• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

بیس برس ملازمت اور ریٹائرمنٹ | ڈاکٹر طارق کلیم

ہمارے نظام میں آج بھی ریاست اور شہری کے بجائے حاکم اور محکوم کا تصور رائج ہے

ڈاکٹر طارق کلیم by ڈاکٹر طارق کلیم
July 28, 2020
in محشر خیال
0
بیس برس ملازمت اور ریٹائرمنٹ | ڈاکٹر طارق کلیم
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

قومیں ملک اور ریاستیں ہمہ وقت ارتقا کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں. ثبات صرف تغیر کو ہی ہے. ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دنیا تبدیل ہوجاتی ہے. ہر تبدیلی نئے نظام اور بندوبست کا تقاضا کرتی ہے. اسی لیے قانون ساز اسمبلیاں بنائی جاتی ہیں اور اسی لیے اسلام نے اجتہاد کی راہ دکھلائی ہے.

وطن عزیز کا تمام سرکاری بندوبست نوآبادیاتی تناظر میں کیا گیا ہے. انگریزوں نے برصغیر پہ قبضہ کیا اور اپنے مطلب کی انتظامیہ کھڑی کی. یہ انتظامیہ ہندوستان کے لوگوں کو امن و سکون یا انصاف فراہم  کے لیے تخلیق نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کی علت غائی استعمار کو مضبوط کرکے اسے طوالت بخشنا تھا. اس انتظامیہ نے اپنی ذمہ داریاں بہ طریق احسن نبھائیں. چند سو آئی سی ایس کے سہارے انگریزوں نے اتنے بڑے ہندوستان کو مغلوب بنائے رکھا. انگریز تو چلے گئے مگر ان کا بنایا انتظامی ڈھانچا وہیں کا وہیں رہا جو آزاد لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے.

اس نظام میں آج بھی ریاست اور شہری کی بجائے حاکم اور محکوم کا تصور کار فرما ہے. حکومت آج کل اس نظام میں تبدیلی کے لیے کوشاں ہے. کئ کمیٹیاں اس پر کام کر رہی ہیں. بامعنی بحث تو اس وقت ہی ہوسکتی ہے جب کمیٹیوں کی سفارشات منظر عام پر آئیں گی فی الوقت تو ان افواہوں میں سے ایک پر گفتگو کر لیتے ہیں جو شاید حکومت خود پھیلاتی ہے. افواہ یہ گردش کررہی ہے کہ جو لوگ بیس سال سے ملازمت کر چکے ہیں  اور ان کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے انھیں جبری طور پر ملازمت سے فارغ کردیا جائے گا. اس طرح جو جگہ خالی ہو گی ان پر محنتی تعلیم یافتہ نوجوان بھرتی کیے جائیں گے. بہ ظاہر یہ بات بہت دلفریب ہے اور کوئی بھی اسے سن کر حکومت پر واری صدقے ہو سکتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ بہت خطرناک منصوبہ ہے .

Ad (2024-01-27 16:31:23)

سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ کون سا قاعدہ کلیہ ہے جس سے کارکردگی جانچی جائے. اساتذہ کی کارکردگی جانچنے کا طریقہ ہے کہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی جماعت کے کتنے بچے پاس ہوئے. امن و امان کی صورت حال سے پولیس کی کارکردگی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے. اسی طرح ڈاک خانے، ریلوے، بجلی، اور ٹیلی-فون کے محکموں کے بھی کچھ ملازمین کی کارکردگی ناپنے کے پیمانے ہو سکتے ہیں ہو سکتے ہیں. مگر ہر محکمے میں دفتری کام کرنے والے افسران اور چھوٹے ملازمین کی کارکردگی کو کیسے پرکھا جاسکتا ہے پرکھا جا سکتا ہے؟؟ اگر بدعنوانی کو بنیاد بنایا جائے تو اس کے لیے اینٹی کرپشن اور نیب جیسے محکمے موجود ہیں جن کی تحقیقات کی بنیاد پر ملازمین کی برطرفی ہو سکتی ہے. پھر آخر یہ قانون کس لیے؟

ہمارے خیال میں تو یہ قانون مستقبل میں ان ملازمین کے خلاف حربے کے طور پر استعمال ہوگا جو حکومت وقت کو ناپسند ہوں گے. جو افسر یا ملازم کسی حکومتی گماشتے سے اختلاف کرے گا وہ نااہل قرار دے کر فارغ کر دیا جائے گا. دوسری طرف وہ لوگ بھی مستقل خوف زدہ رہیں گے جو حکومت سے لڑ جھگڑ کر ملازمین کے لیے کچھ مراعات حاصل کرلیتے ہیں. ہماری مراد ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندوں سے ہے. ہمیں خطرہ ہے کہ یہ تلوار کسی نااہل پر نہیں چلے گی بلکہ اس کے کشتگان میں وہی لوگ آئیں گے جو کبھی کبھار حکومت کے سامنے سچ بات کرنے کی جسارت کرلیتے ہیں. سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارا پینل کوڈ تک سیاسی انتقام کے لیے بے دردی سے استعمال ہو رہا ہے، نیب اور اینٹی کرپشن جیسے ادارے سیاسی انتقام پر مستعد رہتے ہیں یا کم از کم ان پر یہ الزام ضرور عائد کیا جاتا ہے اور قرائن اس کی تائید بھی کرتے ہیں. پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ یہ قانون بہت دیانت داری اور نیک نیتی سے استعمال ہوگا؟

برائی بہت سمجھ دار ہے. یہ کبھی اپنے اصل نام سے نہیں آتی. حکومت کو یہ جرات تو نہیں ہے کہ وہ کہے کہ وہ ان لوگوں کو برطرف کرنا چاہ رہی ہے جو اسے پسند نہیں. سو اس نے کارکردگی کا نام لے لیا جس کے بارے میں پہلے عرض کیا ہے کہ اس کو جانچنے کا ہمارے ہاں کوئی طریقہ کار سرے سے موجود ہی نہیں. حکومت اگر واقعی سرکاری ملازمین کی کارکردگی میں اضافے کی خواہش مند ہے تو اسے چاہیے کہ نو آبادیاتی دور کے اس انتظامی ڈھانچے کو توڑ کر جدید نظام متعارف کروائے جس کی روح جمہوری ہو. ریاست کی حدود میں رہنے والوں کو رعایا کی بجائے شہری سمجھا جائے. عام شہریوں کو بلدیاتی اداروں کے ذریعے انتظامی معاملات میں شریک کیا جائے. یہ جو قوانین متعارف کروائے جارہے ہیں اس کے پیچھے بدنیتی نہ بھی ہو مگر کل کلاں کوئی بدنیت حکومت آکر اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہے. ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے. جب بھی کسی حکومت نے مخالفین کو لگام ڈالنے کے لیے قانون سازی کی ہے وہ خود اس کی گرفت میں ضرور آئی ہے. حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ یہ قانون کل کو ان کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے. جس طرح آج حکومت کہ رہی ہے کہ نیب کو ہم نے تھوڑا ہی بنایا ہے اسی طرح کل کوئی حکومت ناپسندیدہ افراد کو برطرف کرتے ہوئے اس قانون کے متعلق یہ جملہ کہ دیا کرے گی. پھر کہے دیتے ہیں کہ اگر معاملات کو درست ڈگر پر ڈالنا ہے تو خود مختار بلدیاتی ادارے بنا دیں. اس طرح سب تو نہیں مگر بہت کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے. جو کام حکومت کرنے جا رہی ہے وہ خطرناک نتائج دے سکتا ہے

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: ریٹائرمنٹ کا قانون
Previous Post

کراچی سے ایک خط | مشتاق خرادی

Next Post

بلوچستان کا مسئلہ: توقعات سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل | محمد الیاس سومرو

ڈاکٹر طارق کلیم

ڈاکٹر طارق کلیم

ڈاکٹر طارق کلیم ، پی ایچ ڈی اردو، بائیس فروری انیس سو سڑسٹھ کو جڑانوالہ ضلع لائلپور ( فیصل آباد) میں پیدائش. ابتدائی تعلیم معظم آباد ( سرگودھا). گورنمنٹ جامعہ قاسم العلوم سرگودھا، گورنمنٹ کالج سرگودھا، گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار سائنس لاہور، سے تعلیمی مدارج طے کیے، سائنس ٹیچر کی حیثیت سے سرگودھا کے دیہی گاؤں سے کیرئیر کا آغاز، بعد میں کالج اور یونیورسٹی میں تدریس. مشفق خواجہ کی کالم نگاری پر مقالہ لکھ کر ایم فل اور " اردو کی ظریفانہ شاعری میں مزاحمتی عناصر" پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی. آج کل ایم اے او کالج لاہور میں تدریسی فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔

Next Post
بلوچستان کا مسئلہ: توقعات سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل | محمد الیاس سومرو

بلوچستان کا مسئلہ: توقعات سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل | محمد الیاس سومرو

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions