بعض لوگ قسمت کے بہت دھنی ہوتے ہیں ، ایسا امتحانی پرچہ جس کے سوال بھی آپکو نہ آتے ہوں لیکن اس میں پھر بھی پاس ہوجانا بڑی بات ہوتی ہے اور یہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جن ممتحن آپکے ساتھ ملا ہو۔
کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز شریف بھی بڑی قسمت کے دھنی ہیں ہر مرتبہ ہر کڑے امتحان سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے مکھن میں سے بال نکل جاتا ہے اور شاید کچھ ایسا ہی وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ بھی ہے، کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ انہیں وزیراعلی بنا دیا جائے گا، تحریک انصاف کی حکومت بننے کے پہلے دن سے لیکر اس تحریر کے لکھنے تک یہی بات چلتی رہی کہ عثمان بزدار اب گئے تو اب گئے لیکن ہر مرتبہ قسمت کے دھنی نکلے ہر مرتبہ ایسے بچے کہ سب دیکھتے ہی رہے بڑے بڑوں کے عثمان بزدار کی رخصتی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔
یہ بھی پڑھئے:
عثمان بزدار نے پنجاب کا میدان ایک بار پھر کیسے مارا؟
ذرائع کے مطابق اس مرتبہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کا جانا اس لئے بھی ٹہر گیا تھا تھا کہ انکی رخصتی کی بات بڑے گھر سے کی گئی۔ بڑے صاحب کی جانب سے وزیراعظم صاحب کو کہا گیا کہ بس بہت ہوگئی ان صاحب کو اب گھر بھیج کر آرام کروا دیں لیکن ہمارے پی ایم بھی تو پھر نیازی ہیں جم گئے کہ نہیں انہیں ابھی نہیں بھیج سکتا ہے،کافی بحث بھی چلی ، عثمان بزدار صاحب کو بھی کہہ دیا گیا کہ جناب بوریا بستر باندھیے ،یہی وجہ رہی کہ وزیراعلی صاحب صوبے سے ہی تین دن کے لئے غائب یوگئے ایک دن اپنے حلقے میں گزارا دوسرے دن بلوچستان کے دورے پر پہنچ گئے دو دن وہیں گزارے اور اس دوران پی ایم صاحب نے معاملہ سٹیل کروا کر انکے لئے مزید ٹائم لے لیا۔ اب اس ساری صورتحال کے دوران پوری مارکیٹ کے اندر بڑی تیزی رہی
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلی کے تین امیدوار میدان میں ہیں۔
نمبر ایک سنئیر وزیر عبدالعلیم خان جنہوں نے بڑے گھر 3 مرتبہ بڑے صاحب سے ملاقاتیں بھی کیں ہارٹ فیورٹ رہے لیکن کلیئرنس ایک مرتبہ پھر پی ایم صاحب کی طرف سے نہیں ہوئی،میرے تجزیے کے مطابق پی ایم کو عبدالعلیم خان کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتے،،،، وجہ؟
علیم خان کو جن نیب نے گرفتار کیا تو انکی گرفتاری وزیراعظم کی منظوری سے ہی ہوئی۔ بنیادی کردار جیانگیر ترین کا رہا،
اگرچہ علیم خان کی رہائی کے بعد معاملات سیٹل ہوچکے لیکن دل میں پڑی دراڑ ختم نہیں ہوتی اور ویسے بھی وزیراعظم کو ایسا وزیراعلی نہیں چاہیے جو فیصلے لے سکے، فیصلے کرسکے اور فیصلوں پر علمدرآمد کروا سکے ، ایسی صورتحال میں عثمان بزدار سے بہتر اور انہیں کون مل سکتا ہے۔ دوسرا پی ایم جہانگیر ترین کو مزید ناراض نہیں کرسکتے کیونکہ بزدار صاحب کو لائے ہی وہ تھے،،
اب آجائیں دوسرے امیدوار کی جانب:
خسرو بختیار کا نام بڑے گھر سے آیا حالانکہ ان پر چینی بحران کی ذمے داری اور دیگر معاملات بھی ہیں لیکن پھر کیا ہوا اور لوگوں پر بھی تو ہیں۔ ذرائع کے مطابق خسرو بختیار تین دن تک لاہور میں موجود رہے۔ انہیں یہ یقین دلایا گیا اور یہ ان کی ڈیمانڈ بھی رہی کہ جس حلقے سے بھی انہیں لایا جائے گا، اس کی مکمل کلیئرنس کی ضمانت دی جائے ، لیکن اس دوران بزدار صاحب والا معاملہ فٹ ہوگیا۔
تیسرے امیدوار صوبائی وزیرقانون بشارت راجہ ہیں اگرچہ سب کو یہ معلوم ہے کہ وہ چودھری برادران کے ہی ہیں لیکن بہت کم کو یہ معلوم ہے کہ وہ پی ایم صاحب کے بہت قریب ہیں۔ پنجاب کے ہر معاملے میں پی ایم ان سے ضرور رابطے میں رہتے ہیں۔
1. اب وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورے میں وزیراعلی پر واضح کردیا ہے کہ وہ معاملات کو زیادہ دیر نہیں سنبھال سکتے۔ وزیراعلی صاحب نے کچھ پر پرزے بھی نکالے تھے، اسد کھوکھو والا معاملہ انہی پر پرزوں کا تھا ، کمشنر لاہور بلال لودھی کو اسد کھوکھر نے سی ایم صاحب کو کہہ کر لگوایا ، جو کچھ وہ کرتے رہے اسکی مکمل رپورٹ پی ایم کے پاس تھی جو کہ بڑے گھر سے دی گئی۔ اسی لیے وزیراعلی کو سمجھانے کے لئے پہلے بلال لودھی کو گھر کی راہ دکھائی گئی اور پھر اسد کھوکھر سے استعفی لیا گیا اور ہاں ذرائع کے مطابق سی ایم صاحب کویہ یہ بھی کہا گیا کہ وہ چودھریوں کے کام جس طرح ہورہے ہیں، باز آجائیں ۔ اب آنے والے دنوں میں یا تو چودھریوں کے ساتھ معاملات بہت الجھنے والے ہیں یا پھر تلخی آنے والی ہے۔
2. لیکن یہ بات طے ہے کہہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار قسمت کے بڑے دھنی ہیں ایک مرتبہ پھر بچ گئے۔
یہ تمام کہانیاں دیکھئے، قذافی بٹ کی زبانی نیوز ڈیفیوز پر اور لنک کے ذریعے۔