امی ! میں نے آپ کا ایک خط کھول کر پڑا، جب میں کچھ عرصہ کے لئے شہر سے باہر ملازمت کے سلسلہ میں گیا، وہاں مجھے آپ کی یاد آتی، کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا،کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا میں اکیلا بیٹھ کر ان لمحات کو فلم کی صورت دیکھوں گا۔ آج احساس ہوگیا۔ یہ انسان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے، اردگرد دوست، ساتھی اور ملنے والوں کی کمی نہیں ہوتی لیکن تنہائی کا جبر جس انداز سے برداشت کرنا پڑتا ہے وہ بعض اوقات ناقابل بیان صورت اختیار کر جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
امی! آپ جانتی ہیں جب میں چھوٹا تھا اکثر کھیلتے کھیلتے بھاگتا آتا اور پیار سے آپ کے پیٹ پر تھپکی دیتا اور پھر اپنے کھیل میں مصروف ہو جاتا تھا، یہ وہ مامتا کی کشش تھی جس کو آج شدت سے محسوس کرتا ہوں، گھر میں آپ کی عدم موجودگی سے بعض اوقات خوفزدہ ہوجاتا اور اپنے اس ڈر کو بیان بھی نہیں کر پاتا تھا۔
بچپن میں ایک بار شدید بیمار ہوگیا آپ ساری رات میرے سرہانے جاگتی رہیں، مجھے یہی احساس ہوتا کہ میری ماں کا ہاتھ میرے ماتھے پر ہے اور یہ لمس ہی زندگی کا احساس بھی دلاتا۔ پیار سے پکارنے کے لیے مختلف القابات کا استعمال، اتنا دل فریب لگتا، آج بھی وہ آوازیں کانوں میں میٹھی سرگوشیاں کرتی ہیں، نانی اماں الگ سے کوئی نام پکار دیتیں، عمر کے اس دور میں یہ سب انجانی سے تقویت پہنچانے کا باعث بن رہا ہے۔
ہم بھائیوں کی پرورش میں کوئی کمی نہ رہ جائے، اس کے لیے وہ تمام اسباب اور وسائل پیدا کئے، ہماری ضروریات کو اولین ترجیح دی، خواہشات کو کبھی نظرانداز نہ کیا، حتیٰ کہ کئی ضدیں بھی پوری کیں، مجھے یاد ہے کہ ایک بار بیرون ملک جانے کا جنون سوار تھا اور وہ بھی شائد وقتی تھا آپ نے پہلے سختی سے انکار کیا جس پر میں بہت رنجیدہ ہوگیا، اس منع کرنے کی وجہ بھی بعد میں معلوم ہوئی، یعنی اپنے سے دور نہ کرنے کی خواہش۔۔۔ میں اپنا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوگیا آپ نے میرے جانے کا انتظام کردیا مگر اسے آج تک میں قسمت نہیں بلکہ آپ کی ممتا کی کہوں گا، میری روانگی وہیں کی وہیں ٹھہر گئی۔
میں وہ لمحے کبھی نہیں بھول پاتا جب بہت چھوٹا تھا اور دوران سفر ابا کے سکوٹر پر آپ مجھے اپنی گود میں بازو کے حصار میں لئے ہوتیں۔ جب بھی میں تھوڑا سا نیچے کو سرکتا آپ کی گرفت نہ صرف اور مضبوط ہوجاتی بلکہ مجھے اوپر کھینچتی تھیں، اس سے ایک احساس ہمیشہ رہتا کہ “مجھے کچھ نہیں ہوگا”۔
“مجھے کچھ نہیں ہوگا”یہ سوچ اور احساس اُس وقت کمزور پڑ گئے بلکہ شائد وقتی طور پر یکدم زمین بوس ہوگئے، جب امی آپ دنیاوی اور جسمانی طور پر ہمیں چھوڑ گئیں، یہ کہنا بھی عجیب لگتا ہے کہ چھوڑ گئیں، ماں ایسا کبھی نہیں کرسکتی، اس کے لئے کچھ اور الفاظ ہونے چاہیئں۔
یاد کرنے کے لئے دعا کا نیا تعلق بنایا، لیکن کمی شدت سے محسوس ہوتی رہی، زندہ رہنے کے لیے بھاگ دوڑ اور بیوی بچوں کے مسائل جنہیں کسی طور پر نظرانداز نہیں کرنا چاہئے اس میں مصروف رہنے سے وقتی طور پر انسان کی توجہ بٹ جاتی ہے، لیکن ماں سے دور نہیں ہوا جاسکتا۔
کئی سال گزر جائیں پھر یہی احساس رہتا ہے “مجھے کچھ نہیں ہوگا” کیونکہ ماں ساتھ ہے، ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ دکھ، تکلیف اور درد میں ماں یاد آجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ان زخموں پر مرہم رکھتی ہے، دکھوں کا مداوا کرتی، سُکھ کی راہیں تلاش کرتی ہے۔
امی ! آپ کی رخصت کے بعد ایک بار پھر خوفزدہ رہنے لگا مگر کسی کو بتا نہیں پاتا تھا، دل نے ایک دن بڑا جھنجھوڑا اور رات ہسپتال رہنے کے بعد جب گھر آیا تو بڑے بھائی کے استفسار پر بتادیا کہ آپ یاد آتی ہیں۔
ایک دن وہ بھائی بھی خاموشی سے چھوڑ گیا، اتنی محبت تھی اُس کے ساتھ کہ بیان نہیں کرسکتا، وہ بھی زندگی میں ہم سب سے خصوصاً امی آپ سے دور رہتا تھا، آپ کے دنیا چھوڑنے کے وقت بھی ملک میں نہیں تھا۔ اُسے بھی یہی غم تھا۔ وہ اس بات کا احساس کر چکاتھا کہ ماں سے دوری کتنی بڑی سزا دیتی ہے،”شائد یہی سزا اب مجھے مل رہی ہے”۔
امی! آپ ہی کہتی تھیں زندگی دوسروں کے ساتھ مل بانٹنے اور احساس کرنے کا نام ہے۔ مشکل میں مدد، پریشانی میں ساتھ اور خیالات کا تبادلہ ہی تعلقات،رشتے اور رابطے مزید مضبوط بناتے ہیں، یہ باتیں بھی آہستہ آہستہ سمجھ آئیں اور حقیقت جاننے کی جستجو کریں تو وہ اپنا آپ بیان کرنے لگتی ہے، یہ اگر اپنے اندر پیچیدگی لئے ہے تو ساتھ ہی ساتھ اُس کی سادگی بھی کسی طور چھپی نہیں ہے۔
امی ! میں نے زندگی میں بے شمار غلطیاں کیں، مگر کئی بار اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، بچپن میں ایک مرتبہ کسی کو گالی دینے پرآپ نے میری سرزنش کی تھی، اگرچہ میں نے اس پر کافی حد تک قابو پالیا تھا لیکن بڑے ہوکر کبھی کبھار منہ سے ایسے غلط الفاظ نکل جاتے، اب ایک دلچسپ اور عجیب عادت پڑگئی ہے جب بھی کوئی غلطی ہو یا پھر کسی دوسرے پر غصہ آجائے تو بے ساختہ میری زبان پر مختلف مہمل الفاظ یا کوئی ایسا نام آجاتا ہے جسے حماقت اور بے وقوفی کی علامت قرار دیتا رہا ہوں۔
ایک دن میرا بیٹا پوچھنے لگا کہ آپ جو بولتے ہیں،اس کا کیا مطلب ہے، میں نے اُسے بتایا کہ دراصل گالی بکنے سے خود کو بچاتا ہوں اور بظاہر اپنے آپ کو کنٹرول کرکے کچھ اور بول جاتا ہوں۔ جوکہ درست نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے آپ کی نصیحت یاد آجاتی ہے کہ کسی کے لئے زبان پر غلط الفاظ نہ لاؤ۔
امی ! آپ کی دعائیں ہمیشہ شامل حال رہی ہیں اور میرا پختہ یقین ہے انہی کی بدولت میری پریشانیاں بھی دور ہوجاتی ہیں، کئی بار میں اتنا زیادہ ذہنی دباؤ کاشکار ہوا کہ ایسا محسوس ہوا کہ کوئی چارہ نہیں دکھائی دیتا مگر پھر ایسا ہوا میں اس مشکل سے نکل گیا۔
میں پورے اعتماد سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ ابھی تک میرے ساتھ ہیں اور مجھے دعائیں دیتی رہتی ہیں۔ معلوم نہیں میں نے اب تک جتنی بار آپ کے لئے دعائیں کیں انہیں کس حد تک قبولیت ملی، لیکن یہ بھی میرے یقین کا حصہ ہے کہ آپ کے لئے میری دعائیں دراصل مجھے اپنی تکالیف،دکھ اور درد سے نکالنے میں معاون ہوتی ہیں۔
آج بیس برس بیت گئے، آپ کی یاد اگر زندگی کے جھمیلوں میں کبھی ذہن کے پچھلے خانوں میں گئی تو ہر تلخی، سردو گرم اور تکلیف نے اُسے پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ نمایاں کیا اور پھر جیسے وہ رگوں میں دوڑتی دماغ کے ہر کونے پر قابض ہوجاتی ہے۔
قدرت بہت بڑی ساتھی کے طور پر انسان کو سہارا دیتی ہے ان یادوں کی اٹھتی شدید لہروں کو بڑی خوبصورتی سے نہ صرف قابو کرتی ہے بلکہ اُس کا بہاؤ بھی معمول پر لے آتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر شاید زندگی کی شاہراہ پرسفر بہت مشکل ہوجائے۔
کاش !میں اس صبح ہسپتال سے بڑے بھائی کے اصرار پر واپس گھر نہ آتا، جب بستر مرگ پر تھیں، شائد آپ کی آنکھوں سے کوئی بات کرلیتا، کوئی پیغام کوئی نصیحت میرے لئے ہوتی، اس روز قدرت نے ایک لمحے کو دکھا دیا کہ جان کیسے نکلتی ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے محسوس کیا ہے، پورے جسم سے ٹانگوں کے راستے ایک جھٹکے میں سب کچھ باہر گیا میں زمین پر گرنے لگا فوری کسی نے جیسے تھام لیا اور اُس کے بعد ایک نیم جان جسم کے ساتھ دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی۔
یہ سب شاید سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ہوگیا ،میرا گمان ہے کہ یہ عمل جو کچھ بھی تھا، وہ جاتے جاتے آپ کی میری ملاقات تھی، مجھے اپنی آغوش میں لینا یاایک پیار کی تھپکی، محبت بھرا بوسہ تھا۔
یہ ایک احساس تھا اسے کچھ بھی نام دے سکتے ہیں، لیکن میرے لئے بہت کچھ تھا، میں اس سب سے ڈرا نہیں بلکہ مجھے ایک تقویت ملی، زندگی اور موت کے نئے معنی سمجھ آئے، جسم اور روح کا تعلق ٹوٹنا کیا ہوتا ہے، شائد اُسے جاننے کا ایک عملی اظہار تھا۔ جان گیا، اصل کیا ہے، روح کیا ہے، اور قدرت کسے کہتے ہیں؟
انسان کا سب سے زیادہ مضبوط رشتہ ماں کے ساتھ ہوتا ہے، اس آفاقی سچائی کو جان لینے کے بعد میری بدقسمتی یہ تھی کہ آپ کے لئے زیادہ نہ کرسکا۔
فقط ایک یاد ہے جو ہمیشہ ساتھ رہتی ہے، جب کبھی اس میں شدت آتی ہے تو دل سے ایک درد کی لہر چیرتی ہوئی دماغ تک جاتی ہے اور پھر لمحوں میں سب کچھ اپنی جگہ جامد ہو جاتا ہے، نگاہ دھندلا جاتی ہے الفاظ ساکن ہوجاتے ہیں، ایسے میں ہرطرف اندھیرا چھانے لگتا ہے، کچھ دیر کےلئے دھڑکنیں تھم جاتی ہیں، مگر جونہی اردگرد سے اپنا رابطہ بحال کرنا چاہتا ہوں، تو یہی دھڑکنیں اتنی تیز ہو جاتی ہیں کہ قابو کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ایک چُپ سی لگ جاتی ہے کسی کے ساتھ بات کرنے کو دل نہیں کرتا، گھبراہٹ کا ایسا گھیرا تنگ ہوجاتا ہے کہ بس کوئی نہ پوچھے، اپنے آپ کو سمیٹنا کتنا پیچیدگی اختیار کرجاتا ہے یہ اب معلوم ہوا، سماجی تعلقات، رابطے، دوستیاں ان سب کو نبھانا جیسے کارِ دشوار ہو، زندگی گزارنے کےلئے ناگزیر کام تو ہرصورت کرنا ہوتے ہیں، مگر ایسی کیفیت بھی طاری ہوجاتی ہے کہ انہیں انجام دینا بھی جیسے بوجھ ہو۔
امی! اب عمر کے اُس حصے میں آگیا ہوں جہاں جسم اور روح کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے،کچھ باتیں آشکار ہونے لگتی ہیں، کچھ حقائق سامنے آجاتے ہیں، تجربہ عمل کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے، زندگی کا مفہوم کسی حد تک سمجھ آنے لگاہے۔ اس کی معنویت کا اظہار بلاشبہ ہر طرف دکھائی دیتا ہے،لیکن بعض اوقات ہمیں ادراک بہت دیر سے ہوتاہے۔
زندگی کے سفر میں وقت کبھی آہستہ اور کبھی برق رفتاری سے گزرتا ہے کہ گھنٹے، دن ہفتے اور مہینوں کاپتہ ہی نہیں چلتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی جھولے پر بلندی پر جاکر نیچے آتے اور گولائی میں چکر لیتے سب کچھ گھوم رہاہے۔ اس دوران یہ سوال بھی تیزی سے باربارسامنے آتاہے میں نے کیا کھویا کیا پایا؟ اگر کھویا تو اُس میں کیا نقصان ہوا اس سے کیا تجربہ حاصل ہوا، اور اگر میں نے کوئی کامیابی حاصل کی تو اس کے میرے اردگرد کے لوگوں اور ماحول پر کیا مثبت اثرات پڑے۔
امی! میری دُعا ہے کہ میں رب کے حضور جب پیش ہوں تو آپ کے لئے مغفرت اور بخشش کی دعائیں میرے لب پر ہوں، اور وہ ذات کریم ہم ماں بیٹے کو ایک بار پھر ملا دے، آمین۔