سندھ پریس میں چھپنے والی خبروں کے مطابق آج کل سندھ میں کورونا وائرس کے نئے مریضوں کی تصدیق میں کمی اور اس مرض کے شکار مریض تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔لیکن ایک بہت بڑی مصیبت اس وقت سندھ میں بجلی کی لمبی لوڈ شیڈنگ اور ڈاکو راج ہے۔
سکھر اور لاڑکانہ ڈویزن میں ڈکیتی اور اغوا کی کارروائیوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ کندھ کوٹ اور اوباڑو کے علاقے سے تین مزید لوگوں کے اغوا سے مغویوں کی مجموعی تعداد اکیس ہو گئی ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مغویوں کی رہائی کیلئے کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ورثاءسخت پریشانی کا شکار ہیں۔ اخباری خبر کے مطابق اغواء برائے تاوان کی کارروائیں کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہیں ۔
سندھ کے معروف اخبار روزنامہ کاوش نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ سندھ کے شمالی علاقوں میں جس طرح بد امنی اپنے جوہر دکھا رہی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ شاید سندھ ایک بار پھر واپس 1990 ءکی دھائی کی طرف جا رہا ہے کیونکہ کچھ بھی بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے دن بدن حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں اور حالات کی خرابی کی یہی رفتار رہی تو سندھ کس قدر پیچھے دھکیل دیا جائے گا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اداریے میں مزید کہا گیا ہے کہ سکھر سے اغواء ہونے والے تین افراد ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکے جبکہ ایک مغوی خیر محمد کے ورثاء سے ڈاکوﺅں نے پچاس لاکھ روپے تاوان طلب کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ غریب لوگ ہیں اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا ان کے لئے نا ممکن ہے لہذا پولیس کو ان کے بچے کی رہائی کیلئے ان کی مدد کرے ۔ آپ اس بات سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ورثاءکی طرف سے تاوان ادا کرنے سے انکار کا مطلب اپنے مغوی کو ڈاکوﺅں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے اور کوئی بھی شخص وسائل کے ہوتے ہوئے اپنے پیاروں کو ڈاکوﺅں کے حوالے کرنا پسند نہیں کر سکتا۔
اسی طرح کندھ کوٹ ،غوث پور ،کرم پور سے اغواءہونے والے چھ لوگوں کی بازیابی کیلئے پولیس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور تنگوانی کے قریب سے اغوا ہونے والا نوجوان بھی ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی رانی پور سے اغواءہونے والے سمال انڈسٹریز کے آفیسر کا کوئی اتہ پتہ چل سکا ہے۔ یہ اغوا کے بڑے واقعات کا ذکر ہو رہا ہے ۔ مگر وہاں پر ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات کا حساب اس سے الگ ہے۔ یعنی چوری، چھینا چھپٹی اور ڈکیتی کی وارداتیں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کی وجہ سے پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ایک مغوی سے پچاس لاکھ روپے کاتقاضہ کس قدر فائدہ مند کاروگار ہو گا ۔
اداریے میں مزید لکھا ہے کہ ہم اس اخبار کے ذریعے کئی بارلکھ چکے ہیں کہ یہ ایک منظم کاروبار ہے جس میں کتنے ہی سفید پوش ملوث ہیں اور سفید پوش بھی ایسے جن کا نام لینے سے پہلے سو بار سوچنا پڑنا ہے کہ کہیں نام لینے کی وجہ سے اپنے پیارے اغواء نہ کرا بیٹھیں ۔جب ہم اس دھندھے کو کاروبار کا نام دیتے ہیں۔ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی سا بھی کاروبار سہولت کار کے بغیر نہیں چل سکتا اور یہ اغواءکی کارروائیاں بھی مقامی سہولت کاروں کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ کئی بار اخبارات میں خبریں آ چکی ہیں کہ کسی سفید پوش کی مدد سے مغوی بازیاب ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سفید پوش کسی نہ کسی طرح اس مکروہ عمل میں ملوث ہے۔ دوسری بات یہ کہ پولیس سمیت ہماری قانون نافذ کرنے والے ادارے جوش میں آتے ہیں تو یہ مکروہ کام ایک دن بھی نہیں چل سکتا ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کون سی مصلحت کے پیش نطر ان داروں کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور معصوم عوام کو ڈاکوﺅں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
اصولی طور پر وزیر اعلیٰ سندھ کو اس سلسلے میں دلچسپی لینی چاہئے کیونکہ غربت کے پسے عوام دہشتگری کے خوف میں کیازندگی بسر کریں گے۔