Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی ترقیاتی کونسل کے دوسرے اجلاس میں قومی ترقیاتی ایجنڈہ خصوصاً بلوچستان کے پس ماندہ اور دوردراز علاقوں میں آمدو رفت، آبی وسائل کے بہتر استعمال، زراعت، توانائی، بارڈرکی صورتحال مارکیٹوں کے قیام اور گوادر پورٹ سے مکمل طور پر استفادہ کرنے کے لئے مختلف منصوبے زیر غور آئے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بلوچستان میں مکمل امن و امان کو یقینی بنانا اور سماجی و اقتصادی ترقی حکومت کی اولین ترجیح قرار دیاہے، ان کا مزید کہناتھاکہ ہمیں بلوچستان کی عوام کےاحساسِ محرومی کامکمل ادراک ہے،گوادر کی تعمیر و ترقی کا منصوبہ پورے علاقے کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے ، بلوچستان میں روڈ نیٹ ورک، عوام اور خصوصاً نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور انفراسٹرکچر کے قیام پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایات کیں ۔
بلوچستان کے پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے حوالے سے وزیرِ اعظم نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں مکمل امن و امان کو یقینی بنانا اور سماجی و اقتصادی ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ماضی میں بلوچستان کو مالی وسائل تو فراہم کیے گئے لیکن عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ان کے مناسب استعمال کو یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا جس سے نہ صرف صوبے کا بڑا حصہ پس ماندگی کا شکار رہا بلکہ عوام میں احساس محرومی نے جنم لیا۔ ہمیں بلوچستان کے عوام کے احساسِ محرومی کا مکمل ادراک ہے جس کو دور کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ گوادر کی تعمیر و ترقی کا منصوبہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے علاقے کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے ،گوادر اور سی پیک کے منصوبوں سے مکمل طور پر مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ بلوچستان میں روڈ نیٹ ورک، عوام اور خصوصاً نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور انفراسٹرکچر کے قیام پر خصوصی توجہ دی جائے۔
اس ضمن میں وزیرِ اعظم نے وزیر منصوبہ بندی، مشیر خزانہ اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان پر مشتمل کمیٹی کے قیام کی ہدایت کی جو کمیونیکیشن ، زراعت، توانائی اور دیگر مجوزہ منصوبوں کا جائزہ لیکر ترجیحات مرتب کرکے وزیرِ اعظم کو پیش کریں گے۔
اجلاس میں بلوچستان سے معدنیات کی تلاش کیلئے کمپنی کے قیام کی منظوری بھی دی گئی ۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باعث بلوچستان کوجس قدر ترقی کی بلندی پر ہونا چاہئے تھااسی قدر وہاں پر پستی پسماندگی دکھائی دے رہی ہے کہنے کوتو ہر دور میں اقتدار میں موجود سارے حکمران یہ کہتے ہیں کہ ان کو بلوچستان کی محروموں کا ادراک ہے لیکن بلوچستان کو ان محرومیوں سے نکالنے کیلئے عملی طور پر کوئی خاص کوششیں واقدامات ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔جس کی وجہ سے وہاں پر نارضگی میں اس قدر اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہاں کے کتنے ہی ناراض نوجوان پہاڑوں کا رخ کرلیتے ہیں جو کہ قانون کی حکمرانی کیلئے بہت بڑا چیلنج بن جاتے ہیں۔ جن کو قومی دھارے میں لانے کی بجائے ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اس سے معاملات اور بھی بگڑ جاتے ہیں اور بلوچ عوام کی ہمدردیاں ناراض کارکنان کے ساتھ بڑھ جاتی ہیں۔
روزنامہ عبرت نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ سچی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو جس قدر آسان اور سہل سمجھا جا رہا ہے اسی قدر پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ہے۔کیونکہ وہاں کی محرومیاں صرف وسائل کی تقسیم ، تعلیم کا فقدان ، بیروزگاری یا ترقیاتی کاموں کے نہ ہونے تک محدود نہیں ہیں بلکہ اصل مسئلہ بلوچوں کے اعتماد کو پہنچنے والی ٹھیس کا ہے۔جب تک ان کا اعتماد بحال نہیںہوگا تب تک وہاں پر امن امان کی صورتحال کا مکمل طور پر بہتر ہونا نا ممکن ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان اس پورے خطے کیلئے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کی اہمیت سی پیک کے مکمل ہونے کے بعد کئی گنا بڑھ جائے گی جس کیلئے امن امان کی صورتحال کا بہتر ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ تجاری سرگرمیاں تب ہی بحال ہو سکتی ہیں جب بلوچستان میں مکمل امن قائم ہو گا ۔اس بات کی ضرورت میں اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ چین ایران کے چاہ بھار بندر گاہ میں دلچسپی لے رہا ہے جو کہ گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن بلوچستان میں بد امنی اور امن امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جس کیلئے بلوچستان میں ہر قیمت و صورت میں امن امان کی صورتحال کو یقینی بنانا انتھائی ضروری ہے اور وہ تب ہی ممکن ہے جب بلوچوں کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔
موجودہ حکومت اس سلسلے میں واقعی سنجیدگی سے کوششیں کرنا چاہتی ہے تو اس کی ہر زی شعور آدمی یقینی طور پر تائید وحمایت کرے گا ۔اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اس بار ماضی کی طرح صرف باتیں اور امیدیں نہیں ہونی چاہئیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ ہونا چاہئے ۔ اس سلسلے میں اگر بلوچستان سے وابسطہ تمام شراکت داروں کے ساتھ رابطہ کر کے ان کو اعتماد میںلینے کے بعد عملی اقدامات اٹھائے ہیں تو اس کے یقینی طور پر دور رس نتائج بر آمد ہوں گے ۔ دوسرا یہ کہ دنیا اس وقت تبدیلی کی طرف جا رہی ہے ہمیں اپنے روائتی طریقو ں کو تبدیل کرنا ہو گا دھونس دھاندگی ،ڈرانے اور دھمکانے والی روش کی بجائے دوستی والا رویا اختیار کرنا پڑے گا ۔ حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ صرف وہاں کی معدنیات سے وابستگی تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ وہاں کے عوام کے ساتھ بنیادی ضرورریات کی فراہمی کا کیاگیا وعدہ پورا کیا جائے اسی صورت میں ہم ترقی کے راستے پر چلتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔