Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سیاست کا ہنگامہ ہر دم اس قدرکہرام مچائے رکھتا ہے کہ ملک میں جاری بے شمار مثبت سرگرمیاں اور اہم اسٹرٹیجک منصوبے زیر بحث ہی نہیں آتے جو امید کے دیئے جلاتے ہیں اور مایوسیوں سے قوم کو نکال سکتے ہیں۔اس کالم میں چند ایک ایسے منصوبوں کا ذکر کیا جارہاہے جو پاکستان کے بڑی معاشی قوت بننے کے خواب کی تعبیر ہیں۔حال ہی میں کوہالہ اور آزادپتن ہائیڈل پاور منصوبوں کا افتتاح کیا گیا ۔چارارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ان منصوبوں سے اٹھارہ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
60 کی دہائی کے بعد پاکستان کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ کرسکا۔کالا باغ ڈیم پر تنازعہ اس عظیم الشان منصوبے کو لے ڈوبا۔ دیامیر بھاشا ڈیم پر گزشتہ کئی دہائیوں سے بحث ومباحثہ چلتاتھا لیکن عملاً تعمیراتی سرگرمیاںشروع نہ ہوسکیں۔ الحمداللہ!اب اس منصوبے پر ایف ڈبلیو او اور چین کی سرکاری کمپنی پاور چائنا کے اشتراک سے کام شروع ہوچکا ہے۔واپڈا کا کہنا ہے کہ ڈیم 2028 تک 4,500میگاواٹ بجلی پیداکرنا شروع کردے گا۔
ان منصوبو ں کی تکمیل سے نیشنل گریڈ میں سستی بجلی کا شیئر کافی بڑی تک بڑھ جائے گا۔ پٹرول کی درآمد پر صرف ہونے والے زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔صنعت اور کاروبار ترقی کرے گا ۔توانائی کے بحران کے باعث سرمایا بیرون ملک منتقل نہیں ہوگا۔
بجلی کے بحران کے بعد پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ سمنگلنگ ہے۔ بھارت، افغانستان، ایران اور چین کے ساتھ پاکستان کی سرحدیںملتی ہیں۔ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے سمنگلنگ اور غیر قانونی طور آمد و رفت معمولی کی بات ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے خزانے کو غیرقانونی طور پر درآمد یا برآمد کی جانے والی اشیا سے تین ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہوتاہے۔ صرف ایران سے ساٹھ ارب روپے کا پٹرول سمنگل ہوتاہے۔ عالم یہ ہے کہ سمندری راستوں سے بھی سمنگلنگ کو روکنے کا کوئی انتظام نہ کیاجاسکے۔
یہ سارا ناجائز کاروبار سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں پنپتارہا۔ کسٹم پوسٹ پر تعیناتی کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوںرشوت دی جاتی۔ اب حکومت نے کسٹمز کی اہم پوسٹوں پر تعیناتی کے لیے سیکیورٹی کلیئرنس لازمی قرار دی ہے۔ سیکیورٹی کلیئرنس کی معلومات ملک کے تین بڑی خفیہ اداروں کے ساتھ شیئر کرنا لازمی قراردیاگیا ہے۔
سمنگلنگ اور دہشت گردی روکنے کے لیے پاکستان نے اربوں روپے خرچ کرکے افغانستان کے مشترکہ سرحد کے ستر فی صد حصے پرالیکٹرک باڑ کھڑی کرکے اسے بند کردیا ہے۔ رواں برس کے آخر تک بقیہ حصہ پر بھی باڑ لگادی جائے گی۔ایران کے ساتھ مشترک نو سو کلومیڑ لمبی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام جارہی ہے۔ حکومت نے تین ارب کی خطیر رقم اس منصوبے کے لیے رواں بجٹ میں مختص کی ہے۔سمندری راستوں سے ہونے والے سمنگلنگ روکنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں۔
پاکستان کا تیسرا بڑا مسئلہ ملک کے اندر بین صوبائی شاہرات اور ناقص ریلوے نظام کا ہے۔آج کی تاریخ تک 1973 کلومیٹر موٹروزیز مکمل ہوچکی ہیں۔1763کلومیٹر کی موٹرویز پر تعمیراتی سرگرمیاں جارہی ہیں یا نئے منصوبے شروع ہونے والے ہیں۔ان موٹرویز کی تکمیل سے اگلے چند برسوں میں پاکستان کی تینوں بندرگائیں کراچی پورٹ، پورٹ بن قاسم اور گوادر پورٹ شاہراہوں اور موٹر ویز کے ذریعے ملک کے باقی حصوں سے مربوط ہوجائیں گے۔ اس منصوبے کو ”نیشنل ٹریڈ کوریڈور پروجیکٹ” کانام دیا گیاہے۔اگلے مرحلے میں یہ نیٹ ورک افغانستان، وسطی ایشیائی ممالک اور چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ پاکستان کو مربوط کردے گا۔
پاکستان ریلوے کا نظام نہ صرف فرسودہ ہوچکا ہے بلکہ ملکی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے ۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ریلوے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پورے ملک کو تیز رفتار ریلوے نظام کے ذریعے ایک لڑی میں پرویاجاسکے۔چین کے تعاون سے 7.2 ارب ڈالر کے ‘ایم ایل ون’ منصوبے پر اس برس تعمیراتی کام شروع ہونے کا امکان ہے۔ کراچی تا پشاور 1872 کلو میٹر ریلوے ٹریک اپ گریڈ ہوگا۔ مسافر ٹرین کی رفتار110 کلومیٹر سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی ۔مال گاڑی 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی جس کی موجودہ رفتار تقریبًا نصف ہے۔سادہ الفاظ میں‘ رکے بغیر پشاور سے کراچی تک کا سفر بارہ تیرہ گھنٹوں میں طے کرلیاجائے گا۔اگلے مرحلے میں اس ریلوے نیٹ ورک کو افغانستان کے شہر جلال آباد تک توسیع دے کر پورے خطے کو ریلوے اور شاہرات کے نیٹ ورک کے جال کا حصہ بنایاجاسکتاہے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر بڑے روڑ اور ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر سے کیا حاصل ہوگا ؟ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ سارا انفرسڑکچر چین کے مال بردار ٹرکوں کی گزرگاہ کے لیے استعمال ہوگا اور پاکستانیوں کا دامن خال رہے گا۔یاد رہے کہ سی پیک کے تحت نو اقتصادی زون کے قیام کے لیے دونوں ممالک پرعزم ہیں۔ راشاکئی اکنامک زون، M-1، نوشہرہ، اور چین خصوصی اقتصادی زون دھابیجی کا اسی سال آغار ہونے کا امکان ہے۔ چار زونز کو مستقبل قریب میں شروع کیا جائے گا۔ چونکہ حکومت کا اب سارا زور تعمیراتی شعبے کو مضبوط کرنے کا ہے لہٰذا توقع ہے کہ ان اکنامک زونوں کی تکمیل کی طرف تیزی سے کام ہوگا۔ یہ روڑ اور ریلوے نیٹ ورک پاکستانی صنعتوں اور اکنامک زونز کی تیار کردہ منصوعات کو ملکی اور عالمی منڈیوں تک تیزی سے پہنچانے کے کام آئے گا۔
ڈی جیٹلائزیشن کیے بغیر ان منصوبو ں کے ثمرات سے استفادہ نہیں جاسکتا۔ چنانچہ چین سے کراس باڈر کیبل آپٹیکل لائن بچھائی جاچکی ہے جو گلگت بلتستان ، خیبر پختون خوا اور پنجاب کو چین کے موصلاتی نیٹ ورک سے براہ راست مربوط کرتی ہے۔ یوںپاکستان کے پاس سمندری کیبل آپٹیکل لائنوں کے علاوہ متبادل موصلاتی نظام بھی دستیاب ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈیجیٹل پاکستان کا ایک منصوبہ بھی تیزی سے جاری ہے۔ سرخ فیتے کی سست روی سے بچانے کی خاطر وزیراعظم عمران خان نے اس منصوبے کا مرکز اپنے سیکرٹریٹ میں قائم کیا ہے ۔
یقین کیجئے ! سیاسی استحکام برقرار رہا تو اگلے چند برسوں میں ان تمام منصوبوں کے ثمرات شہریوں تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور مہم جوئی سے گریز کیا جائے تاکہ ریاستی ادارے اور حکومت یکسوئی کے ساتھ جاری منصوبے مکمل کرسکیں۔
یہ ہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا خواب ہم سب دیکھتے ہیں۔
سیاست کا ہنگامہ ہر دم اس قدرکہرام مچائے رکھتا ہے کہ ملک میں جاری بے شمار مثبت سرگرمیاں اور اہم اسٹرٹیجک منصوبے زیر بحث ہی نہیں آتے جو امید کے دیئے جلاتے ہیں اور مایوسیوں سے قوم کو نکال سکتے ہیں۔اس کالم میں چند ایک ایسے منصوبوں کا ذکر کیا جارہاہے جو پاکستان کے بڑی معاشی قوت بننے کے خواب کی تعبیر ہیں۔حال ہی میں کوہالہ اور آزادپتن ہائیڈل پاور منصوبوں کا افتتاح کیا گیا ۔چارارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ان منصوبوں سے اٹھارہ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
60 کی دہائی کے بعد پاکستان کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ کرسکا۔کالا باغ ڈیم پر تنازعہ اس عظیم الشان منصوبے کو لے ڈوبا۔ دیامیر بھاشا ڈیم پر گزشتہ کئی دہائیوں سے بحث ومباحثہ چلتاتھا لیکن عملاً تعمیراتی سرگرمیاںشروع نہ ہوسکیں۔ الحمداللہ!اب اس منصوبے پر ایف ڈبلیو او اور چین کی سرکاری کمپنی پاور چائنا کے اشتراک سے کام شروع ہوچکا ہے۔واپڈا کا کہنا ہے کہ ڈیم 2028 تک 4,500میگاواٹ بجلی پیداکرنا شروع کردے گا۔
ان منصوبو ں کی تکمیل سے نیشنل گریڈ میں سستی بجلی کا شیئر کافی بڑی تک بڑھ جائے گا۔ پٹرول کی درآمد پر صرف ہونے والے زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔صنعت اور کاروبار ترقی کرے گا ۔توانائی کے بحران کے باعث سرمایا بیرون ملک منتقل نہیں ہوگا۔
بجلی کے بحران کے بعد پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ سمنگلنگ ہے۔ بھارت، افغانستان، ایران اور چین کے ساتھ پاکستان کی سرحدیںملتی ہیں۔ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے سمنگلنگ اور غیر قانونی طور آمد و رفت معمولی کی بات ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے خزانے کو غیرقانونی طور پر درآمد یا برآمد کی جانے والی اشیا سے تین ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہوتاہے۔ صرف ایران سے ساٹھ ارب روپے کا پٹرول سمنگل ہوتاہے۔ عالم یہ ہے کہ سمندری راستوں سے بھی سمنگلنگ کو روکنے کا کوئی انتظام نہ کیاجاسکے۔
یہ سارا ناجائز کاروبار سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں پنپتارہا۔ کسٹم پوسٹ پر تعیناتی کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوںرشوت دی جاتی۔ اب حکومت نے کسٹمز کی اہم پوسٹوں پر تعیناتی کے لیے سیکیورٹی کلیئرنس لازمی قرار دی ہے۔ سیکیورٹی کلیئرنس کی معلومات ملک کے تین بڑی خفیہ اداروں کے ساتھ شیئر کرنا لازمی قراردیاگیا ہے۔
سمنگلنگ اور دہشت گردی روکنے کے لیے پاکستان نے اربوں روپے خرچ کرکے افغانستان کے مشترکہ سرحد کے ستر فی صد حصے پرالیکٹرک باڑ کھڑی کرکے اسے بند کردیا ہے۔ رواں برس کے آخر تک بقیہ حصہ پر بھی باڑ لگادی جائے گی۔ایران کے ساتھ مشترک نو سو کلومیڑ لمبی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام جارہی ہے۔ حکومت نے تین ارب کی خطیر رقم اس منصوبے کے لیے رواں بجٹ میں مختص کی ہے۔سمندری راستوں سے ہونے والے سمنگلنگ روکنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں۔
پاکستان کا تیسرا بڑا مسئلہ ملک کے اندر بین صوبائی شاہرات اور ناقص ریلوے نظام کا ہے۔آج کی تاریخ تک 1973 کلومیٹر موٹروزیز مکمل ہوچکی ہیں۔1763کلومیٹر کی موٹرویز پر تعمیراتی سرگرمیاں جارہی ہیں یا نئے منصوبے شروع ہونے والے ہیں۔ان موٹرویز کی تکمیل سے اگلے چند برسوں میں پاکستان کی تینوں بندرگائیں کراچی پورٹ، پورٹ بن قاسم اور گوادر پورٹ شاہراہوں اور موٹر ویز کے ذریعے ملک کے باقی حصوں سے مربوط ہوجائیں گے۔ اس منصوبے کو ”نیشنل ٹریڈ کوریڈور پروجیکٹ” کانام دیا گیاہے۔اگلے مرحلے میں یہ نیٹ ورک افغانستان، وسطی ایشیائی ممالک اور چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ پاکستان کو مربوط کردے گا۔
پاکستان ریلوے کا نظام نہ صرف فرسودہ ہوچکا ہے بلکہ ملکی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے ۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ریلوے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پورے ملک کو تیز رفتار ریلوے نظام کے ذریعے ایک لڑی میں پرویاجاسکے۔چین کے تعاون سے 7.2 ارب ڈالر کے ‘ایم ایل ون’ منصوبے پر اس برس تعمیراتی کام شروع ہونے کا امکان ہے۔ کراچی تا پشاور 1872 کلو میٹر ریلوے ٹریک اپ گریڈ ہوگا۔ مسافر ٹرین کی رفتار110 کلومیٹر سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی ۔مال گاڑی 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی جس کی موجودہ رفتار تقریبًا نصف ہے۔سادہ الفاظ میں‘ رکے بغیر پشاور سے کراچی تک کا سفر بارہ تیرہ گھنٹوں میں طے کرلیاجائے گا۔اگلے مرحلے میں اس ریلوے نیٹ ورک کو افغانستان کے شہر جلال آباد تک توسیع دے کر پورے خطے کو ریلوے اور شاہرات کے نیٹ ورک کے جال کا حصہ بنایاجاسکتاہے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر بڑے روڑ اور ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر سے کیا حاصل ہوگا ؟ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ سارا انفرسڑکچر چین کے مال بردار ٹرکوں کی گزرگاہ کے لیے استعمال ہوگا اور پاکستانیوں کا دامن خال رہے گا۔یاد رہے کہ سی پیک کے تحت نو اقتصادی زون کے قیام کے لیے دونوں ممالک پرعزم ہیں۔ راشاکئی اکنامک زون، M-1، نوشہرہ، اور چین خصوصی اقتصادی زون دھابیجی کا اسی سال آغار ہونے کا امکان ہے۔ چار زونز کو مستقبل قریب میں شروع کیا جائے گا۔ چونکہ حکومت کا اب سارا زور تعمیراتی شعبے کو مضبوط کرنے کا ہے لہٰذا توقع ہے کہ ان اکنامک زونوں کی تکمیل کی طرف تیزی سے کام ہوگا۔ یہ روڑ اور ریلوے نیٹ ورک پاکستانی صنعتوں اور اکنامک زونز کی تیار کردہ منصوعات کو ملکی اور عالمی منڈیوں تک تیزی سے پہنچانے کے کام آئے گا۔
ڈی جیٹلائزیشن کیے بغیر ان منصوبو ں کے ثمرات سے استفادہ نہیں جاسکتا۔ چنانچہ چین سے کراس باڈر کیبل آپٹیکل لائن بچھائی جاچکی ہے جو گلگت بلتستان ، خیبر پختون خوا اور پنجاب کو چین کے موصلاتی نیٹ ورک سے براہ راست مربوط کرتی ہے۔ یوںپاکستان کے پاس سمندری کیبل آپٹیکل لائنوں کے علاوہ متبادل موصلاتی نظام بھی دستیاب ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈیجیٹل پاکستان کا ایک منصوبہ بھی تیزی سے جاری ہے۔ سرخ فیتے کی سست روی سے بچانے کی خاطر وزیراعظم عمران خان نے اس منصوبے کا مرکز اپنے سیکرٹریٹ میں قائم کیا ہے ۔
یقین کیجئے ! سیاسی استحکام برقرار رہا تو اگلے چند برسوں میں ان تمام منصوبوں کے ثمرات شہریوں تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور مہم جوئی سے گریز کیا جائے تاکہ ریاستی ادارے اور حکومت یکسوئی کے ساتھ جاری منصوبے مکمل کرسکیں۔
یہ ہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا خواب ہم سب دیکھتے ہیں۔
سیاست کا ہنگامہ ہر دم اس قدرکہرام مچائے رکھتا ہے کہ ملک میں جاری بے شمار مثبت سرگرمیاں اور اہم اسٹرٹیجک منصوبے زیر بحث ہی نہیں آتے جو امید کے دیئے جلاتے ہیں اور مایوسیوں سے قوم کو نکال سکتے ہیں۔اس کالم میں چند ایک ایسے منصوبوں کا ذکر کیا جارہاہے جو پاکستان کے بڑی معاشی قوت بننے کے خواب کی تعبیر ہیں۔حال ہی میں کوہالہ اور آزادپتن ہائیڈل پاور منصوبوں کا افتتاح کیا گیا ۔چارارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ان منصوبوں سے اٹھارہ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
60 کی دہائی کے بعد پاکستان کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ کرسکا۔کالا باغ ڈیم پر تنازعہ اس عظیم الشان منصوبے کو لے ڈوبا۔ دیامیر بھاشا ڈیم پر گزشتہ کئی دہائیوں سے بحث ومباحثہ چلتاتھا لیکن عملاً تعمیراتی سرگرمیاںشروع نہ ہوسکیں۔ الحمداللہ!اب اس منصوبے پر ایف ڈبلیو او اور چین کی سرکاری کمپنی پاور چائنا کے اشتراک سے کام شروع ہوچکا ہے۔واپڈا کا کہنا ہے کہ ڈیم 2028 تک 4,500میگاواٹ بجلی پیداکرنا شروع کردے گا۔
ان منصوبو ں کی تکمیل سے نیشنل گریڈ میں سستی بجلی کا شیئر کافی بڑی تک بڑھ جائے گا۔ پٹرول کی درآمد پر صرف ہونے والے زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔صنعت اور کاروبار ترقی کرے گا ۔توانائی کے بحران کے باعث سرمایا بیرون ملک منتقل نہیں ہوگا۔
بجلی کے بحران کے بعد پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ سمنگلنگ ہے۔ بھارت، افغانستان، ایران اور چین کے ساتھ پاکستان کی سرحدیںملتی ہیں۔ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے سمنگلنگ اور غیر قانونی طور آمد و رفت معمولی کی بات ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے خزانے کو غیرقانونی طور پر درآمد یا برآمد کی جانے والی اشیا سے تین ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہوتاہے۔ صرف ایران سے ساٹھ ارب روپے کا پٹرول سمنگل ہوتاہے۔ عالم یہ ہے کہ سمندری راستوں سے بھی سمنگلنگ کو روکنے کا کوئی انتظام نہ کیاجاسکے۔
یہ سارا ناجائز کاروبار سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں پنپتارہا۔ کسٹم پوسٹ پر تعیناتی کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوںرشوت دی جاتی۔ اب حکومت نے کسٹمز کی اہم پوسٹوں پر تعیناتی کے لیے سیکیورٹی کلیئرنس لازمی قرار دی ہے۔ سیکیورٹی کلیئرنس کی معلومات ملک کے تین بڑی خفیہ اداروں کے ساتھ شیئر کرنا لازمی قراردیاگیا ہے۔
سمنگلنگ اور دہشت گردی روکنے کے لیے پاکستان نے اربوں روپے خرچ کرکے افغانستان کے مشترکہ سرحد کے ستر فی صد حصے پرالیکٹرک باڑ کھڑی کرکے اسے بند کردیا ہے۔ رواں برس کے آخر تک بقیہ حصہ پر بھی باڑ لگادی جائے گی۔ایران کے ساتھ مشترک نو سو کلومیڑ لمبی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام جارہی ہے۔ حکومت نے تین ارب کی خطیر رقم اس منصوبے کے لیے رواں بجٹ میں مختص کی ہے۔سمندری راستوں سے ہونے والے سمنگلنگ روکنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں۔
پاکستان کا تیسرا بڑا مسئلہ ملک کے اندر بین صوبائی شاہرات اور ناقص ریلوے نظام کا ہے۔آج کی تاریخ تک 1973 کلومیٹر موٹروزیز مکمل ہوچکی ہیں۔1763کلومیٹر کی موٹرویز پر تعمیراتی سرگرمیاں جارہی ہیں یا نئے منصوبے شروع ہونے والے ہیں۔ان موٹرویز کی تکمیل سے اگلے چند برسوں میں پاکستان کی تینوں بندرگائیں کراچی پورٹ، پورٹ بن قاسم اور گوادر پورٹ شاہراہوں اور موٹر ویز کے ذریعے ملک کے باقی حصوں سے مربوط ہوجائیں گے۔ اس منصوبے کو ”نیشنل ٹریڈ کوریڈور پروجیکٹ” کانام دیا گیاہے۔اگلے مرحلے میں یہ نیٹ ورک افغانستان، وسطی ایشیائی ممالک اور چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ پاکستان کو مربوط کردے گا۔
پاکستان ریلوے کا نظام نہ صرف فرسودہ ہوچکا ہے بلکہ ملکی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے ۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ریلوے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پورے ملک کو تیز رفتار ریلوے نظام کے ذریعے ایک لڑی میں پرویاجاسکے۔چین کے تعاون سے 7.2 ارب ڈالر کے ‘ایم ایل ون’ منصوبے پر اس برس تعمیراتی کام شروع ہونے کا امکان ہے۔ کراچی تا پشاور 1872 کلو میٹر ریلوے ٹریک اپ گریڈ ہوگا۔ مسافر ٹرین کی رفتار110 کلومیٹر سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی ۔مال گاڑی 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی جس کی موجودہ رفتار تقریبًا نصف ہے۔سادہ الفاظ میں‘ رکے بغیر پشاور سے کراچی تک کا سفر بارہ تیرہ گھنٹوں میں طے کرلیاجائے گا۔اگلے مرحلے میں اس ریلوے نیٹ ورک کو افغانستان کے شہر جلال آباد تک توسیع دے کر پورے خطے کو ریلوے اور شاہرات کے نیٹ ورک کے جال کا حصہ بنایاجاسکتاہے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر بڑے روڑ اور ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر سے کیا حاصل ہوگا ؟ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ سارا انفرسڑکچر چین کے مال بردار ٹرکوں کی گزرگاہ کے لیے استعمال ہوگا اور پاکستانیوں کا دامن خال رہے گا۔یاد رہے کہ سی پیک کے تحت نو اقتصادی زون کے قیام کے لیے دونوں ممالک پرعزم ہیں۔ راشاکئی اکنامک زون، M-1، نوشہرہ، اور چین خصوصی اقتصادی زون دھابیجی کا اسی سال آغار ہونے کا امکان ہے۔ چار زونز کو مستقبل قریب میں شروع کیا جائے گا۔ چونکہ حکومت کا اب سارا زور تعمیراتی شعبے کو مضبوط کرنے کا ہے لہٰذا توقع ہے کہ ان اکنامک زونوں کی تکمیل کی طرف تیزی سے کام ہوگا۔ یہ روڑ اور ریلوے نیٹ ورک پاکستانی صنعتوں اور اکنامک زونز کی تیار کردہ منصوعات کو ملکی اور عالمی منڈیوں تک تیزی سے پہنچانے کے کام آئے گا۔
ڈی جیٹلائزیشن کیے بغیر ان منصوبو ں کے ثمرات سے استفادہ نہیں جاسکتا۔ چنانچہ چین سے کراس باڈر کیبل آپٹیکل لائن بچھائی جاچکی ہے جو گلگت بلتستان ، خیبر پختون خوا اور پنجاب کو چین کے موصلاتی نیٹ ورک سے براہ راست مربوط کرتی ہے۔ یوںپاکستان کے پاس سمندری کیبل آپٹیکل لائنوں کے علاوہ متبادل موصلاتی نظام بھی دستیاب ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈیجیٹل پاکستان کا ایک منصوبہ بھی تیزی سے جاری ہے۔ سرخ فیتے کی سست روی سے بچانے کی خاطر وزیراعظم عمران خان نے اس منصوبے کا مرکز اپنے سیکرٹریٹ میں قائم کیا ہے ۔
یقین کیجئے ! سیاسی استحکام برقرار رہا تو اگلے چند برسوں میں ان تمام منصوبوں کے ثمرات شہریوں تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور مہم جوئی سے گریز کیا جائے تاکہ ریاستی ادارے اور حکومت یکسوئی کے ساتھ جاری منصوبے مکمل کرسکیں۔
یہ ہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا خواب ہم سب دیکھتے ہیں۔
سیاست کا ہنگامہ ہر دم اس قدرکہرام مچائے رکھتا ہے کہ ملک میں جاری بے شمار مثبت سرگرمیاں اور اہم اسٹرٹیجک منصوبے زیر بحث ہی نہیں آتے جو امید کے دیئے جلاتے ہیں اور مایوسیوں سے قوم کو نکال سکتے ہیں۔اس کالم میں چند ایک ایسے منصوبوں کا ذکر کیا جارہاہے جو پاکستان کے بڑی معاشی قوت بننے کے خواب کی تعبیر ہیں۔حال ہی میں کوہالہ اور آزادپتن ہائیڈل پاور منصوبوں کا افتتاح کیا گیا ۔چارارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ان منصوبوں سے اٹھارہ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
60 کی دہائی کے بعد پاکستان کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ کرسکا۔کالا باغ ڈیم پر تنازعہ اس عظیم الشان منصوبے کو لے ڈوبا۔ دیامیر بھاشا ڈیم پر گزشتہ کئی دہائیوں سے بحث ومباحثہ چلتاتھا لیکن عملاً تعمیراتی سرگرمیاںشروع نہ ہوسکیں۔ الحمداللہ!اب اس منصوبے پر ایف ڈبلیو او اور چین کی سرکاری کمپنی پاور چائنا کے اشتراک سے کام شروع ہوچکا ہے۔واپڈا کا کہنا ہے کہ ڈیم 2028 تک 4,500میگاواٹ بجلی پیداکرنا شروع کردے گا۔
ان منصوبو ں کی تکمیل سے نیشنل گریڈ میں سستی بجلی کا شیئر کافی بڑی تک بڑھ جائے گا۔ پٹرول کی درآمد پر صرف ہونے والے زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔صنعت اور کاروبار ترقی کرے گا ۔توانائی کے بحران کے باعث سرمایا بیرون ملک منتقل نہیں ہوگا۔
بجلی کے بحران کے بعد پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ سمنگلنگ ہے۔ بھارت، افغانستان، ایران اور چین کے ساتھ پاکستان کی سرحدیںملتی ہیں۔ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے سمنگلنگ اور غیر قانونی طور آمد و رفت معمولی کی بات ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے خزانے کو غیرقانونی طور پر درآمد یا برآمد کی جانے والی اشیا سے تین ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہوتاہے۔ صرف ایران سے ساٹھ ارب روپے کا پٹرول سمنگل ہوتاہے۔ عالم یہ ہے کہ سمندری راستوں سے بھی سمنگلنگ کو روکنے کا کوئی انتظام نہ کیاجاسکے۔
یہ سارا ناجائز کاروبار سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں پنپتارہا۔ کسٹم پوسٹ پر تعیناتی کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوںرشوت دی جاتی۔ اب حکومت نے کسٹمز کی اہم پوسٹوں پر تعیناتی کے لیے سیکیورٹی کلیئرنس لازمی قرار دی ہے۔ سیکیورٹی کلیئرنس کی معلومات ملک کے تین بڑی خفیہ اداروں کے ساتھ شیئر کرنا لازمی قراردیاگیا ہے۔
سمنگلنگ اور دہشت گردی روکنے کے لیے پاکستان نے اربوں روپے خرچ کرکے افغانستان کے مشترکہ سرحد کے ستر فی صد حصے پرالیکٹرک باڑ کھڑی کرکے اسے بند کردیا ہے۔ رواں برس کے آخر تک بقیہ حصہ پر بھی باڑ لگادی جائے گی۔ایران کے ساتھ مشترک نو سو کلومیڑ لمبی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام جارہی ہے۔ حکومت نے تین ارب کی خطیر رقم اس منصوبے کے لیے رواں بجٹ میں مختص کی ہے۔سمندری راستوں سے ہونے والے سمنگلنگ روکنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں۔
پاکستان کا تیسرا بڑا مسئلہ ملک کے اندر بین صوبائی شاہرات اور ناقص ریلوے نظام کا ہے۔آج کی تاریخ تک 1973 کلومیٹر موٹروزیز مکمل ہوچکی ہیں۔1763کلومیٹر کی موٹرویز پر تعمیراتی سرگرمیاں جارہی ہیں یا نئے منصوبے شروع ہونے والے ہیں۔ان موٹرویز کی تکمیل سے اگلے چند برسوں میں پاکستان کی تینوں بندرگائیں کراچی پورٹ، پورٹ بن قاسم اور گوادر پورٹ شاہراہوں اور موٹر ویز کے ذریعے ملک کے باقی حصوں سے مربوط ہوجائیں گے۔ اس منصوبے کو ”نیشنل ٹریڈ کوریڈور پروجیکٹ” کانام دیا گیاہے۔اگلے مرحلے میں یہ نیٹ ورک افغانستان، وسطی ایشیائی ممالک اور چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ پاکستان کو مربوط کردے گا۔
پاکستان ریلوے کا نظام نہ صرف فرسودہ ہوچکا ہے بلکہ ملکی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے ۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ریلوے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پورے ملک کو تیز رفتار ریلوے نظام کے ذریعے ایک لڑی میں پرویاجاسکے۔چین کے تعاون سے 7.2 ارب ڈالر کے ‘ایم ایل ون’ منصوبے پر اس برس تعمیراتی کام شروع ہونے کا امکان ہے۔ کراچی تا پشاور 1872 کلو میٹر ریلوے ٹریک اپ گریڈ ہوگا۔ مسافر ٹرین کی رفتار110 کلومیٹر سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی ۔مال گاڑی 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی جس کی موجودہ رفتار تقریبًا نصف ہے۔سادہ الفاظ میں‘ رکے بغیر پشاور سے کراچی تک کا سفر بارہ تیرہ گھنٹوں میں طے کرلیاجائے گا۔اگلے مرحلے میں اس ریلوے نیٹ ورک کو افغانستان کے شہر جلال آباد تک توسیع دے کر پورے خطے کو ریلوے اور شاہرات کے نیٹ ورک کے جال کا حصہ بنایاجاسکتاہے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر بڑے روڑ اور ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر سے کیا حاصل ہوگا ؟ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ سارا انفرسڑکچر چین کے مال بردار ٹرکوں کی گزرگاہ کے لیے استعمال ہوگا اور پاکستانیوں کا دامن خال رہے گا۔یاد رہے کہ سی پیک کے تحت نو اقتصادی زون کے قیام کے لیے دونوں ممالک پرعزم ہیں۔ راشاکئی اکنامک زون، M-1، نوشہرہ، اور چین خصوصی اقتصادی زون دھابیجی کا اسی سال آغار ہونے کا امکان ہے۔ چار زونز کو مستقبل قریب میں شروع کیا جائے گا۔ چونکہ حکومت کا اب سارا زور تعمیراتی شعبے کو مضبوط کرنے کا ہے لہٰذا توقع ہے کہ ان اکنامک زونوں کی تکمیل کی طرف تیزی سے کام ہوگا۔ یہ روڑ اور ریلوے نیٹ ورک پاکستانی صنعتوں اور اکنامک زونز کی تیار کردہ منصوعات کو ملکی اور عالمی منڈیوں تک تیزی سے پہنچانے کے کام آئے گا۔
ڈی جیٹلائزیشن کیے بغیر ان منصوبو ں کے ثمرات سے استفادہ نہیں جاسکتا۔ چنانچہ چین سے کراس باڈر کیبل آپٹیکل لائن بچھائی جاچکی ہے جو گلگت بلتستان ، خیبر پختون خوا اور پنجاب کو چین کے موصلاتی نیٹ ورک سے براہ راست مربوط کرتی ہے۔ یوںپاکستان کے پاس سمندری کیبل آپٹیکل لائنوں کے علاوہ متبادل موصلاتی نظام بھی دستیاب ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈیجیٹل پاکستان کا ایک منصوبہ بھی تیزی سے جاری ہے۔ سرخ فیتے کی سست روی سے بچانے کی خاطر وزیراعظم عمران خان نے اس منصوبے کا مرکز اپنے سیکرٹریٹ میں قائم کیا ہے ۔
یقین کیجئے ! سیاسی استحکام برقرار رہا تو اگلے چند برسوں میں ان تمام منصوبوں کے ثمرات شہریوں تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور مہم جوئی سے گریز کیا جائے تاکہ ریاستی ادارے اور حکومت یکسوئی کے ساتھ جاری منصوبے مکمل کرسکیں۔
یہ ہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا خواب ہم سب دیکھتے ہیں۔