء پر بیروت کی بندرگاہ میں داخل ہوا۔ وہاں پر بین القوامی جہاز رانی کے ادارے کے جائزے کے بعد اسےسفر جاری رکھنے سے روک دیا گیا۔
جہاز کا مالک کون تھا؟؟؟
ریکارڈ کے مطابق جہاز MV Rhosus کی ضبطگی کے وقت ایک روسی شھری گریچشکن کی ملکیت تھا کہا جاتا ہے اس وقت یہ شخص قبرص میں مقیم ہے۔

کچھ عرصے کے بعد جہاز کا مالک جہاز کو لاوارث چھوڑ کر غائب ہو گیا اور جہاز پر لدے ہوئے سامان کے مالکان نے بھی سامان کے حصول میں دلچسپی نہیں لی۔ اس دوران کئی قرض دہندگان نے اپنی رقم کی وصولی کا دعوی کرنے کوشش کی لیکن جہاز و سامان کے مالکان کو تلاش نہیں کیا جاسکا۔
اسوقت جہاز کے کپتان بورس پروکوشوو نے آج ایک انٹرویو میں تصدیق کی ہے کہ 2013ء میں گریچشکن ہی جہاز کا مالک تھا اور یہ بھی بتایا کہ اسوقت جہاز باٹومی کی بندرگاہ سے موزمبیق کے لئے ایمونیم نائیٹریٹ لیکر جارہا تھا کہ فنّی خرابی کی بناء پر بیروت میں رکنا پڑا جہاں اسے ضبط کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
بیروت دھماکہ دہشتگردی یا حادثہ کیا دھماکے کے پیچھے اسرائیل ہے ؟ | معصوم رضوی
اس نے یہ بھی بتایا یہ ایک پُرانا جہاز تھا اور چونکہ کوئی اسکی نگہداشت بھی نہیں کررہا تھا اس لئے کہا جاتا ہے کہ دوتین سالوں قبل ہی ڈوب بھی چُکا ہے۔
بورس پروکوشوو نے یہ بھی بتایا کہ جہاز کا مالک عملے کے لاکھوں ڈالر کی تنخواہیں دبا کر بیٹھا ہے اور کیونکہ اب وہ روس میں نہیں رہتا اس لئےاسے تلاش کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاز کا زیادہ تر عملہ یوکرائن سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ جہاز کا مالک انکی تنخواہیں اور دیگر اخراجات کی ادائیگی سے قاصر تھا اس کہے وہ سب کچھ عرصے تک بیروت میں پھنس گئے تھے۔
اس نے اس دھماکے کی ذمہ داری بھی لبنانی حکام پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات یہ ہے انہیں جہاز سے پورٹ کی فیسیں وصول کرنے کی بجائے اسی وقت جان چھڑالینی چاہیے تھی ۔ دوسری بات یہ بھی کہ چونکہ ایمونیم نائیٹریٹ کے کارگو کا بھی کوئی دعویدار سامنے آرہا تھا تو بجائے اتنے عرصے تک اپنے ہاں رکھنے کے اسے اپنی زراعت (ایمونیم نائیٹریٹ بم بنانے ہی نہیں بلکہ اس کا اصل استعمال زیادہ ترکھاد بنانے میں استعمال ہوتا ہے)۔
2015ء میں جہاز کے عملے کے وکلاء نے عدالت کے ذریعے عملے کو جو بیروت میں پھنسا ہوا تھا کو اپنے گھر واپسی کی اجازت دلوائی ، لیکن چونکہ جہاز پر لدا ہوا سامان خطرناک کارگو تھا اے جہاز سے اُتار کر بندرگاہ کے گودام میں رکھ دیا گیا۔ جو کل دہماکے کے ساتھ پھٹ کر کم از کم 100 اموات اور پانچ ہزار سے زائد زخمیوں کا باعث بنا۔
لبنانی حکام ابھی تک واقعے کی وجوہات کے بارے میں خاموش ہیں لیکن ایک ٹیلیویژن رپورٹ کے مطابق ابتدائی معلومات کے مطابق دھماکہ گودام میں کئے جانے والے ویلڈنگ کے شعلے سے وہاں رکھّے ہوئے ایمونیم نائیٹریٹ کو آگ لگنے سے ہوا۔
غیرجانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ ہولناک دہماکے کے بعد نارنجی رنگ کے بادل ممکنہ طور پر نائیٹریٹ کے دہماکے کے بعد پیدا ہونے والی زہریلی نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے تھے ۔