جنرل مشرف نے جہاں قومی مفادات کو رہن رکھنے والے اقدامات کر کے اپنے لئے بدنامی سمیٹی وہاں موصوف نے ایک احسن قدم اٹھا کر قوم پر احسان بھی کیااور وہ قدم پاکستان میں پرایﺅیٹ اور آزاد میڈیا کی داغ بیل ڈالنا تھا جس کے تحت پاکستان میں پرایﺅیٹ ٹی وی چینلز کا آغازہوا۔اس عمل کو اس لئے احسان مان لینا چاہئے کہ کسی بھی معاشرہ کی ترقی اور مسائل کی بیخ کنی کے لئے آزاد میڈیا اہم ترین کردار ادا رتا ہے اور ریاستوں کو جانچنے کے لئے میڈیا ایک آئینہ کی حثیت رکھتا ہے اور وہی دیکھاتا ہے جو معاشرہ میں منعکس ہو رہا ہے پاکستان ایک جمہوری ملک تو ہے لیکن پچپن سالوں تک سرکاری ذرائع ابلاغ پر انحصار کرنا ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی اور بہت سے سیاستدان اور ہرحکمران جماعت نہیں چاہتے تھے کہ ملک میں آزاد میڈیا ہو کیونکہ میڈیا جتناآزاد ہو گا ان لوگوں کو اتنا زیادہ جواب دہ ہونا پڑے گا اور مشرف دور سے پہلے بلکہ بہت حد تک ابھی بھی سرکاری قومی ذرائع ابلاغ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کا کردار بھی ملوکیت،سوشل ازم اور کیمونزم طرز حکومت کے ذرائع ابلاغ سے کم نہ ہے جو حقائق اور مفاد عامہ کی اطلاعات کی ترویج واشاعت کے برعکس ریاست اور حکمرانوں کی پالیسی کا مترجم ہوتا ہے اس صورتحال میں میڈیا کی نئی جہت یقینا پاکستانیوں کے لئے ایک اچھی نوید سے کم نہ تھی کسی بھی چینل کے قیام کے بنیادی مقاصد میں تعلیم تفریح اور انفارمیشن کا فراہم کرنا ہوتا ہے اس ضمن میں پی ٹی وی خبر نامہ کے روائتی حکومت نامہ کے برعکس تفریح میں بہت اچھی کارکردگی رکھتا چلا آیا ہے او اپنی ڈرامہ نگاری اور پیش کاری میں کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا یہاں تک کے بھارتی عوام میں پاکستانی ڈراموں کی بے حد پذیرائی تھی لیکن پاکستانی کی سادگی کہ انہوں نے ڈارمہ کو صرف ڈامہ کی حد تک لیا مگر پھر ٹرینڈ بدلا اور پی ٹی وی ڈرامہ کمزور ہونے لگا اور بھارت جو کہ آزاد میڈیا کی پیش قدمی میں ہم سے بیس سال ایڈوانس تھا نے ڈش انٹینا کے ذریعہ پاکستان تک رسائی حاصل کر لی اور اپنے ڈرامہ کو پراپیگنڈا اور ذہنی آبیاری کے ٹول کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا اور پھر پاکستان کے گھر گھر میں ہماری ثقافت اور روایات کے منافی بھارتی ڈراموں کی جے جے کار ہونے لگی اور پھر کوئی بھی گھر سٹار پلس،زی اور کلر ٹی وی چینل کے بغیر ادھورا تھا کیبل کے متعارف ہونے کی دیر تھی کہ تمام نمایاں بھارتی چینل ہماری زندگیوں کا اٹوٹنگ بن گئے اس چیز کا ادراک ہونے پر ہمارے دشمن نے پاکستانی قوم کے ذہنوں پر ہندو تاریخی ہیروز کے کارنامے ثبت کرنے کے لئے مہا بھارت،پرتھوی راج چوہان او ر اس جیسے ڈارموں کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا جبکہ اس سے پہلے بھارتی سرکاری ٹی وی دور درشن اس کام میں جتا ہو ا تھا جس کا نتیجہ یہ ہو کہ پاکستانی ناظرین بالخصوص نو جوان نسل اپنی اسلامی تاریخی کے معرکوں اور اپنے ہیروز کو بھلا بیٹھے اور بھارتی نام نہاد سورماوں کو اپنا ہیرو سمجھنے لگے لیکن بات یہا ں ختم نہیں ہوتی بلکہ ڈرامہ کمزوریوں کے بعد پاکستانی فلم انڈسڑی جو کہ پہلے ہی دو دہایﺅں سے زوال پذیر تھی۔
اس محرومی کو بھانپتے ہوئے بھارتی فلمی صنعت کے کرتا دھرتاﺅں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستانی سینیماﺅں میں براہ راست اپنی فلموں کی نمائش دکھانے میں کامیاب رہے ۔بھارتی میڈیا پاکستان میں اس یلغار کی بدولت جہاں پاکستانی اقدار اور روایات کو شدید
نقصان پہنچانا شروع ہو گیا وہاں دو قومی نظریہ کو مسخ کرنے اور اکھنڈ بھارت کے نظریات کو تقویت ملنا شروع ہو گئی۔بھارتی فلم اور ٹی وی کی پاکستان کے خلاف اس گریٹ گیم میں اہم چیز بھارتی میڈیا کے گاڈ فادر پاکستانی عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوانا اور بھارت لیجانا اور اسی پیسے کو پاکستانی قومی نظریات کے خلاف استعمال کرنا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی الیکٹرونک میڈیا تفریح کے حوالے سے بہت آگے ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی بھارتی ڈرامہ اور فلم ساز اپنے ڈرامے اور فلم بھیجتے ہوئے جہاں نیپال،بنگلہ دیش ، بھوٹان، سری لنکا اور عرب ریاستوں کو اپنی منڈی گردانتے ہیں،وہاں وہ پاکستان کو خصوصی اہمیت بھی دیتے تھے،اور بغیر قانونی حیثیت اور ٹیکس ادا کیے پاکستان سے ہر سال اربوں روپیہ سمیٹ کر چلتے بنتے تھے،اور یوں ہمارے جوتے ہمارے سر پڑتے رہے۔وہ تو بھلا ہو پاک بھارت کشیدہ حالات کا جو اس نہج پر پہنچ گئے کہ حکومت پاکستان کو اپنی غیرت و حمیت کا اندازہ ہونے پر پہلے بھارتی فلم اور پھر بھارتی ٹی وہ چینلز کی پاکستان میں نمائش پر پابندی لگا دی۔ پچھلے قریبا تین سال سے عائد اس پابندی کا یہ فائدہ ہوا کہ موجودہ نو جوان نسل بھارتی فلمی چہروں کو بھولنا شروع ہو گئی اور آنے والی نسلیں اس میڈیا کی یلغار کے شر سے محفوظ ہو رہی ہیں ہر سمت میں بھارتی سازشی میڈیا چیک کا قدم پاکستانی قوم پر نعمت سے کم نہیں اور اس پر سونے پے سہاگہ تب ہوا جب چند ماہ قبل برادر ملک ترکی کے سلطنت عثمانیہ کے ہیرو ارطغرل غازی پر بننے والے ڈارمے کی بازگشت ہوئی اور وزیر اعظم پاکستان کی ذاتی دلچسپی پر پاکستان ٹیلی ویژن اور ترکش ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کے باہمی معاہدہ کے تحت اردو ڈبنگ کے ساتھ پیش کی جانے لگا جس کل سات سیزن ہیں اور جبکہ پہلا سیزن ابھی پی ٹی وی پر دیکھایا جا رہا ہے اس کے علاہ نیٹ فلیکس اور یو ٹیوب پر بھر اردو انگلش سب ٹایئٹل کے ساتھ بھر پور دیکھا جارہا ہے یکے بعد دیگرے ان سود مند اقدامات سے پاکستان میں بھارت نواز لابی کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے اور دو دہایﺅں سے پاکستانی نسلوں میں بھارتی میڈیا کے وائیٹ پراپیگنڈہ کے ذریعہ بگاڑ پیدا کرنے پر قفل زدہ زبانوں اور دل ہی دل میں خوش ہونے والے بایئں بازو کے پاکستان دشمنوں کے منہ میں زبان بھی آگئی اور ہرزہ سرائی بھی شروع کر دی کہ کسی طرح سے اس کی نمائش رک جائے جس میں ہود بھائی اور اس کے ہم نوا پیش پیش ہیں لیکن احمقوں کی جنت میں رہنے والے لوگوں کو کیا علم پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا نہ صرف یہ بلکہ پاکستان میں سیکولر ذہنیت کے سکالرز کو بھی یہ تکلیف ہونا شروع ہو گئی کہ ہماری نسلین کہیں حقیقی معنوں پر جہاد کی لافانی حیقیت کا ادارک نہ کر لیں،کسی نے یہ بھی کہاکہ یہ ایک خطرناک ڈرامہ ہے اور کسی نے دل کا غبار نکالتے ہوئے کہا کہ دوسری قوم کہ ہیروز کے ڈرامے دیکھا کر پی ٹی وی ڈراموں میں کھویا اپنا مقام نہیں پا سکتا ۔لیکن میرے نزدیک ان عناصر کی محض خفت مٹانی کی ایک کوشش ہے کیونکہ اسلامی ہیروز مشترکہ اثاثہ ہوتے ہیں ویسے بھی خلافت عثمانیہ اسلامی دنیا کے اتحاد کا آخری مرکز و محور تھا اور اب بھی اس اس امیدیں وابستہ ہیں ۔صورتحال میں یہود،نصاریٰ اور ہنود کو یہ بات کیسے ہضم ہوسکتی ہے کہ مسلمان اپنی میراث کی طرف واپس لوٹیں۔اس میں کوئی شک نہیں ارطغرل غازی پر بننے والی ڈرامہ سیریل ایک شاہکارسے کم نہیں اور اسے تما م پاکستانی قوم کو ضرور دیکھنا چاہیے۔