وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے عمران خان کو مودی سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ خواجہ صاحب عمران کو ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ سیاست میں اختلاف جتنا بھی شدید ہو، تنقید اور مذمت کی کچھ حدود ہو تی ہیں۔ ان حدود سے تجاوز سے صرف ماحول ہی خراب نہیں ہوتا بلکہ سیاسی عمل بھی خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ خواجہ صاحب عمران خان کے بارے میں ایسی رائے کیوں رکھتے ہیں؟
خواجہ صاحب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نریندر مودی پاکستان کا بیرونی دشمن ہے جب کہ عمران خان اندرونی۔ اس وضاحت کے بعد انھوں دفاعی تنصیبات پر پی ٹی آئی کے حملوں کا حوالہ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران نے انصاف کے نعرے لگائے پھر 9 مئی کر دیا
پاک فوج پر حملہ، جواب عوام دیں گے
عمران: فوج پر حملہ ایک بار پھر جائز، کیا انصاف کو بھی سنائی دیا؟
اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ اقدام صرف داخلی عدم استحکام کا ذریعہ ہی نہیں بنا ہے بلکہ ایسی صورت حال ملک کے دفاع کے لیے بھی خطرناک ہوتی ہے کیوں کہ کسی بیرونی جارحیت کے موقع پر قوم اتحاد سے محروم ہو جائے یا کوئی طبقہ خواہ وہ کتنا ہی محدود کیوں نہ ہو، دفاعی اداروں پر حملہ آور ہو جائے تو دفاع ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سیاسی قوتوں کو اسٹیبلشمنٹ سے کتنی شکایت کیوں نہ ہو، وہ ادارے کو قومی ادارہ ہی سمجھتے ہیں، تنقید کا ہدف شخصیات کو بناتے ہیں جیسے گوجرانولہ کے جلسے میں میاں نواز شریف نے چند شخصیات کو تنقید کا ہدف بنایا۔ یہ فرق خود دفاعی ادارے بھی محسوس کرتے ہیں۔
دیگر سیاسی قوتوں اور عمران خان میں فرق یہ ہے کہ انھوں نے ایسا فرق ملحوظ نہیں رکھا۔ یہ بات انھوں نے ایک بار نہیں کہی کہ مجھے گرفتار کیا جائے گا تو ایسا ردعمل ہی ہوگا۔ انھوں نے اس بیان کے بعد یہ کہنا بھی ضروری سمجھا ہے کہ میری گرفتاری پر لوگ دفاعی اداروں پر نہ جاتے تو پھر اور کہاں جاتے۔ خواجہ آصف کی اس تنقید کے پس پشت یہ حقیقت بھی یقیناً کار فرما رہی ہوگی کہ نو مئی کے واقعات کوئی اچانک حادثہ نہیں بلکہ یہ ایسا سوچا سمجھا منصوبہ ہوسکتا ہے جس کے تحت عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کے امکانات پیدا کر دیے جائیں۔
عمران خان کی یہ پالیسی نہ صرف خود شکنی کے ذیل میں آتی ہے بلکہ ریاست شکنی کی تعریف پر بھی پورا اترتی ہے۔ تاہم ان حقائق کے باوجود ضروری ہے کہ سیاسی مخالفین کے بارے میں تبصرے میں احتیاط برتی جائے اور نرم الفاظ استعمال کیے جائیں۔