سکندر بدنامِ زمانہ چھوٹو گینگ کے علاقے میں رہتا ہے۔۔ پیشہ سے وہ دیہاڑی دار مالی ہے۔ وہ ایک دن اپنی 1 سال کی بیٹی کو لے آیا اُسے گھاس پہ کھیلنے کے لیے چھوڑ دیا اور اس کھیلتی ہوئی پیاری سی بچی نے مجھے مجبور کیا کہ میں اُسے اٹھاوں۔ میں نے پیار سے اُسے اٹھایا اور سکندر سے اسکا نام پوچھا اور اسکے جواب نے مجھے ایک عجیب حیرت میں مبتلا کر دیا اس نے کہا “سر ایندا نام ملالہ اے” میں نے تین چار بار پوچھا کہ شاید سننے میں مجھے غلطی ہوئی ہو، ملالہ سے ملتا جُلتا کوئی بلوچی نام ہو۔ کیونکہ اس علاقے میں جہاں لال مسجد سے تعلق رکھنے والے غازی عبدالرشید کا مدفن ہے اس علاقے میں ایک بچی کا نام ملالہ ہونا باعث حیرت بات تھی۔ وہ جگہ اور پنجاب کی شاید واحد تحصیل جہاں لڑکیوں کے پڑھنے کے لیے آج بھی گرلز کالج نہیں ہے وہاں ایک ملالہ بڑی ہو رہی ہے۔ میں اکثر سکندر سے ملالہ کی خیریت پوچھتا رہتا تھا۔ اور اُسے کہتا تھا تمہاری ملالہ بھی ایک دن ملالہ یوسفزئی کی طرح نام پیدا کرے گی۔ اور وہ کہتا تھا “انشاءاللّه سر دعا کیتی کرو”
ملالہ یوسفزئی پاکستان کی وہ بہادر بیٹی ہے جس نے ایک ایسی طاقت کے آگے مزاحمت کی جو پوری انسانیت کے لیے ایک چیلینج بن چکے تھے۔ دنیا اپنے وسائل انکا مقابلہ کرنے میں صرف کر رہی تھی۔ اور وحشت و درندگی سے بھرپور ایک گروپ اسلام جیسے پُر امن مذہب کو بدنام کرنے میں جُٹ گیا تھا۔ انکی خودساختہ شریعیت نے سوات کے لوگوں کا جینا دو بھر کر رکھا تھا۔ دنیا نے دیکھا کہ کیسے بیچ بازار عورتوں کو کوڑے مارے جارہے تھے۔ اسلام کی وہ تشریح پیش کی جا رہی تھی جو کسی طور درست تھی اور نہ دنیا کے لیے قابل قبول تھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمت العالمین بنا کر بھیجے گئے ان کے امن، پیار، بھائی چارے، کے بنیادی فلسفے سے بے خبر گروپ اسلام نافذ کرنے کی بات کررہا تھا۔
طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی اور سوات کی خوبصورت وادی میں اعلان کیا کہ اگر کوئی بچی اسکول گئی تو اُسے جان سے مار دیا جائے گا یا اُسے اور اسکے خاندان کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ علاقے میں خوف و ہراس پیدا ہوگیا اور لوگوں نے اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمی ختم کروا دی اور والدین کی اکثریت نے اپنی بچیوں کو اسکول جانے سے روک دیا۔ سوات کی فضا سوگوار اور پوری وادی میں ماتم کی سی کیفیت پیدا ہوگئی جہاں لوگ خوف سے اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔
تعلیم سے محبت کرنے والی ایک استاد کی بیٹی نے نا تو اُس تعلیم دشمن اعلان کو تسلیم کیا اور نا اُس درندگی کو جو وادی سوات کی فضاوں میں ایک خوف کی صورت موجود تھی۔ ملالہ نے سکول جانے کی ٹھانی اور اسکی مزاحمت علاقے میں مشہور ہونے لگی۔ اسکا نام طالبان کے لیے ایک نیا ٹارگٹ بننے لگا۔ وہ طالبان جنکا ٹارگٹ دنیا کے دارالخلافے اور بڑے شہر تھے اب انکا نیا ہدف ایک چھوٹی سی بچی ملالہ تھی۔ ایک صبح سکول جاتی وین کو روک کر پوچھا گیا “تم میں سے ملالہ کون ہے؟” اور نشاندہی پر اس کم سن بچی کو گولی ماری گئی۔
اس واقعے نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو جھنجھوڑا اور طالبان کے خلاف پہلے سے جاری آپریشنز کو اُس وقت کی پاکستانی حکومت نے تیز کر دیا۔ افواج پاکستان نے اپنی قابلیت اور ماہرانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور مختصر عرصے میں دنیا کے لیے خطرہ بنے طالبان کی کمر توڑ دی۔ دنیا نے ملالہ کو اسکی بہادری پر ناصرف سراہا بلکہ یورپین پارلیمنٹ کی طرف سے اعلی ترین اعزاز Sakharov Prize دیا گیا۔ تعلیم کے ساتھ محبت اور بچوں کی لیے تعلیمی کاوشوں پر ملالہ کو ایک انڈین شہری کیلاش ستھیارتھی کے ساتھ نوبل پرائز دیا گیا۔
ملالہ یوسفزئی کو متنازع بنانے، اسکے خلاف پراپیگنڈا کرنے، اُسے مغربی ایجنٹ قرار دینے کی کئی کوششیں کی گئی۔ ملالہ کے اپنے ہم وطن اسکے خلاف بولنے لگے۔ لیکن پراپیگینڈا اور جھوٹے نظریات زیادہ دیر ٹکتے نہیں۔ طالبان کا زور ٹوٹنے کے ساتھ ملالہ کے خلاف بھی غلط پراپیگنڈا دم توڑنے لگا۔ اسکے مخالف اٹھنے والی آوازیں خاموش ہونا شروع ہوگئیں اور اسکے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو مزید طاقت ملی۔ آج طالبان کا نام و نشان بھی نہیں وہ اب رہنے کے لیے دنیا سے معاہدے کرتے پھر رہے ہیں اور ملالہ ہر روز ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہی ہے۔ ایک بہتر مستقبل اسکا انتظار کر رہا ہے اور پاکستان کی اس بیٹی نے دنیا کا پاکستان میں نام روشن کیا ہے۔
سکندر کا اپنی بیٹی کا نام ملالہ رکھنا اُس مزاحمت کی نشانی ہے جو ملالہ کے روپ میں دنیا نے دیکھی۔ سکندر کی ملالہ کا مستقبل کیا ہوگا نہیں معلوم مگر اُس بچی کا نام جب جب پکارا جائے گا تو یہ ملالہ یوسفزائی کی مزاحمت کا اعتراف ہوگا۔ کیونکہ ملالہ اب صرف ایک لڑکی کا نام نہیں یہ علم سے محبت اور درندگی سے نفرت کرنے کا ایک نظریہ ہے۔ 12 جولائی 1997 کو پیدا ہونے والی ملالہ یوسفزائی کو تعلیم سے محبت کرنے والا ہر فرد سالگرہ مبارک کہتا ہے۔