دوستو !
اگر آپ کا کوئی عزیز میڈیکل کی ڈگری حاصل کر چکاہے اور اسے مڈل ایسٹ میں جاب کے لیئے فوری طور پر اپنی ڈگریوں کی تصدیق کے لیئے دفاتر کے چکر لگانے ہوں تو ۔۔۔
جان جائیے !
کہ آپ نے جو پہلے سالوں سال تعلیم حاصل کی ہے وہ اپنی جگہ۔۔۔
مگر جب تک ایچ ای سی،ہیلتھ منسٹری، فارن آفس اور متعلقہ ملک کی ایمبیسی تصدیق نہیں کرتی آپ کی ڈگریاں پاکستان سے باہر مشکوک ہی رہیں گی
ان محکموں سے اعتبار کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے اگر آپ بیرون شہر رہتے ہیں تو اسلام آباد میں ڈھونڈیئے وہ گھر جہاں خوشی خوشی آپ کے قیام و طعام کا بندو بست ہو جائے۔یا پھر ہوٹل کی بکنگ کروائیے !
اسلام آباد رہتے ہوئے ایسے ہی ایک واقعے سے گزرنے کا تجربہ مجھے بھی ہوا جو گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ ہم گونگے تو نہیں کہ آواز بھی نہ اٹھائیں۔
یہ بھی دیکھئے:
میڈیکل کی جہازی سائز ڈگریاں جنہیں سنبھالنا بیگ میں محفوظ کرنا اچھا خاصا مسئلہ ہوتا ہے، معلوم نہیں میڈیکل کے ادارے نمایاں ہونے کے لیے یا پھر اپنے طلبا کو مزید امتحان سے گزارنے کے لیے اس طرح کی ڈگریاں جاری کرتے ہیں۔۔یا پھر انہیں ان کا احساس تفاخر انہیں چھوٹے کاغذ پر ڈگریاں چھاپنے سے باز رکھتا ہے۔ کیونکہ اب تو کسی بھی سٹوڈنٹ کے ہاتھ میں پکڑی ایسی ڈگری دیکھ کر ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لائن میں لگے ، دھکم پیل ہوتے یہ سٹوڈنٹ یقیناً کسی میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ہونگے۔۔آج ہمارے ہاتھ میں بھی ایسی ہی ڈگریاں تھیں۔
ہیلتھ منسٹری نے تو کسی حد تک مسئلہ حل کر لیا ہے وہاں سے تصدیق کروانے کے لیئے سب سے پہلے “بیان حلفی “ Affi devirtپر وصول کندہ کو دستخط کرنے پڑتے ہیں۔بیان حلفی کا خفیہ خفیہ انتظام انہوں نے وہیں کر رکھا ہے۔سائل کو پریشان نہیں ہونا پڑتا گورنمنٹ کی طرف سے تو اجازت نہیں ۔۔مگر متعلقہ جگہ پہنچ کرایک جگہ ایک فون نمبر کی طرف نشاندہی ہوئی ۔
اس نمبر پر فون کرنے سے ایک اور شخص آپ کو اپنی رہنمائی میں ایک کمرے میں لے جاتا ہے وہاں آپ کو بیس روپے کے “بیان حلفی “ پر عبارت لکھ کر چار سو روپے وصول کر لیئے جاتے ہیں۔سائل بھی خوش اس کو کوئی خواری نہیں کرنی پڑتی اور وہاں بیٹھے ملازموں کی بھی اوپر کی آمدنی ہو جاتی ہے۔اور یوں فوراً ہی آپ کی ڈگریوں کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے
اب کلیجہ تھام کر بیٹھیئے ! کہ آپ کو فارن آفس جانا ہے۔
سب سے پہلے ایک لمبی لائن میں لگ کر ڈاکخانےسے ٹکٹ خریدنے پڑیں گے پھر ڈگریاں دکھا کر آپ کو فارن آفس کے اندر جانے کی اجازت ملے گی ۔۔اندر جاکر آپ کو معلوم ہوگا کہ “ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں”
طویل لائنوں کا حصہ بن کر اگر آپ کاغذات دکھا کر فارن آفس کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپ کو اپنی تمام ڈگریاں محض ٹوکن لینے کے لیے کاؤنٹر پر ڈھیر کرنی ہوں گی مختلف ہاتھ اس کی چھان بین کے لیئے آگے بڑھیں گے ۔کاؤنٹر پر کھڑے شخص کی مرضی ہے کہ وہ ان ڈگریوں کو کافی سمجھے یاپھر کوئی اعتراض لگا کر ٹوکن دینے سے انکار کردے۔ مثلا آپ کا شناختی کارڈ کہاں ہے یا پھر اگر آپ کی اپنی ڈگریاں نہیں ہیں تو متعلقہ بندے یا بندی کا شناختی کارڈ بھی دکھانا ہوگا۔ اتنے رش میں کاؤنٹر پر بکھرے کئی لوگوں کے کاغذات مکس ہونے کے ڈر سے آپ کو حاضر دماغی سے اپنی ڈگریوں اور چھوٹے موٹے کاغذات کو سمیٹ کر کسی دوسرے کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے اور جب ٹوکن لےکر آپ کی نظر ہال میں کھڑےیا بیٹھے جم غفیر پر پڑتی ہے تو پہلے شہنشاہ عظیم اور پھر ان شہنشاہ ارضی کے لیے شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے ٹوکن وصول کرنے کا مرحلہ تو طے کروا دیا ۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی انتخابات: ووٹ کو عزت دو، پنجاب کا بڑا فیصلہ
عمران خان کی تقریر کا تجزیہ: چیف الیکشن کمشنر سب سے بڑا ہدف کیوں ہیں؟
ضمنی انتخابات: انتخابی مہم کا ایک بے لاگ جائزہ
اب آپ آرام سے کرسیوں پر برا جمان ہو جائیے کرسیاں نہ ملنے کی صورت میں کھڑے رہیئے اس انتظار میں کئی گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔۔
یہاں تین کاؤنٹر تو عمومی ہیں اور دو خصوصی۔۔میں نے بھی بڑی اوپر کی سفارش ڈھونڈی۔۔مگر
ہے خبر گرم ان کے ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
کے مصداق امید کی جھلک تو کیا پس امید کی جھلک بھی نظر نہ آئی ۔ سو طویل انتظار کے بعد باری آئ تو موصوفہ نے ڈگریاں دیکھ کر کہا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ آپ کی بھتیجی ہے۔میں نے بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی میں اصل نہ سہی ڈگریاں تو اصل ہیں۔
میرے بالوں کی سفیدی باعث احترام نہ سہی ڈگریوں کا احترام تو لازم ہے مگر موصوفہ نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ثبوت فراہم کریں کہ وہ آپ کی بھتیجی ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔۔ثبوت کے لیئے دماغ لڑاتے ہوئے خوامخواہ ذہن الجھنے لگا ۔۔۔
شناختی کارڈ پر چمکتا دمکتا شوہر کا نام دیکھ کر میں سوچنے لگی عورت تو حفاظتی حصار بدلتے ہی اپنی پرانی پہچان کہیں کھو دیتی ہے۔اب بھلا گرد آلود کاغذات کو کہاں کہاں ڈھونڈتی پھروں ۔۔گو بزرگوں کی کہاوتوں میں بہت وزن ہے کہ “ ماں بیٹی دو گوت پھوپھی بھتیجی ایک گوت
” مگر اس ایک گوت کی کبھی کوئی پہچان ہوگی اب تو مجھے کاغذی ثبوت کے پیش نظر ثابت کرنا تھا کہ میرے رشتے کی بنیاد کیا ہے؟
ادھر ادھر فون کیئے کہ مجھے اپنی سابقہ پہچان چاہیئے ۔
یوں لگا میری بھتیجی نے بھی مجھے مسکراتے ہوئے کہا ۔کہ وہ زمانہ اور تھا یہ زمانہ اور ہے۔۔
پھوپھو اپنی پہچان کے بعد ہی مجھے پہچانیے۔ اور پھر جو اپنی پہچان بھلا دیتا ہے اس کی اپنی کوئ پہچان نہیں ہوتی۔۔
اسی شش و پنج میں میں تھوڑی دیر کے لیئے باہر نکلی تو فارن آفس کے تمام دروازے کھڑکیاں بند ہوگئے معلوم ہوا کہ ایک بجے سے دو بجے تک لنچ بریک ہوتی ہے لہٰذا تمام داخلی راستے بند کر دیئے جاتے ہیں ۔
اب میں باہر تھی اور میرے میاں اندر۔فون کرکے انہیں باہر بلایا کیونکہ میں اندر نہیں جا سکتی تھی البتہ ایک مشکل راستے سے وہ باہر آسکتے تھے۔باہر بے شمار لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح کھڑے تھے۔پٹرول مہنگاہونے کی وجہ سے مقامی لوگ بھی وہیں کھڑے تھے اور بعض کی مجبوری تھی کہ وہ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے تھے ۔ان میں بہت سے سینئر سیٹیزن تھے بعض کے ساتھ بچے بھی تھے ایک حشر کا ساماں تھا۔بہر حال ہماری آج کی بھاگ دوڑ کا سلسلہ تو ختم ہو چکا تھا۔۔
میں گھر جانے لگی تو سوچا فارن آفس کے عوامی نیچر کال کے آرام کدے کو بھی شرف باریابی بخش دیا جائے۔ عمارت سے باہر چوکنّے بیٹھے چند ہوشیار مردوں کو دیکھ کر لگا کہ انہوں نے صاف ستھرا اور خوشگوار ماحول بنا رکھا ہوگا۔موسم برسات ارد گرد گھنے درخت ہر سو سبزہ ہی سبزہ اور اس سبزے سے پیدا ہونے والے خوفناک موٹے موٹے چیونٹوں نے میرا دل کھول کر استقبال کیا کچھ کو پاؤں تلے روندا کچھ کو جوتوں سے لپٹتا ہوا پایا اور پھر اس بھوکی مخلوق کو غاصبانہ طور پر اپنی طرف آتے دیکھا تو خوفزدہ ہونے کے باوجود اپنے تمام تر حوصلے کو جمع کرتے ہوئے میں مطلوبہ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔۔
یہاں مجھے انڈین کمورڈ نما کوئی چیز نظر آئی جو بلکل کالے رنگ میں بدل چکی تھی ہلتی ہوئی مخلوق سے تھوڑی تھوڑی سی جھلک سفیدی کی بھی کہیں کہیں نظر آ جاتی ۔۔۔سو اس سے اندازہ لگایا کہ یہی مطلوبہ جگہ ہوگی۔۔
یہاں داخل ہوتے ہی یہ خوفناک مخلوق میرے پاؤں پڑ گئی ۔۔اس سے پہلے کہ وہ میری قدم بوسی کرتی ہوئی مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتی ۔۔۔میں نے انہیں اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔۔
باہر کھڑا چوکیدار فوراً میرے پاس آکر رقم کا مطالبہ کرنے لگا میں نے کہا تمہیں تو پیسوں کی بجائے جوتے پڑنے چاہیئے۔۔کالے کلوٹے منہ سے کمینی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا میڈم پیسے تو دے دیں خیر میں نے زیادہ منہ لگنا پسند نہ کیا اور پیسے دے کر جان چھڑائی۔
گھر پہنچی تو لگا دوزخ کی جھلک دیکھ کر آئی ہوں۔ کاش افسر بالا کو بھی ان مقامات کی جھلک دکھائی جائے ۔آخر بعد از موت تک کا انتظار کیوں؟
اگلے دن شو مئی قسمت گرد آلود کاغذات میں سے ایک ایسا ثبوت مل گیا جو مجھے سرشار کر گیا
اگلے دن ہم اپنے رشتے کے ثبوت کے ساتھ اپنی ڈگریاں تھامے اشرافیہ کے لیے مخصوص کاؤنٹر ز کو حسرت سے دیکھتے انہی راستوں پر چل رہے تھے ۔کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد باری آئی تو موصوفہ نے ہماری اکلوتی پہچان کے ثبوت کو ایک طرف پھینکا اور ڈگریوں کو وصول کرکے رسید دے دی میں نے بہت کہا ارے بھئی کل جس کاغذ کے لیئے آپ نے ہماری درخواست رد کی تھی اسے تو ساتھ لگا دیجیئے مگر اس نے روزن سے گھورتی آنکھوں سے کہا ۔۔۔
”نیکسٹ”
اور ہم اپنا سا منہ لےکر رہ گئے ۔۔۔
باہر آئے تو ڈگریوں کے حصول کی معلومات کہیں درج نہ تھیں سو ہم نے بے پناہ رش کو دیکھتے ہوئے سوچا گھر چلنا چاہیئے دو بجے کے بعد دوبارہ آجائیں گے
دو بجے پہنچے بڑی ہی مشکل سے پارکنگ ملی ۔۔مطلوبہ جگہ پر پہنچنے کے بعد معلوم ہوا تھوڑی دیر کے لیئے ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلتی ہے اندر سے اے سی کی وجہ سے جنت کی ہوا آتی ہے کچھ نمبر اناؤنس ہوتے ہیں۔آواز میں ایکو کی وجہ سے اناؤنسمنٹ کی سمجھ ہی نہیں آتی مردو زن اس جھروکے کی طرف اپنے اپنے ٹوکن کا نمبر پکارتے ہوئے لپکتے ہیں ۔وہ دھکم پیل کہ خدا کی پناہ۔۔پکارے جانے والے نمبروں میں کوئی اصول کار فرما نہیں تھا۔کبھی وہ وہ دس نمبر پکارتے تو کبھی ساٹھ ۔۔۔ہم تو ویسے ہی سٹھیائے ہوئے تھے۔۔یوں لگ رہا تھا کہ کوئی سیٹھ خیرات بانٹ رہا ہے ۔۔بھوکی ننگی قوم کے بھکاریوں والے تجربے سے بارہا گزرنے کے بعد تقریبا چاربجے ہماری بھی شنوائ ہو گئی ۔۔۔یوں لگا میدان حشر میں فرشتے نے ہمارا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں پکڑا کر ہمیں خوش نصیبی کا پروانہ دے دیا ہے۔