ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان کی تقریر کا انتظار تھا، وہ تقریر ہو گئی ہے۔
اپنے مزاج کے برعکس عمران خان کی تقریر میں نسبتاً ٹھہراؤ تھا۔ انھوں نے بہت دھیمے لہجے میں گفتگو کاآغاز کیا اور کہا کہ اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے آگے بڑھنے کی بات کہی تو محسوس ہوا کہ جیسے کوئی نیا عمران خان بات کر رہا ہے۔ ضمنی انتخابات کے دن فواد چودھری نے میثاق جمہوریت طرز کے ایک معاہدے کی بات کہی تھی۔ عمران خان کی زبانی آگے بڑھنے کی بات سن کر یہی محسوس ہوا کہ وہ ایک نئی ابتدا کی بات کر رہے ہیں لیکن اگلے ہی لمحے جب انھوں نے کہا کہ اس الیکشن کمشنر کے نیچے منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے، لہٰذا انھیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔ اسی دم واضح ہو گیا کہ یہ تو وہی پرانے عمران خان ہیں۔ تھوڑے کم نہ تھوڑے زیادہ۔ اس طرح انھوں نے آگے بڑھنے کی بات کی تردید خود ہی کر دی ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
چیف الیکشن کمشنر پر عمران خان اس کے باوجود حملہ آور ہیں کہ ان ہی کی زیر قیادت ہونے والے انتخابات میں انھوں نے فقید المثال کامیابی حاصل کی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی تمام تر تنقید کا ہدف چیف الیکشن کمشنر کیوں ہیں تو اس کی ایک ہی وجہ سامنے آتی ہے۔ ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ کیس جس کا فیصلہ الیکشن کمیشن میں محفوظ پڑا ہے۔ الیکشن کمیشن جب تک بچ بچ کے چلنے کی پالیسی پر کاربند رہے گا، وہ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کواپنا نشانہ نمبر ایک بنائے رکھیں گے۔ اس گفتگو سے واضح ہو گیا ہے کہ عمران خان کا پہلا مقصد ممنوعہ فنڈنگ کیس سے نجات حاصل کرنا ہے لہٰذا وہ دباؤ بڑھاتے چلے جارہے ہیں اور ان کا ہدف بننے والے سکڑتے چکے جاتے ہیں۔
عمران خان کی تقریر کا دوسرا ہدف موجودہ حکمران تھے۔ اپنی تقریر میں انھوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ یہ ساری کابینہ ضمانت پر ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف تو فیصلہ آنے والا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ ضمانتوں پر لوگ اقتدار میں آجائیں۔ عمران خان کی یہ دلیل درست مان لی جائے تو ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا بھی کہیں نہیں ہوتا کہ ملکی قوانین کے خلاف دشمن ممالک سے فنڈنگ حاصل کرنے والے لیڈر اور اس کی جماعت کے خلاف فیصلہ محفوظ ہو اور وہ پوری ریاست کو آگے لگائے رکھے۔ ایسا کرشمہ بھی صرف پاکستان میں ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی انتخابات: انتخابی مہم کا ایک بے لاگ جائزہ
ضمنی انتخابات کے بعد کرنے کے کچھ کام
کلی کا پھول، چمکتا جگنو یا دمکتا تارا
ان کی تقریر کا ایک اہم نقطہ وہ نعرے تھے جنھیں عمران خان نے اپنی تقریر میں دہرایا یعنی پاکستان کا مطلب کیا اور تیرا میرا رشتہ کیا؟
عمران خان نے حکومت سے محرومی کے بعد اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف اختیار کر کے مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہتھایا تھا۔ اب وہ ان نعروں پر زور دے کر ملک کے مذہبی ووٹ کو مخاطب کر رہے ہیں تاکہ ملک کے سیکیولر طبقات کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقات کے ووٹ بھی حاصل کر سکیں۔ آنے والے دنوں میں ان کی حکمت عملی مزید واضح ہوتی جائے گی۔