:پنجابی اور بلوچ مسنگ پرسن میں فرق
مطیع اللہ جان کے اغوااوررہائی کےحوالےسے سوشل میڈیاپر یہ سوال اٹھایاگیاکہ صرف پنجابی ہونےکی وجہ سے رہائی ممکن ہوئی ورنہ بلوچ سندھی مسنگ پرسن کاتو نام ونشاں بھی نہیں ملتا، فی الحال ایسے دو ٹویٹ میری نظروں سے گذرے ہیں جو انورمقصوداور وقاص گورایہ نےکیےہیں جن سے یہ غلط تاثرپیداہوتاہےکہ مطیع اللہ جان کی رہائی ان کے صرف پنجابی ہونے کی وجہ سے ہوئی۔
میں یہاں ایک فرق کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ اس حساس معاملے میں لکیر کھینچی جاسکے اور اس سے کنفیوزن پھیلاکر مخصوص سیاسی مفادات حاصل نہ کئے جاسکیں ، ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنا ہوگی کہ دراصل سندھی اوربلوچ مسنگ پرسن سول سپرمیسی کی جنگ نہیں لڑرہے نہ پارلیمنٹ یا قانون کی بالادستی کی جنگ لڑرہے ہیں بلکہ وہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئےہیں یعنی حالت جنگ میں ہیں جبکہ پنجابی ایکٹوسٹ ریاست کےخلاف جنگ نہیں لڑرہے ،سویلین سپرمیسی اور انسانی حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں، اس لئے پنجابی ایکٹوسٹ کا معاملہ سویلین کیس بن جاتاہے، یہی بنیادی فرق ہے
جب پنجابی مسنگ پرسن اور بلوچ سندھی مسنگ پرسن کے معاملے کو جوڑا جاتا ہے تو اس میں اس بنیادی حقیقت کو فراموش کردیاجاتا ہے ، اگر پنجابی نیشنلسٹ بھی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے گا تو لازمی اس کی مسخ شدہ لاش ہی ملے گی لیکن اگر بات جمہوریت ، آیئن وقانون کی بالادستی اور سویلین سپرمیسی کی ہوگی تو اسے رہاکرنا پڑے گا ، دنیابھر میں ریاست کے خلاف لڑنے والوں اور انسانی حقوق کی جدوجہد میں فرق ملحوظ رکھاجاتا ہے، ابھی امریکا میں کالوں کے حقوق کےلئے زبردست احتجاجی تحریک چلی ، سب نے حمایت کی لیکن کوئی امریکا کی ریاسے اور سالمیت کے خلاف تحریک چلاکر دیکھے پھر کیسے اس کو ایف بی آئی غائب کرتی ہے کہ نشان نہیں ملے گا۔
Comments 1