اس چہرے کو کلی کا پھول کہوں، چمکتا جگنو کہوں یا دمکتا تارا کہوں۔ شش و پنج میں ہوں پانی میں تیرتا کنول کہوں یا پھولوں پر ناچتی دلکش تتلی کہوں یا افق پر اگتا آفتاب۔ حیران پریشان ہوں اس خلوص کے پیکر سے بنے انسانی مجسمے کو میں کیا نام دوں؟
زندگی میں شاذ و نادر ہی ہوا ہے کہ کسی کی مسکراہٹ دل کو چھو لے۔ آخر ایسا اس مسکراہٹ میں کیا ہے؟ غور کیا تو محسوس ہوا، مسکراہٹ کم سورج کی پہلی کرن زیادہ، چمکدار چاند کی روشنی زیادہ، سہانی شام کی اداسی طرح ، شرارت کے سبھی رنگوں سے لبریز، معصومیت کے رنگ میں گھولی زیادہ، کچھ صبح کی دھوپ کی طرح شوخ سی، کچھ جذبات میں بوجھل سی، کچھ ترنگ میں، کچھ نئے رنگ میں۔
یہ بھی دیکھئے:
زندگی سے بھر پور اور سوالوں سے بھرپور، ایک ادا سے بھرپور، رخ روشن کئیے، جو سیدھا دلوں پر وار کئیے، نئے عزم سے بھر پور یہ چمچماتی مسکراہٹ تمھارے کانوں کے جھمکوں سے بھی پیاری، ناک پر شوخ نتھلی اور یہ مسکراہٹ قاتل وللہ قاتل۔ دل موہ لے، جو دیکھے ہوش کھو دے، شبنم کے قطروں کی طرح پاکیزہ، اور قوس قزح کے رنگوں کی کشش لیے آئے بارش کی خوشبو لیے یہ مسکراہٹ دنیا کے ہر رنگ کا منہ چراتی نظر آئی۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی انتخابات کے بعد کرنے کے کچھ کام
ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی، ن لیگ سے کیا غلطی ہوئی؟
پیٹرول کے نرخوں میں کمی، مفتاح اسماعیل کا بڑا کارنامہ
سوچنے بیٹھا کہ کردار کو کیسے بیان کروں تو زبیر احمد قادری کی یہ نظم یاد ائی۔
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
ترنم گھول سکتے ہیں
محبت بول سکتے ہیں
تبسم اوڑھ سکتے ہیں
دلوں کو جوڑ سکتے ہیں
تمہارے ساتھ چلنے کو
زمانہ چھوڑ سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
تصنع سے مبرا ہیں
متانت سے مرصع ہیں
وضع داری کا پیکر ہیں
رواداری کا مظہر ہیں
نئے رستے بناتے ہیں
نئے رشتے سجاتے ہیں
شہر سے جب نکلتے ہیں
تو صحراؤں میں رکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
یہ علم و فن کے پروانے
کسی کو مان دیتے ہیں
کسی کی مان لیتے ہیں
کسی کو کم نہیں کہتے
سفر میں دم نہیں لیتے
زمیں آباد کرتے ہیں
فلک کو کھوج سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
کوئی جو ڈھونڈنا چاہے
انہیں گر کھوجنا چاہے
تو خود میں جھانک کر دیکھے
بڑی سچائی سے سوچے
بہت اچھائی سے سوچے
تو ان لوگوں میں آئے گا
جو طوفاں موڑ سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اپنے شیریں لہجے سے
خوشبو گھول سکتے ہیں
جو اردو بول سکتے ہیں