اسلام علیکم! آپ واقف ہیں دو دن سے کراچی میں شدید بارش ہوئی ہے اللہ کا شکر ہے کہ یہ الگ الگ علاقوں میں ہوئی ہے ورنہ بڑی تباہی ہوتی اس وقت رات کے دو بجنے قریب ہیں اور میری بے چینی اور آج کے روڈ پر دیکھے ہوئے مناظر میری نظروں میں گھوم رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں چلا چلا کر اربابِ اختیار تک لوگوں کی بے بسی بے چارگی پہچاوں ان تمام لوگوں کی آواز “آوازہ” کے ذریعے ہر اس شخص تک پہنچا دوں جو کم از کم اب آئندہ آنے والی بارشوں میں عوام پر یہ عزاب نہ ٹوٹنے دیں۔
آج جب میں نے بارش کا زور دیکھ کر آفس سے گھر اپنی گاڑی میں نہ جانے کا فیصلہ کیا تو رکشہ روکتے وقت ایک صاحب نے جو مجھے پہچانتے تھے، اپنی موٹر سائیکل پر ساتھ چلنے کی پیشکش کی ان کے پاس پانچ کلو آٹے کا بیگ تھا جو انہوں نے پٹرول کی ٹنکی پر رکھا ہوا تھا روڈ پر آتے ہی اندازہ ہو گیا کہ ہماری رہائش جو وہاں سے دو کلو میٹر دور تھی، وہاں پہنچنا اتنا آسان نہیں تھا ۔ہر شخص کے چہرے پر پریشانی تھی بارش رک چکی تھی مگر ہوا میں نمی کا تناسب 90 فیصد ہونے کی وجہ سے لوگ پسینہ میں شرابور تھے. ہارن بج رہے تھے ایمبولینس کے سائرن کی آوازیں گونج رہی تھیں بہت سی گاڑیاں بند ہو چکی تھیں موٹر سائیکل سوار ادھر ادھر گھس کر راستہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے ہم بھی کبھی موٹر سائیکل اور کبھی پیدل اسکو گھسیٹتے ہوے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے جو صاحب میرے ساتھ تھے ان سے میں نے کہا کہ یہ آٹا کسی دکان پر رکھوا دیتے ہیں آپ کل لے لیجیے گا.
انہوں نے فرمایا کہ آٹا لے جانا ضروری ہے گھر پہ ختم ہو چکا ہے اسی سے روٹی بنے گی میں نے یہ سن کر پچھلی سیٹ پر آٹے کی بوری پر اپنی گرفت مظبوط کر لی مگر ایک موقع پر جب پانی کا زبردست ریلہ گزر رہا تھا تو آٹے کا تھیلا پانی میں گر چکا تھا ان کے چہرے کی اداسی مجھے بھولتی نہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ آج جو لوگ تکلیف اور پریشانی سے گزرے ہیں ان کے دل پر کیا گزری ہوگی جب آٹے کی ایک تھیلی کے نقصان پر اداسی نے چہرے پر ڈیرے ڈال دئیے دئیے ہیں تو جن کا بڑا نقصان ہوا ان کا کیا حال ہوگا جو گاڑیوں کو دھکا دے کر گھر تک لائے ہیں ان کی تھکن اتر گئ ہوگی اور جن کی زمہ داری تھی کہ شہر میں یہ سب کچھ نہ ہو وہ اس وقت ایسا کون سا بیان تیار کر رہے ہونگے کہ خبروں میں سب کچھ اچھا لگے کیا واقعی زمہ داران کو کچھ احساس ہوا ہوگا یا پھر وہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، اور ہمارے پاس اختیارات نہیں کے بیانات کے ساتھ ایک بار اگلے الیکشن کے لئے پر تول رہے ہونگے اور ہم عوام ایک بار پھر ان کی ڈگڈگی پر ناچ رہے ہونگے۔