• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home Aawaza

افغان طالبان امن یا  خطہ میں نئی جنگ کا آغاز؟ سید فخر کاکاخیل| سید فخر کاکاخیل

افغان طالبان کی جانب سے امن اور امریکی افواج کے بظاہر انخلا سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے بالکل وسط میں داعش کی یہ کارروائی کھلے عام ایک نئی جنگ کا آغاز ہے

سید فخر کاکاخیل by سید فخر کاکاخیل
August 10, 2020
in Aawaza, فکر و خیال
0
افغان طالبان امن یا  خطہ میں نئی جنگ کا آغاز؟ سید فخر کاکاخیل| سید فخر کاکاخیل
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

کوئٹہ پشتون آباد میں کوئٹہ کے ہی ایک ساتھی کے توسط سے یہ ملاقات افغان طالبان کو مزید قریب سے جاننے کی ایک اہم قدم تھا۔ اس دوران ایک ملاقات سابق ایم این اے مرحوم مولانا نور محمد کے ساتھ ہو چکی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی میڈیا میں کوئٹہ شوری کا کافی غلغلہ تھا گو کہ اس دوران میرام شاہ شوری اور پشاور شوری اس سے کہیں زیادہ متحرک تھے اور کوئٹہ شوری محض نام تک ہی محدود رہ گیا تھا لیکن اب یہ باتیں مغربی میڈیا کو کون سمجھاتا۔ جس شخصیت سے کوئٹہ میں ملاقات ہوئی وہ کافی ملنسار اور نرم خو تھے اس لئیے میرے سوالوں کا کھل کر جواب دیا۔ میرا ماننا تھا کہ افغانستان میں امریکہ آ کر بیٹھ گیا ہے اور افغان طالبان میں لڑنے کی سکت نہیں رہی۔ یہ بھی کہ افغان طالبان پاکستان میں جگہ جگہ چپ کر پھر رہے ہیں اور خیبر تھا کراچی وہ سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرا سوال یہ بھی تھا کہ ان کی وجہ سے کالعدم تحریک طالبان وجود میں آ چکی ہے جو امریکہ کی بجائے اپنے ملک میں اپنے ہی شہریوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ افغان طالبان رہنما ملا عبدالسلام ظعیف نے کتاب لکھی تھی جس میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھرایا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جنرل مشرف نے جو کچھ کیا وہ نہ افغانستان کے مفاد میں تھا اور نہ پاکستان کے مفاد میں تھا۔ کافی سوالات کے بعد یہ سوال کہ آخر میں یہ طویل جنگ اس خطہ میں کب ختم ہو گی؟
محترم تمام بحث اور سوالات سنتے رہے لیکن چونکہ ہر سوال کے بعد ان کی جانب سے خاموشی ہوتی اس لیئے مجبوراََ مجھے اگلا سوال کرنا پڑتا یہ سوچ کر کہ موصوف اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے۔ بہرحال آخر میں چپ ہو گیا تو مسکرا کر بولے “جنگ تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تو ختم کیسے ہو گی!”
اس جواب نے مجھے چونکا دیا۔
“کیا مطلب؟” میں نے حیرانی سے پوچھا۔
“مطلب یہ کہ ابھی تو 2014 میں امریکہ ایک معاہدہ کرے گا۔ اس معاہدے میں افغانستان باقاعدہ امریکی کالونی بن جائے گا۔ اس کے بعد طالبان اپنی کاروائیاں شروع کریں گے اور یہ سلسلہ 2024 تک جاری رہے گا۔ اس کے بعد ہی امریکہ اور اتحادیوں کو اپنے نقصانات کا پتا چلے گا۔ امریکہ اور مغرب میں عوام اس جنگ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان پر انخلا کا دباؤ بڑھے گا۔”
یہ جنگ کچھ زیادہ لمبی نہیں ہو جائیگی؟ اور اگر انخلا کا فیصلہ ہوا بقول آپ کے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ امریکہ جانے کے لئیے نہیں آیا آپ کہتے ہیں تو مان لیتا ہوں۔ میں نے بیچ میں لقمہ دیا۔
” نہیں ہمارے ماننے یا نہ ماننے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے لیے جنگ کوئی نئی بات نہیں ہم تو پیدائش سے جنگ ہی دیکھ رہے ہیں۔ مغرب والے اتنی طویل جنگ کے عادی نہیں ہیں۔ انخلاء کے لئیے معاہدہ بھی ہماری شرائط پر ہوگا۔ صرف چند مقامات پر ان کی موجودگی ہوگی جس کے حفاظت کی ذمہ داری بھی ہماری ہوگی اور اس کا باقاعدہ وہ ٹیکس ادا کریں گے۔”
آج سوچتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ اس وقت میں جن باتوں کو اس افغان طالب کی دیوانگی کا خواب سمجھ رہا تھا وہ وقت سے پہلے سچ ثابت ہوگئیں۔ آج اس کے 2024 کے لئیے کی جانے والی پیشن گوئی 2020 میں ہی پوری ہو گئی۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟ شکر ہے میں نے یہ سوال بھی کر دیا تھا اور اس نے کافی تفصیل سے اس کا جواب دیا تھا۔
“اس کے بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادی بظاہر افغانستان چھوڑ دیں گے تو ان کے بوئے ہوئے کانٹے سر اٹھانے لگیں گے۔ ایک شدید جنگ شروع ہوگی۔ ایک ایسی جنگ جو بہت ہی بھاری ثابت ہوگی۔ صاحب ثروت لوگ جو افغانستان لوٹنے کے لئیے افغانستان آئے تھے اور جن کے خاندان پیچھے امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہے واپس ان ممالک کو لوٹ جائیں گے۔ جو متوسط طبقہ ہو گا وہ واپس ایران، وسطی ایشیاء اور پاکستان منتقل ہونے کی کوشش کرے گا اور عام غریب، مخلص اور افغانستان کے حقیقی رکھوالے اپنے وطن میں رہیں گے۔ جنگ اس حد تک شدید ہو جائے گی کہ خود افغان باشندے باہر نکل کر جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جنگ روکنے کی کوشش کریں گے۔ یہ وہ وقت ہو گا جب پوری دنیا سے آوازیں اٹھیں گی اور مغرب خود امریکہ کو لے کر ایک بار پھر افغانستان کی طرف متوجہ ہوگا۔”
اب آگے میں کیا پوچھتا کہ پھر کیا ہوگا اور ویسے بھی مایوسی نے جی بوجھل کر دیا۔ ہاں البتہ یہ سوال ذہن میں آیا بھی اور یقین مانئے پوچھا بھی کہ جب امریکہ انخلا کے بعد “بظاہر” افغانستان چھوڑ دے گا تو پھر یہ لڑائی کیوں ہو گی؟ لیکن حضرت نے کوئی مناسب جواب نہیں دیا۔
سالوں بیت گئے، اب تو اس وقت کی بہت ساری باتیں ذہن سے نکل گئیں لیکن آج کل امریکی انخلاء کی باتیں ہو رہی ہیں تو چھم سے یادوں کے دریچے میں یہ ملاقات در آئی۔ ان کی یہ باتیں کچھ اس انداز سے تھیں کہ ان کے خواب دیکھنے کا گماں ہوتا تھا اس وجہ سے زیادہ ذکر میں نے بھی نہیں کیا البتہ ملاقات کے بعد پشاور سے نکلنے والے روزنامہ خیبر میں اس ملاقات کے کافی عرصہ بعد ایک مختصر سا کالم لکھا۔
اب کیوں؟ آج بھی وہی آخری سوال میرا پیچھا کر رہا ہے کہ جب امریکی انخلاء ہوگا تو پھر جنگ کیوں اور کس کے ساتھ؟
انہوں نے اس وقت داعش( دولت اسلامیہ عراق و فی الشام) کا ذکر نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت اس تنظیم کا وجود تک نہیں تھا۔
عید الاضحیٰ کے موقعہ پر جب افغان طالبان اور حکومت نے سئیزفائر کا اعلان کیا جس کو پشتو میں “اوربند” کہتے ہیں اسی داعش (ولایت خراسان) نے افغان صوبہ ننگرہار کی مرکزی جیل پر حملہ کرکے درجنوں باشندوں کو قتل کر دیا اور سینکڑوں ساتھیوں کو چھڑا کر لے گئے اس وقت اس لشکر کی سربراہی ہندوستان کیرالہ کے ایک ڈاکٹر کر رہے تھے جس کے ساتھ کئی ملکوں کے جنگجووں نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔ افغان طالبان کی جانب سے امن، امریکی افواج کے بظاہر انخلاء اور افغان پارلیمنٹ کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے بالکل وسط میں داعش کی یہ کارروائی کھلے عام ایک نئی جنگ کا آغاز ہے۔
میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ میرے ادھورے سوال کا جواب ہے یا واقعی ایک بڑی جنگ کاآغاز؟

Ad (2024-01-27 16:31:23)
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: افغانستانامریکاطالبان
Previous Post

بد عنوانی ، رشوت اور منافع خوری: سندھی پریس کا جائزہ | محمد الیاس سومرو

Next Post

چلے جاؤ | نعمان یاور صوفی

سید فخر کاکاخیل

سید فخر کاکاخیل

Next Post
چلے جاؤ | نعمان یاور صوفی

چلے جاؤ | نعمان یاور صوفی

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions