پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان میں سلطانہ ڈاکو کی دھوم تھی، امیر خوف سے تھرتھراتے تو غریب اسکی سخاوت کے گن گاتے تھے۔ ہندوستان میں انگریز راج، گوروں کے سامنے سب بے بس مگر سلطانہ کسی کے قابو میں نہیں آتا۔ امیروں کی دولت لوٹ کر غریبوں میں بانٹنے والا سلطانہ ڈاکو ایک افسانوی کردار ہے، بیشمار کہانیاں اس سے منسوب ہیں۔ یہ کوئی فرضی کردار ہے یا حقیقت، چلیں تاریخ پر پڑی گرد صاف کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں سلطانہ، ڈاکو کیسے بنا، افسانے اور کہانیاں کتنی سچی ہیں؟
پراسرار کردار میں دلچسپی، راز کھوجنا انسانی سرشت کا ہمیشہ خاصہ رہے ہیں۔ سلطانہ ڈاکو پر بیشمار فلمیں بنیں، برصغیر کی تقسیم سے پہلے اور بعد میں پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں، ہر دور میں نامور ہیروز نے سلطانہ کا کردار ادا کیا، ہالی ووڈ میں بھی سلطانہ ڈاکو پر “دی لانگ ڈوئل” بنی جس میں اسوقت کے سپر اسٹار یل برائنر نے سلطانہ کا کردار ادا کیا۔ یہ صرف ماضی کی بات نہیں حال ہی میں انڈیا کے معروف ادیب سجیت صراف کی کتاب ‘دی کنفیشن آف سلطانہ ڈاکو’ پر فلم بنائی جا رہی ہے جس میں یہ کردار نواز الدین صدیقی ادا کرینگے۔ سلطانہ ڈاکو پر لاتعداد تھیٹرز، ڈرامے اور ناول لکھے جا چکے ہیں۔ یہ پراسرار کردار آج بھی سرحد کے دونوں اطراف عوام کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ نامور ادیبہ حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے اپنی کتاب ‘نایاب ہیں ہم’ میں سلطانہ ڈاکو سے متعلق دلچسپ یادداشتیں رقم کی ہیں، جرائم کی دنیا میں آمد کے فوری بعد ایک بار سلطانہ ڈاکو پکڑا بھی گیا تھا، سلطانہ کو گرفتار کرنیوالا شخص کوئی اور نہیں، حمیدہ اختر حسین رائے پوری کے والد ظفر عمر تھے جو پولیس افسر تھے، یہی ظفر عمر جاسوسی کہانیاں بھی لکھا کرتے تھے اور انکا ایک ناول سلطانہ ڈاکو پر بھی موجود ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ارطغرل کے مرشد ابن العربی کے عقائد پر سوالات کیوں؟| معصوم رضوی
حسن بن صباح اور اس کی جنت ۔ معصوم رضوی
سلطانہ ڈاکو کا طریقہ واردات انوکھا اور دلیرانہ تھا، اعلان کر دیا جاتا کہ فلاں مہاجن کے گھر ڈاکہ تین دن بعد ڈالا جائیگا، حویلی کے چپے چپے پر کڑا پہرا، مکھیا موجود، پولیس رات بھر چوکس، پرندہ پر نہیں مار سکتا،،، مگر لالہ لٹ گئے،،، گہنے، زیورات، ہیرے، لکشمی سب لے گیا سلطانہ اور سورما دیکھتے رہ گئے۔ امیروں سے لوٹی گئی دولت غریب عوام میں تقسیم کر دی جاتی، یہی سلطانہ کا مشن تھا۔ سلطانہ کا تعلق اترپردیش کے شہر مراد آباد سے تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دبلا پتلا شخص پورے ہندوستان میں خوف و دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ نجیب آباد کے پاس کجلی بن کا جنگل اسکی پناہ گاہ تھی، درندوں کی بھرمار، ڈاکوئوں کا کڑا پہرہ، ایسا گھنا جنگل کے دن میں رات کا سماں، طویل و عریض جنگل سلطانہ ڈاکو کا راج ہوا کرتا تھا۔ انگریزوں نے سلطانہ کو پکڑنے کی ہر کوشش کر ڈالی مگر ناکام، اعلان کر کے ڈاکہ ڈالنے والے سلطانہ کی پورے ہندوستان میں دھوم تھی۔
سلطانہ ڈاکو کو پکڑنے میں ناکامی انگریز راج کیلئے بدنامی کا باعث بننے لگی، وائسرائے تک پریشان، افسران کی تگ و دو ناکام، ہر کوشش بیکار، یہ سب گوروں کی برداشت سے باہر ہوا تو تخت برطانیہ کی درخواست کی گئی، ایک ماہر تفتیش کار فریڈی ینگ ہندوستان آیا۔ فریڈی ینگ جلد سمجھ گیا کہ صرف غریب اور نادار عوام ہی نہیں بلکہ ہندوستانی پولیس بھی سلطانہ کی ہمدرد ہے۔ اس نے نجیب آباد کے امرا کو اپنے ساتھ ملایا اور پوری پولیس فورس کا تبادلہ کر دیا۔ فریڈی ینگ مشہور شکاری اور مصنف جم کاربٹ کا گہرا دوست تھا، جم کاربٹ نے اپنی کتابوں میں اسکا تذکرہ تفصیل کیساتھ کیا ہے۔ سلطانہ ڈاکو کی تاریخ کے بارے میں کئی دیگر کتابوں کے حوالے اور تصاویر ساتھ دی گئی ڈاکومنٹری میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
پھر آتے ہیں سلطانہ ڈاکو کی گرفتاری کی جانب، فریڈی ینگ جلد ہی سلطانہ ڈاکو کے بااعتماد منشی کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا جس کی سازش کے باعث سلطانہ دھوکے سے گرفتار کیا گیا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ فریڈی ینگ کو سلطانہ سے ہمدردی ہو گئی اور اس نے سزا معاف کرانے کی کوشش بھی کی جو مسترد کر دی گئی۔ سلطانہ کو پھانسی ہو گئی مگر فریڈی ینگ نے سلطانہ سے کیا گیا وعدہ پورے خلوص کے ساتھ نبھایا۔ یہ وعدہ کیا تھا، سلطانہ ڈاکو کی اولاد اب کہاں ہے؟ سلطانہ ڈاکو کیوں بنا، تفصیل سے جاننے کیلئے اوپر دی گئی تحقیقی ڈاکومنٹری ملاحظہ فرمائیں