Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آدمی ہی آدمی کا دشمن ہوتا ہے۔ آدمی جانوروں کا‘ نبانات کا‘ جمادات کا‘ زمین و آسمان کا دشمن نہیں ہوتا۔ وہ دشمن ہوتا ہے تو آدمی کا۔ آدمی کا پہلا دشمن قابیل تھا جس نے اپنے سگے بھائی ہابیل کوقتل کردیا۔ قتل کر کے پچھتایا کہ اب میں بھائی کی لاش کا کیا کروں۔ تب خداوند نے دو کوے بھیجے۔ دونوں قابیل کے سامنے آ کر لڑنے لگے۔ ایک کوے نے دوسرے کوے کو مار ڈالا اور پھر زمین کھود کر اس نے مردہ کوے کو زمین میں دفن کردیا۔ کوے سے قابیل نے سیکھا کہ اسے اپنے مردہ بھائی کو زمین کھود کر دفن کردینا چاہیے۔ جب اس نے ایسا کرنا چاہا تو اسے یاد آیا کہ ایسے اپنے بھائی کوقتل کرنا تو آتا تھا‘ دفن کرنا نہ آتا تھا اور یہ اسے کالے کوّے نے سکھایا۔ تب قابیل یہ کہہ کر رو دیا کہ ہائے میں تو اس کوے جیسا بھی نہ ہوا۔ تب سے آج تک انسان‘ انسان کو قتل کرتا چلا آ رہا ہے۔ ہر روز اخبارات ایسی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ شوہر بیوی کو قتل کردیتا ہے‘ دوست‘ دوست کو اور جائیداد کے جھگڑے میں بھائی بھائی کی گردن مار دیتا ہے۔
یہ کیا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟دشمنی!انسان اور انسان کے بیچ جب دشمنی ہوتی ہے تو آدمی اپنے اندر اس دشمنی کو پالنا شروع کردیتا ہے۔ جیسے ہم پودے کوپانی دے کر‘ کھاد دے کر بڑا کرتے ہیں۔ انسان بھی اپنی دشمنی کو پوستا پالتا ہے جس سے یہ دشمنی اس کے دل و دماغ پہ چھا جاتی ہے اور پھر جوں ہی ایسے موقع ملتا ہے وہ اپنی دشمنی نکالتا ہے اور جس سے دشمنی ہوتی ہے اس کوقتل کرڈالتا ہے۔ ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی آج بھی ہورہا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ دشمنی ہے کیا؟ قابیل کو ہابیل سے کیا دشمنی تھی؟ دشمنی کی وجہ عورت تھی۔ قابیل اس عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا جو ہابیل کی تھی۔ آج بھی عورت کی وجہ سے قتل ہو جاتے ہیں۔ دشمنی کی دوسری وجہ زمین یا مال و دولت ہوتی ہے۔ زمین پر قبضہ مال و دولت پر قبضہ اس جھگڑے میں قتل ہو جاتے ہیں تو اگر غور سے دیکھا جائے تو دشمنی کی سب سے بڑی وجہ لالچ اور حرص و ہوس ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی لالچ اور حرص و ہوس کی خواہش پر قابو پا لے تو وہ دوسرے انسان کو قتل کرنے سے خود کو روک سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خود کو روکے تو کس طرح؟ وہ یہ جانے کہ اسے دشمنی ہے تو کیوں ہے؟ جو آدمی اتنا سمجھ دار ہوگا وہ قتل جیسا جرم کرے گا ہی کیوں؟
اب یہ ذمہ داری حکومت اور ریاست کی ہے کہ وہ قاتل کو سزا دے اور اتنی کڑی سزا دے کہ دوسروں کو کو عبرت ہو۔ جب ایک قاتل کوعبرت ناک سزا ملتی ہے تو ایسے لوگ جو کسی نہ کسی دشمنی کی وجہ سے قتل کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہوتے ہیں وہ خوفزدہ ہو کر اپنے ارادے سے باز آ جاتے ہیں کہ کہیں ان کا انجام بھی اتنا ہی عبرتناک نہ ہو جائے۔ پس پتہ چلا کہ قتل و غارتگری دنیا میں اس لیے ہے کہ قاتل خونی اور درندہ صفت انسان بچ نکلتے ہیں اور انہیں سزا نہیں ملتی۔ جب یہ سزائیں قاتلوں کو ملنے لگیں گی تو قتل کے واقعات میں بھی بہت کمی آ جائے گی۔ یہ الگ بات کہ انسان قتل کرنا پھر بھی نہیں چھوڑے گا اس لیے کہ زمین پر آ کر انسان نے پہلا جرم‘ پہلا گناہ قتل کر کے کیا۔ کیوں کیا‘ یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ فرشتوں نے جب پوچھا تھا کہ اے معبود! تو ایسی مخلوق خلق کرے گا جو زمین پر جا کے خون بہائے گی تو خداوند تعالیٰ نے جواب دیا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ خدا کیا جانتا ہے‘ اس نے ہمیں نہیں بتایا۔ اس لیے ہم اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ ہم جو کہہ سکتے ہیں وہ فقط یہ ہے کہ انسان اندر سے قتل‘ وحشی اور درندہ بھی ہوتا ہے جہاں وہ فی احسن تقویم ہے وہیں اسفل السافلین بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسے اسفل السافلین کی پستیوں سے نکال کے فی احسن تقویم کے اعلیٰ موارج تک کیسے پہنچایا جائے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر انسان ایک دانشور‘ ایک قانون ساز اور ایک منصف و جج کی حیثیت سے غور کرتا آیا ہے۔ سارے قوانین اسی لیے بنائے گئے ہیں اور آج بھی بنائے جاتے ہیں کہ انسان کو کشت و خون سے کیسے روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کہتی ہے کہ ایک انسان کا قتل کرنا ساری انسانیت کاقتل کرنا ہے اور جو ایک انسان کی جان بچاتا ہے وہ ساری انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔آج دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے؟ کشمیر میں‘ فلسطین میں‘ شام اور دوسرے ملکوں میں اور تاریخ کے صفحات پلٹیے تو کیا کیا چنگیز خان‘ ہٹلر اور سٹالن نے۔ جن کی گردنوں پر لکھوکھا انسان کا خون ہے۔
آج بھی ایسے ہی درندہ صفت انسان موجود ہیں جنہوں نے انسانوں کا خون بہایا ہے لیکن کتنے ہی لوگوں کے نزدیک وہ ہیرو ہیں‘ ان کے آئیڈیل ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ انسان جہاں خون بہانے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہیں وہ خون بہانے کو پسند کرتا ہے۔ خصوصاً اس کا خون جس سے اسے نفرت ہو۔ اب آئیے اس جانب کہ انسان کو خون بہانے سے کیسے روکا جئے۔ دوسرے لفظوں میں ایک محترم انسان کو مودی‘ الطاف حسین اور ایسی ہی کوئی شخصیت بننے سے کس طرح بچایا جائے۔
چلیے یہ تو وہ شخصتیں ہیں جن کے مظالم کا علم ہم سب کو ہے لیکن انہیں آپ کیا کہیں گے جو پس پردہ رہ کر قتل کراتے ہیں اور جن کے بارے میں چہ مگوئیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کھل کر اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہ جس کے ذریعے قتل کراتے ہیں اسے بھی زندہ نہیں چھوڑتے۔ تو جو سوال ہم نے اٹھایا اس کا جواب صرف یہ ہے کہ جب تک احترام آدمیت کو بحال نہیں کیا جائے گا اور احترام آدمیت میں انسان کا جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت شامل ہیں لیکن احترام آدمیت کو کیسے بحال کیا جائے یہ الگ موضوع ہے جس پر پھر کسی نشست میں گفتگو ہوگی۔ انشاء اللہ۔
آدمی ہی آدمی کا دشمن ہوتا ہے۔ آدمی جانوروں کا‘ نبانات کا‘ جمادات کا‘ زمین و آسمان کا دشمن نہیں ہوتا۔ وہ دشمن ہوتا ہے تو آدمی کا۔ آدمی کا پہلا دشمن قابیل تھا جس نے اپنے سگے بھائی ہابیل کوقتل کردیا۔ قتل کر کے پچھتایا کہ اب میں بھائی کی لاش کا کیا کروں۔ تب خداوند نے دو کوے بھیجے۔ دونوں قابیل کے سامنے آ کر لڑنے لگے۔ ایک کوے نے دوسرے کوے کو مار ڈالا اور پھر زمین کھود کر اس نے مردہ کوے کو زمین میں دفن کردیا۔ کوے سے قابیل نے سیکھا کہ اسے اپنے مردہ بھائی کو زمین کھود کر دفن کردینا چاہیے۔ جب اس نے ایسا کرنا چاہا تو اسے یاد آیا کہ ایسے اپنے بھائی کوقتل کرنا تو آتا تھا‘ دفن کرنا نہ آتا تھا اور یہ اسے کالے کوّے نے سکھایا۔ تب قابیل یہ کہہ کر رو دیا کہ ہائے میں تو اس کوے جیسا بھی نہ ہوا۔ تب سے آج تک انسان‘ انسان کو قتل کرتا چلا آ رہا ہے۔ ہر روز اخبارات ایسی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ شوہر بیوی کو قتل کردیتا ہے‘ دوست‘ دوست کو اور جائیداد کے جھگڑے میں بھائی بھائی کی گردن مار دیتا ہے۔
یہ کیا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟دشمنی!انسان اور انسان کے بیچ جب دشمنی ہوتی ہے تو آدمی اپنے اندر اس دشمنی کو پالنا شروع کردیتا ہے۔ جیسے ہم پودے کوپانی دے کر‘ کھاد دے کر بڑا کرتے ہیں۔ انسان بھی اپنی دشمنی کو پوستا پالتا ہے جس سے یہ دشمنی اس کے دل و دماغ پہ چھا جاتی ہے اور پھر جوں ہی ایسے موقع ملتا ہے وہ اپنی دشمنی نکالتا ہے اور جس سے دشمنی ہوتی ہے اس کوقتل کرڈالتا ہے۔ ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی آج بھی ہورہا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ دشمنی ہے کیا؟ قابیل کو ہابیل سے کیا دشمنی تھی؟ دشمنی کی وجہ عورت تھی۔ قابیل اس عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا جو ہابیل کی تھی۔ آج بھی عورت کی وجہ سے قتل ہو جاتے ہیں۔ دشمنی کی دوسری وجہ زمین یا مال و دولت ہوتی ہے۔ زمین پر قبضہ مال و دولت پر قبضہ اس جھگڑے میں قتل ہو جاتے ہیں تو اگر غور سے دیکھا جائے تو دشمنی کی سب سے بڑی وجہ لالچ اور حرص و ہوس ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی لالچ اور حرص و ہوس کی خواہش پر قابو پا لے تو وہ دوسرے انسان کو قتل کرنے سے خود کو روک سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خود کو روکے تو کس طرح؟ وہ یہ جانے کہ اسے دشمنی ہے تو کیوں ہے؟ جو آدمی اتنا سمجھ دار ہوگا وہ قتل جیسا جرم کرے گا ہی کیوں؟
اب یہ ذمہ داری حکومت اور ریاست کی ہے کہ وہ قاتل کو سزا دے اور اتنی کڑی سزا دے کہ دوسروں کو کو عبرت ہو۔ جب ایک قاتل کوعبرت ناک سزا ملتی ہے تو ایسے لوگ جو کسی نہ کسی دشمنی کی وجہ سے قتل کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہوتے ہیں وہ خوفزدہ ہو کر اپنے ارادے سے باز آ جاتے ہیں کہ کہیں ان کا انجام بھی اتنا ہی عبرتناک نہ ہو جائے۔ پس پتہ چلا کہ قتل و غارتگری دنیا میں اس لیے ہے کہ قاتل خونی اور درندہ صفت انسان بچ نکلتے ہیں اور انہیں سزا نہیں ملتی۔ جب یہ سزائیں قاتلوں کو ملنے لگیں گی تو قتل کے واقعات میں بھی بہت کمی آ جائے گی۔ یہ الگ بات کہ انسان قتل کرنا پھر بھی نہیں چھوڑے گا اس لیے کہ زمین پر آ کر انسان نے پہلا جرم‘ پہلا گناہ قتل کر کے کیا۔ کیوں کیا‘ یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ فرشتوں نے جب پوچھا تھا کہ اے معبود! تو ایسی مخلوق خلق کرے گا جو زمین پر جا کے خون بہائے گی تو خداوند تعالیٰ نے جواب دیا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ خدا کیا جانتا ہے‘ اس نے ہمیں نہیں بتایا۔ اس لیے ہم اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ ہم جو کہہ سکتے ہیں وہ فقط یہ ہے کہ انسان اندر سے قتل‘ وحشی اور درندہ بھی ہوتا ہے جہاں وہ فی احسن تقویم ہے وہیں اسفل السافلین بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسے اسفل السافلین کی پستیوں سے نکال کے فی احسن تقویم کے اعلیٰ موارج تک کیسے پہنچایا جائے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر انسان ایک دانشور‘ ایک قانون ساز اور ایک منصف و جج کی حیثیت سے غور کرتا آیا ہے۔ سارے قوانین اسی لیے بنائے گئے ہیں اور آج بھی بنائے جاتے ہیں کہ انسان کو کشت و خون سے کیسے روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کہتی ہے کہ ایک انسان کا قتل کرنا ساری انسانیت کاقتل کرنا ہے اور جو ایک انسان کی جان بچاتا ہے وہ ساری انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔آج دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے؟ کشمیر میں‘ فلسطین میں‘ شام اور دوسرے ملکوں میں اور تاریخ کے صفحات پلٹیے تو کیا کیا چنگیز خان‘ ہٹلر اور سٹالن نے۔ جن کی گردنوں پر لکھوکھا انسان کا خون ہے۔
آج بھی ایسے ہی درندہ صفت انسان موجود ہیں جنہوں نے انسانوں کا خون بہایا ہے لیکن کتنے ہی لوگوں کے نزدیک وہ ہیرو ہیں‘ ان کے آئیڈیل ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ انسان جہاں خون بہانے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہیں وہ خون بہانے کو پسند کرتا ہے۔ خصوصاً اس کا خون جس سے اسے نفرت ہو۔ اب آئیے اس جانب کہ انسان کو خون بہانے سے کیسے روکا جئے۔ دوسرے لفظوں میں ایک محترم انسان کو مودی‘ الطاف حسین اور ایسی ہی کوئی شخصیت بننے سے کس طرح بچایا جائے۔
چلیے یہ تو وہ شخصتیں ہیں جن کے مظالم کا علم ہم سب کو ہے لیکن انہیں آپ کیا کہیں گے جو پس پردہ رہ کر قتل کراتے ہیں اور جن کے بارے میں چہ مگوئیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کھل کر اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہ جس کے ذریعے قتل کراتے ہیں اسے بھی زندہ نہیں چھوڑتے۔ تو جو سوال ہم نے اٹھایا اس کا جواب صرف یہ ہے کہ جب تک احترام آدمیت کو بحال نہیں کیا جائے گا اور احترام آدمیت میں انسان کا جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت شامل ہیں لیکن احترام آدمیت کو کیسے بحال کیا جائے یہ الگ موضوع ہے جس پر پھر کسی نشست میں گفتگو ہوگی۔ انشاء اللہ۔
ADVERTISEMENT
آدمی ہی آدمی کا دشمن ہوتا ہے۔ آدمی جانوروں کا‘ نبانات کا‘ جمادات کا‘ زمین و آسمان کا دشمن نہیں ہوتا۔ وہ دشمن ہوتا ہے تو آدمی کا۔ آدمی کا پہلا دشمن قابیل تھا جس نے اپنے سگے بھائی ہابیل کوقتل کردیا۔ قتل کر کے پچھتایا کہ اب میں بھائی کی لاش کا کیا کروں۔ تب خداوند نے دو کوے بھیجے۔ دونوں قابیل کے سامنے آ کر لڑنے لگے۔ ایک کوے نے دوسرے کوے کو مار ڈالا اور پھر زمین کھود کر اس نے مردہ کوے کو زمین میں دفن کردیا۔ کوے سے قابیل نے سیکھا کہ اسے اپنے مردہ بھائی کو زمین کھود کر دفن کردینا چاہیے۔ جب اس نے ایسا کرنا چاہا تو اسے یاد آیا کہ ایسے اپنے بھائی کوقتل کرنا تو آتا تھا‘ دفن کرنا نہ آتا تھا اور یہ اسے کالے کوّے نے سکھایا۔ تب قابیل یہ کہہ کر رو دیا کہ ہائے میں تو اس کوے جیسا بھی نہ ہوا۔ تب سے آج تک انسان‘ انسان کو قتل کرتا چلا آ رہا ہے۔ ہر روز اخبارات ایسی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ شوہر بیوی کو قتل کردیتا ہے‘ دوست‘ دوست کو اور جائیداد کے جھگڑے میں بھائی بھائی کی گردن مار دیتا ہے۔
یہ کیا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟دشمنی!انسان اور انسان کے بیچ جب دشمنی ہوتی ہے تو آدمی اپنے اندر اس دشمنی کو پالنا شروع کردیتا ہے۔ جیسے ہم پودے کوپانی دے کر‘ کھاد دے کر بڑا کرتے ہیں۔ انسان بھی اپنی دشمنی کو پوستا پالتا ہے جس سے یہ دشمنی اس کے دل و دماغ پہ چھا جاتی ہے اور پھر جوں ہی ایسے موقع ملتا ہے وہ اپنی دشمنی نکالتا ہے اور جس سے دشمنی ہوتی ہے اس کوقتل کرڈالتا ہے۔ ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی آج بھی ہورہا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ دشمنی ہے کیا؟ قابیل کو ہابیل سے کیا دشمنی تھی؟ دشمنی کی وجہ عورت تھی۔ قابیل اس عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا جو ہابیل کی تھی۔ آج بھی عورت کی وجہ سے قتل ہو جاتے ہیں۔ دشمنی کی دوسری وجہ زمین یا مال و دولت ہوتی ہے۔ زمین پر قبضہ مال و دولت پر قبضہ اس جھگڑے میں قتل ہو جاتے ہیں تو اگر غور سے دیکھا جائے تو دشمنی کی سب سے بڑی وجہ لالچ اور حرص و ہوس ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی لالچ اور حرص و ہوس کی خواہش پر قابو پا لے تو وہ دوسرے انسان کو قتل کرنے سے خود کو روک سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خود کو روکے تو کس طرح؟ وہ یہ جانے کہ اسے دشمنی ہے تو کیوں ہے؟ جو آدمی اتنا سمجھ دار ہوگا وہ قتل جیسا جرم کرے گا ہی کیوں؟
اب یہ ذمہ داری حکومت اور ریاست کی ہے کہ وہ قاتل کو سزا دے اور اتنی کڑی سزا دے کہ دوسروں کو کو عبرت ہو۔ جب ایک قاتل کوعبرت ناک سزا ملتی ہے تو ایسے لوگ جو کسی نہ کسی دشمنی کی وجہ سے قتل کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہوتے ہیں وہ خوفزدہ ہو کر اپنے ارادے سے باز آ جاتے ہیں کہ کہیں ان کا انجام بھی اتنا ہی عبرتناک نہ ہو جائے۔ پس پتہ چلا کہ قتل و غارتگری دنیا میں اس لیے ہے کہ قاتل خونی اور درندہ صفت انسان بچ نکلتے ہیں اور انہیں سزا نہیں ملتی۔ جب یہ سزائیں قاتلوں کو ملنے لگیں گی تو قتل کے واقعات میں بھی بہت کمی آ جائے گی۔ یہ الگ بات کہ انسان قتل کرنا پھر بھی نہیں چھوڑے گا اس لیے کہ زمین پر آ کر انسان نے پہلا جرم‘ پہلا گناہ قتل کر کے کیا۔ کیوں کیا‘ یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ فرشتوں نے جب پوچھا تھا کہ اے معبود! تو ایسی مخلوق خلق کرے گا جو زمین پر جا کے خون بہائے گی تو خداوند تعالیٰ نے جواب دیا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ خدا کیا جانتا ہے‘ اس نے ہمیں نہیں بتایا۔ اس لیے ہم اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ ہم جو کہہ سکتے ہیں وہ فقط یہ ہے کہ انسان اندر سے قتل‘ وحشی اور درندہ بھی ہوتا ہے جہاں وہ فی احسن تقویم ہے وہیں اسفل السافلین بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسے اسفل السافلین کی پستیوں سے نکال کے فی احسن تقویم کے اعلیٰ موارج تک کیسے پہنچایا جائے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر انسان ایک دانشور‘ ایک قانون ساز اور ایک منصف و جج کی حیثیت سے غور کرتا آیا ہے۔ سارے قوانین اسی لیے بنائے گئے ہیں اور آج بھی بنائے جاتے ہیں کہ انسان کو کشت و خون سے کیسے روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کہتی ہے کہ ایک انسان کا قتل کرنا ساری انسانیت کاقتل کرنا ہے اور جو ایک انسان کی جان بچاتا ہے وہ ساری انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔آج دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے؟ کشمیر میں‘ فلسطین میں‘ شام اور دوسرے ملکوں میں اور تاریخ کے صفحات پلٹیے تو کیا کیا چنگیز خان‘ ہٹلر اور سٹالن نے۔ جن کی گردنوں پر لکھوکھا انسان کا خون ہے۔
آج بھی ایسے ہی درندہ صفت انسان موجود ہیں جنہوں نے انسانوں کا خون بہایا ہے لیکن کتنے ہی لوگوں کے نزدیک وہ ہیرو ہیں‘ ان کے آئیڈیل ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ انسان جہاں خون بہانے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہیں وہ خون بہانے کو پسند کرتا ہے۔ خصوصاً اس کا خون جس سے اسے نفرت ہو۔ اب آئیے اس جانب کہ انسان کو خون بہانے سے کیسے روکا جئے۔ دوسرے لفظوں میں ایک محترم انسان کو مودی‘ الطاف حسین اور ایسی ہی کوئی شخصیت بننے سے کس طرح بچایا جائے۔
چلیے یہ تو وہ شخصتیں ہیں جن کے مظالم کا علم ہم سب کو ہے لیکن انہیں آپ کیا کہیں گے جو پس پردہ رہ کر قتل کراتے ہیں اور جن کے بارے میں چہ مگوئیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کھل کر اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہ جس کے ذریعے قتل کراتے ہیں اسے بھی زندہ نہیں چھوڑتے۔ تو جو سوال ہم نے اٹھایا اس کا جواب صرف یہ ہے کہ جب تک احترام آدمیت کو بحال نہیں کیا جائے گا اور احترام آدمیت میں انسان کا جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت شامل ہیں لیکن احترام آدمیت کو کیسے بحال کیا جائے یہ الگ موضوع ہے جس پر پھر کسی نشست میں گفتگو ہوگی۔ انشاء اللہ۔
آدمی ہی آدمی کا دشمن ہوتا ہے۔ آدمی جانوروں کا‘ نبانات کا‘ جمادات کا‘ زمین و آسمان کا دشمن نہیں ہوتا۔ وہ دشمن ہوتا ہے تو آدمی کا۔ آدمی کا پہلا دشمن قابیل تھا جس نے اپنے سگے بھائی ہابیل کوقتل کردیا۔ قتل کر کے پچھتایا کہ اب میں بھائی کی لاش کا کیا کروں۔ تب خداوند نے دو کوے بھیجے۔ دونوں قابیل کے سامنے آ کر لڑنے لگے۔ ایک کوے نے دوسرے کوے کو مار ڈالا اور پھر زمین کھود کر اس نے مردہ کوے کو زمین میں دفن کردیا۔ کوے سے قابیل نے سیکھا کہ اسے اپنے مردہ بھائی کو زمین کھود کر دفن کردینا چاہیے۔ جب اس نے ایسا کرنا چاہا تو اسے یاد آیا کہ ایسے اپنے بھائی کوقتل کرنا تو آتا تھا‘ دفن کرنا نہ آتا تھا اور یہ اسے کالے کوّے نے سکھایا۔ تب قابیل یہ کہہ کر رو دیا کہ ہائے میں تو اس کوے جیسا بھی نہ ہوا۔ تب سے آج تک انسان‘ انسان کو قتل کرتا چلا آ رہا ہے۔ ہر روز اخبارات ایسی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ شوہر بیوی کو قتل کردیتا ہے‘ دوست‘ دوست کو اور جائیداد کے جھگڑے میں بھائی بھائی کی گردن مار دیتا ہے۔
یہ کیا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟دشمنی!انسان اور انسان کے بیچ جب دشمنی ہوتی ہے تو آدمی اپنے اندر اس دشمنی کو پالنا شروع کردیتا ہے۔ جیسے ہم پودے کوپانی دے کر‘ کھاد دے کر بڑا کرتے ہیں۔ انسان بھی اپنی دشمنی کو پوستا پالتا ہے جس سے یہ دشمنی اس کے دل و دماغ پہ چھا جاتی ہے اور پھر جوں ہی ایسے موقع ملتا ہے وہ اپنی دشمنی نکالتا ہے اور جس سے دشمنی ہوتی ہے اس کوقتل کرڈالتا ہے۔ ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی آج بھی ہورہا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ دشمنی ہے کیا؟ قابیل کو ہابیل سے کیا دشمنی تھی؟ دشمنی کی وجہ عورت تھی۔ قابیل اس عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا جو ہابیل کی تھی۔ آج بھی عورت کی وجہ سے قتل ہو جاتے ہیں۔ دشمنی کی دوسری وجہ زمین یا مال و دولت ہوتی ہے۔ زمین پر قبضہ مال و دولت پر قبضہ اس جھگڑے میں قتل ہو جاتے ہیں تو اگر غور سے دیکھا جائے تو دشمنی کی سب سے بڑی وجہ لالچ اور حرص و ہوس ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی لالچ اور حرص و ہوس کی خواہش پر قابو پا لے تو وہ دوسرے انسان کو قتل کرنے سے خود کو روک سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خود کو روکے تو کس طرح؟ وہ یہ جانے کہ اسے دشمنی ہے تو کیوں ہے؟ جو آدمی اتنا سمجھ دار ہوگا وہ قتل جیسا جرم کرے گا ہی کیوں؟
اب یہ ذمہ داری حکومت اور ریاست کی ہے کہ وہ قاتل کو سزا دے اور اتنی کڑی سزا دے کہ دوسروں کو کو عبرت ہو۔ جب ایک قاتل کوعبرت ناک سزا ملتی ہے تو ایسے لوگ جو کسی نہ کسی دشمنی کی وجہ سے قتل کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہوتے ہیں وہ خوفزدہ ہو کر اپنے ارادے سے باز آ جاتے ہیں کہ کہیں ان کا انجام بھی اتنا ہی عبرتناک نہ ہو جائے۔ پس پتہ چلا کہ قتل و غارتگری دنیا میں اس لیے ہے کہ قاتل خونی اور درندہ صفت انسان بچ نکلتے ہیں اور انہیں سزا نہیں ملتی۔ جب یہ سزائیں قاتلوں کو ملنے لگیں گی تو قتل کے واقعات میں بھی بہت کمی آ جائے گی۔ یہ الگ بات کہ انسان قتل کرنا پھر بھی نہیں چھوڑے گا اس لیے کہ زمین پر آ کر انسان نے پہلا جرم‘ پہلا گناہ قتل کر کے کیا۔ کیوں کیا‘ یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ فرشتوں نے جب پوچھا تھا کہ اے معبود! تو ایسی مخلوق خلق کرے گا جو زمین پر جا کے خون بہائے گی تو خداوند تعالیٰ نے جواب دیا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ خدا کیا جانتا ہے‘ اس نے ہمیں نہیں بتایا۔ اس لیے ہم اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ ہم جو کہہ سکتے ہیں وہ فقط یہ ہے کہ انسان اندر سے قتل‘ وحشی اور درندہ بھی ہوتا ہے جہاں وہ فی احسن تقویم ہے وہیں اسفل السافلین بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسے اسفل السافلین کی پستیوں سے نکال کے فی احسن تقویم کے اعلیٰ موارج تک کیسے پہنچایا جائے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر انسان ایک دانشور‘ ایک قانون ساز اور ایک منصف و جج کی حیثیت سے غور کرتا آیا ہے۔ سارے قوانین اسی لیے بنائے گئے ہیں اور آج بھی بنائے جاتے ہیں کہ انسان کو کشت و خون سے کیسے روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کہتی ہے کہ ایک انسان کا قتل کرنا ساری انسانیت کاقتل کرنا ہے اور جو ایک انسان کی جان بچاتا ہے وہ ساری انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔آج دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے؟ کشمیر میں‘ فلسطین میں‘ شام اور دوسرے ملکوں میں اور تاریخ کے صفحات پلٹیے تو کیا کیا چنگیز خان‘ ہٹلر اور سٹالن نے۔ جن کی گردنوں پر لکھوکھا انسان کا خون ہے۔
آج بھی ایسے ہی درندہ صفت انسان موجود ہیں جنہوں نے انسانوں کا خون بہایا ہے لیکن کتنے ہی لوگوں کے نزدیک وہ ہیرو ہیں‘ ان کے آئیڈیل ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ انسان جہاں خون بہانے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہیں وہ خون بہانے کو پسند کرتا ہے۔ خصوصاً اس کا خون جس سے اسے نفرت ہو۔ اب آئیے اس جانب کہ انسان کو خون بہانے سے کیسے روکا جئے۔ دوسرے لفظوں میں ایک محترم انسان کو مودی‘ الطاف حسین اور ایسی ہی کوئی شخصیت بننے سے کس طرح بچایا جائے۔
چلیے یہ تو وہ شخصتیں ہیں جن کے مظالم کا علم ہم سب کو ہے لیکن انہیں آپ کیا کہیں گے جو پس پردہ رہ کر قتل کراتے ہیں اور جن کے بارے میں چہ مگوئیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کھل کر اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہ جس کے ذریعے قتل کراتے ہیں اسے بھی زندہ نہیں چھوڑتے۔ تو جو سوال ہم نے اٹھایا اس کا جواب صرف یہ ہے کہ جب تک احترام آدمیت کو بحال نہیں کیا جائے گا اور احترام آدمیت میں انسان کا جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت شامل ہیں لیکن احترام آدمیت کو کیسے بحال کیا جائے یہ الگ موضوع ہے جس پر پھر کسی نشست میں گفتگو ہوگی۔ انشاء اللہ۔