ایک مسجد میں ایک نٸے امام صاحب کا بڑی عید پر ایک مسجد میں تقرر ہوا، ان کا کھانا محلہ والوں کے ذمہ طے ہوا۔ محلہ والوں نے پہلے دن دال بھیجی ,دوسرے دن پھر بھیجی، پھر تیسرے اور چوتھے دن، اسی طرح پورے ہفتہ تک دال ہی بھیجتے رہے، پھر امام صاحب نے اگلے جمعہ کو جو بیان دے مارا اس میں ہم بھی بیٹھے تھے اور اس بیان کو آپ بھی سنیے گا الفاظ وانداز اور دل کی ایک آواز:
حضرات اج میری تقریر کا عنوان گوشت کی اہمیت، گوشت کے کمالات، گوشت کے فضائل اور گوشت کا ذائقہ ہے۔ گوشت یقینا دل کا دوست ہے۔ بہت سے لوگ احمقانہ گفتگو کرتے نظر اتے ہیں جب وہ یہ کہتے ہیں، کہ گوشت کے مقابلے دال بہتر ہے۔ ارے دال بہتر ہو ہی نہیں سکتی، دال کا اسلامی لٹریچر میں، اسلامی کتابوں میں کہیں پر کوئی وجود ہی نہیں۔ دال کا کوئی ذکر کہیں اسلام میں آیا ہی نہیں۔ دنیا چاند تک چلی گئی، سورج پر جانے کی تیاری کر رہی ہے اور دنیا کے جو لوگ رہ گئے وہ بھی چاند سورج پر پہنچنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اور اے
بے وقوف مسلمان تو دال کے چکروں میں پڑا ہے۔ اسی لئے تو آج کا مسلمان پلپلا مسلمان بن کر رہ گیا ہے۔
کہتا ہے ہم دال کھا کر آئے ہیں دال تو لیکوئیڈ ہے اور دنیا میں کوئی ایسا لیکوئیڈ نہیں جو کھایا جاتا ہو۔ لیکوئیڈ پیا جاتا ہے۔ کہنا تو اسے یہ چاہیے، کہ ہم دال پی کے آئے ہیں، ارے ہمارے اور تمہارے بزرگوں نے جو جنگیں لڑی ہیں گوشت کھا کر لڑیں ہیں۔ ہم کو تاریخ کا مطالعہ کر کے بتاؤ کہ کوئی ایک ایسا سورما ہو، جو دال پی کر گیا ہو، اور جنگ فتح کر کے آیا ہو۔؟ بیس بیس کلو کی تلواریں آج اگر تجھ کو دے دی جائے، تو اٹھا نہیں پائے گا۔ وجہ، وجہ صرف یہی مسور کی دال، مسور کی دال، مونگ کی دال، چنا کی دال، الھڑ کی دال۔ یہ دال کھا کھا کر تو نے اپنے بازو کی شجاعت اور بہادری کھولی۔
اگر تو اس کے باوجود دال کو بہتر سمجھتا ہے۔ تو میں تجھ کو دالوں کا واسطہ دے رہا ہوں، میرے بھائی تجھے الہڑ کی دال کا واسطہ، تجھے چنے کی دال کی قسم، کے مرنا بر حق ہے ہم بھی ایک دن جائیں گے دنیا سے اور تم بھی جاو گے۔ کل نفسا ذائقہ الموت۔ موت کا ذائقہ ہر نفس کو چکھنا ہے۔
اگر دال اتنی ہی پسند ہے۔ تو پھر وصیت کر دے کہ ہم کو دال پسند ہے۔ ہے ہمارے تیجے میں دال ہونا چاہیے، ہمارے دسواں بیسواں میں دال ہونی چاہیے، ہمارے چالیسویں میں دال پر ہی فاتحہ ہونی چاہیے، سہ ماہی چھ ماہی اور برسی کے فاتحہ پر دال ہونی چاہیے۔
لیکن دال پر نہیں میرے عزیز گوشت پر ہی فاتحہ ہوتا ہے۔ ارے مسلمان تجھے کیا ہو گیا ہے؟ قربان جاؤں تیری سمجھ پر، صدقے جاؤں تیری عقل پر، ارے تم مسلمان ہو کر مسلمان کا مطلب نہیں جانتا۔ مسلمان کا مطلب ہے مسلم ایمان، یعنی جس کا مکمل ایمان ہے۔ اور یقینا اس کی غذا بھی مکمل ہونی چاہیے۔ اور گوشت اپنے آپ میں مکمل غذا ہے۔ کیونکہ یہ اپنے ساتھ کسی دوسری غذا کا محتاج نہیں،گوشت کھانے والا شخص مولی نہیں چاہتا، چٹنی نہیں چاہتا، اچار نہیں چاہتا، پیاز نہیں چاہتا، دہی نہیں چاہتا، گھی نہیں چاہتا اور دال کھانے والے کو، اسے ساتھ دہی بھی چاہیے، رائتہ بھی چاہیے، اچار اور پیاز بھی چاہیے، لیموں بھی چاہیے چٹنی بھی چاہیے تب جا کے وہ اس دال کو مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور گوشت چونکہ اپنے آپ میں ایک مکمل غذا ہے اس لیے یہ دال کی طرح دیگر ایشاء کی محتاج نہیں۔
اور دالوں کا صاحب یہ حال ہے کے محرم کے مہینے میں ایک دال ڈالی گئی اس میں دوسری دال ڈالی گئی کہ اب یہ مکمل ہو جائے۔ پہلے والی دال نامکمل تھی اس کو مکمل کرنے کے لئے دوسری دال ڈالی گئی۔ دوسری دال کو مکمل کرنے کے لیے تیسری دال ڈالی گئی، تیسری دال کو مکمل کرنے کے لئے چھوٹی دال ڈالی گئی۔ تمام اناج ڈال دیئے گئے۔ تیرہ سے پندرہ دالیں ڈال دی گئیں۔ اس کے بعد گھی بھی ڈال دیا گیا۔ سوچا گیا کہ اب یہ ایک مکمل غذا بن گئی ہے۔ لیکن یہ ایک وہم ثابت ہوا۔ پھر اسے مکمل کرنے کے لیے لئے بکرے کا گوشت شامل کیا گیا۔ تب وہ کہیں جا کے بنا کھچڑا۔ اب اگر کوئی دال کا حمایتی، دال کی حمایت کرنے والا شخص بحث کرتا ہے، تو میرا چیلنج ہے وہ اسی طرح سے کھچڑا بنا کے دکھائے، بنا گوشت کے تمام دالیں ڈالے اور ڈالنے کے بعد وہی مصالحہ ڈال جو کھچڑے میں ڈالا جاتا ہے، اور وہی گھی ڈال اور اس کے بعد کسی شخص کے سامنے رکھ دے، اور رکھنے کے بعد کہہ دے یہ دیکھیں ہم نے یہ کھچڑا بنایا ہے۔ وہ شخص ایک چمچہ کھائے گا، اور چمچ رکھ کر ایک طمانچہ مارے گا، اور کہے گا بے وقوف یہ تو صرف پچھتر طرح کی دالیں ہیں اور تو اسے کھچڑا کہہ رہا ہے کیونکہ کچھڑا مکمل تبھی بنے گا جب اس میں ملے گا گوشت۔
میرے دوستو اور بزرگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے ہمارے آباؤاجداد گوشت کی دکانوں پر جا کر پٹھ کا گوشت، ران کا گوشت، چانپوں کا گوشت تلاش کرتے تھے۔ آج نہایت ہی شرم کی بات ہے۔ ہم لوگ اس کے فضائل بھول گئے۔ اور بہت سے لوگ ہیں جو گوشت کی شان میں گستاخیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ گوشت کی شان میں توہین اور بے ادبی کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ لوگوں کو کون سمجھائے کہ گوشت کا وقار کیا ہے۔؟ گوشت کی اہمیت کیا ہے؟ گوشت کا مرتبہ کیا ہے ؟ اور گوشت کے کمالات کیا ہیں؟ آج تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ میرے نادان مسلمانوں تمہارے آباؤ اجداد گوشت کی دکانوں پر جاتے تھے۔ وہ قیمہ تلاش کرتے تھے، وہ پائے تلاش کرتے تھے، کلیجی اور پھیپھڑے لایا کرتے تھے۔ آج تم جاتے ہو 220 روپے کلو دال خریدتے ہو۔ اور اڑہر کی دال، مسور کی دال، چنے کی دال، نرملا کی دال، مونگ کی دال وغیرہ وغیرہ ان کے چکر میں پڑ کر اپنی شجاعت کا جنازہ اپنے ہاتھ سے نکال رہے ہو۔ اپنی بہادری اور ہمت کی لاش اپنے ہاتھ سے بناتے نظر آ رہے ہو۔ آج تیرے اندر وہ جذبہ حُریت نہیں رہا اور پھر کیوں روتا ہے کہ ہمارے جان و مال کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ارے دال کھانے والے لوگو ارے تم کیا اپنی حفاظت کرو گے۔ ارے تم کو مکمل غذا گوشت مہیا کی گئی اور تم نے ٹھکرا دی۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو ہدایت ملنے سے پہلے انکی سوانح حیات پڑھو، تو پتا چلتا ہے، کہ وہ اپنے وقت کے ایک بہت بڑے پہلوان تھے۔ اور ایک وقت میں ایک بکرا بھون کر اکیلے کھا جایا کرتے تھے۔ تو کیا غذا تھی حضرت جنید بغدادی کی؟ پورا بکرا کا گوشت۔ آج تک کسی نے پڑھا کہ حضرت جنید بغدادی ڈیڑھ لیٹر یا دو لیٹر دال پی لیتے تھے۔کہیں دال کا ذکر نہیں۔ کسی صحابی کی زندگی میں دال کا ذکر نہیں، تابعین کی زندگی میں دال کا ذکر نہیں نہیں، حاتم طائی کے پاس کوئی مہمان آتا تو مہمان کو دال نہیں تھا کھلاتا اور تو اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر جو دنیا میں تشریف لائے ان کی زندگی میں دال کر ذکر نہیں۔ قرآن میں دال کا کوئی ذکرنہیں، حدیثوں میں دال کا کوئی ذکر نہیں، صحابہ کی روایات میں دال کا کوئی ذکر نہیں۔
پھر یہ دال کا فتور اے مسلمان تیرے ذہن میں کہاں سے گھس گیا۔؟ ارے تو مسلم ایمان والا ہے۔ تو مکمل ایمان والا ہے۔ اس لیے تجھے میں واسطہ دے رہا ہوں، تمہارے بزرگوں کا، کہ اپنی مکمل غذا تلاش کر لو اور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیا تمہیں کسی ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ مسور کی ایک کلو دال کھاؤ؟ ارے تم کہتے ہو کہ گوشت مہنگا پڑ رہا ہے، تو چھ سو روپے کلو ہزار روپے کلو والا گوشت نہ کھاؤ۔ ایک پاؤ گوشت لو اور اس کا قیمہ کرا کر اس میں دو آلو ڈال لو۔ خدا کی قسم لاجواب چیزیں بنے گی۔ کیونکہ یہ گوشت ہے گوشت۔ گوشت کے مقابلے میں کوئی کھانا، کوئی جنس اس کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ کیونکہ نا جانے کتنے کھانے آئے اور چلے گئے، پنیر بھی آیا گوشت کا مقابلہ کرنے کے لیے، لازمہ بھی آیا گوشت کا مقابلہ کرنے کے لیے،طرح طرح کی ڈشیں ائیں، طرح طرح کے کھانے لوگوں نے بنائے کہ گوشت کا مقابلہ کر لیں گے۔ لیکن وقتی طور پر انھوں نے اپنا نام بنایا۔ لیکن پھر دسترخوان سے ایسے غائب ہوگئے، جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوگئے۔ آج ان کھانوں کا اس دنیا میں نام لینے والا کوئی نہیں، آج ان کی تعریف کرنے والا اس دنیا میں کوئی نہیں۔ اور تو ان دالوں کو لے کر آیا ہے، اور کہتا ہے کہ ملکہ مسور بنائی ہے۔ اے میرے مسلمان کوئی بھی دال ملکہ ہو ہی نہیں سکتی، صرف اور صرف یہ گوشت ہے جو بادشاہ ہے تمام دسترخوانوں کا، روح دسترخوان ہے اور شہنشاہ دسترخوان ہے۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے، اللہ تبارک و تعالی ہمیں اور آپ کو گوشت کا شوقین بنائے۔ اور اس کے مرتبے سے ہم کو اور آپ کو واقف کرائے۔
واہ کیا مرتبہ گوشت ہے اعلی تیرا
غوث اعظم کے کھانے میں بھی ہے نوالہ تیرا۔