Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
وطن عزیز میں یہ سوال ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ملک کا سیاسی نظام کیسا ہونا چاہیے؟ اس بحث کی بنیاد بعض حلقوں کی طرف سے کھلے یا چھپے اس خواہش کا اظہار ہے کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے، اب ضروری ہے کہ آئین میں تبدیلی کر کے صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے اسی سوال کو اپنی بحث کی بنیاد بنایا ہے۔ وہ اس بارے میں کیا لکھتے ہیں، ذیل کی سطور میں دیکھ لیجئے:
اکثر اوقات ہمارے ملک کے سیاسی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام گلا سڑا اور ناکارہ ہو چکا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے ہمارے عوام کو نہ عدل و انصاف مل سکتا ہے اور نہ ان کے سیاسی اور معاشی مسائل ہی حل ہو سکتے ہیں۔ غالباً یہ اعتراض درست ہے۔ کیونکہ عملاً صورت حال ایسی ہی ہے لیکن اعتراف کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ اس نظام کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ کون سے نقائص اور خامیاں ہیں جنہوں نے اس نظام کو اندر اور باہر سے ناکامی سے دوچار کر رکھا ہے۔ جب تک یہ بتایا نہیں جائے گا‘ اصلاح کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
ہمارے خیال میں اس نظام کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ دستور میں نظری طور پر جن عزائم کا اظہار کیا گیا ہے وہ عملی صورت میں کہیں نظر نہیں آتے۔ جس عدل و انصاف‘ مساوات‘ بنیادی حقوق‘ مذہبی آزادی وغیرہ کے وعدے دستور میں کیے گئے ہیں‘ وہ ٹھوس صورت میں ہمارے سیاسی نظام میں جو رائج ہے۔ نظر نہیں آتے اس دوغلی صورت حال نے ہمارے عوام کا اعتماد اپنے سیاسی نظام ہی سے نہیں‘ اپنے مقدس دستور سے بھی اٹھا دیا ہے اور دستور بھی ایک کھیل تماشا بن گیا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنی مختصر سی مدت میں شاید ہی اتنی ترمیمات کی گئی ہوں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے اندر اس دستور کے تقدس کا کوئی ذرا سا بھی احساس کبھی موجود نہیں رہا۔ جب دستور کی عصمت و عفت کا احساس خود حکمرانوں کے اندر نہیں ہو گا تو عوام اور تعلیم یافتہ طبقے میں دستور کی حرمت کا احساس کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر ملک کے سیاسی نظام کو مستحکم کرنا ہے تو سب سے پہلے دستور کے تقدس اور اس کے احترام کو مدنظر رکھنا ہو گا اور یہ ذمہ داری‘ یہ فریضہ حکمرانوں ہی کا ہے۔
حکمران جب دیکھتے ہیں کہ ان کے عزائم کی راہ میں دستور رکاوٹ بن رہا ہے تو وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے دستور کی کسی شق میں ترمیم کر ڈالتے ہیں یا اس میں اضافہ و تبدیلی کر دیتے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ اس کے نتائج کیا مرتب ہوں گے۔ رہی بات میڈیا اور سیاسی عناصر کی تو انہیں بھی کبھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ حکمرانوں کے ایسے اقدامات کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ بے دلی سے کی جانے والی تنقید کو ہمارے حکمران خاطر ہی میں کب لاتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ ہمارے سیاسی نظام کی ناکامی کی یہ ہے کہ اب تک ہم اپنی قومی اور ملکی ضرورتوں اور ترجیحات کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ مثلاً ہمیں صدارتی نظام سُوٹ کرتا ہے یا پارلیمانی نظام۔ہمارے صدر کو بااختیار ہونا چاہیے یا وزیر اعظم کو۔ہمارے ملک میں شریعت نافذ ہونی چاہیے یا ایک سیکولر اور لبرل نظام آنا چاہیے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے دستو پر اعتماد نہیں۔ یہ بھی ایک انوکھی مثال ہے جو دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آئی۔قرار داد مقاصد جو دستور کا دیباچہ ہے اور جو چودھری محمد علی‘ صدر ایوب کے بنائے ہوئے دستور سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کے دستور میں شامل رہا اور جسے جنرل ضیاء نے دستور کا ایک مستقل دیباچہ بنا دیا‘ وہ قرار داد مقاصد آج بھی دانشوروں کے ایک مخصوص طبقے کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور وہ اس کا برملا اظہار اپنی تقریروں اور مضامین میں کرتے رہتے ہیں۔ دستور میں صدر کے لئے مسلمان ہونا لازم کہا گیا ہے ‘یہ پابندی بھی اس طبقے کو بری لگتی ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئے تمام طبقہ ہائے فکر کے اسکالروں اور دانشوروں کو جمع کر کے ان سارے متنازعہ مسائل پر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور پھر یہ فیصلہ کیا جائے کہ اب جو کچھ طے پا گیا ہے‘ اس پر سب متفق و متحد ہو کر قدم بہ قدم چلیں گے اس لئے کہ قوم و ملک کے دماغ ہی اگر ٹکڑیوں میں بٹے رہے اور ان کی ذہنی اور تخلیقی توانائی منقسم رہی تو قوم و ملک کو اس انتشار و افراتفری سے کیا ملے گا؟ اور اب تک کیا ملا ہے؟ قوم مسائل و مصائب کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ ملک کا امیج دنیا بھر میں تباہ ہو چکا ہے۔ اگر اب اپنے اندر اتفاق و اتحاد پیدا نہیں کرو گے تو کب کرو گے۔ لیکن یہ آواز ہمیشہ صد البصحرا ہی رہی۔
یہ رویہ کیا ہے ؟ اسے ہم کیا نام دیں۔ کیا بے حسی؟ کیا خود غرضی؟ کیا بے بصیرتی؟ یا تعصب؟ ہاں اس کی وجہ تعصب کے سوا کچھ اور نہیں۔ اپنے نظریے کا تعصب۔ جب آدمی کی عقل اپنی ہی اسیر ہو جائے اپنے نظریے کی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہ رکھے تو یہی ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی تک ملک میں نظری اور نظریاتی بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا‘ اب وہ بھی نہیں ہوتا۔ دائیں بازو والے دائیں والے نہ رہے اور بائیں بازو والے بھی بائیں والے نہ رہے۔ اب کچھ بھی نہیں۔ اگر کچھ ہے تو مفاد پرستی‘ زر پرستی اور جاہ پرستی ہے۔ ہم سب اپنے اپنے مفادات کے قیدی ہو گئے ہیں۔ صورت حال جب ایسی ہو جائے تو مظلوم و مقہور عوام‘ دبے اور پسے ہوئے لوگ ‘ خدا کی بے پناہ ہو جانے والی خلقت کس کا منہ دیکھے؟ اپنی نجات کے لئے وہ کس کی قیادت قبول کرے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ احمد فراز نے کہا تھا کہ شکوۂ ظلمت شب نہ کرو‘ بس اپنے حصے کی شمع جلا دو‘ تمہاری ذمہ داری پوری ہو گئی۔ ہاں معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ ان ہی کے وجود کی برکت سے یہ ملک چل رہا ہے ورنہ اسے تباہ و برباد کرنے میں کس نے کوئی کسر چھوڑی ہے۔
وطن عزیز میں یہ سوال ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ملک کا سیاسی نظام کیسا ہونا چاہیے؟ اس بحث کی بنیاد بعض حلقوں کی طرف سے کھلے یا چھپے اس خواہش کا اظہار ہے کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے، اب ضروری ہے کہ آئین میں تبدیلی کر کے صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے اسی سوال کو اپنی بحث کی بنیاد بنایا ہے۔ وہ اس بارے میں کیا لکھتے ہیں، ذیل کی سطور میں دیکھ لیجئے:
اکثر اوقات ہمارے ملک کے سیاسی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام گلا سڑا اور ناکارہ ہو چکا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے ہمارے عوام کو نہ عدل و انصاف مل سکتا ہے اور نہ ان کے سیاسی اور معاشی مسائل ہی حل ہو سکتے ہیں۔ غالباً یہ اعتراض درست ہے۔ کیونکہ عملاً صورت حال ایسی ہی ہے لیکن اعتراف کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ اس نظام کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ کون سے نقائص اور خامیاں ہیں جنہوں نے اس نظام کو اندر اور باہر سے ناکامی سے دوچار کر رکھا ہے۔ جب تک یہ بتایا نہیں جائے گا‘ اصلاح کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
ہمارے خیال میں اس نظام کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ دستور میں نظری طور پر جن عزائم کا اظہار کیا گیا ہے وہ عملی صورت میں کہیں نظر نہیں آتے۔ جس عدل و انصاف‘ مساوات‘ بنیادی حقوق‘ مذہبی آزادی وغیرہ کے وعدے دستور میں کیے گئے ہیں‘ وہ ٹھوس صورت میں ہمارے سیاسی نظام میں جو رائج ہے۔ نظر نہیں آتے اس دوغلی صورت حال نے ہمارے عوام کا اعتماد اپنے سیاسی نظام ہی سے نہیں‘ اپنے مقدس دستور سے بھی اٹھا دیا ہے اور دستور بھی ایک کھیل تماشا بن گیا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنی مختصر سی مدت میں شاید ہی اتنی ترمیمات کی گئی ہوں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے اندر اس دستور کے تقدس کا کوئی ذرا سا بھی احساس کبھی موجود نہیں رہا۔ جب دستور کی عصمت و عفت کا احساس خود حکمرانوں کے اندر نہیں ہو گا تو عوام اور تعلیم یافتہ طبقے میں دستور کی حرمت کا احساس کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر ملک کے سیاسی نظام کو مستحکم کرنا ہے تو سب سے پہلے دستور کے تقدس اور اس کے احترام کو مدنظر رکھنا ہو گا اور یہ ذمہ داری‘ یہ فریضہ حکمرانوں ہی کا ہے۔
حکمران جب دیکھتے ہیں کہ ان کے عزائم کی راہ میں دستور رکاوٹ بن رہا ہے تو وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے دستور کی کسی شق میں ترمیم کر ڈالتے ہیں یا اس میں اضافہ و تبدیلی کر دیتے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ اس کے نتائج کیا مرتب ہوں گے۔ رہی بات میڈیا اور سیاسی عناصر کی تو انہیں بھی کبھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ حکمرانوں کے ایسے اقدامات کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ بے دلی سے کی جانے والی تنقید کو ہمارے حکمران خاطر ہی میں کب لاتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ ہمارے سیاسی نظام کی ناکامی کی یہ ہے کہ اب تک ہم اپنی قومی اور ملکی ضرورتوں اور ترجیحات کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ مثلاً ہمیں صدارتی نظام سُوٹ کرتا ہے یا پارلیمانی نظام۔ہمارے صدر کو بااختیار ہونا چاہیے یا وزیر اعظم کو۔ہمارے ملک میں شریعت نافذ ہونی چاہیے یا ایک سیکولر اور لبرل نظام آنا چاہیے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے دستو پر اعتماد نہیں۔ یہ بھی ایک انوکھی مثال ہے جو دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آئی۔قرار داد مقاصد جو دستور کا دیباچہ ہے اور جو چودھری محمد علی‘ صدر ایوب کے بنائے ہوئے دستور سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کے دستور میں شامل رہا اور جسے جنرل ضیاء نے دستور کا ایک مستقل دیباچہ بنا دیا‘ وہ قرار داد مقاصد آج بھی دانشوروں کے ایک مخصوص طبقے کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور وہ اس کا برملا اظہار اپنی تقریروں اور مضامین میں کرتے رہتے ہیں۔ دستور میں صدر کے لئے مسلمان ہونا لازم کہا گیا ہے ‘یہ پابندی بھی اس طبقے کو بری لگتی ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئے تمام طبقہ ہائے فکر کے اسکالروں اور دانشوروں کو جمع کر کے ان سارے متنازعہ مسائل پر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور پھر یہ فیصلہ کیا جائے کہ اب جو کچھ طے پا گیا ہے‘ اس پر سب متفق و متحد ہو کر قدم بہ قدم چلیں گے اس لئے کہ قوم و ملک کے دماغ ہی اگر ٹکڑیوں میں بٹے رہے اور ان کی ذہنی اور تخلیقی توانائی منقسم رہی تو قوم و ملک کو اس انتشار و افراتفری سے کیا ملے گا؟ اور اب تک کیا ملا ہے؟ قوم مسائل و مصائب کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ ملک کا امیج دنیا بھر میں تباہ ہو چکا ہے۔ اگر اب اپنے اندر اتفاق و اتحاد پیدا نہیں کرو گے تو کب کرو گے۔ لیکن یہ آواز ہمیشہ صد البصحرا ہی رہی۔
یہ رویہ کیا ہے ؟ اسے ہم کیا نام دیں۔ کیا بے حسی؟ کیا خود غرضی؟ کیا بے بصیرتی؟ یا تعصب؟ ہاں اس کی وجہ تعصب کے سوا کچھ اور نہیں۔ اپنے نظریے کا تعصب۔ جب آدمی کی عقل اپنی ہی اسیر ہو جائے اپنے نظریے کی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہ رکھے تو یہی ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی تک ملک میں نظری اور نظریاتی بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا‘ اب وہ بھی نہیں ہوتا۔ دائیں بازو والے دائیں والے نہ رہے اور بائیں بازو والے بھی بائیں والے نہ رہے۔ اب کچھ بھی نہیں۔ اگر کچھ ہے تو مفاد پرستی‘ زر پرستی اور جاہ پرستی ہے۔ ہم سب اپنے اپنے مفادات کے قیدی ہو گئے ہیں۔ صورت حال جب ایسی ہو جائے تو مظلوم و مقہور عوام‘ دبے اور پسے ہوئے لوگ ‘ خدا کی بے پناہ ہو جانے والی خلقت کس کا منہ دیکھے؟ اپنی نجات کے لئے وہ کس کی قیادت قبول کرے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ احمد فراز نے کہا تھا کہ شکوۂ ظلمت شب نہ کرو‘ بس اپنے حصے کی شمع جلا دو‘ تمہاری ذمہ داری پوری ہو گئی۔ ہاں معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ ان ہی کے وجود کی برکت سے یہ ملک چل رہا ہے ورنہ اسے تباہ و برباد کرنے میں کس نے کوئی کسر چھوڑی ہے۔
ADVERTISEMENT
وطن عزیز میں یہ سوال ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ملک کا سیاسی نظام کیسا ہونا چاہیے؟ اس بحث کی بنیاد بعض حلقوں کی طرف سے کھلے یا چھپے اس خواہش کا اظہار ہے کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے، اب ضروری ہے کہ آئین میں تبدیلی کر کے صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے اسی سوال کو اپنی بحث کی بنیاد بنایا ہے۔ وہ اس بارے میں کیا لکھتے ہیں، ذیل کی سطور میں دیکھ لیجئے:
اکثر اوقات ہمارے ملک کے سیاسی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام گلا سڑا اور ناکارہ ہو چکا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے ہمارے عوام کو نہ عدل و انصاف مل سکتا ہے اور نہ ان کے سیاسی اور معاشی مسائل ہی حل ہو سکتے ہیں۔ غالباً یہ اعتراض درست ہے۔ کیونکہ عملاً صورت حال ایسی ہی ہے لیکن اعتراف کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ اس نظام کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ کون سے نقائص اور خامیاں ہیں جنہوں نے اس نظام کو اندر اور باہر سے ناکامی سے دوچار کر رکھا ہے۔ جب تک یہ بتایا نہیں جائے گا‘ اصلاح کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
ہمارے خیال میں اس نظام کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ دستور میں نظری طور پر جن عزائم کا اظہار کیا گیا ہے وہ عملی صورت میں کہیں نظر نہیں آتے۔ جس عدل و انصاف‘ مساوات‘ بنیادی حقوق‘ مذہبی آزادی وغیرہ کے وعدے دستور میں کیے گئے ہیں‘ وہ ٹھوس صورت میں ہمارے سیاسی نظام میں جو رائج ہے۔ نظر نہیں آتے اس دوغلی صورت حال نے ہمارے عوام کا اعتماد اپنے سیاسی نظام ہی سے نہیں‘ اپنے مقدس دستور سے بھی اٹھا دیا ہے اور دستور بھی ایک کھیل تماشا بن گیا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنی مختصر سی مدت میں شاید ہی اتنی ترمیمات کی گئی ہوں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے اندر اس دستور کے تقدس کا کوئی ذرا سا بھی احساس کبھی موجود نہیں رہا۔ جب دستور کی عصمت و عفت کا احساس خود حکمرانوں کے اندر نہیں ہو گا تو عوام اور تعلیم یافتہ طبقے میں دستور کی حرمت کا احساس کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر ملک کے سیاسی نظام کو مستحکم کرنا ہے تو سب سے پہلے دستور کے تقدس اور اس کے احترام کو مدنظر رکھنا ہو گا اور یہ ذمہ داری‘ یہ فریضہ حکمرانوں ہی کا ہے۔
حکمران جب دیکھتے ہیں کہ ان کے عزائم کی راہ میں دستور رکاوٹ بن رہا ہے تو وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے دستور کی کسی شق میں ترمیم کر ڈالتے ہیں یا اس میں اضافہ و تبدیلی کر دیتے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ اس کے نتائج کیا مرتب ہوں گے۔ رہی بات میڈیا اور سیاسی عناصر کی تو انہیں بھی کبھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ حکمرانوں کے ایسے اقدامات کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ بے دلی سے کی جانے والی تنقید کو ہمارے حکمران خاطر ہی میں کب لاتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ ہمارے سیاسی نظام کی ناکامی کی یہ ہے کہ اب تک ہم اپنی قومی اور ملکی ضرورتوں اور ترجیحات کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ مثلاً ہمیں صدارتی نظام سُوٹ کرتا ہے یا پارلیمانی نظام۔ہمارے صدر کو بااختیار ہونا چاہیے یا وزیر اعظم کو۔ہمارے ملک میں شریعت نافذ ہونی چاہیے یا ایک سیکولر اور لبرل نظام آنا چاہیے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے دستو پر اعتماد نہیں۔ یہ بھی ایک انوکھی مثال ہے جو دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آئی۔قرار داد مقاصد جو دستور کا دیباچہ ہے اور جو چودھری محمد علی‘ صدر ایوب کے بنائے ہوئے دستور سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کے دستور میں شامل رہا اور جسے جنرل ضیاء نے دستور کا ایک مستقل دیباچہ بنا دیا‘ وہ قرار داد مقاصد آج بھی دانشوروں کے ایک مخصوص طبقے کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور وہ اس کا برملا اظہار اپنی تقریروں اور مضامین میں کرتے رہتے ہیں۔ دستور میں صدر کے لئے مسلمان ہونا لازم کہا گیا ہے ‘یہ پابندی بھی اس طبقے کو بری لگتی ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئے تمام طبقہ ہائے فکر کے اسکالروں اور دانشوروں کو جمع کر کے ان سارے متنازعہ مسائل پر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور پھر یہ فیصلہ کیا جائے کہ اب جو کچھ طے پا گیا ہے‘ اس پر سب متفق و متحد ہو کر قدم بہ قدم چلیں گے اس لئے کہ قوم و ملک کے دماغ ہی اگر ٹکڑیوں میں بٹے رہے اور ان کی ذہنی اور تخلیقی توانائی منقسم رہی تو قوم و ملک کو اس انتشار و افراتفری سے کیا ملے گا؟ اور اب تک کیا ملا ہے؟ قوم مسائل و مصائب کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ ملک کا امیج دنیا بھر میں تباہ ہو چکا ہے۔ اگر اب اپنے اندر اتفاق و اتحاد پیدا نہیں کرو گے تو کب کرو گے۔ لیکن یہ آواز ہمیشہ صد البصحرا ہی رہی۔
یہ رویہ کیا ہے ؟ اسے ہم کیا نام دیں۔ کیا بے حسی؟ کیا خود غرضی؟ کیا بے بصیرتی؟ یا تعصب؟ ہاں اس کی وجہ تعصب کے سوا کچھ اور نہیں۔ اپنے نظریے کا تعصب۔ جب آدمی کی عقل اپنی ہی اسیر ہو جائے اپنے نظریے کی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہ رکھے تو یہی ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی تک ملک میں نظری اور نظریاتی بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا‘ اب وہ بھی نہیں ہوتا۔ دائیں بازو والے دائیں والے نہ رہے اور بائیں بازو والے بھی بائیں والے نہ رہے۔ اب کچھ بھی نہیں۔ اگر کچھ ہے تو مفاد پرستی‘ زر پرستی اور جاہ پرستی ہے۔ ہم سب اپنے اپنے مفادات کے قیدی ہو گئے ہیں۔ صورت حال جب ایسی ہو جائے تو مظلوم و مقہور عوام‘ دبے اور پسے ہوئے لوگ ‘ خدا کی بے پناہ ہو جانے والی خلقت کس کا منہ دیکھے؟ اپنی نجات کے لئے وہ کس کی قیادت قبول کرے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ احمد فراز نے کہا تھا کہ شکوۂ ظلمت شب نہ کرو‘ بس اپنے حصے کی شمع جلا دو‘ تمہاری ذمہ داری پوری ہو گئی۔ ہاں معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ ان ہی کے وجود کی برکت سے یہ ملک چل رہا ہے ورنہ اسے تباہ و برباد کرنے میں کس نے کوئی کسر چھوڑی ہے۔
وطن عزیز میں یہ سوال ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ملک کا سیاسی نظام کیسا ہونا چاہیے؟ اس بحث کی بنیاد بعض حلقوں کی طرف سے کھلے یا چھپے اس خواہش کا اظہار ہے کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے، اب ضروری ہے کہ آئین میں تبدیلی کر کے صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے اسی سوال کو اپنی بحث کی بنیاد بنایا ہے۔ وہ اس بارے میں کیا لکھتے ہیں، ذیل کی سطور میں دیکھ لیجئے:
اکثر اوقات ہمارے ملک کے سیاسی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام گلا سڑا اور ناکارہ ہو چکا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے ہمارے عوام کو نہ عدل و انصاف مل سکتا ہے اور نہ ان کے سیاسی اور معاشی مسائل ہی حل ہو سکتے ہیں۔ غالباً یہ اعتراض درست ہے۔ کیونکہ عملاً صورت حال ایسی ہی ہے لیکن اعتراف کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ اس نظام کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ کون سے نقائص اور خامیاں ہیں جنہوں نے اس نظام کو اندر اور باہر سے ناکامی سے دوچار کر رکھا ہے۔ جب تک یہ بتایا نہیں جائے گا‘ اصلاح کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
ہمارے خیال میں اس نظام کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ دستور میں نظری طور پر جن عزائم کا اظہار کیا گیا ہے وہ عملی صورت میں کہیں نظر نہیں آتے۔ جس عدل و انصاف‘ مساوات‘ بنیادی حقوق‘ مذہبی آزادی وغیرہ کے وعدے دستور میں کیے گئے ہیں‘ وہ ٹھوس صورت میں ہمارے سیاسی نظام میں جو رائج ہے۔ نظر نہیں آتے اس دوغلی صورت حال نے ہمارے عوام کا اعتماد اپنے سیاسی نظام ہی سے نہیں‘ اپنے مقدس دستور سے بھی اٹھا دیا ہے اور دستور بھی ایک کھیل تماشا بن گیا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنی مختصر سی مدت میں شاید ہی اتنی ترمیمات کی گئی ہوں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے اندر اس دستور کے تقدس کا کوئی ذرا سا بھی احساس کبھی موجود نہیں رہا۔ جب دستور کی عصمت و عفت کا احساس خود حکمرانوں کے اندر نہیں ہو گا تو عوام اور تعلیم یافتہ طبقے میں دستور کی حرمت کا احساس کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر ملک کے سیاسی نظام کو مستحکم کرنا ہے تو سب سے پہلے دستور کے تقدس اور اس کے احترام کو مدنظر رکھنا ہو گا اور یہ ذمہ داری‘ یہ فریضہ حکمرانوں ہی کا ہے۔
حکمران جب دیکھتے ہیں کہ ان کے عزائم کی راہ میں دستور رکاوٹ بن رہا ہے تو وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے دستور کی کسی شق میں ترمیم کر ڈالتے ہیں یا اس میں اضافہ و تبدیلی کر دیتے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ اس کے نتائج کیا مرتب ہوں گے۔ رہی بات میڈیا اور سیاسی عناصر کی تو انہیں بھی کبھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ حکمرانوں کے ایسے اقدامات کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ بے دلی سے کی جانے والی تنقید کو ہمارے حکمران خاطر ہی میں کب لاتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ ہمارے سیاسی نظام کی ناکامی کی یہ ہے کہ اب تک ہم اپنی قومی اور ملکی ضرورتوں اور ترجیحات کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ مثلاً ہمیں صدارتی نظام سُوٹ کرتا ہے یا پارلیمانی نظام۔ہمارے صدر کو بااختیار ہونا چاہیے یا وزیر اعظم کو۔ہمارے ملک میں شریعت نافذ ہونی چاہیے یا ایک سیکولر اور لبرل نظام آنا چاہیے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے دستو پر اعتماد نہیں۔ یہ بھی ایک انوکھی مثال ہے جو دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آئی۔قرار داد مقاصد جو دستور کا دیباچہ ہے اور جو چودھری محمد علی‘ صدر ایوب کے بنائے ہوئے دستور سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کے دستور میں شامل رہا اور جسے جنرل ضیاء نے دستور کا ایک مستقل دیباچہ بنا دیا‘ وہ قرار داد مقاصد آج بھی دانشوروں کے ایک مخصوص طبقے کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور وہ اس کا برملا اظہار اپنی تقریروں اور مضامین میں کرتے رہتے ہیں۔ دستور میں صدر کے لئے مسلمان ہونا لازم کہا گیا ہے ‘یہ پابندی بھی اس طبقے کو بری لگتی ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئے تمام طبقہ ہائے فکر کے اسکالروں اور دانشوروں کو جمع کر کے ان سارے متنازعہ مسائل پر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور پھر یہ فیصلہ کیا جائے کہ اب جو کچھ طے پا گیا ہے‘ اس پر سب متفق و متحد ہو کر قدم بہ قدم چلیں گے اس لئے کہ قوم و ملک کے دماغ ہی اگر ٹکڑیوں میں بٹے رہے اور ان کی ذہنی اور تخلیقی توانائی منقسم رہی تو قوم و ملک کو اس انتشار و افراتفری سے کیا ملے گا؟ اور اب تک کیا ملا ہے؟ قوم مسائل و مصائب کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ ملک کا امیج دنیا بھر میں تباہ ہو چکا ہے۔ اگر اب اپنے اندر اتفاق و اتحاد پیدا نہیں کرو گے تو کب کرو گے۔ لیکن یہ آواز ہمیشہ صد البصحرا ہی رہی۔
یہ رویہ کیا ہے ؟ اسے ہم کیا نام دیں۔ کیا بے حسی؟ کیا خود غرضی؟ کیا بے بصیرتی؟ یا تعصب؟ ہاں اس کی وجہ تعصب کے سوا کچھ اور نہیں۔ اپنے نظریے کا تعصب۔ جب آدمی کی عقل اپنی ہی اسیر ہو جائے اپنے نظریے کی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہ رکھے تو یہی ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی تک ملک میں نظری اور نظریاتی بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا‘ اب وہ بھی نہیں ہوتا۔ دائیں بازو والے دائیں والے نہ رہے اور بائیں بازو والے بھی بائیں والے نہ رہے۔ اب کچھ بھی نہیں۔ اگر کچھ ہے تو مفاد پرستی‘ زر پرستی اور جاہ پرستی ہے۔ ہم سب اپنے اپنے مفادات کے قیدی ہو گئے ہیں۔ صورت حال جب ایسی ہو جائے تو مظلوم و مقہور عوام‘ دبے اور پسے ہوئے لوگ ‘ خدا کی بے پناہ ہو جانے والی خلقت کس کا منہ دیکھے؟ اپنی نجات کے لئے وہ کس کی قیادت قبول کرے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ احمد فراز نے کہا تھا کہ شکوۂ ظلمت شب نہ کرو‘ بس اپنے حصے کی شمع جلا دو‘ تمہاری ذمہ داری پوری ہو گئی۔ ہاں معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ ان ہی کے وجود کی برکت سے یہ ملک چل رہا ہے ورنہ اسے تباہ و برباد کرنے میں کس نے کوئی کسر چھوڑی ہے۔