Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سندھ حکومت نے دسویں مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر اعتراض کرد یا ہے۔ اخبارات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کو مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر خدشات پر مبنی خط لکھا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہمیں قومی مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر اعتراضات ہیں البتہ پچھلے نوٹیفکیشن کو واپس لینے پر وفاق کے ممنون احسان ہیں ۔ سید مراد علی شاہ کے مطابق نئے نوٹیفکیشن کے ٹرم آف ریفرنس کے تین نکات آئین سے متصادم ہیں۔ آئین میں واضح ہے کہ وفاق قومی سطح کے منصوبوں کیلئے صوبوں کے حصوں میں سے کسی صورت بھی کٹوتی نہیں کر سکتا ۔ آئین کے آرٹیکل 78 میں وفاق اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم واضح ہے ۔ اس خط کے ذریعے وفاق سے دسویں مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سندھ میں ایک بار پھر اغوا برائے تاوان کا طوفان | محمد الیاس سومرو
اسی سلسلے میں سند ھ کے بڑے اخبار نے اپنے اداریہ میں توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے کہ زندگی کے کسی بھی مسئلے میں وقت کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔اگروقت کے مطابق درست فیصلے نہ کئے جائیں تو اس کے مستقبل میں بہت بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس وقت ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں پہلے سے زیادہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہو گی ۔اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں کواپنی پرانی ناراضگیوں کو بھلا کر نئے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔کیونکہ دنیا معاشی اور معاشرتی طور پر تبدیلیوں کی طرف جا رہی ہے۔ نئے نئے امراض پیدا ہو رہے ہیں ان سے نبٹنے کیلئے یکجہتی اور اتحاد کا فقدان ہو تو وہ بیماریاں سماج کے اندر گھر کر جاتی ہیں جن سے جان چھڑانا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو جا تا ہے۔
سندھی اخبار روزنامہ عبرت نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کو نہ تو وقت کی نزاکت و حساسیت کا احساس ہے اور نہ ہی مستقبل کے خطرات کے انجام کی کوئی فکر ، نتائج کچھ بھی برآمد ہوں وہ ہر صورت میں اپنی خواہشات کو تر رکھنا چاہتے ہیں۔خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے دیئے گئے حقوق پر ان کی نگاہیں ہیں اور وہ ہر صورت میں کوشش کرکے صوبوں کو اس حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے حصے میں کمی کرنے کیلئے بھی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے دسویں مالیاتی کمیشن کا پرانا نوٹیفکیشن واپس لے کر ایک بار پھر متنازع کمیشن بنا دیا گیا ہے۔ نئے کمیشن میں وفاق کے اخراجات صوبوں سے ادا کرنے کی بات کی گئی ہے اور صوبوں کے اندر اور باہر وفاقی اور قومی منصوبوں پر آنے والے اخراجات میں حصہ ڈالنے کیلئے صوبوں کو تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ نئے بنائے گئے مالیاتی کمیشن کے ذریعے وفاق نے جتنے بھی اخراجات کرنے ہیں یا کئے ہیں ان میں صوبوں کو شراکت داری کرنے پر زور دیا جائے گا۔
جمہوریت کے مفہوم پر نظر ڈالی جائے تو اس سے مراد ایک ایسی حکومت ہوتا ہے جس میں عوامی آراءکا احترام ، مشترکہ مفادات کا حصول اورعوامی امنگوں کی روشنی میں اختیارات کیلئے قانون سازی کرنا ہوتا ہے اس کے برعکس ہمارے ہاں کسی بھی مسئلے میں عوام کی مرضی و منشاءکو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چھوٹے صوبے بڑے عرصے سے شکایات کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ مالی وسائل کی تقسیم میں انصاف نہیں کیا جا رہا ۔وفاقی حکومت کی طرف سے شکایات پر توجہ دے کر ازالہ کرنا در کناربلکہ صوبوں کو جو تھوڑے بہت اختیارات حاصل ہیں ان کو کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اسی سلسلے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق نئے تیار کردہ مسودہ کے مقاصد میں سے تین نقاط غیر قانونی ہیں۔ اگروفاق صوبائی حدود کے اندر منصوبوں پر کام کرنا چاہتے ہیں تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ان منصوبوں پر کام کرنا صوبوں کا دائرہ اختیار ہے ان میں وفاقی مداخلت غیر ضروری ہے۔ لیکن نہیں معلوم ایسی کونسی بات ہے کہ حکمران طبقہ نے ہرصورت صوبوں کو نقصان دینے کی ٹھان رکھی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا طرز عمل درست نہیں ہے ۔ بہتر ہو گا کہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے صوبوں کو اعتماد میں لیا جا تا ،ان کی شکایات و خدشات کو دور کیا جاتا، پھر اس طرح کے معاملے میں آگے بڑھنا چاہئے تھا لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں پر کوئی بھی صوبوں کا واویلا سننا پسند نہیں کرتا۔
جیسا کہ پہلی سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہمیں اس وقت مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ سرحدی حدود پر جاری تنازعے ،مالی اور معاشرتی مسائل کے ہوتے ہوئے اگر ہم اندرونی اختلافات کواچھالنا شروع کر دیں گے تو مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جائیں گے ۔ اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ اس طرح کے متنازعہ مسائل کوطول دینے کی بجائے آپس میںاتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے کوششیں کی جائیں تاکہ ہم نئے دور کے مسائل کا مل کر مقابلہ کر سکیں اسی میں سب کیلئے لئے خیر اور بھلائی پنہاں ہے۔
سندھ حکومت نے دسویں مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر اعتراض کرد یا ہے۔ اخبارات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کو مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر خدشات پر مبنی خط لکھا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہمیں قومی مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر اعتراضات ہیں البتہ پچھلے نوٹیفکیشن کو واپس لینے پر وفاق کے ممنون احسان ہیں ۔ سید مراد علی شاہ کے مطابق نئے نوٹیفکیشن کے ٹرم آف ریفرنس کے تین نکات آئین سے متصادم ہیں۔ آئین میں واضح ہے کہ وفاق قومی سطح کے منصوبوں کیلئے صوبوں کے حصوں میں سے کسی صورت بھی کٹوتی نہیں کر سکتا ۔ آئین کے آرٹیکل 78 میں وفاق اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم واضح ہے ۔ اس خط کے ذریعے وفاق سے دسویں مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سندھ میں ایک بار پھر اغوا برائے تاوان کا طوفان | محمد الیاس سومرو
اسی سلسلے میں سند ھ کے بڑے اخبار نے اپنے اداریہ میں توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے کہ زندگی کے کسی بھی مسئلے میں وقت کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔اگروقت کے مطابق درست فیصلے نہ کئے جائیں تو اس کے مستقبل میں بہت بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس وقت ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں پہلے سے زیادہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہو گی ۔اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں کواپنی پرانی ناراضگیوں کو بھلا کر نئے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔کیونکہ دنیا معاشی اور معاشرتی طور پر تبدیلیوں کی طرف جا رہی ہے۔ نئے نئے امراض پیدا ہو رہے ہیں ان سے نبٹنے کیلئے یکجہتی اور اتحاد کا فقدان ہو تو وہ بیماریاں سماج کے اندر گھر کر جاتی ہیں جن سے جان چھڑانا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو جا تا ہے۔
سندھی اخبار روزنامہ عبرت نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کو نہ تو وقت کی نزاکت و حساسیت کا احساس ہے اور نہ ہی مستقبل کے خطرات کے انجام کی کوئی فکر ، نتائج کچھ بھی برآمد ہوں وہ ہر صورت میں اپنی خواہشات کو تر رکھنا چاہتے ہیں۔خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے دیئے گئے حقوق پر ان کی نگاہیں ہیں اور وہ ہر صورت میں کوشش کرکے صوبوں کو اس حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے حصے میں کمی کرنے کیلئے بھی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے دسویں مالیاتی کمیشن کا پرانا نوٹیفکیشن واپس لے کر ایک بار پھر متنازع کمیشن بنا دیا گیا ہے۔ نئے کمیشن میں وفاق کے اخراجات صوبوں سے ادا کرنے کی بات کی گئی ہے اور صوبوں کے اندر اور باہر وفاقی اور قومی منصوبوں پر آنے والے اخراجات میں حصہ ڈالنے کیلئے صوبوں کو تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ نئے بنائے گئے مالیاتی کمیشن کے ذریعے وفاق نے جتنے بھی اخراجات کرنے ہیں یا کئے ہیں ان میں صوبوں کو شراکت داری کرنے پر زور دیا جائے گا۔
جمہوریت کے مفہوم پر نظر ڈالی جائے تو اس سے مراد ایک ایسی حکومت ہوتا ہے جس میں عوامی آراءکا احترام ، مشترکہ مفادات کا حصول اورعوامی امنگوں کی روشنی میں اختیارات کیلئے قانون سازی کرنا ہوتا ہے اس کے برعکس ہمارے ہاں کسی بھی مسئلے میں عوام کی مرضی و منشاءکو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چھوٹے صوبے بڑے عرصے سے شکایات کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ مالی وسائل کی تقسیم میں انصاف نہیں کیا جا رہا ۔وفاقی حکومت کی طرف سے شکایات پر توجہ دے کر ازالہ کرنا در کناربلکہ صوبوں کو جو تھوڑے بہت اختیارات حاصل ہیں ان کو کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اسی سلسلے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق نئے تیار کردہ مسودہ کے مقاصد میں سے تین نقاط غیر قانونی ہیں۔ اگروفاق صوبائی حدود کے اندر منصوبوں پر کام کرنا چاہتے ہیں تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ان منصوبوں پر کام کرنا صوبوں کا دائرہ اختیار ہے ان میں وفاقی مداخلت غیر ضروری ہے۔ لیکن نہیں معلوم ایسی کونسی بات ہے کہ حکمران طبقہ نے ہرصورت صوبوں کو نقصان دینے کی ٹھان رکھی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا طرز عمل درست نہیں ہے ۔ بہتر ہو گا کہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے صوبوں کو اعتماد میں لیا جا تا ،ان کی شکایات و خدشات کو دور کیا جاتا، پھر اس طرح کے معاملے میں آگے بڑھنا چاہئے تھا لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں پر کوئی بھی صوبوں کا واویلا سننا پسند نہیں کرتا۔
جیسا کہ پہلی سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہمیں اس وقت مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ سرحدی حدود پر جاری تنازعے ،مالی اور معاشرتی مسائل کے ہوتے ہوئے اگر ہم اندرونی اختلافات کواچھالنا شروع کر دیں گے تو مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جائیں گے ۔ اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ اس طرح کے متنازعہ مسائل کوطول دینے کی بجائے آپس میںاتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے کوششیں کی جائیں تاکہ ہم نئے دور کے مسائل کا مل کر مقابلہ کر سکیں اسی میں سب کیلئے لئے خیر اور بھلائی پنہاں ہے۔
سندھ حکومت نے دسویں مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر اعتراض کرد یا ہے۔ اخبارات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کو مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر خدشات پر مبنی خط لکھا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہمیں قومی مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر اعتراضات ہیں البتہ پچھلے نوٹیفکیشن کو واپس لینے پر وفاق کے ممنون احسان ہیں ۔ سید مراد علی شاہ کے مطابق نئے نوٹیفکیشن کے ٹرم آف ریفرنس کے تین نکات آئین سے متصادم ہیں۔ آئین میں واضح ہے کہ وفاق قومی سطح کے منصوبوں کیلئے صوبوں کے حصوں میں سے کسی صورت بھی کٹوتی نہیں کر سکتا ۔ آئین کے آرٹیکل 78 میں وفاق اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم واضح ہے ۔ اس خط کے ذریعے وفاق سے دسویں مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سندھ میں ایک بار پھر اغوا برائے تاوان کا طوفان | محمد الیاس سومرو
اسی سلسلے میں سند ھ کے بڑے اخبار نے اپنے اداریہ میں توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے کہ زندگی کے کسی بھی مسئلے میں وقت کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔اگروقت کے مطابق درست فیصلے نہ کئے جائیں تو اس کے مستقبل میں بہت بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس وقت ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں پہلے سے زیادہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہو گی ۔اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں کواپنی پرانی ناراضگیوں کو بھلا کر نئے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔کیونکہ دنیا معاشی اور معاشرتی طور پر تبدیلیوں کی طرف جا رہی ہے۔ نئے نئے امراض پیدا ہو رہے ہیں ان سے نبٹنے کیلئے یکجہتی اور اتحاد کا فقدان ہو تو وہ بیماریاں سماج کے اندر گھر کر جاتی ہیں جن سے جان چھڑانا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو جا تا ہے۔
سندھی اخبار روزنامہ عبرت نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کو نہ تو وقت کی نزاکت و حساسیت کا احساس ہے اور نہ ہی مستقبل کے خطرات کے انجام کی کوئی فکر ، نتائج کچھ بھی برآمد ہوں وہ ہر صورت میں اپنی خواہشات کو تر رکھنا چاہتے ہیں۔خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے دیئے گئے حقوق پر ان کی نگاہیں ہیں اور وہ ہر صورت میں کوشش کرکے صوبوں کو اس حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے حصے میں کمی کرنے کیلئے بھی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے دسویں مالیاتی کمیشن کا پرانا نوٹیفکیشن واپس لے کر ایک بار پھر متنازع کمیشن بنا دیا گیا ہے۔ نئے کمیشن میں وفاق کے اخراجات صوبوں سے ادا کرنے کی بات کی گئی ہے اور صوبوں کے اندر اور باہر وفاقی اور قومی منصوبوں پر آنے والے اخراجات میں حصہ ڈالنے کیلئے صوبوں کو تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ نئے بنائے گئے مالیاتی کمیشن کے ذریعے وفاق نے جتنے بھی اخراجات کرنے ہیں یا کئے ہیں ان میں صوبوں کو شراکت داری کرنے پر زور دیا جائے گا۔
جمہوریت کے مفہوم پر نظر ڈالی جائے تو اس سے مراد ایک ایسی حکومت ہوتا ہے جس میں عوامی آراءکا احترام ، مشترکہ مفادات کا حصول اورعوامی امنگوں کی روشنی میں اختیارات کیلئے قانون سازی کرنا ہوتا ہے اس کے برعکس ہمارے ہاں کسی بھی مسئلے میں عوام کی مرضی و منشاءکو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چھوٹے صوبے بڑے عرصے سے شکایات کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ مالی وسائل کی تقسیم میں انصاف نہیں کیا جا رہا ۔وفاقی حکومت کی طرف سے شکایات پر توجہ دے کر ازالہ کرنا در کناربلکہ صوبوں کو جو تھوڑے بہت اختیارات حاصل ہیں ان کو کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اسی سلسلے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق نئے تیار کردہ مسودہ کے مقاصد میں سے تین نقاط غیر قانونی ہیں۔ اگروفاق صوبائی حدود کے اندر منصوبوں پر کام کرنا چاہتے ہیں تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ان منصوبوں پر کام کرنا صوبوں کا دائرہ اختیار ہے ان میں وفاقی مداخلت غیر ضروری ہے۔ لیکن نہیں معلوم ایسی کونسی بات ہے کہ حکمران طبقہ نے ہرصورت صوبوں کو نقصان دینے کی ٹھان رکھی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا طرز عمل درست نہیں ہے ۔ بہتر ہو گا کہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے صوبوں کو اعتماد میں لیا جا تا ،ان کی شکایات و خدشات کو دور کیا جاتا، پھر اس طرح کے معاملے میں آگے بڑھنا چاہئے تھا لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں پر کوئی بھی صوبوں کا واویلا سننا پسند نہیں کرتا۔
جیسا کہ پہلی سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہمیں اس وقت مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ سرحدی حدود پر جاری تنازعے ،مالی اور معاشرتی مسائل کے ہوتے ہوئے اگر ہم اندرونی اختلافات کواچھالنا شروع کر دیں گے تو مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جائیں گے ۔ اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ اس طرح کے متنازعہ مسائل کوطول دینے کی بجائے آپس میںاتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے کوششیں کی جائیں تاکہ ہم نئے دور کے مسائل کا مل کر مقابلہ کر سکیں اسی میں سب کیلئے لئے خیر اور بھلائی پنہاں ہے۔
سندھ حکومت نے دسویں مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر اعتراض کرد یا ہے۔ اخبارات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کو مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر خدشات پر مبنی خط لکھا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہمیں قومی مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر اعتراضات ہیں البتہ پچھلے نوٹیفکیشن کو واپس لینے پر وفاق کے ممنون احسان ہیں ۔ سید مراد علی شاہ کے مطابق نئے نوٹیفکیشن کے ٹرم آف ریفرنس کے تین نکات آئین سے متصادم ہیں۔ آئین میں واضح ہے کہ وفاق قومی سطح کے منصوبوں کیلئے صوبوں کے حصوں میں سے کسی صورت بھی کٹوتی نہیں کر سکتا ۔ آئین کے آرٹیکل 78 میں وفاق اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم واضح ہے ۔ اس خط کے ذریعے وفاق سے دسویں مالیاتی کمیشن کے نئے نوٹیفکیشن پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سندھ میں ایک بار پھر اغوا برائے تاوان کا طوفان | محمد الیاس سومرو
اسی سلسلے میں سند ھ کے بڑے اخبار نے اپنے اداریہ میں توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے کہ زندگی کے کسی بھی مسئلے میں وقت کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔اگروقت کے مطابق درست فیصلے نہ کئے جائیں تو اس کے مستقبل میں بہت بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس وقت ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں پہلے سے زیادہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہو گی ۔اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں کواپنی پرانی ناراضگیوں کو بھلا کر نئے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔کیونکہ دنیا معاشی اور معاشرتی طور پر تبدیلیوں کی طرف جا رہی ہے۔ نئے نئے امراض پیدا ہو رہے ہیں ان سے نبٹنے کیلئے یکجہتی اور اتحاد کا فقدان ہو تو وہ بیماریاں سماج کے اندر گھر کر جاتی ہیں جن سے جان چھڑانا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو جا تا ہے۔
سندھی اخبار روزنامہ عبرت نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کو نہ تو وقت کی نزاکت و حساسیت کا احساس ہے اور نہ ہی مستقبل کے خطرات کے انجام کی کوئی فکر ، نتائج کچھ بھی برآمد ہوں وہ ہر صورت میں اپنی خواہشات کو تر رکھنا چاہتے ہیں۔خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے دیئے گئے حقوق پر ان کی نگاہیں ہیں اور وہ ہر صورت میں کوشش کرکے صوبوں کو اس حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے حصے میں کمی کرنے کیلئے بھی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے دسویں مالیاتی کمیشن کا پرانا نوٹیفکیشن واپس لے کر ایک بار پھر متنازع کمیشن بنا دیا گیا ہے۔ نئے کمیشن میں وفاق کے اخراجات صوبوں سے ادا کرنے کی بات کی گئی ہے اور صوبوں کے اندر اور باہر وفاقی اور قومی منصوبوں پر آنے والے اخراجات میں حصہ ڈالنے کیلئے صوبوں کو تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ نئے بنائے گئے مالیاتی کمیشن کے ذریعے وفاق نے جتنے بھی اخراجات کرنے ہیں یا کئے ہیں ان میں صوبوں کو شراکت داری کرنے پر زور دیا جائے گا۔
جمہوریت کے مفہوم پر نظر ڈالی جائے تو اس سے مراد ایک ایسی حکومت ہوتا ہے جس میں عوامی آراءکا احترام ، مشترکہ مفادات کا حصول اورعوامی امنگوں کی روشنی میں اختیارات کیلئے قانون سازی کرنا ہوتا ہے اس کے برعکس ہمارے ہاں کسی بھی مسئلے میں عوام کی مرضی و منشاءکو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چھوٹے صوبے بڑے عرصے سے شکایات کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ مالی وسائل کی تقسیم میں انصاف نہیں کیا جا رہا ۔وفاقی حکومت کی طرف سے شکایات پر توجہ دے کر ازالہ کرنا در کناربلکہ صوبوں کو جو تھوڑے بہت اختیارات حاصل ہیں ان کو کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اسی سلسلے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق نئے تیار کردہ مسودہ کے مقاصد میں سے تین نقاط غیر قانونی ہیں۔ اگروفاق صوبائی حدود کے اندر منصوبوں پر کام کرنا چاہتے ہیں تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ان منصوبوں پر کام کرنا صوبوں کا دائرہ اختیار ہے ان میں وفاقی مداخلت غیر ضروری ہے۔ لیکن نہیں معلوم ایسی کونسی بات ہے کہ حکمران طبقہ نے ہرصورت صوبوں کو نقصان دینے کی ٹھان رکھی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا طرز عمل درست نہیں ہے ۔ بہتر ہو گا کہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے صوبوں کو اعتماد میں لیا جا تا ،ان کی شکایات و خدشات کو دور کیا جاتا، پھر اس طرح کے معاملے میں آگے بڑھنا چاہئے تھا لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں پر کوئی بھی صوبوں کا واویلا سننا پسند نہیں کرتا۔
جیسا کہ پہلی سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہمیں اس وقت مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ سرحدی حدود پر جاری تنازعے ،مالی اور معاشرتی مسائل کے ہوتے ہوئے اگر ہم اندرونی اختلافات کواچھالنا شروع کر دیں گے تو مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جائیں گے ۔ اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ اس طرح کے متنازعہ مسائل کوطول دینے کی بجائے آپس میںاتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے کوششیں کی جائیں تاکہ ہم نئے دور کے مسائل کا مل کر مقابلہ کر سکیں اسی میں سب کیلئے لئے خیر اور بھلائی پنہاں ہے۔