ن لیگ جب تک ووٹ کو عزت دو کے بیانئیے پر قائم تھی عوام میں مقبول رہی، اس دوران تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کھڑی تھی۔ اب ن لیگ یا یوں کہیں کہ 13 جماعتی پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کھڑی ہے اور تحریک انصاف ووٹ کو عزت دو کے بیانئیے کیساتھ موجود ہے۔ پنجاب ضمنی انتخابات بہرحال ایک بات ضرور واضح کرتے ہیں کہ عوام میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ مقبول ہو رہا ہے یا یوں کہیں کہ مقتدر حلقوں کے سیاسی کردار کے خلاف ردعمل بڑھتا جا رہا ہے۔ خان ولی خان نے 40 برس پہلے کہا تھا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری جنگ پنجاب میں لڑی جائیگی، سو ہم نے نواز شریف اور عمران خان حکومتوں کو یہ جنگ لڑتے دیکھا۔
ریاست کے مالک عوام ہوتے ہیں ادارے نہیں، سیاستدانوں اور غیر سیاسی اداروں کو بہرحال اب یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ بائیس کروڑ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ نہیں، جیتا جاگتا ذھن رکھتے ہیں، ماضی میں جو کچھ گزرا، بہرحال بیت چکا، وقت آ گیا ہے کہ مقتدر حلقے حال میں جینا سیکھیں۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات، عوامی سوچ کا عکاس ہیں۔ جنکو لایا گیا تھا عوام نے انہیں پوری طرح مسترد کر دیام جنکو ہٹایا گیا تھا عوام نے انہیں چن لیا۔ 13 جماعتی اتحاد بمقابلہ ڈیڑھ جماعتی مقابلوں میں حیران کن نتائج آئندہ عام انتخابات کیلئے پاکستان کا فیصلہ سنا رہے ہیں۔ حکومت تحریک انصاف کی ہو یا پی ڈی ایم کی، کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق صرف اس وقت پڑتا ہے جب جیت ہار کا فیصلہ عوام کے بجائے کوئی اور کرے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ عوام اپنی طاقت نہ صرف پہچان رہے ہیں بلکہ اظہار بھی کر رہے ہیں، بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے مالک صرف اور صرف بائیس کروڑ عوام ہیں، کوئی اور نہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
پنجاب ضمنی انتخابی نتائج ملک کی گہری سیاسی تقسیم میں نہایت اہم اشارہ ہیں۔ منحرف ارکان کی خالی ہونے والی نشستوں ووٹنگ ٹرن آئوٹ بھی بڑا اہم ہے، 2018 عام انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 51 فیصد تھی جبکہ ضمنی انتخابات میں یہ شرح تقریبا 50 فیصد رہی، اگرچہ عام طور پر ضمنی انتخابات میں رائے شماری کی شرح نہایت کم ہوتی ہے۔ پنجاب ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے 46 اور ن لیگ نے 39 فیصد ووٹ حاصل کیے، آزاد امیدواروں نے 7 اور تحریک لبیک صرف 5 فیصد ووٹ لیکر مزید سکڑ گئی۔
بڑا سوال یہ ہے کہ اب کیا ہونیوالا ہے، وفاق میں شہباز اتحادی حکومت کب تک چل پائیگی؟ سب جانتے ہیں پی ڈی ایم کا 13 جماعتی اتحاد بھان متی کا کنبہ ہے، مختلف سیاسی حکمت عملی، خیالات رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا واحد اتفاق صرف عمران حکومت کا خاتمہ تھا، سو کامیابی ملی مگر ایک ایسی حکومت بھی کرنی پڑی جو شاید کوئی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا کبھی قبول نہ کرتا۔ مولانا فضل الرحمان اور زرداری صاحب شہباز شریف دائیں بائیں کھڑے تھے، موجودہ صورتحال میں کب تک کھڑے رہینگے؟ میاں نواز شریف اور مریم نواز حکومت بنانے کے حق میں نہ تھے مگر شہباز شریف اڑے رہے، سو موروثی سیاست میں ایک اور باب کا اضافہ ہوا، باپ وزیر اعظم، بیٹا وزیر اعلی، اب دونوں ہی بشمول پارٹی مشکل کا شکار ہیں۔
ن لیگ کی حکومت ایسی بیساکھیوں پر کھڑی ہے کہ کسی صوبے میں اسکی حکومت نہیں، ظاہر اتحادی اس سیاسی موقعے کو بھرپور فائدہ اٹھائینگے۔ اس وقت ن لیگ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اپنی ہی حکومت میں بدترین شکست کا جواز کیا ڈھونڈیں، بجز اسکے کہ ہار تسلیم کریں۔ متحدہ قومی موومنٹ اور باپ جیسی فون زدہ جماعتیں کب یو ٹرن لے لیں، یہ دھڑکا تین بڑوں کو خوفزدہ کیے رکھے گا۔ گویا سیاسی بحران ملکی معیشت کو تاراج کرتا رہیگا، اس ذمہ داری کا بہرحال تعین ہونا ہے کہ سیاسی بحران کا باپ کون ہے؟ شاید وقت آ گیا ہے کہ پارلیمان اور تمام اداروں کو سر جوڑنا پڑیگا، سب حلقہ بندیاں از سر نو کرنی پڑینگی، اختیارات اور فراٗئض کا دوبارہ تعین کرنا پڑیگا چونکہ تقدس، احترام، شناخت سب کچھ پاکستان کے دم سے ہے، فیصلہ کرنا پڑیگا کہ ہمیں سری لنکا کے نقش قدم پر چلنا ہے یا بنگلہ دیش کے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان کی تقریر کا تجزیہ: چیف الیکشن کمشنر سب سے بڑا ہدف کیوں ہیں؟
ضمنی انتخابات: انتخابی مہم کا ایک بے لاگ جائزہ
ضمنی انتخابات کے بعد کرنے کے کچھ کام
پنجاب حکومت ختم ہونا شہباز حکومت کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہو گا، پنجاب جو ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے بالخصوص لاہور، پنجاب انتخابات میں ذات برادریاں، الیکٹبلز، شہباز شریف کے ترقیاتی پروگرامز، سب دھرا کا دھرا رہ گیا، سیاسی پنڈتوں کی پیشگوئیاں، تجزیہ کاروں کے اندازے، دانشور اینکرز کی پھلجڑیاں، سب اینٹی اسٹیبلشمنٹ برسات میں پھس ہو گئے۔ ہماری سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب نیوٹرلز کسی ایک کو کھڈے لائن لگاتے ہیں تو انکی انگلی تھامنے والے ایک دو چار نہیں، بلکہ ساری جماعتیں ہوتی ہیں، یہی نقش پاکستانی سیاست میں جابجا پائے جاتے ہیں، شاید ہم کبھی یہ بھی دیکھیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اختلافات بالائے طاق رکھکر غیر سیاسی مقتدرہ کا ساتھ دینے سے انکار کر دے، کاش سیاسی جماعتیں یہ کہنے کی جرات کر سکیں کہ اختلافات اپنی جگہ مگر تین، ساڑھے تین سال نہیں پورے پانچ سال حکومت قائم رہیگی، بقول جلیل مانک پوری
ایک سودائی ایک ہرجائی
در بہ در میں ہوں جابجا تو ہے
کیا وجہ ہے کہ 75 سال بعد بھی پاکستان کی سیاست میں جابجا ہرجائی سکہ چلتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ 98 فیصدعوام آج بھی 2 فیصد طبقہ اشرافیہ کے یرغمال ہیں؟ امید ہے کہ اس بڑی سیاسی تبدیلی سے تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جمیعت العلمائے اسلام نے بہت کچھ سیکھا ہو گا اور شاید نیوٹرلز نے بھی، 2018 انتخابات کے بعد یہ دوسرا موقعہ ہے جہاں عوام نے موروثی سیاست اور پرانی سوچ کو شکست دی ہے۔ 75 سال میں جانے اس قوم نے کتنی جعلی سڑی گلی ڈاکٹرائنز جھیلی ہیں اس قوم نے، مگر یہ عوامی ڈاکٹرائن ہے اور یہی قومی ہے۔
آمریت پر تو لعنت بھیجیں مگر سوال یہ ہے کہ جمہوریت ہے کیا؟ قدیم یونانی فلسفی ہیروڈوٹس جمہوریت کے بارے میں کہتا ہے ’’جمہوریت ایسی حکومت ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں۔‘‘ اس سے زیادہ بہتر انداز سے سمجھنے کیلئے سابق امریکی صدر اور سیاسی دانشور ابراہم لنکن کی جانب دیکھتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ’’عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے عوام پر قائم کی جاتی ہے۔‘‘ یہ چند جملے دانشوری جھاڑنے کیلئے نہیں بلکہ یہ سمجھنے کیلئے پیش کیے ہیں کہ جمہوریت ہے کیا؟ اب ذرا غور فرمائیں ہماری کتنی حکومتیں، کتنی سیاسی جماعتیں، کتنے سیاسی قائدین اس تعریف پر پورا اترتے ہیں، پھر بھلا ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جس میں جمہور ہی نہ ہوں، ایسی حاکمیت کا کیا فائدہ جو عوام کو فائدہ نہ پہنچا سکے۔ تو صاحب ایسے سیاسی رہبران ملت کیلئے چلتے چلتے ارتضی نشاط کا ایک لاجواب شعر
کرسی ہے تمھارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے