کوئٹہ پشتون آباد میں کوئٹہ کے ہی ایک ساتھی کے توسط سے یہ ملاقات افغان طالبان کو مزید قریب سے جاننے کی ایک اہم قدم تھا۔ اس دوران ایک ملاقات سابق ایم این اے مرحوم مولانا نور محمد کے ساتھ ہو چکی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی میڈیا میں کوئٹہ شوری کا کافی غلغلہ تھا گو کہ اس دوران میرام شاہ شوری اور پشاور شوری اس سے کہیں زیادہ متحرک تھے اور کوئٹہ شوری محض نام تک ہی محدود رہ گیا تھا لیکن اب یہ باتیں مغربی میڈیا کو کون سمجھاتا۔ جس شخصیت سے کوئٹہ میں ملاقات ہوئی وہ کافی ملنسار اور نرم خو تھے اس لئیے میرے سوالوں کا کھل کر جواب دیا۔ میرا ماننا تھا کہ افغانستان میں امریکہ آ کر بیٹھ گیا ہے اور افغان طالبان میں لڑنے کی سکت نہیں رہی۔ یہ بھی کہ افغان طالبان پاکستان میں جگہ جگہ چپ کر پھر رہے ہیں اور خیبر تھا کراچی وہ سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرا سوال یہ بھی تھا کہ ان کی وجہ سے کالعدم تحریک طالبان وجود میں آ چکی ہے جو امریکہ کی بجائے اپنے ملک میں اپنے ہی شہریوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ افغان طالبان رہنما ملا عبدالسلام ظعیف نے کتاب لکھی تھی جس میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھرایا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جنرل مشرف نے جو کچھ کیا وہ نہ افغانستان کے مفاد میں تھا اور نہ پاکستان کے مفاد میں تھا۔ کافی سوالات کے بعد یہ سوال کہ آخر میں یہ طویل جنگ اس خطہ میں کب ختم ہو گی؟
محترم تمام بحث اور سوالات سنتے رہے لیکن چونکہ ہر سوال کے بعد ان کی جانب سے خاموشی ہوتی اس لیئے مجبوراََ مجھے اگلا سوال کرنا پڑتا یہ سوچ کر کہ موصوف اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے۔ بہرحال آخر میں چپ ہو گیا تو مسکرا کر بولے “جنگ تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تو ختم کیسے ہو گی!”
اس جواب نے مجھے چونکا دیا۔
“کیا مطلب؟” میں نے حیرانی سے پوچھا۔
“مطلب یہ کہ ابھی تو 2014 میں امریکہ ایک معاہدہ کرے گا۔ اس معاہدے میں افغانستان باقاعدہ امریکی کالونی بن جائے گا۔ اس کے بعد طالبان اپنی کاروائیاں شروع کریں گے اور یہ سلسلہ 2024 تک جاری رہے گا۔ اس کے بعد ہی امریکہ اور اتحادیوں کو اپنے نقصانات کا پتا چلے گا۔ امریکہ اور مغرب میں عوام اس جنگ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان پر انخلا کا دباؤ بڑھے گا۔”
یہ جنگ کچھ زیادہ لمبی نہیں ہو جائیگی؟ اور اگر انخلا کا فیصلہ ہوا بقول آپ کے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ امریکہ جانے کے لئیے نہیں آیا آپ کہتے ہیں تو مان لیتا ہوں۔ میں نے بیچ میں لقمہ دیا۔
” نہیں ہمارے ماننے یا نہ ماننے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے لیے جنگ کوئی نئی بات نہیں ہم تو پیدائش سے جنگ ہی دیکھ رہے ہیں۔ مغرب والے اتنی طویل جنگ کے عادی نہیں ہیں۔ انخلاء کے لئیے معاہدہ بھی ہماری شرائط پر ہوگا۔ صرف چند مقامات پر ان کی موجودگی ہوگی جس کے حفاظت کی ذمہ داری بھی ہماری ہوگی اور اس کا باقاعدہ وہ ٹیکس ادا کریں گے۔”
آج سوچتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ اس وقت میں جن باتوں کو اس افغان طالب کی دیوانگی کا خواب سمجھ رہا تھا وہ وقت سے پہلے سچ ثابت ہوگئیں۔ آج اس کے 2024 کے لئیے کی جانے والی پیشن گوئی 2020 میں ہی پوری ہو گئی۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟ شکر ہے میں نے یہ سوال بھی کر دیا تھا اور اس نے کافی تفصیل سے اس کا جواب دیا تھا۔
“اس کے بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادی بظاہر افغانستان چھوڑ دیں گے تو ان کے بوئے ہوئے کانٹے سر اٹھانے لگیں گے۔ ایک شدید جنگ شروع ہوگی۔ ایک ایسی جنگ جو بہت ہی بھاری ثابت ہوگی۔ صاحب ثروت لوگ جو افغانستان لوٹنے کے لئیے افغانستان آئے تھے اور جن کے خاندان پیچھے امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہے واپس ان ممالک کو لوٹ جائیں گے۔ جو متوسط طبقہ ہو گا وہ واپس ایران، وسطی ایشیاء اور پاکستان منتقل ہونے کی کوشش کرے گا اور عام غریب، مخلص اور افغانستان کے حقیقی رکھوالے اپنے وطن میں رہیں گے۔ جنگ اس حد تک شدید ہو جائے گی کہ خود افغان باشندے باہر نکل کر جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جنگ روکنے کی کوشش کریں گے۔ یہ وہ وقت ہو گا جب پوری دنیا سے آوازیں اٹھیں گی اور مغرب خود امریکہ کو لے کر ایک بار پھر افغانستان کی طرف متوجہ ہوگا۔”
اب آگے میں کیا پوچھتا کہ پھر کیا ہوگا اور ویسے بھی مایوسی نے جی بوجھل کر دیا۔ ہاں البتہ یہ سوال ذہن میں آیا بھی اور یقین مانئے پوچھا بھی کہ جب امریکہ انخلا کے بعد “بظاہر” افغانستان چھوڑ دے گا تو پھر یہ لڑائی کیوں ہو گی؟ لیکن حضرت نے کوئی مناسب جواب نہیں دیا۔
سالوں بیت گئے، اب تو اس وقت کی بہت ساری باتیں ذہن سے نکل گئیں لیکن آج کل امریکی انخلاء کی باتیں ہو رہی ہیں تو چھم سے یادوں کے دریچے میں یہ ملاقات در آئی۔ ان کی یہ باتیں کچھ اس انداز سے تھیں کہ ان کے خواب دیکھنے کا گماں ہوتا تھا اس وجہ سے زیادہ ذکر میں نے بھی نہیں کیا البتہ ملاقات کے بعد پشاور سے نکلنے والے روزنامہ خیبر میں اس ملاقات کے کافی عرصہ بعد ایک مختصر سا کالم لکھا۔
اب کیوں؟ آج بھی وہی آخری سوال میرا پیچھا کر رہا ہے کہ جب امریکی انخلاء ہوگا تو پھر جنگ کیوں اور کس کے ساتھ؟
انہوں نے اس وقت داعش( دولت اسلامیہ عراق و فی الشام) کا ذکر نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت اس تنظیم کا وجود تک نہیں تھا۔
عید الاضحیٰ کے موقعہ پر جب افغان طالبان اور حکومت نے سئیزفائر کا اعلان کیا جس کو پشتو میں “اوربند” کہتے ہیں اسی داعش (ولایت خراسان) نے افغان صوبہ ننگرہار کی مرکزی جیل پر حملہ کرکے درجنوں باشندوں کو قتل کر دیا اور سینکڑوں ساتھیوں کو چھڑا کر لے گئے اس وقت اس لشکر کی سربراہی ہندوستان کیرالہ کے ایک ڈاکٹر کر رہے تھے جس کے ساتھ کئی ملکوں کے جنگجووں نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔ افغان طالبان کی جانب سے امن، امریکی افواج کے بظاہر انخلاء اور افغان پارلیمنٹ کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے بالکل وسط میں داعش کی یہ کارروائی کھلے عام ایک نئی جنگ کا آغاز ہے۔
میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ میرے ادھورے سوال کا جواب ہے یا واقعی ایک بڑی جنگ کاآغاز؟