ADVERTISEMENT
سمن شاہ سے میری پہلی بار ملاقات بیلجئم کے دارالحکومت اور یورپی یونین کے مرکزی شہر برسلز میں ہوئی تھی۔ جہاں یورپین
پریس کلب آف پاکستان کی جانب سے عزیز دوست خالد حمید فاروقی نے بہت اصرار کے ساتھ دعوت نامہ بھیجا تھا کہ وہ لوگ پاکستان اور اردو کے حوالے سے ایک روزہ سیمینار منعقد کر رہے ہیں جس میں پاکستانی ادب ، شاعری، موسیقی اور صحافت کی صورتحال کو موضوع گفتگو بنایا جائے گا اور یورپ میں بسے اردو زبان سے وابستہ قلمکاروں کو ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا بھی موقع ملے گا۔ میں نے خالد حمید فاروقی سے کہا کہ میرا تو پورا خانوادہ ہی برلن میں اردو کی محبت میں گرفتار ہے اور کسی نہ کسی طور اپنی کارکردگی دکھا رہا ہے۔ تو جواباً اس سفر میں میں، میرے شوہر انور ظہیر رہبر ان کے برادر سرور غزالی اور ملا نصر الدین کا اردو سے جرمن ترجمہ کرنے والی میری چودہ سالہ بیٹی سیدہ مایا بھی اس سفر میں شریکِ سفر ہوئے تھے۔ وہ ایک یادگار پروگرام تھا جس کی تفصیل آپ کسی اور سفری رپوتاژ میں ضرور پڑھیں گے یا پڑھ چکے ہونگے ۔یہاں اُس کا ذکر کرنا اس لیے مقصود ہے کہ وہاں اس کانفرنس میری یورپ کے کئی اہم افسانہ نگاروں، ناول نگاروں ، صحافیوں اور شعراء و ادباء کے ساتھ ساتھ یورپ کی کئی ادبی تنظیموں کے سربراہان سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
سمن شاہ کا نام پیرس کی ادبی تنظیموں کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ اگرچہ برسلز کی اس ملاقات سے قبل میں ان کا ذکر کئی بار اور کئی شعری محافل میں سن چکی تھی اور کبھی کبھی یہ نام سیاسی و مذہبی تنظیموں کے حوالے سے بھی سامنے آتا تھا تو یہ خاتون مجھے ادب کے حوالے سے سنجیدہ نہیں محسوس ہوتی تھیں۔ پہلی ملاقات میں سمن شاہ کی شخصیت اور فن سے براہ راست آگاہی ہوئی۔ یورپ کی دیگر ادبی تنظیموں سے وابستہ خواتین کی طرح انہیں بھی شاید اس بات پر فخر تھا کہ وہ بحیثیت عورت یورپ کے اہم شہر پیرس میں اپنی ایک ادبی شناخت بنانے میں نہایت کامیاب ہیں۔
اچھی شاعری سننا ، گنگنانا اور پیش کرنا سمن شاہ کے تعارف کا حصہ ہیں۔
میرا شمار تو یورپ اور جرمنی کو تو چھوڑیں برلن میں ہی شاید کچھ شمار نہ ہوتا ہو، کیونکہ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے صرف اپنے جذبات کے منظوم اظہار کو ہی شاعری مانا ہے۔ عروض اور شاعری کے دیکر تکنیکی معاملات سے کوئی گہری واقفیت نہیں ہے۔ البتہ اپنے اساتذہ ء اردو ادب و شاعری کی ممنون ہوں کہ انہوں نے شاعری میں وزن اور بے وزن اشعار کی پہچان کو مستند بنانے میں میری کسی حد تک تربیت کی ہے۔ اسی لیے اکثر بحر اور وزن سے خارج شعر ذہن و زبان میں ایک کھجلی سی مچا دیتے ہیں۔ لیکن سمن شاہ نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ وہ شاعری کی تمام بحور بخوبی سمجھتی ہیں اور وہ شعری علمیت سے آگاہ ہی نہیں بلکہ اس کی قدردان بھی ہیں۔ ان کے بھی دو مجموعے منظر عام پر آچُکے ہیں۔ وہ اچھی شاعری اور شعراء کی دل سے قدر کرتی ہیں اور یورپ میں باالخصوص فرانس میں اس کی تشہیر کے لیے ایک عرصہ سے سرگرمِ عمل ہیں ۔ اُن کی تنظیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان کے نامور ادباء اور خاص طور پر شعراء ان کی تنظیم کے تحت منعقد کئے گئے پروگراموں میں پاکستان اور دنیا بھر سے تشریف لا چکے ہیں۔
میرے اولین شعری مجموعے کی پزیرائی کی خبر انہیں پاکستان و دنیا کے کئی خطوں میں بسے اردو شعراء کی معرفت ہوئی ہے اور وہ مجھے پیرس میں اپنے مجموعے کے اجراء کے لیے اپنی تنظیم کے تحت دعوت دینا چاہتی ہیں۔ جب کوئی اتنی تعریف و اعزاز سے بلائے تو دل تو ویسے ہی کشاں کشاں اُس کی جانب چل پڑتا ہے لیکن حقیقت میں سفر کرنے کے لیے سواری کا انتظام ضروری ہوتا ہے۔ جہاز کے سفر کا انتظام ہوتے ہی سمن شاہ نے پروگرام کی تاریخ کا اعلان کردیا۔ انہوں نے ایک پاکستانی نژاد ادیب کو بھی ا س محفل کا حصہ بنانا چاہا اور ان کی تازہ تصنیف کا اجراء کرنے کا بھی اہتمام کیا لیکن پروگرام سے چند دن پہلے ان صاحب نے اپنی شرکت سے معذرت کرلی۔ اب یہ پروگرام مکمل طور پر شاعری سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ میرے تعارفی پروگرام میں بھی بدل گیا تھا ۔ میں اس کرم نوازی کے لیے سمن شاہ کی بہت ممنون تھی۔
برلن کے ائر پورٹ شونے فیلڈ سے مجھے پیرس کے لیے پرواز کرنا تھا۔ یورپ میں اس وقت موسم خزاں کی آمد تھی ۔ برلن میں اس روز بہت بارش تھی جب میں ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوئی لیکن پیرس پہنچنے سے قبل ہی جہاز میں اعلان ہورہا تھا کہ پیرس کا موسم خاصہ خوشگوار ہے۔ پیرس ائرپورٹ پر اترتے ہی جب فون ائر پلین موڈ سے الگ کیا تو چھوٹے بھائی اعظم کی متواتر چار مس کالز دکھائی دیں۔ میں نے کراچی فون کیا تو معلوم ہوا کہ میری ماں جیسی بڑی بہن کا آپریشن جلد متوقع ہے وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں ۔ میرا دل اُداس و فکر مند ہوگیا لیکن باجی سے بات کر کے دل کو تسلی ہوئی۔ انہوں نے خیر کے سفر اور پروگرام کی کامیابی کے لیے دعا دی ، ان ہی دعاؤں کے سائے میں پیرس ائر پورٹ سے باہر آئی ۔ مجھے ائر پورٹ کے باہر جب سمن شاہ کہیں دکھائی نہ دیں تو میں نے کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد انہیں فون کیا ، وہ شاید کہیں قریب ہی تھیں تبھی کچھ ہی دیر میں میرے سامنے آن کھڑی ہوئیں ، محبت سے گلے لگا کر خوش آمدید کہا اور بتایا کہ وہ پہلے اس جگہ کا ایک چکر لگا کر واپس جا چکی تھیں کیونکہ جہاز وقت مقررہ پر نہیں پہنچ رہا تھا۔ سمن کے ساتھ ان کی ایک اور ساتھی ناصرہ بھی تھیں ۔ دونوں خواتین پیرس کی مہکتی فضا میں خوبصورت زرق لباس اور میک اپ سے آراستہ تھیں، میں ہمیشہ کی طرح آفس سے آدھے دن کی چھٹی لے کر ولایتی لباس میں الجھے بال سمیٹے ،بغیر میک اپ ہاتھ اور ہاتھ میں اپنا بورڈ کیس سنبھالے ان کے سامنے تھی۔ جرمنی کی خواتین یوں بھی یورپ کے دیگر ممالک کی خواتین کے مقابلے میں لباس کی جدید تراش خراش اور میک اپ وغیرہ کے استعمال میں سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ ایک چوتھائی صدی سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد مجھ میں بھی جرمن عورتوں والی خصوصیات نمایاں ہوگئی تھیں۔ اگر کبھی غلطی سے ذرا زیادہ میک اپ کر لوں تو بچے مائیکل جیکسن کی بہن کا خطاب دے دیتے ہیں، میاں بھی زیر لب مسکرا کر ان کی تائید کرتے محسوس ہوتے ہیں۔اس خجالت سے بچنے کے لیے اپنی تنخواہ سرخی پاؤڈر پر ضائع نہیں کرتی لیکن اصل حقیقت جانے بغیر مجھے پاکستان میں خاندان و دوستوں میں سادگی پسند ہونے کا خطاب مل گیا ہے۔
سمن شاہ ائر پورٹ کی حدود سے نکل کر پیرس کی گلیوں سے پرے ہائی وے پر اپنی گاڑی تیزی سے دوڑاتی ہوئیں ایک کھلے علاقے میں پہنچ گئیں جہاں سے انہوں نے کسی کو فون کر کے پہلے فرنچ زبان میں بات چیت کی ۔ تھوڑی بہت فرنچ سے مجھے بھی واقفیت ہے وہ کسی سے ایک ریسٹورینٹ کی بکنگ کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں۔ بہرحال ہم کچھ دیر گاڑی ہی میں بیٹھے شہر کے اطراف کا نظارا کرتے رہے اور شہر سے دور ایک کاروباری علاقے میں پہنچ گئے۔ کچھ دیر بعد سمن نے بتایا کہ ہم ایک حلال ریسٹورینٹ کے وسیع پارکنگ ایریا میں پہنچ چکے ہیں اور وہ کچھ ساتھیوں کا انتظار کر رہی ہیں۔ سب کے آجانے پر ہم ایک ساتھ ہی ریسٹورینٹ میں جائیں گے ۔ تھوڑی ہی دیر میں دو تین اور خواتین اپنی اپنی گاڑیاں پارک کرتی ہوئی دکھائی دیں تو سمن نے ہم کو بھی گاڑی سے باہر نکلنے کا کہا اور ساتھ ہی اپنی جانب آنے والی خواتین کو ہاتھ ہلا کر اپنی جانب متوجہ کیا۔
ان خواتین کے قریب آنے پر ہم سب ریسٹورینٹ کی راہ داری کی جانب بڑھے شائد اس ریسٹوینٹ کا نام گرینڈ رائل سی فوڈ ریسٹورینٹ تھا۔ اگرچہ میں سی فوڈ نہیں کھاتی ہوں سوائے سالمن فش کے کوئی دوسری مچھلی کھانے سے مجھے جلد کی الرجی ہوجاتی ہے۔ لیکن میں خاموشی سے ان کے ساتھ ریسٹورنٹ میں داخل ہوگئی ۔ وہ ایک بہت بڑے علاقے پر تعمیر کیا گیا ریسٹورینٹ تھا جو خاص طور پر مسلمانوں گاہکوں سے بھرا ہوا تھا۔ بچے اور اسکارف والی خواتین اور عربی مردوں کی ایک کثیر تعداد وہاں موجود تھی ۔ میں نے شیشے کی دیوار کے اندر جھانکتے ہوئے یہ اندازہ لگایا کہ ہمیں اندر شاید کوئی خالی ٹیبل نہ ملے لیکن سمن نے میرے خدشے کو بھانپتے ہوئے بتایا کہ اس ریسٹورینٹ کی مینیجمنٹ بہت اچھی ہے۔ جیسے ہی ایک ٹیبل خالی ہوتی ہے اور مہمان ایک گیٹ سے نکلتے ہیں تو اسی مناسبت سے دوسرے گیٹ سے لوگ اندر داخل کر لیے جاتے ہیں کہ جتنے لوگ باہر گئے ہیں ۔ ہم چھ خواتین تھیں ۔ میں نے پوچھا کہ اگر ہم میں سے دو خواتین پہلے چلی گئیں تو کیا وہ باقی ہم چار کا اندر جاکر انتظار کریں گی ؟ اس بار ناصرہ نے کہا نہیں وہ لوگ ریسٹورینٹ میں ہمیشہ کم از کم چار سے چھ لوگوں کو داخل کرتے ہیں اور ان کے بیٹھنے کے لیے بھی جگہ متعین کرتے ہیں ۔ اتنی دیر میں ایک عربی مرد دو نقاب پوش خواتین اور چھ سات بچوں کے ساتھ باہر نکلا تو ہمارے لیے اکھٹے ہی اندر داخل ہونے کے لیے انتظار گاہ کی راہداری کا دروازہ کھول دیا گیا۔
اندر صرف لوگ ہی لوگ تھے، اس ڈنر ہال میں فرنچ کم اور عربی زبان کی آوازیں زیادہ گونج رہی تھیں ۔ کام کرنے والے بھی عربی میں ہی لوگوں کو سروس کر رہے تھے ۔ ایک ویٹر نے عربی میں ہم سے گفتگو کا آغاز کرنا چاہا تو سمن کی صحافی دوست ناصرہ نے فوری فرنچ میں کہا کہ ہم چھ لوگ ہیں اور ایک ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ ہم اس بیرے کی راہ نمائی میں ایک چھ کرسیوں والی میز کے ارد گرد بیٹھ گئے ۔ سمن کی ایک دوست اردو نہیں جانتی تھیں وہ پیرس ہی میں پلی بڑھی تھیں اور ایک سیاہ فام فرنچ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھی تھیں اُن کا چھوٹا سا سانولا سلونا بچہ بھی پرام میں ساتھ ہی تھا۔ وہ انگریزی بھی شاید نہیں جانتی تھیں تب ہی تمام وقت یا تو فرنچ میں گفتگو کرتی رہیں یا مسکرا مسکرا کر مجھے خلوص کا پیغام اپنی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے دیتی رہیں۔ سمن نے ان خواتین کا تعارف کرتے ہوئے بتایا کہ پیرس کی یہ چھ خواتین پاکستانی کمیونٹی میں اردو صحافت ، ادب ، پاکستانی فیشن ڈیزائنگ اور کمیونٹی سوشل ورک میں اپنی معتبر پہچان رکھتی ہیں اور سفارتخانے یا دیگر پاکستانی تنظیموں کے حوالے سے کئے جانے والے پروگرام اور تقاریب میں ضرور شامل ہوکر پیرس میں پاکستان کے بہترین امیج کے لیے سر گرم عمل ہیں۔
میں نے تازہ دم ہونے کے خواتین کے واش روم جانے کے لیے اجازت چاہی تو ایک خاتون میری رہنمائی کے لیے ساتھ ہو لیں کہ زبان کا مسئلہ نہ ہو، جب ہم اپنی میز کی جانب آئے تو میز کی درمیانی سطح پر رکھی گرل میں مسالہ لگی مچھلی کے ٹکڑے اور بڑے بڑے جھینگے سیکے جارہے تھے۔ میں نے اپنی فش الرجی کی بابت ان خواتین کو بتایا تو ڈائینگ ہال کی دوسری میز سے میرے لیے ایک خاتون پلیٹ میں سلاد و دیگر لوازمات لے کر آگئیں۔ اس ڈائننگ ہال میں بے شمار انواع و اقسام کے گوشت اور سبزی کے پکوان اور میٹھے کی ڈشز ، سوپ اور سینکڑوں طرح کے سلاد موجود تھے، عربی ، چائنیز، اٹالین، انڈین، فرنچ اور تھائی کھانوں کے ساتھ ساتھ نہ جانے کتنے ملکوں کے کھانے وہاں کثیر تعداد میں موجود تھے۔ میں نے یورپ میں اتنا بڑا ملٹی نیشنل حلال فوڈ ریسٹورینٹ نہیں دیکھا تھا۔ سمن شاہ و دیگر خواتین اپنی پلیٹوں میں بہت نزاکت سے مختلف کھانوں کا ایک ایک لقمہ اپنی پلیٹ میں ڈال رہی تھیں۔ سمن نے مجھے بھی ہدایت کی کہ پہلے دیدہ زیب کھانا چکھ کر دیکھوں یوں بھی سب ہی ڈشز کھانا ناممکن تھا ۔
اس ہال میں میں نے دیگر مہمانوں کو بھی پلیٹ بھر کر کھانا لیتے نہیں دیکھا لوگ کئی بار کھانے کی بوفے میز پر جاتے اور تھوڑا تھوڑا لے کر آتے اور پلیٹ صاف ہونے پر ڈِش واشر کی جانب لگی ایک میز پر پلیٹ رکھ کر دوسری پلیٹ میں کوئی دوسرا آئٹم لیتے یا ہاتھ صاف کرتے ہوئے ریسٹورینٹ سے باہر نکل جاتے اور ان کی میز پلک جھپکتے صاف ہوتی اور نئے مہمان اس پر برابر جمان ہوجاتے۔ میرا دھیان کھانے سے زیادہ وہاں کے ماحول پر تھا۔ بچوں کی پلیٹ کا بڑے خاص خیال رکھ رہے تھے کہ وہ اسے ضرورت سے زیادہ نہ بھریں ۔ مسلمانوں کو اتنی تمیز کے ساتھ پلیٹ صاف کرکے کھاتا دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی ورنہ پاکستان اور بہت سے اسلامی ممالک کے بڑے بڑے ہوٹلوں اور شادی بیاہ میں لوگوں کو بے دریغ کھانا ضائع کرنے کا منظر اکثر دیکھ چکی ہوں۔ شاید یہ ہمارے مسلم ممالک کی روایت ہے کہ بڑے بڑے ہوٹلوں میں بھی لوگ ضرورت سے زیادہ کھانا اپنی پلیٹوں میں ڈال کر چھوڑ دیتے ہیں اور وہ قیمتی کھانا ضائع کر دیا جاتا ہے جب کہ اسی ملک میں کئی گھرانے ایک وقت کا فاقہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے پلیٹوں میں کھانا چھوڑنے والوں کا کھانے کے آداب میں ایسا کرنا شاید ان کی نازک مزاجی کی علامت ہے یا کہ ان کی یہ عادت ہے میں آج تک نہیں سمجھ پائی ہوں ۔ ہمیں تو بچپن میں ہی سکھا دیا گیا تھا کہ پلیٹ میں اپنی بھوک کے مطابق کھانا ڈالو اور پلیٹ صاف کر کے دستر خوان سے اٹھو ورنہ اللہ ناراض ہوتا ہے اور پلیٹ بد دعا دیتی ہے مگر آج کل تو لوگ نظر کی بھوک کے مطابق پلیٹ بھر کر کھانا لیتے ہیں اورپیٹ بھر جانے پر باقی کھانا ضائع کر دیتے ہیں ۔ مجھے خاص طور پر اس ریسٹورینٹ میں ماؤں کو بچوں کی پلیٹ میں تھوڑا تھوڑا کھانا لینے کی تنبیہ پر حیرت ہورہی تھی یاد آرہا تھا کہ ہماری اکثر مسلم امیاں ایسے بوفے کے ڈنر یا لنچ سے زیادہ تر اپنے بچوں کی پلیٹیں ان کے چھوٹے سے پیٹ سے کئی گنا زیادہ زبردستی بھر دیا کرتی ہیں۔ میں نے اپنی اس حیرت اور مشاہدے کو جب ان خواتین کے سامنے پیش کیا تو ایک خاتون جنہوں نے اپنا نک نیم “ جوجی” بتایا تھا ،کہنے لگیں
“سیما جی ! آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا ہے کہ حلال ریسٹورینٹ کے یہ مہمان رزق ضائع نہیں کر رہے۔۔۔۔ دراصل یہاں بچوں اور بڑوں سب کا کھانا فی کس دس یورو ہے جو کہ اتنے اقسام کے جی بھر کر کھانے کی بہت ہی کم قیمت ہے، اور اس ریسٹورینٹ میں دنیا بھر کے حلال کھانے ایک ہی چھت تلے ہیں ۔اسی لیے یہاں لوگ دور دراز سے اپنے پورے کنبے کے ساتھ آتے ہیں اور کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ پیرس کے اندرون شہر میں تو دس یورو میں تو ایک سینڈ وچ ہی خرید کر کھایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس ریسٹورینٹ کی ایک شرط یہ ہے کہ اگر ذرہ برابر بھی کھانا آپ نے پلیٹ میں چھوڑا تو اس کا جرمانہ پندرہ یورو ہے یعنی ایسے میں فی کس کھانا پچیس یورو بن جاتا ہے جوکہ چھ افراد کے خاندان والوں کے لیے بہت ہی مہنگا ہے۔ آپ بھی خیال رکھئے گا کہ کھانا ختم کرتے وقت آپ کی پلیٹ صاف ہو”
سمن شاہ نے مسکراتے ہوئے جوجی شیخ سے کہا
“ نہیں سیما جی ہماری مہمان ہیں آپ جیسے مناسب سمجھیں ویسے کھائیں اور کوئی چیز پسند نہ آئے تو بے شک پلیٹ میں چھوڑ دیں ۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے”
کوئی مسئلہ کیوں نہ ہوتا ۔۔۔۔ اتنی اچھی روایت کو میں کیوں نہ اپناتی۔ کاش ہمارے یہاں بھی ایسا ہی کوئی سسٹم آجائے تو کھانا برباد ہونے سے بچ جائے، اس ملک میں کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جہاں ایک وقت کی روٹی کے لیے انسان اپنی محنت ، اپنی عزت اور کبھی کبھی اپنی جان تک داؤ پر لگا دیتا ہے۔ چونکہ میں سلاد سے اپنی پلیٹ بھر چکی تھی لہٰذا باقی کھانے بہت کم ہی چکھے لیکن جتنے بھی چکھے وہ ذائقے میں لاجواب تھے شاید اس لیے کہ اس ریسٹورنٹ میں رزق حلال اپنی پوری حرمت کے ساتھ زبان سے روح تک اپنی لذت و برکت کا احساس دلا رہا تھا۔
کھانا کھا کر تمام خواتین ایک دوسرے کو اگلے دن وقت مقررہ پر ہال پہنچنے کی ہدایت کرکے رخصت ہوئیں۔ میں سمن شاہ کے ساتھ ان کی تیز رفتار ڈرائیونگ میں رات گئے ان کے دولت کدے پر پہنچی۔ تھکن بہت زیادہ ہوگئی تھی۔