پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد یہ سوال ایک بار پھر زور پکڑ رہا ہے کہ آخر وہ کون سی قوت ہے جو ابھی بھی پی ٹی آئی اور عمران خان کی پشت پر پوری یکسوئی اور وسائل کے ساتھ کھڑی ہے؟ کہنے کو تو اس سوال کا بہت سادہ سا جواب پی ٹی آئی کی طرف سے دیا جاسکتا ہے کہ عمران خان عوامی مقبولیت کی قوت کے بل بوتے پر اپنی سیاسی مہم چلا رہے ہیں مگر واقفان حال جانتے ہیں کہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔
وفاق میں حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی پی ٹی آئی نے جو سیاسی بیانیہ تشکیل دیا ہے وہ عوامی سطح پر جتنا بھی مقبول ہو مگر اس کی ترویج و اشاعت کے لئے اب تک غیر معمولی وسائل خرچ کئے گئے ہیں اور یہاں ہی سے بہت سے سوالات و اشکالات جنم لیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی میں سوشل میڈیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ٹویٹر کے ذریعے جس انداز میں پی ٹی آئی نے اپنے بیانیہ کو فروغ دیا وہ پاکستان کی سیاسی کلچر میں ایک غیر معمولی چیز ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جس زوردار انداز میں سوشل میڈیا کو بروئے کار لایا گیا ہے اس سے یہ شکوک جنم لیتے ہیں کہ آخرکار وہ کون سی قوتیں ہیں جو اس سارے کھیل میں پی ٹی آئی کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ پاکستانی فوج کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل یعنی آئی ایس پی آر کو جس طرح پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا سپاہ نے پچھلے کئی ہفتوں سے آڑے ہاتھوں لینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ اب تشویشناک مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ اسی طرح ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی و منشا سے کام کرنے والے بہت سے اینکرز’ بلاگرز اور یو ٹیوبرز تاحال عمران خان کی تعریف و مدح سرائی میں اسی طرح مگن ہیں جس طرح ففتھ جنریشن وارفئیر کے ابتدائی دنوں میں فوج اور عمران خان کے ایک پیج پر ہونے کی بنا پر پروپیگنڈا کیا جاتا تھا۔
سوشل میڈیا کی اس مہم پر جو بھاری اخراجات اٹھتے ہیں ان کی ذمہ داری اور فنانسنگ کہاں سے ہو رہی ہے؟ نون لیگ کے راہنما خواجہ سعد رفیق نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے مگر تاحال اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ عام تاثر کے برعکس سوشل میڈیا ٹیم کی تشکیل اور مہمات کی سرگرمی سے ترویج کے لئے بھاری انسانی و مالیاتی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ آخر پی ٹی آئی یہ سارے اخراجات کہاں سے پورے کر رہی ہے؟ ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت کے خلاف آواز اٹھانے پر جن مشکلات کا سامنا پاکستان میں کرنا پڑتا ہے اس قسم کی مشکلات پی ٹی آئی کی حمایت میں سرگرم بلاگرز اور یوٹیوبرز کو پیش نہیں آ رہی ہیں۔ عمران ریاض خان یا چند دیگر افراد کے معاملات زیادہ پیچیدہ اور استثنائی نوعیت کے تھے اور ان کو بھی چند ہی دنوں کے بعد ریلیف حاصل ہو گیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
وزارت خارجہ سے ڈگری تصدیق کرانے کا ذلت آمیز طریقہ
عمران خان کی تقریر کا تجزیہ: چیف الیکشن کمشنر سب سے بڑا ہدف کیوں ہیں؟
ضمنی انتخابات: ووٹ کو عزت دو، پنجاب کا بڑا فیصلہ
اس تناظر میں مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ آخر وہ کون سے ذرائع ہیں جو ان بھی عمران خان کی پشت پناہی کر رہے ہیں؟ اس بارے میں ایک تھیوری تو یہی چل رہی ہے کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ اس وقت اندرونی طور ہر ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کے خطرناک مراحل سے گزر رہی ہے اور ڈیپ اسٹیٹ کے بعض عناصر ابھی تک پی ٹی آئی کے ہمنوا ہیں۔ اس تھیوری کو تقویت پہنچانے کے لئے ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم کی سرگرمیوں کی مثال دی جاتی ہے۔ اسی طرح آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ظہیر الاسلام سمیت دیگر فوجی افسران کی کھل کر پی ٹی آئی کی حمایت کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی آشیرباد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ضمنی انتخابات میں جس طرح سابقہ جہادی عناصر پی ٹی آئی کی حمایت میں کمربستہ رہے ان سے بھی اس تھیوری کو تقویت ملتی ہے۔ اللہ اکبر تحریک اور خدمت کمیٹیوں کے نام پر جہادی تنظیم کے وہ عناصر جو ایف اے ٹی ایف کے بعد سے مکمل طور پر ریاستی وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں وہ پوری طرح کھل کر پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں۔ حالات سے معمولی سی واقفیت رکھنے والے لوگ یہ جانتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کی حمایت کسی بھی سیاسی فریق کو مخصوص قوتوں کے اشارے کے بغیر حاصل ہونا ناممکن ہے۔
پی ٹی آئی کو حاصل اسٹیبلشمنٹ کے ایک مخصوص حصے کی اس مبینہ حمایت کے بارےمیں زیادہ سنجیدگی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ کسی تناؤ اور تقسیم کا نتیجہ ہے یا پھر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے؟ فوج جیسے منظم و مربوط ڈسپلن کے ادارے میں اس حد تک افراتفری پیدا ہونے کی خواہش تو بہت سے لوگوں کو ہوسکتی ہے مگر عملی طور پر اس کا وقوع پذیر ہونا تقریبا ناممکن ہے۔ فوج کے چین آف کمانڈ اور رپورٹنگ میکانزم کے ہوتے ہوئے یہ تصور کرنا کہ حالات اس حد تک بگڑ جائیں گے بادی النظر میں ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ اس صورتحال میں اس سارے عمل کی یہی توجیہہ باقی رہ جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کی پشت پناہی پر سرگرم عوامل کو کسی نہ کسی درجے میں اسٹیبلشمنٹ ہی کی آشیرباد حاصل ہے۔ یہ غیر منقسم شدہ ایک ہی اسٹیبلشمنٹ ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے باوجود ریاستی وسائل کے ایک بڑے حصے کو ابھی تک پی ٹی آئی کے بیانیہ کی حمایت میں استعمال کئے جانے کو بوجوہ جائز تصور کرتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آخر پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے میں ابھی تک کیوں دلچسپی رکھتی ہے؟ اس سوال کا جواب خاصا پیچیدہ ہوسکتا ہے کہ پاکستانی سیاست کے بہت سے پہلو بین الاقوامی سیاست کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ خطے کی صورتحال’ افغانستان’ ایران’ چین’ مشرق وسطی اور امریکہ تک پھیلائے گئے پاکستان کے تزویراتی مفادات (اور ان سے وابستہ کارپوریٹ مفادات) اس بات کے متقاضی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے بہت سے کارڈز شو کئے بغیر سینے سے لگائے رکھے۔ بادی النظر میں عمران خان پراجیکٹ کو فوری طور پر لپیٹنے کے پیچھے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کے بارے میں خدشات تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ریاستی امور میں جو دوست ممالک مستقل اسٹیک ہولڈرز کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ان کے خدشات بھی اس حد تک بڑھ چکے تھے عمران خان حکومت کو مزید چلانا ممکن نہیں رہا تھا۔ مگر یہ پراجیکٹ عمران خان کی قدر و قیمت مکمل طور پر ختم ہونے کا عندیہ نہیں تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ابھی اس پراجیکٹ کو باقی رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس سلسلے میں اسے شاید اپنے بعض بیرونی دوستوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی یہ حکمت عملی کسی طور پر حیرت کا باعث نہیں ہے کہ ماضی میں وہ اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے پراجیکٹس کو بگاڑنے اور بعدازاں سنوارنے کا کام کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں طالبان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح افغانستان میں ابتدائی طور پر طالبان کو کھڑا کیا گیا اور پھر نائن الیون کے بعد اس پراجیکٹ کو بظاہر زمین بوس کرنے میں بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پیش پیش تھی۔ مگر طالبان کارڈ کو مسلسل اسٹیبلشمنٹ نے سینے سے لگائے رکھا اور اب دنیا اس کی اہمیت کو دیکھ رہی ہے۔ پراجیکٹ عمران خان کے وقتی اتار چڑھاؤ کو اس مثال کے تناظر میں سمجھنا قطعی مشکل نہیں ہے۔