Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
وزیر اعظم عمران خان نے سول افسران بشمول انتظامی محکموں کے سیکریٹریز ، کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز اور ریجنل پولیس افسران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہترحکمرانی اور ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ نسلوں کیلئے ہمیں ملک کا نظام ٹھیک کرنا ہے ، کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ، تھانہ کلچر تبدیل کیا جائے اداروں میں جزا و سزا کا نظام متعارف کرایا جائے اور سیاسی دباﺅ کے بغیر میرٹ پر کا کیا جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بد عنوانی کی وجہ سے معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ، بد عنوانی ہمیشہ اوپروالے الیٹ طبقے سے شروع ہوتی ہے یہ ملک ہمارا ہے اور ہمیں ہی آئندہ نسل کیلئے اپنے ملک کا نظام بہتر بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بلوچستان کا مسئلہ: توقعات سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل | محمد الیاس سومرو
قومی مالیاتی کمیشن پر اصل اعتراضات | محمد الیاس سومرو
سندھ میں ایک بار پھر اغوا برائے تاوان کا طوفان | محمد الیاس سومرو
بد عنوانی کسی بھی معاشرے کیلئے دیمک کی طرح ہوتی ہے جو معاشرے کو اندر ہی اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ پستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جہاں پر میرٹ کی قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی اہلیت کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ رشوت کے ذریعے اہم اور حساس عہدوں پر نا اہل لو گ آ جاتے ہیں جو کہ انصاف اقدار اوراصولوں کی خلاف ورزی کرنے میں دیر نہیں لگایا کرتے۔ اسی سلسلے میں ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو اعلیٰ سے ادنیٰ ہر شخص رشوت کے حصار میں جکڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اگر کوئی خدا ترس آدمی اس برائی سے بچنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ادارے کا پورا نظام اس کے خلاف ہو جاتا ہے اور اس کو یہ باور کرایا جا تا ہے کہ وہ ایک بیوقوف آدمی ہے جو کہ حالات کے ساتھ زندگی گذارنے کے سلیقے سے نا بلد ہے۔ خوش قسمتی سے اگر وہ شخص اپنے ادارے کے افراد کی باتو ں کا مقابل کر بھی لے تو اس کے اپنے عزیز ،رشتہ دار اور برادری اس سے لا تعلق ہو جاتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کی بد قسمتی اور المیہ ہے جس کی وجہ سے ہم دنیا میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ بد عنوانی کے خاتمے سے متعلق موجودہ حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابسطہ تھیں بلکہ عوام نے اس حکومت کا انتخاب اسی بنا پر کیا تھا کہ ملک کو بد عنوانی سے پاک کریں گے اور افسرشاہی کا غلبہ ختم کر کے زندگی کے تمام شعبوں میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے گا جس کا انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام سے وعدہ کر رکھا تھا ۔
سندھی اخبار روزنامہ عبرت نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجود ہ حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس عرصے میں بد عنوانی ، رشوت اور منافع خوری میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو اہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسر شاہی ، کاروباری طبقہ اور مافیا پر حکومت کا کوئی اختیار و ضابطہ نہیں ہے۔ ان کے جی میں جو آتا ہے وہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ٹکر لیناحکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن حکومت نے اس چیلنج کو قبوال کرتے ہوئے بد عنوانی ، رشوت او نا جائز منافع خوری کے خلاف کارروائی نہ کی تو عوام ان سے ہمیشہ کیلئے مایوس ہو سکتے ہیں۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ ہر ایک کا احتساب کیا جائے کیونکہ صرف اعلیٰ عہدیدارن ہی نہیںبلکہ چھوٹے ملازمین کی سطح پر بھی بہت ظلم ہو رہا ہے۔ وفاقی ادارے واپڈا میں خصوصی طور پر ملازمین کی طرف سے کیئے جانے والے ظلم کا خمیازہ پوری قوم کو بھگت رہی ہے ۔ واپڈ اکے لائن مین سے لیکر ایکس ای این تک کے ملازمین کی املاک کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے کالی بھیڑیں منظر عام پر آ جائیں گی ۔ اسی طرح محکمہ پولیس میں بھی ظلم کی انتہا نظر آئے گی کہیں معمولی چوری کے الزام میں لوگ مہینوں قید ہونگے تو کہیں قاتل کو بھی محفوظ راستہ دیا جاتا ہے یہ رویہ ملک کے چاروں صوبوں میں یکساں نظر آئے گا ۔محکمہ روینیو کو سب اہم حیثیت حاصل ہے جہاں کے ملازمین شاہانہ طرز زندگی بصر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح اور بھی کئی ادارے ہیں جن میں رشوت عام ہے بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے آنے والی رقم بھی اکثر افسران کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔
یہ صورتحال ایک ایسے ملک میں ہو رہی جہاںکی اکثریت ایک وقت پیٹ بھرکر کھانا کھانے میں پریشان ہے جن کو نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ روز گار اور نہ ہی صحت جبکہ تعلیم اور تحفظ کے معاملے میں بھی وہ بد قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر ، مشیر، سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ عہدیداران گاڑیوں کے لمبے قافلوں اور سکیورٹی حصار کے بغیر کہیں آنے جانے کیلئے تیار نہیں ہیں ان کے پروٹوکول پر ہونے والے اخراجات کا نصف بھی اگر غریب لوگوں کے بچوں کی صحت و تعلیم پر خرچ کیا جائے تو معاشرے کا نقشہ ہی بدل جائے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی جرات کرے کون؟ کیا حکمران اپنا پروٹوکول کم کر سکتے ہیں ۔ کیا افسران مہنگی اور بڑی گاڑیوں کے مقابلے میں سستی اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے سول افسران بشمول انتظامی محکموں کے سیکریٹریز ، کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز اور ریجنل پولیس افسران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہترحکمرانی اور ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ نسلوں کیلئے ہمیں ملک کا نظام ٹھیک کرنا ہے ، کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ، تھانہ کلچر تبدیل کیا جائے اداروں میں جزا و سزا کا نظام متعارف کرایا جائے اور سیاسی دباﺅ کے بغیر میرٹ پر کا کیا جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بد عنوانی کی وجہ سے معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ، بد عنوانی ہمیشہ اوپروالے الیٹ طبقے سے شروع ہوتی ہے یہ ملک ہمارا ہے اور ہمیں ہی آئندہ نسل کیلئے اپنے ملک کا نظام بہتر بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بلوچستان کا مسئلہ: توقعات سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل | محمد الیاس سومرو
قومی مالیاتی کمیشن پر اصل اعتراضات | محمد الیاس سومرو
سندھ میں ایک بار پھر اغوا برائے تاوان کا طوفان | محمد الیاس سومرو
بد عنوانی کسی بھی معاشرے کیلئے دیمک کی طرح ہوتی ہے جو معاشرے کو اندر ہی اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ پستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جہاں پر میرٹ کی قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی اہلیت کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ رشوت کے ذریعے اہم اور حساس عہدوں پر نا اہل لو گ آ جاتے ہیں جو کہ انصاف اقدار اوراصولوں کی خلاف ورزی کرنے میں دیر نہیں لگایا کرتے۔ اسی سلسلے میں ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو اعلیٰ سے ادنیٰ ہر شخص رشوت کے حصار میں جکڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اگر کوئی خدا ترس آدمی اس برائی سے بچنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ادارے کا پورا نظام اس کے خلاف ہو جاتا ہے اور اس کو یہ باور کرایا جا تا ہے کہ وہ ایک بیوقوف آدمی ہے جو کہ حالات کے ساتھ زندگی گذارنے کے سلیقے سے نا بلد ہے۔ خوش قسمتی سے اگر وہ شخص اپنے ادارے کے افراد کی باتو ں کا مقابل کر بھی لے تو اس کے اپنے عزیز ،رشتہ دار اور برادری اس سے لا تعلق ہو جاتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کی بد قسمتی اور المیہ ہے جس کی وجہ سے ہم دنیا میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ بد عنوانی کے خاتمے سے متعلق موجودہ حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابسطہ تھیں بلکہ عوام نے اس حکومت کا انتخاب اسی بنا پر کیا تھا کہ ملک کو بد عنوانی سے پاک کریں گے اور افسرشاہی کا غلبہ ختم کر کے زندگی کے تمام شعبوں میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے گا جس کا انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام سے وعدہ کر رکھا تھا ۔
سندھی اخبار روزنامہ عبرت نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجود ہ حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس عرصے میں بد عنوانی ، رشوت اور منافع خوری میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو اہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسر شاہی ، کاروباری طبقہ اور مافیا پر حکومت کا کوئی اختیار و ضابطہ نہیں ہے۔ ان کے جی میں جو آتا ہے وہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ٹکر لیناحکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن حکومت نے اس چیلنج کو قبوال کرتے ہوئے بد عنوانی ، رشوت او نا جائز منافع خوری کے خلاف کارروائی نہ کی تو عوام ان سے ہمیشہ کیلئے مایوس ہو سکتے ہیں۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ ہر ایک کا احتساب کیا جائے کیونکہ صرف اعلیٰ عہدیدارن ہی نہیںبلکہ چھوٹے ملازمین کی سطح پر بھی بہت ظلم ہو رہا ہے۔ وفاقی ادارے واپڈا میں خصوصی طور پر ملازمین کی طرف سے کیئے جانے والے ظلم کا خمیازہ پوری قوم کو بھگت رہی ہے ۔ واپڈ اکے لائن مین سے لیکر ایکس ای این تک کے ملازمین کی املاک کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے کالی بھیڑیں منظر عام پر آ جائیں گی ۔ اسی طرح محکمہ پولیس میں بھی ظلم کی انتہا نظر آئے گی کہیں معمولی چوری کے الزام میں لوگ مہینوں قید ہونگے تو کہیں قاتل کو بھی محفوظ راستہ دیا جاتا ہے یہ رویہ ملک کے چاروں صوبوں میں یکساں نظر آئے گا ۔محکمہ روینیو کو سب اہم حیثیت حاصل ہے جہاں کے ملازمین شاہانہ طرز زندگی بصر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح اور بھی کئی ادارے ہیں جن میں رشوت عام ہے بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے آنے والی رقم بھی اکثر افسران کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔
یہ صورتحال ایک ایسے ملک میں ہو رہی جہاںکی اکثریت ایک وقت پیٹ بھرکر کھانا کھانے میں پریشان ہے جن کو نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ روز گار اور نہ ہی صحت جبکہ تعلیم اور تحفظ کے معاملے میں بھی وہ بد قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر ، مشیر، سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ عہدیداران گاڑیوں کے لمبے قافلوں اور سکیورٹی حصار کے بغیر کہیں آنے جانے کیلئے تیار نہیں ہیں ان کے پروٹوکول پر ہونے والے اخراجات کا نصف بھی اگر غریب لوگوں کے بچوں کی صحت و تعلیم پر خرچ کیا جائے تو معاشرے کا نقشہ ہی بدل جائے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی جرات کرے کون؟ کیا حکمران اپنا پروٹوکول کم کر سکتے ہیں ۔ کیا افسران مہنگی اور بڑی گاڑیوں کے مقابلے میں سستی اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے سول افسران بشمول انتظامی محکموں کے سیکریٹریز ، کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز اور ریجنل پولیس افسران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہترحکمرانی اور ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ نسلوں کیلئے ہمیں ملک کا نظام ٹھیک کرنا ہے ، کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ، تھانہ کلچر تبدیل کیا جائے اداروں میں جزا و سزا کا نظام متعارف کرایا جائے اور سیاسی دباﺅ کے بغیر میرٹ پر کا کیا جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بد عنوانی کی وجہ سے معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ، بد عنوانی ہمیشہ اوپروالے الیٹ طبقے سے شروع ہوتی ہے یہ ملک ہمارا ہے اور ہمیں ہی آئندہ نسل کیلئے اپنے ملک کا نظام بہتر بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بلوچستان کا مسئلہ: توقعات سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل | محمد الیاس سومرو
قومی مالیاتی کمیشن پر اصل اعتراضات | محمد الیاس سومرو
سندھ میں ایک بار پھر اغوا برائے تاوان کا طوفان | محمد الیاس سومرو
بد عنوانی کسی بھی معاشرے کیلئے دیمک کی طرح ہوتی ہے جو معاشرے کو اندر ہی اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ پستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جہاں پر میرٹ کی قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی اہلیت کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ رشوت کے ذریعے اہم اور حساس عہدوں پر نا اہل لو گ آ جاتے ہیں جو کہ انصاف اقدار اوراصولوں کی خلاف ورزی کرنے میں دیر نہیں لگایا کرتے۔ اسی سلسلے میں ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو اعلیٰ سے ادنیٰ ہر شخص رشوت کے حصار میں جکڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اگر کوئی خدا ترس آدمی اس برائی سے بچنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ادارے کا پورا نظام اس کے خلاف ہو جاتا ہے اور اس کو یہ باور کرایا جا تا ہے کہ وہ ایک بیوقوف آدمی ہے جو کہ حالات کے ساتھ زندگی گذارنے کے سلیقے سے نا بلد ہے۔ خوش قسمتی سے اگر وہ شخص اپنے ادارے کے افراد کی باتو ں کا مقابل کر بھی لے تو اس کے اپنے عزیز ،رشتہ دار اور برادری اس سے لا تعلق ہو جاتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کی بد قسمتی اور المیہ ہے جس کی وجہ سے ہم دنیا میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ بد عنوانی کے خاتمے سے متعلق موجودہ حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابسطہ تھیں بلکہ عوام نے اس حکومت کا انتخاب اسی بنا پر کیا تھا کہ ملک کو بد عنوانی سے پاک کریں گے اور افسرشاہی کا غلبہ ختم کر کے زندگی کے تمام شعبوں میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے گا جس کا انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام سے وعدہ کر رکھا تھا ۔
سندھی اخبار روزنامہ عبرت نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجود ہ حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس عرصے میں بد عنوانی ، رشوت اور منافع خوری میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو اہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسر شاہی ، کاروباری طبقہ اور مافیا پر حکومت کا کوئی اختیار و ضابطہ نہیں ہے۔ ان کے جی میں جو آتا ہے وہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ٹکر لیناحکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن حکومت نے اس چیلنج کو قبوال کرتے ہوئے بد عنوانی ، رشوت او نا جائز منافع خوری کے خلاف کارروائی نہ کی تو عوام ان سے ہمیشہ کیلئے مایوس ہو سکتے ہیں۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ ہر ایک کا احتساب کیا جائے کیونکہ صرف اعلیٰ عہدیدارن ہی نہیںبلکہ چھوٹے ملازمین کی سطح پر بھی بہت ظلم ہو رہا ہے۔ وفاقی ادارے واپڈا میں خصوصی طور پر ملازمین کی طرف سے کیئے جانے والے ظلم کا خمیازہ پوری قوم کو بھگت رہی ہے ۔ واپڈ اکے لائن مین سے لیکر ایکس ای این تک کے ملازمین کی املاک کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے کالی بھیڑیں منظر عام پر آ جائیں گی ۔ اسی طرح محکمہ پولیس میں بھی ظلم کی انتہا نظر آئے گی کہیں معمولی چوری کے الزام میں لوگ مہینوں قید ہونگے تو کہیں قاتل کو بھی محفوظ راستہ دیا جاتا ہے یہ رویہ ملک کے چاروں صوبوں میں یکساں نظر آئے گا ۔محکمہ روینیو کو سب اہم حیثیت حاصل ہے جہاں کے ملازمین شاہانہ طرز زندگی بصر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح اور بھی کئی ادارے ہیں جن میں رشوت عام ہے بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے آنے والی رقم بھی اکثر افسران کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔
یہ صورتحال ایک ایسے ملک میں ہو رہی جہاںکی اکثریت ایک وقت پیٹ بھرکر کھانا کھانے میں پریشان ہے جن کو نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ روز گار اور نہ ہی صحت جبکہ تعلیم اور تحفظ کے معاملے میں بھی وہ بد قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر ، مشیر، سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ عہدیداران گاڑیوں کے لمبے قافلوں اور سکیورٹی حصار کے بغیر کہیں آنے جانے کیلئے تیار نہیں ہیں ان کے پروٹوکول پر ہونے والے اخراجات کا نصف بھی اگر غریب لوگوں کے بچوں کی صحت و تعلیم پر خرچ کیا جائے تو معاشرے کا نقشہ ہی بدل جائے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی جرات کرے کون؟ کیا حکمران اپنا پروٹوکول کم کر سکتے ہیں ۔ کیا افسران مہنگی اور بڑی گاڑیوں کے مقابلے میں سستی اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے سول افسران بشمول انتظامی محکموں کے سیکریٹریز ، کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز اور ریجنل پولیس افسران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہترحکمرانی اور ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ نسلوں کیلئے ہمیں ملک کا نظام ٹھیک کرنا ہے ، کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ، تھانہ کلچر تبدیل کیا جائے اداروں میں جزا و سزا کا نظام متعارف کرایا جائے اور سیاسی دباﺅ کے بغیر میرٹ پر کا کیا جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بد عنوانی کی وجہ سے معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ، بد عنوانی ہمیشہ اوپروالے الیٹ طبقے سے شروع ہوتی ہے یہ ملک ہمارا ہے اور ہمیں ہی آئندہ نسل کیلئے اپنے ملک کا نظام بہتر بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بلوچستان کا مسئلہ: توقعات سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل | محمد الیاس سومرو
قومی مالیاتی کمیشن پر اصل اعتراضات | محمد الیاس سومرو
سندھ میں ایک بار پھر اغوا برائے تاوان کا طوفان | محمد الیاس سومرو
بد عنوانی کسی بھی معاشرے کیلئے دیمک کی طرح ہوتی ہے جو معاشرے کو اندر ہی اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ پستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جہاں پر میرٹ کی قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی اہلیت کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ رشوت کے ذریعے اہم اور حساس عہدوں پر نا اہل لو گ آ جاتے ہیں جو کہ انصاف اقدار اوراصولوں کی خلاف ورزی کرنے میں دیر نہیں لگایا کرتے۔ اسی سلسلے میں ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو اعلیٰ سے ادنیٰ ہر شخص رشوت کے حصار میں جکڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اگر کوئی خدا ترس آدمی اس برائی سے بچنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ادارے کا پورا نظام اس کے خلاف ہو جاتا ہے اور اس کو یہ باور کرایا جا تا ہے کہ وہ ایک بیوقوف آدمی ہے جو کہ حالات کے ساتھ زندگی گذارنے کے سلیقے سے نا بلد ہے۔ خوش قسمتی سے اگر وہ شخص اپنے ادارے کے افراد کی باتو ں کا مقابل کر بھی لے تو اس کے اپنے عزیز ،رشتہ دار اور برادری اس سے لا تعلق ہو جاتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کی بد قسمتی اور المیہ ہے جس کی وجہ سے ہم دنیا میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ بد عنوانی کے خاتمے سے متعلق موجودہ حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابسطہ تھیں بلکہ عوام نے اس حکومت کا انتخاب اسی بنا پر کیا تھا کہ ملک کو بد عنوانی سے پاک کریں گے اور افسرشاہی کا غلبہ ختم کر کے زندگی کے تمام شعبوں میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے گا جس کا انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام سے وعدہ کر رکھا تھا ۔
سندھی اخبار روزنامہ عبرت نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجود ہ حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس عرصے میں بد عنوانی ، رشوت اور منافع خوری میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو اہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسر شاہی ، کاروباری طبقہ اور مافیا پر حکومت کا کوئی اختیار و ضابطہ نہیں ہے۔ ان کے جی میں جو آتا ہے وہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ٹکر لیناحکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن حکومت نے اس چیلنج کو قبوال کرتے ہوئے بد عنوانی ، رشوت او نا جائز منافع خوری کے خلاف کارروائی نہ کی تو عوام ان سے ہمیشہ کیلئے مایوس ہو سکتے ہیں۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ ہر ایک کا احتساب کیا جائے کیونکہ صرف اعلیٰ عہدیدارن ہی نہیںبلکہ چھوٹے ملازمین کی سطح پر بھی بہت ظلم ہو رہا ہے۔ وفاقی ادارے واپڈا میں خصوصی طور پر ملازمین کی طرف سے کیئے جانے والے ظلم کا خمیازہ پوری قوم کو بھگت رہی ہے ۔ واپڈ اکے لائن مین سے لیکر ایکس ای این تک کے ملازمین کی املاک کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے کالی بھیڑیں منظر عام پر آ جائیں گی ۔ اسی طرح محکمہ پولیس میں بھی ظلم کی انتہا نظر آئے گی کہیں معمولی چوری کے الزام میں لوگ مہینوں قید ہونگے تو کہیں قاتل کو بھی محفوظ راستہ دیا جاتا ہے یہ رویہ ملک کے چاروں صوبوں میں یکساں نظر آئے گا ۔محکمہ روینیو کو سب اہم حیثیت حاصل ہے جہاں کے ملازمین شاہانہ طرز زندگی بصر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح اور بھی کئی ادارے ہیں جن میں رشوت عام ہے بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے آنے والی رقم بھی اکثر افسران کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔
یہ صورتحال ایک ایسے ملک میں ہو رہی جہاںکی اکثریت ایک وقت پیٹ بھرکر کھانا کھانے میں پریشان ہے جن کو نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ روز گار اور نہ ہی صحت جبکہ تعلیم اور تحفظ کے معاملے میں بھی وہ بد قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر ، مشیر، سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ عہدیداران گاڑیوں کے لمبے قافلوں اور سکیورٹی حصار کے بغیر کہیں آنے جانے کیلئے تیار نہیں ہیں ان کے پروٹوکول پر ہونے والے اخراجات کا نصف بھی اگر غریب لوگوں کے بچوں کی صحت و تعلیم پر خرچ کیا جائے تو معاشرے کا نقشہ ہی بدل جائے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی جرات کرے کون؟ کیا حکمران اپنا پروٹوکول کم کر سکتے ہیں ۔ کیا افسران مہنگی اور بڑی گاڑیوں کے مقابلے میں سستی اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔