Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
”نایاب ہیں ہم“ سینئرصحافی، براڈ کاسٹر اور ادیب آصف جیلانی کے خاکوں اورمضامین کامجموعہ ہے۔ک تاب”زندہ کتابیں“کے سلسلے میں شائع کی گئی ہے۔ راشداشرف صاحب نے عرصہ دراز سے اشاعت سے محروم،عمدہ اور نایاب کتب کی اشاعت نوکا بیڑہ اٹھایا ہے جس میں ان کے احباب بھی ان سے تعاون کرتے ہیں۔”زندہ کتابیں“ بہترین سفیدکاغذپرمجلداورانتہائی ارزاں قیمت پرشائع کی جاتی ہیں۔ ایک سوساٹھ صفحات پرمبنی”نایاب ہیں ہم“ کی قیمت بھی دوسوروپے بہت مناسب ہے۔
آصف جیلانی انیس سوتیس کی دہائی میں مسلم یونیورسٹی کے شہرعلی گڑھ میں پیداہوئے۔ان کی ابتدائی تعلیم اورتربیت جامعہ ملیہ نئی دہلی میں ہوئی۔ثانوی تعلیم سندھ مدرسہ کراچی میں حاصل کی۔سندھ مسلم کالج سے گریجویشن اورکراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز کیا ۔ آصف جیلانی نے صحافتی زندگی کاآغاز دوران تعلیم1952ءمیں روزنامہ امروزکراچی سے کیا۔1959ءمیں جنگ کراچی کے نامہ نگارکی حیثیت سے دلی میں تعینات ہوئے۔پاکستان کے کسی اردواخبارکے وہ پہلے کل وقتی بیرونِ ملک نامہ نگارتھے۔1965ءکی پاک ،بھارت جنگ کے دوران انہیں گرفتارکرلیاگیا،انہوں نے قیدیوں کے تبادلے تک دلی کی تہاڑ جیل میں قیدِ تنہائی کاٹی۔
رہائی کے بعد ادارہ جنگ کے یورپی نامہ نگارکے طورپرلندن میں تعینات ہوئے۔اسی زمانہ میں بی بی سی لندن کی اردونشریات میں حصہ لیناشروع کیا۔لندن سے جنگ کے اجراءکے بعدجنگ لندن کے ایڈیٹرمقررہوئے۔1983ءمیں بی بی سی اردوسروس کے کل وقتی عملہ میں شامل ہوگئے ۔ 1992ءمیں وسط ایشیاکے نوآزاد مسلم جمہوری ممالک کادورہ کیااوران کے بارے میں اکیس پروگراموںہرمشتمل سیریز بی بی سی سے نشرکی،جوبعد میں کتابی صور ت میں بھی شائع ہوئی۔آ صف جیلانی کے کالموں کامجموعہ”ساغرشیشے لعل وگوہر“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔ ’بین الاقوامی ہواز ہو‘میں انہیں برطانیہ میں اُردوصحافت کابانی قراردیاہے۔
آصف جیلانی نے بڑی بھرپور اور متحرک زندگی بسر کی ہے۔طویل صحافتی کیریئر میں انہیں بے شمار نامور لوگوں سے ملنے کاموقع ملا۔”نایاب ہیں ہم“ کے خاکوں میں انہوں بعض بڑے دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ڈاکٹر پرویز حیدر کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں۔”آصف جیلانی نے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائی اوراپنی شخصیت اورذہانت کی وجہ سے ہرجگہ نمایاں رہے۔علی گڑھ میں پیداہوئے۔جو مسلمانوں کے لیے ہمیشہ اہم شہررہاہے۔ایک شخص جس کا اتنا انواع و اقسام کاتجربہ ہو۔ جو بے شمارواقعات کاگواہ ہو،بے شمارنامورلوگوں سے ملنے کاموقع ملاہو،اورپھرلکھاری بھی ہواُ س کی تحریر تو وزن دار تو ضرور ہوگی۔
عبیداللہ سندھی ایک بہت منفرد شخصیت ہیں۔آصف صاحب ان سے 1943ءمیں مل سکے۔کتنی اہم بات ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر ذاکرحسین کومسلمانوں کی سیاست میں بھرپورحصہ لینے پر زور دیا۔ خان عبدالغفارخان کابھی بہت اچھا تعارف کرایاہے۔میاں افتخارالدین بہت بڑے انسان تھے۔ان کے ساتھ بھی پاکستان کی حکومتوں نے بہت زیادتی کی اورپھر مارشل لا نے آخری حدیں بھی پارکردیں۔“کتاب میں آصف جیلانی نے ایسی مشہورشخصیات سے قارئین کو متعارف کرایاہے۔
”نایاب ہیں ہم“ آصف جیلانی کے ستائیس خاکے اورمضامین شامل ہیں۔پہلی تحریر ”امام انقلاب مولاناعبیداللہ سندھی“سے آصف جیلانی کے تعارف پرمبنی ہے۔
”جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی میں جہاں میں نے آنکھ کھولی تھی،1918ءسے جلیاں والاباغ کے قتل عام کی یاد”یوم آزادی “ کے نام سے منائی جاتی تھی۔اس دن پوری جامعہ کا انتظام طلباء کے سپردکر دیا جاتا تھا۔اس روز تمام اساتذہ اورملازمین کی تعطیل رہتی تھی ، رات کوتمام اساتذہ اور ملازمین کی ضیافت ہوتی تھی جس کاکھانا بھی طلبامطبخ کے باورچیوں کی مددسے تیارکرتے تھے۔13اپریل 1943 ءکے دن ایسی ہی ایک ضیافت میں،میں اس صدرمیزپرمہمانوں کی خاطرتواضع کے لیے تعینات تھا،جس پرڈاکٹرذاکرحسین، پروفیسر محمدمجیب، ڈاکٹر عابد حسین،مولانااسلم جیراج پوری اورابتدائی وثانوی مدرسوں کے نگران بیٹھے تھے۔اسی میز پرمہمان خصوصی کی حیثیت سے ایک سرخ و سفید معمرباریش بزرگ بیٹھے تھے۔ان کی آنکھوں میں اس بلاکی چمک تھی کہ ان سے نظریں چارکرنامشکل تھا۔اب صرف اتنایاد ہے کہ باریش بزرگ،ذاکرصاحب سے بحث میں الجھ ہوئے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ انہیں عملی سیاست میں آناچاہیے۔ذاکرصاحب نے جب یہ کہاکہ وہ جامعہ کے تعلیمی ادارے کی ذمہ داریوں کوزیادہ اہمیت دیتے ہیں۔توبزرگ نے غصہ میں پتھرکی میزپر زور سے مکامار کر کہاکہ ایسا تعلیمی ادارہ تو اور بہت سے لوگ چلا سکتے ہیں۔ہندوستان کے مسلمانوں کوآپ جیسے لوگوں کی سیاست میں اشدضرورت ہے۔“ بعد میں معلوم ہواکہ ذاکرصاحب سے اس دبنگ انداز میں بات کرنے والے مولاناعبیداللہ سندھی تھے۔ میں یہ بات فخر سے کہوں گاکہ بچپن میں ، میں نے اس عظیم انقلابی کودیکھاتھا۔
ڈاکٹرذاکرحسین کاخاکہ بھی ان کی عظیم شخصیت کی مانندکمال کا ہے۔آصف جیلانی کوبچپن میں ان کے پڑوس میں رہنے کاموقع بھی ملا۔ ذاکرحسین بھارت کے نائب صدر اورپھرصدرکے عہدے پرفائز ہوئے۔آصف جیلانی لکھتے ہیں:
”ایک زمانہ گذر گیالیکن وہ دن اب بھی میرے دل پر کندہ ہیںجب ہم دلی کے قرول باغ کے علاقہ میں ذاکرصاحب کے پڑوس میں رہتے تھے۔میرے والدجو علی گڑھ میں جامعہ ملیہ کے قیام کے وقت سے ذاکر صاحب کے ساتھی تھے،ان ہی کے ساتھ علی گڑھ سے دلی منتقل ہوئے تھے۔میری امی، ذاکرصاحب کی بیگم، شاہ جہاں بیگم کی قریبی سہیلی تھیں اوران کی چھوٹی بیٹی صفیہ میری ہم عمراورابتدائی مدرسہ میں ہم جماعت تھی۔ذاکرصاحب جامعہ کے وائس چانسلربننے سے پہلے معاشیات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے تھے۔ان کاسب سے بڑا کارنامہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی کامیابی ہے جوہزاردشواریوں سے گذرکر قومی یونیورسٹی کی منزل تک پہنچی اورجسے اکتوبر2020ءمیں سوسال مکمل ہوجائیں گے۔“
”نایاب ہیں ہم“ کاایک اوردلچسپ خاکہ ”عدم تشددکے علم بردار،بادشاہ خان ہے۔ جوسرحدی گاندھی عبدالغفارخان(باچاخان) کاہے۔ جامعہ ملیہ میں ان کی آمداور سادگی کااندازآصف جیلانی کے الفاظ میں ملاحظہ کریں۔”بادشاہ خان جب محمود منزل آئے توطلبایہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ ملک کا ایک اہم رہنماہاتھ میں کھدرکاصرف ایک تھیلا لیے چلا آ رہا ہے۔ایسی سادگی؟ بعد میں پتہ چلاکہ اس تھیلے میں ان کی شلوار قمیض کاصر ف ایک جوڑا تھا ۔رات کوسونے سے پہلے وہ ایک جوڑا خود دھوتے تھے اور ٹانگ دیتے تھے اورصبح کودھلاہواجوڑا پہن لیتے تھے۔جتنے دن وہ محمود منزل میں رہے ان کایہی معمول رہا۔مجھے یاد ہے کہ پاکستان کی دستورساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بادشاہ خان نے پاکستان سے وفاداری کاحلف اٹھایاتھا اور اسی کے ساتھ حکومت ِ پاکستان کوبھی مکمل حمایت کایقین دلایاتھا۔جس کے بعدبادشاہ خان کی قائد اعظم سے ملاقات ہوئی۔ دوسری ملاقات پشاورمیں خدائی خدمت گارتحریک کے دفتر میں طے تھی۔لیکن خان عبدالقیوم خان نے قائداعظم کو خبردارکیاکہ بادشاہ خان ان کے قتل کی سازش کررہے ہیں،چنانچہ طے شدہ ملاقات نہ ہوسکی اوربادشاہ خان نے مایوس ہوکرپاکستان میں حزبِ مخالف کی پہلی جماعت پاکستان آزادپارٹی کے نام سے قائم کی۔1984ءمیں انہیں امن کے نوبل پرائزکے لیے نامزدکیاگیاتھا۔“
ایسے ہی انکشافات سے ”نایاب ہیں ہم“ بھری ہوئی ہے۔ایک اورعمدہ خاکہ ”پاکستان کاانقلابی جاگیردار“ میاں افتخارالدین کے بارے میں ہے۔قائداعظم میاں افتخارالدین کوکانگریس سے مسلم لیگ میں لاناچاہتے تھے۔میاں صاحب کے لیے فیصلہ دشوارتھا، لیکن جب کانگریس نے راج گوپال اچاریہ کاپاکستان کے مطالبے کافارمولا تسلیم کرنے سے انکارکردیاتوان کے لیے فیصلہ آسان ہوگیا۔نہروکا میاں صاحب کے کانگریس چھوڑنے کاسخت صدمہ ہوا۔قائداعظم کی خواہش پرمیاں افتخارالدین نے پروگریسیوپیپرزکے نام سے ادارہ قائم کیا، جس نے لاہورسے پاکستان ٹائمزشائع کرناشروع کیا۔انہوں نے ادارے میں ترقی پسندصحافیوں کی کہکہشاں جمع کی۔فیض احمدفیض پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر،مظہرعلی خان ایڈیٹر،مولانا چراغ حسن حسرت امروزکے ایڈیٹران کے ساتھ احمدندیم قاسمی۔ہفت روزہ لیل ونہارکے ایڈیٹرسبطِ حسن تھے۔
میاں صاحب پناہ گزینوں کی آبادکاری کاوزیرمقررکیاگیا۔وہ چاہتے تھے کہ جوکاشت کارترک وطن کرکے پاکستان آئے ہیں انہیں متروکہ اراضی تقسیم کی جائے ،جبکہ متروکہ جائیدادحکومت اپنی تحویل میں لے کرضرورت مندوں کوسستے کرایے پر دے۔لیکن مسلم لیگی سیاستدان جائیدادکلیمزمیں الاٹ کراناچاہتے تھے۔
قراردادِ مقاصد کے بارے میں میاں صاحب کی رائے تھی کہ یہ عجیب منطق ہے کہ ملک کے قیام کے بعد، اس کے مقاصدمنظورکیے جائیں۔پاکستان اسی صورت ترقی کرسکتاہے جب یہاں ایک روشن فکر سیکولرمعاشرہ قائم ہو،ملک کی خارجہ پالیسی آزادہواورمعیشت کوسوشلزم کی بنیاد پراستوارکیا جائے۔انہوں مسلم لیگ سے مایوس ہوکرترقی پسند جماعت آزاد پاکستان پارٹی کے نام سے منظم کی۔جس میں شوکت حیات خان،بادشاہ خان،ڈاکٹرخان،محمودعلی قصوری اورکراچی کے ممتازقانون دان نورالعارفین اورفخرالدین جی ابراہیم شامل تھے۔
آصف جیلانی لکھتے ہیں کہ میں اپنے آپ کوخوش قسمت سمجھتاہوں کہ میں نے صحافتی کیریئرکاآغازامروزکراچی سے کیاجس کے چیف ایڈیٹرفیض احمدفیض تھے۔فیض صاحب سے ان کی دلچسپ گفتگوخاکے میں شامل ہے۔
اُردوکے صفِ اول کی ناول وافسانہ نگارقرة العین حیدر سے گفتگو،معروف شاعرہ اوربی بی سی کے بچوں کے پروگرام شاہین کلب کے سلطانہ باجی سحاب قزلباش پردلچسپ خاکہ بھی کتاب کا حصہ ہے۔بھارت نامورصحافی اوردانشورکلدیپ نیئرکے خاکے ”دوستی کافروزاں شعلہ“ میں آصف جیلانی نے یہ دلچسپ انکشاف کیا۔” جواہرلعل نہروکے انتقال کے بعد کلدیپ نیئر نے نہروکے جانشین کے انتخاب سے قبل خبرشائع کی کہ مرارجی ڈیسائی نے جانشین کے امیدوارکی حیثیت سے اپناہیٹ میدان میں ڈال دیاہے۔اس خبرسے ڈیسائی کے انتخاب کے امکانات معدوم ہوگئے کیونکہ کانگریس کی اکثریت اس بات پرسخت ناراض ہوئی کہ ابھی پوراملک نہروں کے سوگ میں ہے اورمراجی ڈیسائی امیدواری کااعلان کرکے اقتدارکے لیے بے تابی ظاہرکردی۔نتیجہ یہ ہواکہ کانگریس اکثریت نے لال بہادرشاستری کے حق میں فیصلہ کیا۔یوں کلدیپ نیئرنے بڑی ہوشیاری سے اپنے پرانے باس شاستری کووزیراعظم بنوادیا۔“
مختصر تحریر”قائداعظم پاکستان میں کونسانظام چاہتے تھے“ میں مصنف نے راجہ صاحب محمودآباد کے حوالے سے انکشاف کیاہے۔”جب میرے والدحیات تھے،ان کی صدارت میں محمودآباد میں مسلم لیگ کاجلسہ ہورہاتھا۔قائداعظم ان کے برابر بیٹھے تھے۔راجہ صاحب نے دھواں دھارتقریر شروع کہ پاکستان میں اسلامی شرعی ریاست قائم ہوگی جوساری دنیاکے لیے اسلامی ریاست کانمونہ ثابت ہوگی۔راجہ صاحب کو جناح صاحب نے بڑے زور سے انکاہاتھ پکڑ کر تقریر سے روک دیا۔ کہنے لگے کہ یہ ہرگز مسلم لیگ کاموقف نہیں ہے۔ ہم پاکستان کومذہبی ریاست نہیں بناناچاہتے۔“ راجہ صاحب نے کہاکہ اس وقت میری عمرسترہ سال تھی،پاکستان کے قیام کے مقصدکے بارے میں مجھے قائد کے سیاسی فلسفے اوران کی منزل مقصود کاادراک ہوا۔قائد کواس بات کاپورااحساس تھاکہ پاکستان میں اگرشریعت کے نفاذکی بات کی گئی توسوال ہوگاکہ کونسی شریعت۔پھرکس فقہ کی شریعت،یوں ایک پنڈورابکس کھل جائے گا اورپاکستان ایسی دلدل میں پھنس جائے گاجس سے نکل کراسے ترقی کی راہ پرچلنامحال ہوجائے گا۔
”نایاب ہیں ہم“ میں آصف جیلانی نے ”نریندرمودی کے گروسے ملاقات“ ،”راہول گاندھی کامذہب“،”سکون قلب کے متلاشی“،” سید سلیمان ندوی“،”یاسرعرفات چندیادیں“،”شہپر آتش عبدالکلام“،” یادیں بھٹوصاحب کی“،” شمس العلماءشبلی نعمانی“،”حسرت موہانی“ اور”اٹل بہاری واجپائی“جیسے مضامین بھی قارئین کوبھرپورمعلومات فراہم کرتے ہیں۔
راشداشرف ایک بہترین کتاب شائع کرنے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
”نایاب ہیں ہم“ سینئرصحافی، براڈ کاسٹر اور ادیب آصف جیلانی کے خاکوں اورمضامین کامجموعہ ہے۔ک تاب”زندہ کتابیں“کے سلسلے میں شائع کی گئی ہے۔ راشداشرف صاحب نے عرصہ دراز سے اشاعت سے محروم،عمدہ اور نایاب کتب کی اشاعت نوکا بیڑہ اٹھایا ہے جس میں ان کے احباب بھی ان سے تعاون کرتے ہیں۔”زندہ کتابیں“ بہترین سفیدکاغذپرمجلداورانتہائی ارزاں قیمت پرشائع کی جاتی ہیں۔ ایک سوساٹھ صفحات پرمبنی”نایاب ہیں ہم“ کی قیمت بھی دوسوروپے بہت مناسب ہے۔
آصف جیلانی انیس سوتیس کی دہائی میں مسلم یونیورسٹی کے شہرعلی گڑھ میں پیداہوئے۔ان کی ابتدائی تعلیم اورتربیت جامعہ ملیہ نئی دہلی میں ہوئی۔ثانوی تعلیم سندھ مدرسہ کراچی میں حاصل کی۔سندھ مسلم کالج سے گریجویشن اورکراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز کیا ۔ آصف جیلانی نے صحافتی زندگی کاآغاز دوران تعلیم1952ءمیں روزنامہ امروزکراچی سے کیا۔1959ءمیں جنگ کراچی کے نامہ نگارکی حیثیت سے دلی میں تعینات ہوئے۔پاکستان کے کسی اردواخبارکے وہ پہلے کل وقتی بیرونِ ملک نامہ نگارتھے۔1965ءکی پاک ،بھارت جنگ کے دوران انہیں گرفتارکرلیاگیا،انہوں نے قیدیوں کے تبادلے تک دلی کی تہاڑ جیل میں قیدِ تنہائی کاٹی۔
رہائی کے بعد ادارہ جنگ کے یورپی نامہ نگارکے طورپرلندن میں تعینات ہوئے۔اسی زمانہ میں بی بی سی لندن کی اردونشریات میں حصہ لیناشروع کیا۔لندن سے جنگ کے اجراءکے بعدجنگ لندن کے ایڈیٹرمقررہوئے۔1983ءمیں بی بی سی اردوسروس کے کل وقتی عملہ میں شامل ہوگئے ۔ 1992ءمیں وسط ایشیاکے نوآزاد مسلم جمہوری ممالک کادورہ کیااوران کے بارے میں اکیس پروگراموںہرمشتمل سیریز بی بی سی سے نشرکی،جوبعد میں کتابی صور ت میں بھی شائع ہوئی۔آ صف جیلانی کے کالموں کامجموعہ”ساغرشیشے لعل وگوہر“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔ ’بین الاقوامی ہواز ہو‘میں انہیں برطانیہ میں اُردوصحافت کابانی قراردیاہے۔
آصف جیلانی نے بڑی بھرپور اور متحرک زندگی بسر کی ہے۔طویل صحافتی کیریئر میں انہیں بے شمار نامور لوگوں سے ملنے کاموقع ملا۔”نایاب ہیں ہم“ کے خاکوں میں انہوں بعض بڑے دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ڈاکٹر پرویز حیدر کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں۔”آصف جیلانی نے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائی اوراپنی شخصیت اورذہانت کی وجہ سے ہرجگہ نمایاں رہے۔علی گڑھ میں پیداہوئے۔جو مسلمانوں کے لیے ہمیشہ اہم شہررہاہے۔ایک شخص جس کا اتنا انواع و اقسام کاتجربہ ہو۔ جو بے شمارواقعات کاگواہ ہو،بے شمارنامورلوگوں سے ملنے کاموقع ملاہو،اورپھرلکھاری بھی ہواُ س کی تحریر تو وزن دار تو ضرور ہوگی۔
عبیداللہ سندھی ایک بہت منفرد شخصیت ہیں۔آصف صاحب ان سے 1943ءمیں مل سکے۔کتنی اہم بات ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر ذاکرحسین کومسلمانوں کی سیاست میں بھرپورحصہ لینے پر زور دیا۔ خان عبدالغفارخان کابھی بہت اچھا تعارف کرایاہے۔میاں افتخارالدین بہت بڑے انسان تھے۔ان کے ساتھ بھی پاکستان کی حکومتوں نے بہت زیادتی کی اورپھر مارشل لا نے آخری حدیں بھی پارکردیں۔“کتاب میں آصف جیلانی نے ایسی مشہورشخصیات سے قارئین کو متعارف کرایاہے۔
”نایاب ہیں ہم“ آصف جیلانی کے ستائیس خاکے اورمضامین شامل ہیں۔پہلی تحریر ”امام انقلاب مولاناعبیداللہ سندھی“سے آصف جیلانی کے تعارف پرمبنی ہے۔
”جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی میں جہاں میں نے آنکھ کھولی تھی،1918ءسے جلیاں والاباغ کے قتل عام کی یاد”یوم آزادی “ کے نام سے منائی جاتی تھی۔اس دن پوری جامعہ کا انتظام طلباء کے سپردکر دیا جاتا تھا۔اس روز تمام اساتذہ اورملازمین کی تعطیل رہتی تھی ، رات کوتمام اساتذہ اور ملازمین کی ضیافت ہوتی تھی جس کاکھانا بھی طلبامطبخ کے باورچیوں کی مددسے تیارکرتے تھے۔13اپریل 1943 ءکے دن ایسی ہی ایک ضیافت میں،میں اس صدرمیزپرمہمانوں کی خاطرتواضع کے لیے تعینات تھا،جس پرڈاکٹرذاکرحسین، پروفیسر محمدمجیب، ڈاکٹر عابد حسین،مولانااسلم جیراج پوری اورابتدائی وثانوی مدرسوں کے نگران بیٹھے تھے۔اسی میز پرمہمان خصوصی کی حیثیت سے ایک سرخ و سفید معمرباریش بزرگ بیٹھے تھے۔ان کی آنکھوں میں اس بلاکی چمک تھی کہ ان سے نظریں چارکرنامشکل تھا۔اب صرف اتنایاد ہے کہ باریش بزرگ،ذاکرصاحب سے بحث میں الجھ ہوئے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ انہیں عملی سیاست میں آناچاہیے۔ذاکرصاحب نے جب یہ کہاکہ وہ جامعہ کے تعلیمی ادارے کی ذمہ داریوں کوزیادہ اہمیت دیتے ہیں۔توبزرگ نے غصہ میں پتھرکی میزپر زور سے مکامار کر کہاکہ ایسا تعلیمی ادارہ تو اور بہت سے لوگ چلا سکتے ہیں۔ہندوستان کے مسلمانوں کوآپ جیسے لوگوں کی سیاست میں اشدضرورت ہے۔“ بعد میں معلوم ہواکہ ذاکرصاحب سے اس دبنگ انداز میں بات کرنے والے مولاناعبیداللہ سندھی تھے۔ میں یہ بات فخر سے کہوں گاکہ بچپن میں ، میں نے اس عظیم انقلابی کودیکھاتھا۔
ڈاکٹرذاکرحسین کاخاکہ بھی ان کی عظیم شخصیت کی مانندکمال کا ہے۔آصف جیلانی کوبچپن میں ان کے پڑوس میں رہنے کاموقع بھی ملا۔ ذاکرحسین بھارت کے نائب صدر اورپھرصدرکے عہدے پرفائز ہوئے۔آصف جیلانی لکھتے ہیں:
”ایک زمانہ گذر گیالیکن وہ دن اب بھی میرے دل پر کندہ ہیںجب ہم دلی کے قرول باغ کے علاقہ میں ذاکرصاحب کے پڑوس میں رہتے تھے۔میرے والدجو علی گڑھ میں جامعہ ملیہ کے قیام کے وقت سے ذاکر صاحب کے ساتھی تھے،ان ہی کے ساتھ علی گڑھ سے دلی منتقل ہوئے تھے۔میری امی، ذاکرصاحب کی بیگم، شاہ جہاں بیگم کی قریبی سہیلی تھیں اوران کی چھوٹی بیٹی صفیہ میری ہم عمراورابتدائی مدرسہ میں ہم جماعت تھی۔ذاکرصاحب جامعہ کے وائس چانسلربننے سے پہلے معاشیات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے تھے۔ان کاسب سے بڑا کارنامہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی کامیابی ہے جوہزاردشواریوں سے گذرکر قومی یونیورسٹی کی منزل تک پہنچی اورجسے اکتوبر2020ءمیں سوسال مکمل ہوجائیں گے۔“
”نایاب ہیں ہم“ کاایک اوردلچسپ خاکہ ”عدم تشددکے علم بردار،بادشاہ خان ہے۔ جوسرحدی گاندھی عبدالغفارخان(باچاخان) کاہے۔ جامعہ ملیہ میں ان کی آمداور سادگی کااندازآصف جیلانی کے الفاظ میں ملاحظہ کریں۔”بادشاہ خان جب محمود منزل آئے توطلبایہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ ملک کا ایک اہم رہنماہاتھ میں کھدرکاصرف ایک تھیلا لیے چلا آ رہا ہے۔ایسی سادگی؟ بعد میں پتہ چلاکہ اس تھیلے میں ان کی شلوار قمیض کاصر ف ایک جوڑا تھا ۔رات کوسونے سے پہلے وہ ایک جوڑا خود دھوتے تھے اور ٹانگ دیتے تھے اورصبح کودھلاہواجوڑا پہن لیتے تھے۔جتنے دن وہ محمود منزل میں رہے ان کایہی معمول رہا۔مجھے یاد ہے کہ پاکستان کی دستورساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بادشاہ خان نے پاکستان سے وفاداری کاحلف اٹھایاتھا اور اسی کے ساتھ حکومت ِ پاکستان کوبھی مکمل حمایت کایقین دلایاتھا۔جس کے بعدبادشاہ خان کی قائد اعظم سے ملاقات ہوئی۔ دوسری ملاقات پشاورمیں خدائی خدمت گارتحریک کے دفتر میں طے تھی۔لیکن خان عبدالقیوم خان نے قائداعظم کو خبردارکیاکہ بادشاہ خان ان کے قتل کی سازش کررہے ہیں،چنانچہ طے شدہ ملاقات نہ ہوسکی اوربادشاہ خان نے مایوس ہوکرپاکستان میں حزبِ مخالف کی پہلی جماعت پاکستان آزادپارٹی کے نام سے قائم کی۔1984ءمیں انہیں امن کے نوبل پرائزکے لیے نامزدکیاگیاتھا۔“
ایسے ہی انکشافات سے ”نایاب ہیں ہم“ بھری ہوئی ہے۔ایک اورعمدہ خاکہ ”پاکستان کاانقلابی جاگیردار“ میاں افتخارالدین کے بارے میں ہے۔قائداعظم میاں افتخارالدین کوکانگریس سے مسلم لیگ میں لاناچاہتے تھے۔میاں صاحب کے لیے فیصلہ دشوارتھا، لیکن جب کانگریس نے راج گوپال اچاریہ کاپاکستان کے مطالبے کافارمولا تسلیم کرنے سے انکارکردیاتوان کے لیے فیصلہ آسان ہوگیا۔نہروکا میاں صاحب کے کانگریس چھوڑنے کاسخت صدمہ ہوا۔قائداعظم کی خواہش پرمیاں افتخارالدین نے پروگریسیوپیپرزکے نام سے ادارہ قائم کیا، جس نے لاہورسے پاکستان ٹائمزشائع کرناشروع کیا۔انہوں نے ادارے میں ترقی پسندصحافیوں کی کہکہشاں جمع کی۔فیض احمدفیض پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر،مظہرعلی خان ایڈیٹر،مولانا چراغ حسن حسرت امروزکے ایڈیٹران کے ساتھ احمدندیم قاسمی۔ہفت روزہ لیل ونہارکے ایڈیٹرسبطِ حسن تھے۔
میاں صاحب پناہ گزینوں کی آبادکاری کاوزیرمقررکیاگیا۔وہ چاہتے تھے کہ جوکاشت کارترک وطن کرکے پاکستان آئے ہیں انہیں متروکہ اراضی تقسیم کی جائے ،جبکہ متروکہ جائیدادحکومت اپنی تحویل میں لے کرضرورت مندوں کوسستے کرایے پر دے۔لیکن مسلم لیگی سیاستدان جائیدادکلیمزمیں الاٹ کراناچاہتے تھے۔
قراردادِ مقاصد کے بارے میں میاں صاحب کی رائے تھی کہ یہ عجیب منطق ہے کہ ملک کے قیام کے بعد، اس کے مقاصدمنظورکیے جائیں۔پاکستان اسی صورت ترقی کرسکتاہے جب یہاں ایک روشن فکر سیکولرمعاشرہ قائم ہو،ملک کی خارجہ پالیسی آزادہواورمعیشت کوسوشلزم کی بنیاد پراستوارکیا جائے۔انہوں مسلم لیگ سے مایوس ہوکرترقی پسند جماعت آزاد پاکستان پارٹی کے نام سے منظم کی۔جس میں شوکت حیات خان،بادشاہ خان،ڈاکٹرخان،محمودعلی قصوری اورکراچی کے ممتازقانون دان نورالعارفین اورفخرالدین جی ابراہیم شامل تھے۔
آصف جیلانی لکھتے ہیں کہ میں اپنے آپ کوخوش قسمت سمجھتاہوں کہ میں نے صحافتی کیریئرکاآغازامروزکراچی سے کیاجس کے چیف ایڈیٹرفیض احمدفیض تھے۔فیض صاحب سے ان کی دلچسپ گفتگوخاکے میں شامل ہے۔
اُردوکے صفِ اول کی ناول وافسانہ نگارقرة العین حیدر سے گفتگو،معروف شاعرہ اوربی بی سی کے بچوں کے پروگرام شاہین کلب کے سلطانہ باجی سحاب قزلباش پردلچسپ خاکہ بھی کتاب کا حصہ ہے۔بھارت نامورصحافی اوردانشورکلدیپ نیئرکے خاکے ”دوستی کافروزاں شعلہ“ میں آصف جیلانی نے یہ دلچسپ انکشاف کیا۔” جواہرلعل نہروکے انتقال کے بعد کلدیپ نیئر نے نہروکے جانشین کے انتخاب سے قبل خبرشائع کی کہ مرارجی ڈیسائی نے جانشین کے امیدوارکی حیثیت سے اپناہیٹ میدان میں ڈال دیاہے۔اس خبرسے ڈیسائی کے انتخاب کے امکانات معدوم ہوگئے کیونکہ کانگریس کی اکثریت اس بات پرسخت ناراض ہوئی کہ ابھی پوراملک نہروں کے سوگ میں ہے اورمراجی ڈیسائی امیدواری کااعلان کرکے اقتدارکے لیے بے تابی ظاہرکردی۔نتیجہ یہ ہواکہ کانگریس اکثریت نے لال بہادرشاستری کے حق میں فیصلہ کیا۔یوں کلدیپ نیئرنے بڑی ہوشیاری سے اپنے پرانے باس شاستری کووزیراعظم بنوادیا۔“
مختصر تحریر”قائداعظم پاکستان میں کونسانظام چاہتے تھے“ میں مصنف نے راجہ صاحب محمودآباد کے حوالے سے انکشاف کیاہے۔”جب میرے والدحیات تھے،ان کی صدارت میں محمودآباد میں مسلم لیگ کاجلسہ ہورہاتھا۔قائداعظم ان کے برابر بیٹھے تھے۔راجہ صاحب نے دھواں دھارتقریر شروع کہ پاکستان میں اسلامی شرعی ریاست قائم ہوگی جوساری دنیاکے لیے اسلامی ریاست کانمونہ ثابت ہوگی۔راجہ صاحب کو جناح صاحب نے بڑے زور سے انکاہاتھ پکڑ کر تقریر سے روک دیا۔ کہنے لگے کہ یہ ہرگز مسلم لیگ کاموقف نہیں ہے۔ ہم پاکستان کومذہبی ریاست نہیں بناناچاہتے۔“ راجہ صاحب نے کہاکہ اس وقت میری عمرسترہ سال تھی،پاکستان کے قیام کے مقصدکے بارے میں مجھے قائد کے سیاسی فلسفے اوران کی منزل مقصود کاادراک ہوا۔قائد کواس بات کاپورااحساس تھاکہ پاکستان میں اگرشریعت کے نفاذکی بات کی گئی توسوال ہوگاکہ کونسی شریعت۔پھرکس فقہ کی شریعت،یوں ایک پنڈورابکس کھل جائے گا اورپاکستان ایسی دلدل میں پھنس جائے گاجس سے نکل کراسے ترقی کی راہ پرچلنامحال ہوجائے گا۔
”نایاب ہیں ہم“ میں آصف جیلانی نے ”نریندرمودی کے گروسے ملاقات“ ،”راہول گاندھی کامذہب“،”سکون قلب کے متلاشی“،” سید سلیمان ندوی“،”یاسرعرفات چندیادیں“،”شہپر آتش عبدالکلام“،” یادیں بھٹوصاحب کی“،” شمس العلماءشبلی نعمانی“،”حسرت موہانی“ اور”اٹل بہاری واجپائی“جیسے مضامین بھی قارئین کوبھرپورمعلومات فراہم کرتے ہیں۔
راشداشرف ایک بہترین کتاب شائع کرنے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔