برصغیر کی تقسیم میں 73 سال پہلے انسانوں کی زندگیوں کے ساتھ کیا ہوا۔”ایک مذہب سے وابستہ ہزاروں افراد نے دوسرے مذہب کے لوگوں کی جانیں بچائیں اور یہ ثابت کردیا کہ پاگل پن اور جنون کی اس غیر انسانی فضاء میں انسانیت زندہ رہی مسلمانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر سکھوں اور ہندوؤں کی زندگی بچائی۔ اسی طرح ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمان پڑوسیوں دوستوں حتیٰ کہ ناواقف لوگوں کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ انہیں اپنی پناہ میں رکھا۔یادگار مگر بےتوقیر ایام کی داستان جب ہندو جیتے، مسلمان جیتے اور سکھ بھی جیتے مگر انسانیت بُری طرح سے ہار گئی۔
مجھے تقسیم کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر 2007 میں امرتسر جانے کا موقع ملا، جہاں سے میرے دادا فسادات کے بعد اپنے ادھورے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور آئے، آزادی کے دنوں میں کیا ہوا، بزرگوں سے سنے واقعات کو کہانی کی شکل دی جو پیش خدمت ہے۔
*********
تقسیم درحقیقت برصغیر یا ہندوستان کی نہیں بلکہ بنگال اور پنجاب کی ہوئی تھی جس میں سب سے زیادہ پنجاب کے شہروں نے قتل وغارت دیکھی، امرتسر اور لاہور انہیں میں سے تھے جن کا مستقبل بھی آخری وقت تک واضح نہیں تھا۔کبھی جڑواں کہلانے والے یہ شہر نہ صرف دولخت ہوئے بلکہ فرقہ واریت کی بنیاد پر ہونے والے سب سے بڑے قتل عام کے عینی شاہد بھی بن گئے۔
اس سرزمین پر انسانوں نے مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔
دھرتی کو لہو لہو کرنے والے اگرچہ محدود اور مخصوص سوچ کے حامل افراد اور گروہ تھے لیکن تقسیم کے جواز کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے نفرت کو مذید گہرا کرنا ضروری تھا۔
یہ کہانی چند افراد یا خاندانوں کی نہیں تھی اصل میں اس خطے میں بسنے والے مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگوں کی ہے جنہوں نے مل جل کر سماجی تعلقات اور رشتوں کی مضبوطی کا عزم کئے رکھا۔ اس میں انہیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ حتی کہ انہیں جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ عزت وناموس بھی قربان کرنا پڑی۔ شاید آزادی یہ سب مانگتی ہے۔ اور اس کی قیمت ادا کرچکنے کے بعد بھی اگر لوگوں نے زندگیاں اسی ڈھب سے گزارنا تھیں تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان کی غلامی ختم ہوئی؟ حکمران تو یہ لوگ پہلے بھی نہ تھے اب بھی اقتدار کسی اور کے پاس ہے۔
مارچ 1947 امرتسر کی گلیوں میں بسنے والے مسلمان، ہندو اور سکھ اُن دنوں کچھ خاموش اور ایک دوسرے سے کم بات کررہے تھے ہندوستان میں آزادی کی باتیں جہاں تیز ہوتی جارہی تھیں، اس کے ساتھ ہی ہر آنے والے دن کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا، انگریز سرکار کی غلامی کے خلاف نفرت ایک فطری عمل تھا مگر آزادی کے نتیجے میں ہونے والی تقسیم نئے سوالات کو جنم دے رہی تھی۔
ٹاؤن ہال اور کوتوالی کے ساتھ گورنمنٹ ہائی سکول کے ساتھ کٹڑا ماہن سنگھ میں غلام قادر کا خاندان جس میں اس کا اکلوتا بیٹا حبیب اللہ اس کی بیوی اور چار بیٹے اور دو بیٹیاں رہتے تھے۔ حبیب اللہ نے سب کے ساتھ ملکر بھائیوں کی طرح زندگی کی ہر خوشی اور غمی دیکھی، اس کا دوست ہربھجن سنگھ ہمیشہ کندھے سے کندھا ملاکر چلتا۔ ان دنوں یہ بحث عام تھی کہ امرتسر ہندوستان میں ہوگا یا پاکستان میں۔ ماحول میں ایک خاموشی اور مایوسی سرایت کرتی جارہی تھی، جوشائد آنے والے دنوں میں کسی بڑے طوفان کی پیش بینی تھی۔
حبیب کا والد غلام قادر کشمیری خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس کے آباؤاجداد سرینگر سے ہجرت کرکے پنجاب میں آئے۔ شہر میں دنگافساد شروع ہوگیا، غلام قادر حقے کی چلم گرنے سے چل گیا،
غلام قادر نے بچوں سے کہا کہ بیٹا مجھے ایک بات بڑی پکی طرح سے معلوم ہے، یہ تقسیم اتنی آسان اور سیدھی نہیں۔ جب کسی گھر کا بٹوارہ ہوتا ہے تو کتنے سیاپے پڑ جاتے ہیں، ڈانگ سوٹا نکل آتا ہے، بھائی بھائی کا دشمن ہوجاتا ہے۔تم جس تقسیم کی بات کرتے ہو، یہ عام آدمی کو تباہ کردے گی۔
حبیب اللہ نے کہا اباجی الگ آزاد ملک سے اپنی شناخت اور تشخص بنے گا۔ ایک طرف انگریز کا جبر ہے دوسری جانب ہندو بنیا تعصب کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اُن سے چھٹکارا ملے گا۔
غلام قادر۔ ایک بات بتاوں، آزادی سے اچھی کوئی چیز نہیں، اس کی خاطر لوگوں نے جانیں دیں، لیکن اس تقسیم کے بعد بہتر حالات دکھائی نہیں دیتے۔
اسی روز ہربھجن سنگھ بیٹیوں کے ساتھ دربار صاحب متھا ٹیکنے گیا، وہاں اچانک پیچھے سے کچھ لوگ بھاگتے آئے اور مرکزی دروازے سے باہر نکل گئے۔
وہ پراگدہ چوک میں کسی مسلمان کو قتل کرکے آرہے تھے۔ان دنوں بلند کئے جانے والے نعرے ان نعروں سے مختلف تھے جو کانگرس یا مسلم لیگ والے لگاتے تھے۔
جن میں وندے ماترم، وندے ماترم، کہیں سے یہ آوازیں آتیں، ہم لیکر رہیں گے پاکستان تمھیں دینا پڑے گا،
دونوں طرف سے ایک واضح تفریق اور تقسیم نظر آتی تھی۔
شہر میں پانی پلانے والے بھی ہندو پانی اور مسلم پانی کی آواز لگاتے۔
ابھی مارچ کا مہینہ چل رہا تھا، بتایا جاتا تھا کہ اگست تک کچھ ہو جائے گا، مسلمانوں کو شہر کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کا بھی علم نہیں تھا، انکا اگلا ٹھکانہ کیا ہوگا۔
ہندوستان کے سیاستدان بھی تقسیم اور پھر امرتسر لاہور کے مستقبل پر الگ الگ سوچ رکھے تھے۔عمومی تاثر تھا کہ امرتسر شاید پاکستان میں چلا جائے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ کانگرس ایسا ہونے نہیں دے گی۔ امرتسر پاکستان میں شامل ہوا تو پھر کشمیر بھی جائے گا، وہاں کے مہاراجہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔
ادھر سرداروں کے جتھے دار نے بھی اعلان کیا تھا کہ ہم ہندوستان میں رہیں گے، اور ان کی کوشش ہوگی کہ دربار صاحب ہندوستان میں رکھا جائے۔
جناح نے لاہور میں سکھ رہنما گیانی کرتار سنگھ سے ملاقات میں وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں تو پاکستان میں مسقل طورپر سکھ برادری سے آرمی کمانڈر انچیف مقرر کرنے یا وزارت دفاع دینے کی بنیاد پر معاہدہ ہوسکتا ہے۔ مگر انہوں نے جناح کی اس پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔
ادھر لاہور میں چار مارچ کو سکھوں اور ہندوؤں نے جلوس نکالا۔ماسٹر تارا سنگھ نے ایک جلسے میں اپنی کرپان کو ننگا کرکے ہندوؤں اور سکھوں کو مشورہ دیا کہ اب کچھ کر گزرنے کا وقت اگیا ہے۔ اس کی تقریر کے بعد مشتعل ہجوم وہاں سے نکلا اور انارکلی بازار میں توڑ پھوڑ کردی، انہیں جہاں مسلم لیگ کا جھنڈا نظر آتا اُسے اتار پھینکتے، یہاں بھی ایک ہی نعرہ لگا۔
“بچہ بچہ کٹ مرے گا، نہیں بنے گا پاکستان”
اندرون شہر میں عبدالحمید مجلس احرار کا سرگرم رکن تھا، جس کے کانگرس کے رہنماؤں سے بھی اچھے تعلقات تھے، اس کے پانچ بچے تھے، ایک بڑی بیٹی اور چار بیٹے تھے، اس کی کانگرس سے سیاسی وابستگی اور آزادی کی جدوجہد میں متحدہ ہندوستان کی حمایت کرنے پر مسلم لیگی اسے تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔عبدالحمید کی مسلم لیگی رہنماؤں سے اچھی دوستی تھی اور1940 سے پہلے تک بڑے سرگرم طریقے سے مل جل کر سیاسی اجتماعات میں حصہ لیتے تھے پاکستان کے اعلان کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ نے واضح سمت اختیار کی، جس کے بعد انڈین نیشنل کانگرس، جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار، ہندو مہاسبھا، جماعت اسلامی اور کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا جوکہ مختلف اور متضاد سیاسی نظریات کی حامل جماعتیں تھیں، وہ متحدہ ہندوستان کی آزادی پر یقین رکھتی تھیں۔
ان دنوں مختلف علاقوں سے پولیس پارٹیوں کا گشت رہتا، جزوی طور پر کرفیو لگا دیا جاتا۔ ایسے اعلانات بھی کئے جارہے تھے کہ لاٹھی، ہاکی، یا کوئی ہتھیار لیکر رات میں نہ نکلا جائے۔
مارچ کے آخری دنوں میں چراغاں کا میلہ باغبانپورہ میں منسوخ کردیا گیا۔
عبدالحمید کے دو بیٹے اسلامیہ کالج پڑھتے، بڑے اسد کی دوستی ایک متمول ہندو تاجر کے بیٹے رام پال سے تھی، رنگ محل میں دونوں کو گھر جاتے چھریاں، خنجر اور لاٹھیاں تھامے گروہ نے گھیر لیا۔ انہوں نے نعرہ لگایا ایک ہندو اور دوسرا کانگرسی کا بیٹا ہے۔ مارو انہیں، جانے نہ پائیں، انہوں نے التجا کی کہ ان کا کسی جماعت سے تعلق نہیں، مگر وہ لاٹھیوں اور خنجروں سے وار کرکے انہیں خون میں لت پت چھوڑ کر چلے گئے۔ اسد ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
عبدالحمید کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے کہا دیکھ لیا تم نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ اُس نے جواب دیا شہر میں ہندو، سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کو بلاتفریق کاٹ رہے ہیں۔ اس میں میری آزادی کی جدوجہد کا کیا قصور۔ کون ہندوؤں کو اکسا رہا ہے مسلمانوں کو ایسا درس کون دے رہا ہے؟
میں نے اپنا بیٹا آزادی کی راہ میں قربان کردیا۔ کون جانے اسے شہید بھی کہا جائے گا۔ مارنے والے اپنے تھے۔ اسے مارکر نہ جانے کس جذبے کی تسکین کی ہے؟
مجھے یقین ہے کہ ایک دن ہم آزاد ہوں گے اور اس بات کا احساس بھی ہوگا کہ یہ سب غلط ہوا، اس دن شاید ہم لوگ شرمسار بھی ہوں۔
کمپنی باغ میں جلسے کی تیاریاں تھیں، لیکن دربار صاحب کے پاس قتل کے بعد حالات نے شدت اختیار کرلی تھی، ہال بازار میں مسلمانوں کی چند دکانیں تھیں جنہیں جلاد دیا گیا۔ انہیں دنوں عبدالقادر ایک حادثے میں بری طرح جھلس گیا۔ اُسے ہسپتال داخل کرادیا ۔ دادا نے پوتے سعید کو بتایا کہ امرتسر میں ایک بار بہت بڑا قتل عام ہوا تھا۔ یہ بات اپریل 1919 کی ہے، تیرا باپ اور میں جلیانوالہ باغ میں جلسہ سننے گئے، وہاں آزادی کے متوالے گوروں کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے۔ وہاں اچانک گولی چلی۔ بھگدڑ مچ گئی، جان بچانے کے لئے لوگوں نے کنویں میں چھلانگیں لگادیں۔جو بعد میں لاشوں سے بھر گیا۔ حبیب اللہ نے گورداسپور سے آئے سکھ دوست کی جان بچائی۔
لاہور اور امرتسر کے درمیان واقع دیہی علاقوں کے رہنے والوں کو شاید شہری حدبندیوں کا بھی علم نہیں تھا۔ اٹاری اور واہگہ کے دیہات میں آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ بات ضرور تھی کہ فسادات کی بُو اب وہاں تک پہنچ چکی تھی۔ کھیت کھلیانوں میں بیٹھے لوگ بھی تقسیم کی باتیں کرنے لگے تھے۔ منالی گاؤں میں امین اور فیاض دو بھائی اپنے خاندان کے ساتھ آباد تھے۔اُن کی بہن کی شادی پھوبھی کے گھر امرتسر کے گاؤں جگال میں ہوئی، اس کا بیٹا رشید پولیس میں تھا، شادی کے بعد وہ بیوی کو بھائیوں سے ملانے منال گاوں آیا تھا، یہاں گاؤں میں ان دنوں لوٹ مار کے اکا دکا واقعات ہوچکے تھے۔ گاوں والے جانتے تھے کہ امین اور فیاض کا بہنوئی انگریز کی پولیس میں ہے۔ رشید صبح امین کے ڈیرے پر جارہا تھا کہ راستے میں اچانک اُسے ایک طرف سے چار پانچ کرپانوں سے لیس سکھ اپنی جانب بھاگتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے نعرے لگائے گوروں کا ایجنٹ آیا ہے،اسے ختم کردو۔ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے تلواروں اور کرپانوں کے پے درپے وار کئے۔ چند لمحوں میں وہاں کا منظر ہی بدل گیا۔ رشید خون میں لت پت ایک گھنے درخت کے سائے میں بے حس و حرکت پڑا تھا۔ رشید ایک مضبوط جسم کا مالک نوجوان تھا مگر مقابلہ نہ کرسکا اور اس کی دھڑکنیں بند ہوچکی تھیں۔ چند روز پہلے جس گھر میں خوشیاں منائی گئیں وہاں اب ماتم ہورہا تھا صفیہ کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ وہ باربار کہہ رہی تھی ہم لاہور کیوں آئے، میں رشید کو روکتی رہی۔ کاش ہم یہاں نہ آتے۔
تقسیم کے فارمولے کا اعلان ہوگیا۔ بنگال کے مسلمان اکثریت والے حصے کو پاکستان میں شامل کرلیا گیا۔ ادھر کشمیر کی وادی کاعلاقہ نیچے جموں، گورداسپور، امرتسر فیروزپور اور سندھ میں راجستھان ہندوستان کے حصے میں آئے۔ لاہور کے بارے میں مسلسل افواہیں تھیں کہ اسے بھی ہندوستان میں رکھا جائے گا کیونکہ یہ پنجاب کا ادبی ثقافتی اور سیاسی مرکز تھا۔ جہاں بنگال کے دو حصے ہورہے تھے پنجاب بھی مشرق اور مغرب میں بٹ گیا۔ آزادی کی تحریک بھی زیادہ انہیں دو ریاستوں میں سرگرم تھی، تقسیم کا براہ راست شکار بھی یہی دو ریاستیں ہوئیں۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ذمہ انتظامی اور جغرفیائی تقسیم کا کام سونپا گیا۔اس مقصد کے لیے محض دو ماہ کا وقت تھا۔اعلان کے بعد جیسے کانگرس اور مسلم لیگ کے کارکنوں میں ایندھن ڈل گیا ہو، انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو تیز کردیا۔ جہاں لوگوں کو آزادی کے لیے تیار کیا جارہا تھا وہیں ایک بار پھر فرقہ پرستی کے پیروکار میدان میں اتر آئے۔ اگرچہ تقسیم کے فارمولے پر مہاتما گاندھی اور ان کے قریبی رفقا متفق ہوگئے تھے۔ لیکن سردار پٹیل اور ماسٹر تارا سنگھ جیسے انتہا پسند لیڈر جلتی پر تیل لگانے کا کام کررہے تھے۔ یہ ضرور تھا کہ مسلمانوں کی جانب سے بھی شعلہ بیان علما حضرات نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
امرتسر ریلوے سٹیشن پر گورداسپور سے آنے والے مسافروں میں سے کچھ ایسے مسلمان خاندان تھے جو لاہور جانے کے لئے کھڑے تھے اُن کے عزیز رشتہ دار پنجاب کے مختلف شہروں میں رہتے تھے جہاں وہ ان سے ملنے آتے جاتے، اب کی بار تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے ہی مئی میں وہ لوگ لاہور جارہے تھے ان میں سے ایک خاندان جمیل خان کا تھا، گورداسپور میں محکمہ ڈاک کا افسر ہے، وہاں ابھی فسادات میں شدت اس طرح نہیں آئی تھی جیسے امرتسر یا لاہور میں محسوس کیا اور دیکھا جارہا تھا۔ جمیل کی والدہ، چار بچے ایک بھائی اور بیوی سب لاہور اپنے رشتہ داروں سے ملنے نہیں جارہے تھے بلکہ وہ انہیں عارضی طور پر منتقل کرنے جارہا تھا تاکہ حالات زیادہ خراب ہونے کی صورت میں وہاں محفوظ رہ سکیں۔ جمیل کو تسلی تھی کہ گھروالوں کو لاہور چھوڑ آیا ہے، گورداسپور میں افواہ پھیل گئی تھی کہ ان کا شہر پاکستان میں آئے گا۔ وہ ایک دوست رفیق کے گاوں نبی پورہ میں گیا تھا کہ ایک شام قریب کی سکھ بستیوں سے گولے چلنے کی آوازیں آئیں۔ سکھوں کے جتھے پیدل اور گھوڑوں پر سوار آرہے تھے۔ مسلمانوں نے گاوں والوں کو جوابی حملے کے لیے تیار رہنے کا اعلان کیا۔انہوں نے گاوں کی مختلف گلیوں ، نکڑوں پر ناکے لگالئے اور ہاتھوں میں لاٹھیاں برچھیاں پکڑلیں۔ گاوں میں ایک سائیں جی رہتے تھے جو قبرستان کی دیکھ بھال کرتے اور بستی کے گھروں سے روٹی مانگ کر گزارہ کرتے تھے۔ گاوں والوں کی پریشانی دیکھ کر اچانک اس گدڑی پوش فقیر نے تلوار فضا میں بلند کی اور للکارا۔مسلمان ہوکر ڈرتے ہو میں اللہ کانام لیکر اکیلا ہی حملہ کروں گافتح ہماری ہوگی۔ اس نے دوبارہ نعرہ لگایا اور سکھ گھڑ سواروں کی جانب بھاگنے لگا۔ یہ منظر دیکھ کر نوجوانوں کو حوصلہ ہوا اور تقریباً ایک سو نوجوان سکھوں کی طرف لپکے۔
سائیں مخالف صفوں میں گھس چکا تھا۔اور بڑی بہادری سے حملہ کررہا تھا۔جمیل اوراس کے دوست بھی وہاں پہنچ چکے تھےمیدان میں تین چار سکھ خون میں لت پت پڑے تھے۔ سائیں کا کوئی پتہ نہیں تھا اسی دوران شور مچا کہ پٹیالہ کی فوج آگئی ہے، اتنے میں سکھوں کے ہاتھ رک گئے کسی نے آواز دی سائیں جی واپس آجائیں اور پھر سب نے دیکھا کہ سائیں زخمی حالت میں تلوار تھامے ادھر کو نکل آیا۔ دن چڑھتے ہی سکھ سپاہی کاروں پر مشین گنیں لگائے ان کے گاوں کی طرف بڑھے۔ گاوں میں بوڑھا ہرنام سنگھ بھی رہتا تھا اس نے ملٹری کو آتا دیکھ چلانا شروع کردیا لوگو چھپ جاو میں ان سکھوں کو خود سنبھال لوں گا۔ وہاں موجود لوگ فصلوں میں چھپ گئے۔ سکھ ملٹری کی لاریاں وہاں آکر رکیں ہرنام سنگھ فریادیوں کی طرح پگڑی ہاتھ میں تھامے سکھ کمانڈر کے پاس گیا اور ہاتھ جوڑ کر کہا کہ مسلمانوں کی تلاش میں آئے ہو وہ تو سب چلے گئے جاتے جاتے میرے سامان کو آگ بھی لگا گئے۔ وہ دیکھو میری کٹیا کے سوا کچھ سلامت نہیں ہے۔ کمانڈر نے ہرنام سنگھ کو دو تین تھپڑ مارے اور کہا کہ بڈھے تم نے ہمیں اطلاع کیوں نہ دی۔ ہم مسلمانوں کا نام ونشان مٹادیتے، ہرنام سنگھ رو رو کر کمانڈرسے معافی مانگنےلگا ملٹری کے جاتے ہی بارش شروع ہوگئی، کھیتوں میں چھپے لوگوں کا بھوک سے بُرا حال ہوگیا،ہرنام سنگھ کھیتوں میں جاجاکر انہیں کھانا دیتا اور بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتا، گھبراو نہیں، گورو کرپا کرے گا۔
ہرنام سنگھ نے سائیں جی کے ساتھ میٹنگ کی اور پھر دونوں بڈھے ننگی تلواریں تھامے جرنیلوں کی طرح قافلے کے آگے ہوئے۔ راستے میں کوئی حملہ آور دکھائی دیتا تو دونوں گالیاں بکتے آگے آکر للکارتے۔
جمیل نے رفیق سے کہا کہ دیکھو گھر سے نکلا تھا تمہیں ملنے کے لیےاور تم نے ایک دن اپنے پاس ٹھہرایا اب حالات ایسے ہوگئے کہ سارا گاوں انہیں راستوں سے ہوتا نہ جانے دریا کے پاس پہنچ جائے گا، راوی دریا تریموں کے مقام پر جب ان لوگوں نے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سکھوں کے ایک بڑے قافلے نے حملہ کردیا۔ رات کے اندھیرے میں کچھ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ کون کون لڑرہا ہے زیادہ تر نے خود کو ایک بار پھر فصلوں میں چھپا لیا تھا۔
سکھ حملہ آور اگلے گاوں کی طرف بڑھ گئے دن چڑھتے دیکھا دونوں کمانڈر سائیں جی اور ہرنام سنگھ دونوں جرنیل مردہ حالت پڑے، اپنی بہادری کی داستان لکھ گئے۔ ہرنام سنگھ کی قربانی کو شاید کوئی یاد نہ کرے مگر جمیل دریا عبور کرنے کے بعد جب رفیق کے ساتھ محفوظ مقام کی تلاش میں تھا تو اس نے سب سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہم لوگ خود کو بڑے مسلمان سمجھتے ہیں موت کو سامنے دیکھ کر نہ ہمارے اندر ہمت رہی اور نہ اپنے بھائیوں کو بچانے کی جرات۔ یہ کام بھی ایک بوڑھے سکھ کے ہاتھوں ہوا، جس نے محض انسانیت کے ناطے ایک سو سے زائد انسانوں کو بحفاظت یہاں تک پہنچایا۔
لاہور میں حالات روز بروز بگڑتے جارہے تھے،عبدالحمید کے گھر میں بیٹے کی شہادت کے بعد ماحول سوگوار تھا، اس نے بیوی اوار بچوں کو بتایا کہ برطانوی حکمرانوں نے یہاں آکر تمام مذاہب کا بغور مطالعہ کیا اور اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے متحارب مذاہب کو الگ الگ کرنے کی دانستاً کوشش شروع کردی جس کے بعد ان کے درمیان جیسے باقاعدہ چپقلش کے لیے فضا بھی قائم ہوگئی۔ اس سب کے باوجود پچھلی صدی کے آخر میں مسلمانوں، ہندوؤں سکھوں پارسیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے سماج میں فرسودہ نظریات کو ترک کرکے مذہبی خیالات کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے اور لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ یہ سب بتانے کا مقصد ہے کہ ہندوستان کے مذاہب میں چلنے والی تحریکوں نے سماج میں اہم تبدیلیاں لائیں۔ انگریزی شہنشاہیت کے لیے ہندوستان کی متحدہ قومیت سے زیادہ کوئی اور چیز خطرناک نہیں ہوسکتی تھی۔ہندو مسلم اتحاد ان کے اقتدار کے لیے خطرہ تھا وہ اسے کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ اس سب کو بنیاد بناکر انہوں نے تمام مذاہب کو الگ الگ کیا، اُن میں نفرت کے بیج بوئے۔ اگرچہ بہت زیادہ کامیابی نہیں ہوئی، مگر آزادی کی تحریک کا دباؤ قبول کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک بار پھر فرقہ وارانہ تقسیم کو واضح کردیا اور ہندوستان کو چھوڑنے سے پہلے تقسیم کا پلان دیدیا۔ اب اس حقیقت کو شاید تسلیم کرنا پڑے۔
تین جون 1947 کو ریڈیو پر وائس رائے نے تقریر کی جس میں اس نے تقسیم کے حوالے سے اعلان کیا اس موقع پر لاہور کے مختلف علاقوں میں رات ساڑھے سات بجے سے صبح چھ بجے تک کا کرفیو لگادیا گیا۔ وائسرائے کی تقریر کے بعد آٹھ بجے نہرو، جناح اور بلدیو سنگھ کی تقریریں چلائی گئیں۔ انہوں نے بھی واضح کردیا کہ آزادی کے دن قریب آگئے ہیں اور اب یہاں کے عوام ایک بار پھر اپنی مرضی کے مطابق زندگیاں بسر کریں گے۔ اگرچہ ان رہنماؤں نے اپنے اپنے لوگوں یعنی ہندو، مسلم اور سکھ برادری سے پرامن رہنے کی اپیل کی،لیکن روزانہ کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آرہا تھا۔ اگر اخبار یاریڈیو پر نہ چلتا تو سینہ گزٹ کے طور پر خبر پورے شہر میں پھیل جاتی تھی۔ جس کے بعد ردعمل کاانتظار شروع ہوجاتا۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی تقسیم کے لیے تین ماہ کی مدت مقرر کردی یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کانگرس کے رہنماؤں نے اس پر شبہ ظاہر کیا کہ اتنے پیچیدہ پلان کو اتنے کم عرصہ میں مکمل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ کلکتہ کے بعد نواکلی بہار اور پھر پنجاب بھی فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ پنجاب میں فسادات پہلے صرف لاہور تک محدود رہے لیکن پھر روالپنڈی اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں بھی خون خرابہ ہونے لگا۔
“لاہور میدان جنگ بن گیا تھا جسے جیتنے کے لیے فرقہ پرست ہندو اور مسلمان لڑ رہے تھے۔ ہندوؤں اور سکھوں کے نمائندوں نے کانگرس کی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ لاہور کو ہندوستان میں شامل کیا جانا چاہیے، ان کا موقف تھا کہ لاہور پنجاب کی سیاسی اور معاشی زندگی کا مرکز ہے اور اگر وہ پاکستان میں چلاگیا تو پنجاب مستقل طور پر بے دست وپا ہو جائے گا۔ ان کا اصرار تھا کہ کانگرس لاہور کو ایک اہم ایشو کے طور پر لے۔ کانگرس کی قیادت بھی اس معاملے پر تقسیم ہوگئی۔ اکثریت کی رائے میں اس مسئلے کو وہاں کے باشندوں کی خواہش کے مطابق حل کرنا چاہیے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر بہت زیادہ توجہ دینا پڑی۔ اس نے ایک باونڈری کمیشن قائم کردیا اور ریڈکلف کو ہدایت کی کہ وہ یہ کام انجام دے۔ اس نے جون کی گرمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کام جولائی میں کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے واضح طور پر کہہ دیا کہ تین چار ہفتوں کے بجائے وہ تین چار دن کی تاخیر بھی برداشت نہیں کریں گے۔ وہ اگست تک اس کام کو مکمل کرنے کی ٹھان چکا تھا۔
خیال یہ تھا کہ اگر فوج کی فرقہ وارنہ تقسیم پہلے ہوگئی تو متوقع اور ممکنہ فسادات پر قابو پانا بھی مشکل ہوجائے گا۔ کانگرس کے امن پسند اور عدم تشدد کے حامی رہنماؤں نے بھی فوج کی پیشگی تقسیم پر اصرار کیا۔ دوسری تقسیم سرکاری ملازمین کی ہوئی تاہم انہیں یہ حق دیا گیا کہ وہ مستقل یا عارضی طور پر کسی بھی ریاست میں رہنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہندوستان اور ہندوؤں سکھوں کو پاکستان میں چھ ماہ تک اپنے فیصلے پر نظرثانی کا حق دیا گیا۔ یہ طے پاگیا کہ بھارت ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے 15 اگست کو وجود میں آجائے گا جس پر مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ وہ 14 اگست کو پاکستان کا قیام عمل میں لانا چاہتی ہے جسے برطانوی حکومت نے تسلیم کرلیا۔
لاہور اور امرتسر کے مستقبل کا فیصلہ تقریباً ہوچکا تھا بلکہ اردگرد کے شہروں کا بھی تعین کرلیا گیا کہ کس نے بھارت اور پاکستان کے ساتھ جانا ہے۔ لاہور کے ہندووں نے بروقت نقل مکانی شروع کردی ۔ لاہور پر ہندووں اور سکھوں کے قبضے کاخواب ٹوٹ گیا۔ اسی طرح امرتسر میں رہنے والے بہت زیادہ نہیں تاہم ایک اچھی تعداد میں مسلمانوں کو وہیں رہنے کی امید تھی وہ بھی دم توڑ گئی اور اب انہیں بھی اپنا مستقبل پاکستان میں تلاش کرنا تھا۔
محمد دین لاہور کے ریلوے گیرج شاپ میں ملازم تھا، وہ ان دنوں حالات کا بڑی باریکی سے جائزہ لے رہا تھا، اس نے ان دنوں کی روداد ایک ڈائری میں لکھنا شروع کردی، جسے بعد کے دنوں مِں شائع کیا گیا،
30 جون کو مغلپورہ سے ایک چھاپے کے دوران گیانی تارا سنگھ اور پیارے لال سمیت چھ بدمعاش پکڑے گئے، جنہوں نے علاقے میں فسادات کی منصوبہ بندی کررکھ تھی۔ اخبار میں خبر آئی ہے کہ ایک سکھ محمد علی جناح پر حملہ کرنے کی غرض سے کوٹھی کی دیوار پھاندکر داخل ہوا مگر حملےسے پہلے ہی پکڑا گیا۔
20 جولائی 1947آج پہلا رمضان باغبانپورہ سبزی منڈی میں ایک بم پھینکا گیا جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک کچھ سخت مجروح ہوئے، رام گڑھ میں بم پھٹ گیا۔
21 جولائی 5 بجے کے بعد بھاٹی دروازے کے باہر کراؤن سنیما میں جبکہ فلم چل رہی تھی ایک بم پھینکاگیا جس سے 35 افراد ہلاک ہوگئے ایک سے زیادہ زخمی ہوئے۔
22 جولائی، لاہور سے امرتسر جانے والی ٹرین مغلپورہ رکی تو اس میں کسی نے بم پھینک دیا مگر وہ باہر پلیٹ فارم پر گر گیا، جس سے دو افراد ہلاک ہوگئے، یہ ٹرین مزدوروں کو لے کر جارہی تھی۔ مرنے والا ایک چھاؤنی کا ہندو اور دوسرا مسلمان تھا۔ اگلے روز 23 جولائی کو مغلپورہ سے ہربنس پورہ کے درمیان مزدوروں کو لے جانے والی ٹرین لائن پر کچھ رکھ کر روک لی گئی کسی خفیہ پارٹی نے حملہ کردیا جس میں کئی افراد مارے گئے۔ اور درجنوں زخمی ہوئے۔ 31 جولائی کو واہگہ ریلوے سٹیشن پر حملے کی کوشش ناکام بنادی گئی۔
11 اگست 1947 لاہور اور امرتسر میں فساد شروع ہوگئے، کارخانے کی چھٹی تھی۔ امرتسر سے لوگ بھاگ کر لاہور پہنچے، مصیبت زدہ لوگوں کو چھاؤنی میں ایک پرائمری سکول میں پناہ دی گئی
12 اگست کو محمددین کے گھر کے قریب گوپال کی دکان کو آگ لگانے کی کوشش ناکام ہوگئی، لبھو رام سگریٹ والے کی دکان جل گئی، چترسنگھ کی دکان تک تمام دکانیں جل کر راکھ کا ڈھیر بن چکی تھیں۔ چار آگ بجھانے والے انجن آئے۔ انہوں نے آگ پر قابو پایا۔ 9 بجے مغلپورہ سٹیشن پر فساد ہوا، ایک مسلمان لڑکے نے تلوار سے چھ سکھ قتل کئے جس کے بعد وہاں آرمی پہنچ گئی انہوں نے گولی چلادی۔ کل 13 آدمی ہلاک ہوئے سارا دن گلیوں اور بازاروں میں فوج گشت کرتی رہی۔
13 اگست گیرج شاپ میں آج تنخواہ کا دن تھا واک مین ٹرین سٹیشن پر چار غیر مسلم مارے گئے، گیرج شاپ سے جو بھی سکھ تنخواہ لے کر نکل رہا تھا اسے قتل کیا جارہا تھا۔ اسی دوران سنا شاپ کے اندر بھی فساد شروع ہوگئے۔ میں نے تنخواہ لی اور نکل گیا ہماری شاپ میں بھی سکھوں کو قتل کیاگیا۔ محلے میں پہنچا تو رتی رام کی دکان کو آگ لگائی گئی تھی۔
لاہور میں مسلمانوں کے گروہ بڑے منظم انداز سے کارروائی ڈال رہے تھے ، ہندووں اور سکھوں کے خاندانوں کے روزانہ قافلے ٹرکوں، گاڑیوں اور ٹرینوں پر روانہ ہورہے تھے۔ انہں قافلوں پر حملے ہوتے، لوگ مارے جارہے تھے شہر میں ہر طرف آگ اور خون دکھائی دیتا۔
امرتسر میں ہندو اور سکھوں جبکہ لاہور میں مسلمانوں کے یہ چہرے بالکل نئے تھے جن پر وحشت بربریت واضح طور پر دکھائی دیتی مذہب کی تفریق جو کبھی پہلے دبی دبی تھی یا اندر ہی اندر موجود تھی وہ اب باہر آکر اپنا غصہ ، نفرت اور آگ نکال رہی تھی۔ انسانیت نہ صرف خاموش تماشائی بنی تھی بلکہ اُس کو شرمندہ کیا جارہا تھا۔
14 اگست کی صبح کا سورج طلوع ہوا، یہ آزادی کی نوید لے کر آیا تھا۔ ہندوستان پر انگلستان کی ڈیڑھ سوسال حکمرانی کا اختتام ہورہا تھا۔ دن چڑھتے ہی امرتسر شہر کی فضا میں ایک غیر مرئی طغیانی کے آثار نمایاں تھے، کئی علاقوں میں آگ لگانے اور ماردھاڑ کے واقعات کا آغاز ہوچکا تھا۔ چیخ وپکار بلند ہورہی تھی، بازاروں میں معمول کا کاروبار بند تھا، لیکن لوگوں کے چہروں پر بے چینی اور پریشانی واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ آج ستائیسواں رمضان تھا، مسلمانوں کی اکثریت نے روزہ رکھا تھا۔
کٹڑا مان سنگھ کے مسلمان گھروں میں روانگی کی تیاریاں تھیں، حبیب اللہ کا خاندان آنے والے دنوں سے بے خبر تھا انہوں نے ابھی تک کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی کہ کب ، کیسے اور کہاں ہجرت کرنا ہے۔ وہ کئی دنوں سے بھجن سنگھ سے دانستاً نہیں ملا تھا۔ حبیب اللہ جانتا تھا کہ اب اس موضوع پر گفتگو ہوگی تو وہ دونوں جذباتی ہوجائیں گے۔ حبیب اللہ اپنے بیوی بچوں کو یہ کہہ کر گھر سے نکلا کہ وہ کسی گاڑی کا انتظام کرتا ہے اُس کے ایک عزیز نے وعدہ کیا تھا کہ ایک ٹرک لے آئے گا جس پر سامان رکھ کر اکٹھے روانہ ہوں گے۔ وہ دلاور کو ساتھ لے گیا غلام فاطمہ چھوٹی بیٹی عائشہ کوگھر میں چھوڑ کر بڑی بیٹی کے ساتھ پڑوس میں اپنی سہیلی انیسہ بیگم سے ملنے گئی، دن کے گیارہ بجے ہوں گے۔ محلے میں شور سنائی دیا، پکڑو انہیں چھوڑنا نہیں مار ڈالو، سامنے گھر سے ایک لڑکا کلدیپ حبیب اللہ کے گھر آیا اس نے ارشد سے کہاشہر میں فسادات بھڑک اٹھے ہیں۔ ابا نے پیغام بھیجا ہے کہ آپ لوگوں نے ابھی نہیں جانا تو ہمارے گھر آجائیں کیونکہ یہاں رہنا آپ کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔ ارشد نے جواب دیا کہ ہمارے والد گاڑی کا انتظام کرنے گئے ہیں،ارشد،یاسین، سعید اور عائشہ گھر میں تھے ان کے محلے میں رام چند فائربریگیڈ کا ملازم رہتا تھا، کسی نے رام چند کو کچھ سکھ نوجوانوں سے گفتگو کرتے دیکھا، جس کے بعد وہ چلا گیا، اور ان نوجوانوں نے حبیب کے گھر پر دھاوا بولا، دروازے پر زور زور سے دستک دی، ٹھڈے مارے اور بلند آواز میں پکارا ، باہر نکلو تمہیں لے جانے کے لئے گاڑیاں پہنچ گئی ہیں، ارشد نے دروازہ کھولا، وہاں تین چار سکھ نوجوان ہاتھوں میں پستول تھامے بڑے غصے میں کھڑے تھے۔ ارشد نے صورتحال بھانپتے ہوئے فوراً دروازہ بند کردیا اور اس کے آگے کمر کرکے کھڑا ہوگیا، اُس نے چیختے ہوئے یاسین سے کہا سعید کولے کر پیچھے سے نکل جاو، اُن کے گھر کی چھت عقب کی چھت سے ملتی تھی۔ اسی گھر میں اُن کی والدہ گئی ہوئی تھیں۔ یاسین نے کہا ایسا ٹھیک نہیں انہیں سمجھاتے ہیں، اتنے میں باہر کھڑے سکھوں نے دھکے مار کر دروازہ کھول دیا۔ اور ساتھ ہی گولی ارشد کے پیٹ میں لگی ، اس نے خوفزدہ عائشہ کو اٹھایا تھا، گولی لگنے سے عائشہ سمیت زمین پر گرگیا، دوسری گولی یاسین کے کندھے پر لگی اور وہ بھی وہیں جاگرا۔ صحن میں کھڑا سعید چھت پر جانے والی سیڑھیوں کے اوپر جاکر چھپ گیا، اُن لوگوں نے گھر کا ایک ایک کمرہ جاکر دیکھا اور پھر وہاں سے چلے گئے۔ ارشد کو لگنے والی گولی تھری ناٹ تھری کی تھی، گولی کمر سے نکل گئی، ارشد نے یاسین سے پوچھا تمہاری کیا حالت ہے، اُس نے بتایا کہ وہ تکلیف میں ہے لیکن اسے ہسپتال لے جائے گا۔ ارشد نے کہا تم میرے جوتے اتار دو اور عائشہ کو لے کر چلے جاو، اب میری پروا نہ کرو۔ اُسے احساس ہوگیا تھا کہ اب وہ نہیں بچے گا۔
یاسین اور سعید اس کے بھائی تھے وہ ارشد کو اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاسکتے تھے، خصوصاً جب گھر اور شہر بھی چھوڑنا تھا اور والد، والدہ بہن بھائی کا بھی علم نہیں تھا۔ ارشد نے ڈانٹا کے جتنی دیر کرو گے تقدیر تمہیں منزل سے دور کردے گی، ابھی تم دونوں کو ابا اور اماں کو لے کر لاہور جانا ہے، میں بعد میں آجاوں گا۔ ارشد کے جسم سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا، وہ اسی حالت میں گھر کی دہلیز پر پڑا تھا۔دونوں بھائی چھوٹی بہن کو ساتھ لے کر گھر سے نکل گئے، یاسین کے کندھے سے خون بہہ رہا تھا، وہ خود بھی شدید تکلیف میں تھا۔
اسی دوران عقب والے گھر پر بھی حملہ ہوا، جہاں سکھوں نے عورتوں کو تلواروں کے وار کرکے ماردیا، اُن میں غلام فاطمہ اور مریم بھی تھی، دراصل اس گھر میں کئی دوسرے گھروں کی خواتین بھی اکٹھی ہوئی تھیں تاکہ الوداعی ملاقات کرلیں، چھ سات ماری گئیں، کچھ شدید زخمی ہوئیں، حبیب اللہ کو واپسی پر محلے میں پہنچنے سے پہلے اطلاع مل گئی کہ اُس کے بیوی بچوں کو ہلاک کردیا ہے، حبیب اللہ یہ سُن کر ایک بند دکان کے تھڑے پر بیٹھ گیا، دلاور مسلسل روئے جارہا تھا، اس کے ساتھ قمرالدین بھی تھا، یہ حبیب اللہ کا عزیز تھا جس کے ساتھ لاہور جانے کا پروگرام بنایا تھا، قمر نے اسے تسلی دی مگر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اُس نے حبیب اللہ کو کہا کہ حوصلہ رکھو گھر چل کر دیکھتے ہیں، کیا صورتحال ہے، اتنے میں مخالف سمت سے ایک محلہ دار بھاگتا آیا، اُس نے ڈرا دیا کہ اس طرف ہرگز نہ جائیں ورنہ اُن کی جان کو خطرہ ہوگا، ابھی وہ کچھ فیصلہ کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ بھجن سنگھ بھاگتا ہوا آیا، اس نے پوچھا حبیب اللہ کیاہوا، بڑے پریشان لگتے ہو، وہ دلاور کو روتے دیکھ کر گھبرایا قمر نے اُسے بتایا کہ مسلمانوں کے گھروں پر حملے ہورہے ہیں، اطلاع ہے کہ گھر میں موجود تمام افراد کو ماردیا ہے۔ بھجن سنگھ یہ سن کر چیخ پڑا، کس نے کیا یہ کون لوگ تھے۔ اس نے کہا میں تم لوگوں کو خود دوسری طرف پہنچا کر آوں گا۔وہ ان دونوں باپ بیٹے اور قمر کو لے کر جارہاتھا کہ راستے میں ایک گروہ نے انہیں روک لیا، کچھ ہندو اور ایک بغیر داڑھی کے سکھ تھا، انہوں نے پوچھا تم لوگ کون ہو، مسلمان یا ہندو۔ ہربھجن سنگھ بولا، مجھے دیکھ کر بھی تمیں معلوم نہیں ہوا کہ کون ہیں، یہ میرے ساتھی ہیں میں ان کی حفاظت کررہا ہوں۔ اس نے اپنی تلوار فضا میں لہرائی اور ان پر حملہ آور ہوا، وہ سارے خوف سے آگے بھاگ گئے۔ انہوں نے قمر کے گھروالوں کو تیار کیا۔ حبیب اللہ اور اس کے چھوٹے بیٹے دلاور کی آنکھوں مسلسل آنسو بہہ رہے تھے، انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کچھ زندہ بچ گئے ہیں۔
ارشد کا دوست ہیرا جب ان کے گھر پہنچا تو وہاں دہلیز پر کوئی اوندھے منہ پڑا تھا، اس کے ساتھ راجن بھی تھا، انہوں نے جب اسے سیدھا کیا تو ارشد کو مردہ حال میں دیکھ کر ہیرا سکتے میں آگیا۔ گھر کے اندر کوئی نہیں تھا، سامنے گھر سے ایک نوجوان آیا، اس نے بتایا بلوائیوں نے گولیاں ماردیں، باقی بہن بھائی بھی زخمی حالت میں چلے گئے، ارشد نے خود انہیں بھیج دیا، ہیرا بولا، ہماری مدد کرو، میں اپنے دوست کو یہاں کہیں دفنا دیتا ہوں، آج میرا دوست روزے کی حالت میں شہید ہوا، اسے دفنانے کے بعد وہ پچھلے گھر میں گیا وہاں عورتیں اور بچیاں تھیں جنہیں قتل کردیا گیا تھا، اس میں ارشد کی والدہ اور چھوٹی بہن بھی لاشوں میں پڑی تھیں ہیرا کو محسوس ہوا کہ ماسی کے سانس چل رہے ہیں، اس نے نبض دیکھی اور انہیں کندھے پر اٹھالیا، راجن بولا مجھے نہیں لگتا یہ زندہ ہیں۔ ہیرا جذباتی ہوکر بولا دوست کو نہیں بچا اس کی ماں کو نہیں مرنے دوں گا۔
یاسین، سعید اور عائشہ کو ایک سکھ خاندان نے پناہ دے دی، انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ یاسین کو قریب میں ڈاکٹر کے ہاں بھجواکر اس کے کندھے سے گولی نکلوائی، وہیں عائشہ کی مرہم پٹی بھی کرائی گئی۔ تینوں کو اپنے باپ اور بھائی دلاور کی اب فکر تھی وہ اپنی ماں بڑے بھائی اور بہن کے غم کے ساتھ یہ سمجھ چکے تھے کہ اب وہ تینوں ہی رہ گئے ہیں۔ ہیرا ان کی والدہ کو ہسپتال داخل کراچکا تھا جہاں ڈاکٹرز نے آپریشن کرکے اس کی جان بچا لی۔
ادھر بھجن سنگھ حبیب اللہ کو لے کر واہگہ پہنچا، اسے بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اس کا خاندان مارا گیا ہے، وہ اکیلے بیٹے کے ساتھ لاہور داخل ہونے کے لئے تیار نہیں تھا ، وہ مہاجر کیمپ میں موجود تھے، جہاں بھجن سنگھ نے اس کی انٹری خود کروائی۔ وہ اسے گلے لگا کر کتنی دیر روتا رہا۔ اس نے کہا میں جانتا ہوں تیرا دل بہت دکھی ہے، جذباتی ہوکر بولا کہ دھرم کے نام پر انسانیت کا قتل کیا گیا، ظالموں کو کوئی بتائے رب جان لینے کے بجائے جان بچانے والے کو بڑا کہتا ہے۔ وہ ایک بار پھر حبیب اللہ سے بغل گیر ہوا اور دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے واپسی کے لئے رخصت ہوا، دکھ اور غم سے بھری آنکھوں کے ساتھ ہاتھ ہلایا اور کہا حبیب اللہ،تیرا یہاں دانہ پانی ختم ہوگیا،یہاں سے چلے جاو۔