سفر کو وسیلہ ظفر بھی کہا گیا ہے۔ یعنی کسی مقصد میں کامیابی کی خواہش ہو تو سفر کر کے اپنی تمنا کی تکمیل کا راستہ تلاش کیجئے۔ میری زندگی میں تو سفر کی ابتداء اس وقت سے ہی شروع ہوگئی تھی جب مجھے تمنا اور ضرورت یکساں معنی رکھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں یعنی جس چیز کی خواہش کی وہ بھی حاضر اور جس شے کی حاجت محسوس ہوئی وہ بھی دسترس میں ۔ میں ترکی کئی بار آچکی ہوں ۔ استنبول شہر سے تو میرا شاید کوئی روحانی رشتہ ہے۔ تب ہی ہمیشہ کہتی ہوں کہ اگر خدا نے ایک زندگی اور عطا کی اور روح کو زمین کی طرف جانب سفر کیا تو رب سے التجا کروں گی کہ مجھے استنبول بھیج دے۔ لیکن اس وقت میں اپنے سفر سے قبل عجب شش و پنج میں مبتلا تھی۔ خدا سے سوال پر سوال کر رہی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:
پروفیسر لر ایوی میں صدائے کشمیر
پھر ایک روز جب ذہن و دل کی تکرار پر سوچا کہ زندگی جب بندگی ہے تو پھر اس کے لئے اتنا تردد کیسا؟ جب میرا اللہ میرا مالک ہے تو پھر یہ اس جسم و جاں کے مالک کی ذمہ داری ہے کہ اگر میں کوئی کارآمد پرزہ ہوں اس کی تخلیق کا تو وہ مجھے سنبھالے ، میری حفاظت کرئے یا پھر اس کی تخلیق کا مقصد پورا ہوگیا ہو تو وہ میرے وجود کی اس دنیا سے واپسی کر دے ۔۔۔۔ میرا وجود مٹا دے ۔۔۔۔ مالک اپنی چیزوں کی اہمیت اور ان کا استعمال و حفاظت شے سے بہتر جانتا ہے۔ پھر میں کیوں ان فکروں میں خود کو جکڑ رہی ہوں۔ جو میرے لیے ہیں ہی نہیں ۔۔۔۔ اگر اس نے مجھے کوئی قابل پرزہ بنایا ہے تو خود ہی سنبھالے گا۔ میں اتنا تردد کر کے کون سا تیر مار لوں گی۔
“ اپنے حصے کا کام کرو سیما بی بی !۔۔۔ اُس کے حصے کا نہیں جس نے تجھے اور اس دنیا کو تخلیق کیا۔۔۔۔۔ میں نے اپنی ڈاکٹری رپورٹ کو لفافے میں بند کرتے ہوئے سوچا۔ اس رپورٹ کے مطابق میرے گلے کے ایک حصے میں سانس کی نالی کے قریب کچھ گٹھلیاں سی بن رہی تھیں جس پر ڈاکٹروں کو شبہ تھا کہ وہ کینسر کی ابتدائی شکل ہے۔ کئی ٹیسٹ لکھ کر دیئے تھے۔ پہلے میں ڈاکٹر کے ان ٹیسٹ اور تشخیص پر گھبرا کر سوچنے لگی تھی کہ اب کیا ہوگا ؟ ابھی تو میرے بہت سے کام ادھورے ہیں۔ ابھی تو خوابوں کی تعبیر کا راستہ تلاش کرنا باقی ہے، ابھی دنیا کے رنگ و روپ ہی مجھ پر منکشف نہیں ہوئے اور اوپر والا واپسی کی تیاری کا عندیہ دے رہا ہے۔ مجھ سے زیادہ میرے خونی رشتے میرے لیے پریشان تھے۔ چند قریبی دوست احباب کو جب خبر ہوئی تو وہ بھی دعاؤں اور دواؤں کے نسخے پیش کرنے لگے۔ اپنے تئیں میں اپنے رب سے بہتر مراسم رکھے ہوئے تھی۔ اطاعت یوں بھی ہمارے خطے کی عورت کے جسم میں خون بن کر دوڑتی ہےاور مجھے اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں بلکہ میرے جسم میں تو خون بھی فشار خون کی بیماری لے کر دل کو بھی رب کی تلاش میں مریض بنا چکا تھا۔کچھ علم کی سودا گری اور شعر و ادب کی مصروفیت نے اس تلاش کو کبھی کبھی وقت گنوانے کی نذر ضرور کیا تھا لیکن اپنے جُز سے غفلت یا انکاری مجھے کبھی بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اسی لیے یہ تشخیصی نسخے ہاتھ میں تھامے کئی بار سوچتی تھی کہ آخر میں ہی کیوں؟ پھر ایک روز اپنے مالک سے شکوہ کرتے ہوئے نہ جانے کیسے یہ دل میں خیال آیا کہ “ سیما ! تُو تو بہت سمجھ دار اور صابر و شاکر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے ۔۔۔ کئی بار زندگی کی ڈگر پر پھسل کر دوبارہ اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ لیکن کسی نے ہاتھ تھاما یا سہارا دیا تب ہی ایسا ممکن ہوا نا!۔۔۔۔ ورنہ تیری کیا حیثیت ! تُو تو خالق کائنات کی جانب سے فقط ایک انسانی جسم عطا کرکے اس کائنات کا حصہ بنائی گئی ہے اور بنانے والے کی ملکیت ہے۔ مالک کی کسی شئے پر تیرا کیا اختیار۔۔۔تیری کیا اوقات ہے کہ تو اپنے اندر کسی بھی تبدیلی کو روکے یا اس امانت جسم خاکی کی حفاظت کرئے۔ یہ کام اس جسم و جاں کے مالک کا ۔۔۔۔وہ چاہے گا تو عطا کرئے گا اور اگر اس کا میرے لیے مقصد حیات پورا ہوگیا ہو تو اپنی قدرت کی دوسری تخلیق کی طرح فنا یا بقا بخش دے گا۔ جب تک اس نے جسم اور روح کا ساتھ رکھا ہے تو بھی اس سفر کو خوشی و اطمینان سے آگے بڑھا۔