Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
خطے کی سب سے بڑی طاقت عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران کے درمیان ربع صدی طوالت کی معیاد رکھنے والا تزویراتی اور اقتصادی معاہدہ عالمی سیاسیٓت میں ایک عظیم دھماکے کی حیثیت رکھتا ہے جس کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے سے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سہولتیں مہیا کریں گے۔
ممتاز کالم نگار ارشاد محمود اپنے تجزیاتی کالم میں لکھتے ہیں:
ایران اور چین کے مابین طے پانے والے 25 سالہ اقتصادی اور اسٹرٹیجک اشتراک کے ایک معاہدے نے دنیا کو ششدر کردیا۔معاہدے کے تحت چین ایران کے قدرتی وسائل اور تیل کے ذخائر کو ڈیویلپ کرے گا۔ جواب میں ایران چین کو تیل اور گیس پر رعایتی نرخ اور ادائیگیوں میں تاخیر کرنے اور مقامی کرنسی میں ادائیگی جیسی چھوٹ دے گا۔ ان منصوبوں کی حفاظت کے لیے 5000 چینی سکیورٹی اہلکاربھی ایران میں موجود رہیں گے۔ علاوہ ازیں خفیہ اور دفاعی اداروں کے مابین بھی اشتراک کا ایک جامع منصوبہ زیر غور ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ برس اگست تک چین امریکی پابندیوں کی بدولت ایسے کسی بھی منصوبے میں شریک ہونے کو تیار نہ تھا لیکن حالیہ ہفتوں میں علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور چین کو عالمی تنہائی کا شکار کرنے کی کوششوں نے چین کو مغربی اور امریکی منڈیوں کے بجائے علاقائی ممالک کی طرف متوجہ کیا۔ ایران پہلے ہی امریکی دباؤ اور پابندیوں سے کراہ رہاتھا اور متبادل اقتصادی، سیاسی اور سفارتی شراکت داروں کی تلاش میں تھا۔ ایران اور چین کے ساتھ امریکہ کے سلوک نے انہیں ایک دوسرے کا فطری حلیف بنادیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا چین اور ایران کے ساتھ موجودہ تحکمانہ رویہ برقراررہا تو غالب امکان ہے کہ آبنائے ہرمز جوایران اور عرب ممالک کی تجارتی اور بالخصوص تیل کی گزرگاہ ہے، پر بھی چین کے فوجی دستے جلد تعینات ہوں گے۔
اگرچہ امریکہ نے ایران کے خلاف جب سے تازہ اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں، چین اور ایران کی تجارت میں خاطر خواہ کمی ہوئی کیونکہ چین بھی دوسرے ممالک کی طرح امریکہ کی ناراضی مول لینا نہیں چاہتاتھا لیکن اس کے باوجود چین ہی وہ واحد ملک تھا جو ایران سے تیل خرید رہاتھا۔ایران میں کساد بازاری کا یہ حال ہے کہ کرنسی کی قیمت آدھی رہ گئی ہے اور گرانی سے شہری بے حال ہیں۔ کورونا نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ایرانی صدر کہتے ہیں کہ ان کا ملک تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہاہے۔
ایران کا خیال تھا کہ بھارت اس کی مدد کو آئے گا۔د ونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے گہرے اسٹرٹیجک تعلقات قائم تھے۔ بھارت نے ایران کے اہم دفاعی اور انفرسڑکچر کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی ۔ ایران نے پاکستان کے خدشات کو بالاطاق رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ غیرمعمولی طور پر سرگرم تعلقات استوار کیے ۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث کل بھوش یادیو بھی ایران سے ہوکر پاکستان میں بلوچ لبریشن آرمی چلاتارہا۔اس قدر گہرے مراسم کے باوجود بھارت مشکل کی گھڑی میں امریکہ کی گود میں جابیٹھا بلکہ ایران کے مخالف اسرائیل کا بھی اسٹرٹیجک حلیف بن گیا۔ 2005ء میں ایران کے خلاف اس نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی میں ووٹ دیا جس نے تہران کے خلاف عالمی پابندیوں کی راہ ہموار کی۔ 2008ء میں بھارتی سرزمین سے اسرائیلی جاسوس سیٹلائٹ فضا میں چھوڑا گیا جس نے ایران کو نشانہ بنایا۔ جوابی طور پر دہلی میں ایک اسرائیلی سفارت کار پر حملہ ہوا جس کا ذمہ دار ایران کو قراردیا گیا۔
حسن اتفا ق ہے یا قدرت کی مہربانی پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکارکرنے والے خود تنہا ہوگئے۔ ایران اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت سے بھارت خطے میں بری طرح تنہائی کا شکار ہوگیاہے۔ ایران نے بندرگاہ چابہارسے اسے عملاً بے دخل کردیا۔ اطلاعات ہیں کہ ایران کے ذریعہ چابہار – افغانستان ریلوے کا منصوبہ بھی منسوخ کردیا گیا ہے۔یہ ہی وہ منصوبے تھے جو بھارت کو پاکستان کی جغرافیائی حدود استعمال کیے بغیر وسطی ایشیائی ممالک سے منسلک کرتے۔
طالبان افغانستان میں ایک اہم سیاسی قوت کے طور پر ابھرے ہیں۔نیپال بھارتی طرز عمل سے عاجز آچکا ہے اور اس کا جھکاؤ چین کی طرف ہے۔بھوٹان جو بھارت کی ذیلی ریاست تھی اب اس سے چھٹکارا پانے کی راہ تلاش کررہاہے۔بنگلہ دیش اور چین کے تعلقات میں گرمی جوشی میں بے پناہ اضافہ ہواہے۔ چین میانمار کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو منصوبوں پر دستخط کرچکا ہے۔ تھائی لینڈ، جو امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود چین سے قربت میں اضافہ کررہاہے۔ سری لنکاکبھی بھی چین مخالف محاذ میں شامل نہیں ہوسکتابلکہ چینی کی سرمایاکاری سے استفادہ کررہاہے۔
ایرا ن چین معاہدے نے عالمی نظام جس کی لیڈرشپ امریکہ کے ہاتھوں میں ہے پر گہری ضرب لگائی ہے۔ اگرچہ ابھی تعلقات کی پوری جہت متشکل نہیں ہوئی لیکن یہ امر یقینی ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے عالمی سفارت کاری میں امریکہ کے جارہانہ اقدامات کا جواب زیادہ بہتر چال چل کردیا۔ خاص طور پر ایران کے ساتھ اس قدر بڑے پیمانے پر کیے جانے والے معاہدوں نے امریکہ اور اس کے حلیفوں کو ایک مشکل صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ روس پہلے ہی ایران کے ساتھ نہ صرف تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ شام میں دونوں ممالک بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تیزی سے بہتری پیدا کی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کا افغانستان کوبھارت کے ساتھ واہگہ کے راستے یکطرفہ تجارت کی اجازت دینا ایک بڑی رعایت ہے۔ امریکہ کا افغانستان سے تیزی سے انخلا ہورہاہے۔ اس خلا کو بھی علاقائی ممالک بالخصوص پاکستان، ایران اور چین مل کر پر کرسکتے ہیں۔
ایران اور چین کے تعلقات میں آنے والی بہتری کا پاکستان کو براہ راست فائد ہوگا۔ بلوچستان میں مداخلت کے بھارت کے سارے راستے بند ہوجائیں گے۔
داخلی طور پر مستحکم اور معاشی طور پرخوشحال ایران نہ صرف پاکستان کے مفادمیں ہے بلکہ وہ افغانستان اور بعدازاں مشرق وسطی میں بھی امن اور استحکام پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کرسکتاہے۔