Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
کئی برس سال پرانی بات ہے۔ ان دنوں سکونت لاہور میں تھی۔ میں بس میں بیٹھا، ریل ویز اسٹیشن کی جانب محو سفر تھا۔ دھرم پورہ بس اسٹاپ سے مخصوص پگڑیوں والے سوار ہوئے۔ ان کا رہ نما ہاتھ میں پوسٹر اٹھائے صدا لگانے لگا”:
بھائیو، اور بہنو! یہ جو ٹیلے وژن ہے، یہ فحاشی کا ڈبا ہے۔ بے حیائی کی کھڑکی ہے۔ اخلاق کا جنازہ ہے۔ کل فلاں وقت، فلاں میدان میں ٹی وی (مانیٹر) توڑے جائیں گے۔ آپ بھی اپنے اپنے گھروں سے ٹیلے ویژن سیٹ اٹھا لائیے۔ میں اپنی جگہ بیٹھا، بس کی کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا کہ ان سے بحث بے کار ہے۔
شومئی قسمت، ایک نوجوان نے ‘مشکری’ کرتے پوچھا، ‘مولوی صاحب، آپ یہ ٹی وی کیوں توڑ رہے ہیں؟’ مولوی صاحب نے غصے سے دیکھا، جیسے کہ ان سے کوئی ناگوار بات پوچھی گئی ہو۔ حقارت سے بولے، ‘جب تمھاری بہن گھر سے بھاگ جائے گی، تو تمھیں پتا چلے گا کہ ہم ٹی وی کیوں توڑ رہے ہیں۔’
یہ سنتے ہی بس میں سکتہ چھا گیا۔ جب کہ نوجوان کا چہرہ حیا سے لال پڑ گیا۔ ایسے میں میرے خون نے جوش مارا، تو میں نے ٹوکا، ‘کیوں گم راہ کر رہے ہو، لوگوں کو؟’
ان کے ساتھ کا دوسرا اچھلا، ‘توبہ توبہ توبہ۔ یہ کیا کہ دیا؟ گم راہ؟’ تیر کمان سے نکل چکا تھا، سو پس پائی ممکن نہ تھی۔ میں نے دہائی دی:
‘جب ٹی وی نہیں تھے، تو لڑکیاں گھروں سے نہیں بھاگتی تھیں؟’ مولانا نے نتھنے پھلاتے مجھے گھورا۔ پھر کسی مجمع باز کی طرح سواریوں سے مخاطب ہوئے:
‘حدیث میں آیا ہے کہ جو مسلمان مشرکین کی نقالی کریں گے، روز قیامت خنزیر کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔’ یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ اس وقت میں نے جینز شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ یوں مفتی صاحب مجھے مشرکوں کا نقال قرار دے رہے تھے۔ گویا خنزیر۔
میں نے حدیث کا حوالہ تو نہ طلب کیا، گر چہ یہ ضعیف حدیث ہو سکتی ہے، لیکن اس نکتے کو یہیں چھوڑ کر آگے کا واقعہ سنیے۔ میرا اگلا سوال تھا:
‘تو کیا یہ پینٹ شرٹ پہننا مشرکین کی نقالی ہے؟’
ایمان سے لب ریز مولانا نے تیقن سے فرمایا: ‘بالکل!’
میں اٹھ کر ان کے قریب چلا گیا۔ ان کے ہاتھ میں پکڑا پوسٹر دیکھ کر کہا:
‘مولوی صاحب، یہ آپ نے جو پوسٹر پرنٹ کروایا ہے، یہ مشرکین کی ایجاد کردہ پرنٹنگ مشین سے نکلا ہے۔ اس کی روشنائی، اس کا کاغذ تک مشرک ممالک سے آتا ہے۔ مولوی صاحب پہلے تو جز بز ہوئے، لیکن جو اتنے پہ ہار مان جائے، وہ ملا ہی کیوں کہلائے؟ برہم ہو کر جواب دیا:
لیکن یہ ٹی وی ہے، اس پہ فحش پروگرام چلتے ہیں۔’
میں نے ترنت کہا: ‘آپ مت دیکھا کیجیے، ایسے پروگرام۔ اسی ٹی وی پہ نیشنل جیو گرافک چینل ہے، ڈسکوری ہے، اسپورٹس چینل ہیں۔ اور تو اور ہر کیبل نیٹ ورک والے نے پہلے دو تین چینل مذہبی چینل کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔ آپ قران سنیے۔’
بس میں تھوڑی کھسر پھسر ہوئی، تو مجھے حوصلہ ہوا، اب میں نے شرارتی مزاج سے کہا:
‘مولوی صاحب، آپ یہ مت کہیں ٹی وی توڑ دو، بیوی چھوڑ دو۔ آپ کہیے، ٹیلے ویژن کے وہ چینل مت دیکھو، جو فحش پروگرام دکھاتے ہیں۔ تب تو آپ کی بات مناسب ہے۔’
وہ ایک تبلیغ کرنے آئے تھے، تبلیغ سننے نہیں۔ میری بات میں کہاں تاثیر ہوتی۔ مولانا صاحب نے پھر راگ چھیڑا۔ ‘لیکن یہ ٹی وی مشرک کی ایجاد ہے۔ یہ ایک لعنت ہے، ہمارے معاشرے کے لیے۔’
دوبارہ حدیث بیان کرنے لگے:
‘جو مشرکین کی نقالی۔۔۔ خنزیر۔۔۔’ میں سمجھ گیا، گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلنے والا۔ اب میں مولانا ہی کی طرح گرجا۔ ‘سن جاہل۔ یہ جو تو نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، یہ بھی مشرک کی سلائی مشین پر سلے ہیں؛ ۔ سوئی تو تم لوگوں سے بن نہیں سکی۔ یہ تو جس بس پہ سوار ہے، یہ بھی مشرک ہی کے ملک سے آئی ہے۔ اتر نیچے، اور جا بیل گاڑی پہ جا سوار ہو۔ تجھے پتا بھی ہے، یہ بس، جس ایندھن سے چلتی ہے، وہ مسلم ممالک سے نکلتا ہے، لیکن سب مشرکین ہی نکالتے ہیں!؟ انھی کی ٹیکنالوجی ہے۔’
بوہڑ والا چوک آ چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ مومنین صدمے سے سنبھلتے، مشرکین کا حامی بس سے اترا اور یہ جا، وہ جا۔
کئی برس سال پرانی بات ہے۔ ان دنوں سکونت لاہور میں تھی۔ میں بس میں بیٹھا، ریل ویز اسٹیشن کی جانب محو سفر تھا۔ دھرم پورہ بس اسٹاپ سے مخصوص پگڑیوں والے سوار ہوئے۔ ان کا رہ نما ہاتھ میں پوسٹر اٹھائے صدا لگانے لگا”:
بھائیو، اور بہنو! یہ جو ٹیلے وژن ہے، یہ فحاشی کا ڈبا ہے۔ بے حیائی کی کھڑکی ہے۔ اخلاق کا جنازہ ہے۔ کل فلاں وقت، فلاں میدان میں ٹی وی (مانیٹر) توڑے جائیں گے۔ آپ بھی اپنے اپنے گھروں سے ٹیلے ویژن سیٹ اٹھا لائیے۔ میں اپنی جگہ بیٹھا، بس کی کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا کہ ان سے بحث بے کار ہے۔
شومئی قسمت، ایک نوجوان نے ‘مشکری’ کرتے پوچھا، ‘مولوی صاحب، آپ یہ ٹی وی کیوں توڑ رہے ہیں؟’ مولوی صاحب نے غصے سے دیکھا، جیسے کہ ان سے کوئی ناگوار بات پوچھی گئی ہو۔ حقارت سے بولے، ‘جب تمھاری بہن گھر سے بھاگ جائے گی، تو تمھیں پتا چلے گا کہ ہم ٹی وی کیوں توڑ رہے ہیں۔’
یہ سنتے ہی بس میں سکتہ چھا گیا۔ جب کہ نوجوان کا چہرہ حیا سے لال پڑ گیا۔ ایسے میں میرے خون نے جوش مارا، تو میں نے ٹوکا، ‘کیوں گم راہ کر رہے ہو، لوگوں کو؟’
ان کے ساتھ کا دوسرا اچھلا، ‘توبہ توبہ توبہ۔ یہ کیا کہ دیا؟ گم راہ؟’ تیر کمان سے نکل چکا تھا، سو پس پائی ممکن نہ تھی۔ میں نے دہائی دی:
‘جب ٹی وی نہیں تھے، تو لڑکیاں گھروں سے نہیں بھاگتی تھیں؟’ مولانا نے نتھنے پھلاتے مجھے گھورا۔ پھر کسی مجمع باز کی طرح سواریوں سے مخاطب ہوئے:
‘حدیث میں آیا ہے کہ جو مسلمان مشرکین کی نقالی کریں گے، روز قیامت خنزیر کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔’ یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ اس وقت میں نے جینز شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ یوں مفتی صاحب مجھے مشرکوں کا نقال قرار دے رہے تھے۔ گویا خنزیر۔
میں نے حدیث کا حوالہ تو نہ طلب کیا، گر چہ یہ ضعیف حدیث ہو سکتی ہے، لیکن اس نکتے کو یہیں چھوڑ کر آگے کا واقعہ سنیے۔ میرا اگلا سوال تھا:
‘تو کیا یہ پینٹ شرٹ پہننا مشرکین کی نقالی ہے؟’
ایمان سے لب ریز مولانا نے تیقن سے فرمایا: ‘بالکل!’
میں اٹھ کر ان کے قریب چلا گیا۔ ان کے ہاتھ میں پکڑا پوسٹر دیکھ کر کہا:
‘مولوی صاحب، یہ آپ نے جو پوسٹر پرنٹ کروایا ہے، یہ مشرکین کی ایجاد کردہ پرنٹنگ مشین سے نکلا ہے۔ اس کی روشنائی، اس کا کاغذ تک مشرک ممالک سے آتا ہے۔ مولوی صاحب پہلے تو جز بز ہوئے، لیکن جو اتنے پہ ہار مان جائے، وہ ملا ہی کیوں کہلائے؟ برہم ہو کر جواب دیا:
لیکن یہ ٹی وی ہے، اس پہ فحش پروگرام چلتے ہیں۔’
میں نے ترنت کہا: ‘آپ مت دیکھا کیجیے، ایسے پروگرام۔ اسی ٹی وی پہ نیشنل جیو گرافک چینل ہے، ڈسکوری ہے، اسپورٹس چینل ہیں۔ اور تو اور ہر کیبل نیٹ ورک والے نے پہلے دو تین چینل مذہبی چینل کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔ آپ قران سنیے۔’
بس میں تھوڑی کھسر پھسر ہوئی، تو مجھے حوصلہ ہوا، اب میں نے شرارتی مزاج سے کہا:
‘مولوی صاحب، آپ یہ مت کہیں ٹی وی توڑ دو، بیوی چھوڑ دو۔ آپ کہیے، ٹیلے ویژن کے وہ چینل مت دیکھو، جو فحش پروگرام دکھاتے ہیں۔ تب تو آپ کی بات مناسب ہے۔’
وہ ایک تبلیغ کرنے آئے تھے، تبلیغ سننے نہیں۔ میری بات میں کہاں تاثیر ہوتی۔ مولانا صاحب نے پھر راگ چھیڑا۔ ‘لیکن یہ ٹی وی مشرک کی ایجاد ہے۔ یہ ایک لعنت ہے، ہمارے معاشرے کے لیے۔’
دوبارہ حدیث بیان کرنے لگے:
‘جو مشرکین کی نقالی۔۔۔ خنزیر۔۔۔’ میں سمجھ گیا، گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلنے والا۔ اب میں مولانا ہی کی طرح گرجا۔ ‘سن جاہل۔ یہ جو تو نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، یہ بھی مشرک کی سلائی مشین پر سلے ہیں؛ ۔ سوئی تو تم لوگوں سے بن نہیں سکی۔ یہ تو جس بس پہ سوار ہے، یہ بھی مشرک ہی کے ملک سے آئی ہے۔ اتر نیچے، اور جا بیل گاڑی پہ جا سوار ہو۔ تجھے پتا بھی ہے، یہ بس، جس ایندھن سے چلتی ہے، وہ مسلم ممالک سے نکلتا ہے، لیکن سب مشرکین ہی نکالتے ہیں!؟ انھی کی ٹیکنالوجی ہے۔’
بوہڑ والا چوک آ چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ مومنین صدمے سے سنبھلتے، مشرکین کا حامی بس سے اترا اور یہ جا، وہ جا۔