عمران کی سیاست سے اختلاف ہے، اس کے باوجود کہ انھوں نے اسٹیٹس کو کے خاتمے کی بات کی۔ اب وقت آگیا ہے کہ بات چیت کے ذریعے ڈیڈ لاک کا خاتمہ کیا جائے
۔۔۔۔۔۔۔
,,سیاست کی دینا میں انجام کار کو جان لینا اور مطالبات کو اپنی مرضی سے پورا کردینا ضروری ہوتا ہے ،اس سے پہلے کہ وہ وقت آ جائے جب مجبور ہو کر انھیں پورا کرنا پڑے _،،
گستاولی باں کا یہ قول لمحہ موجود میں,, یعنی 09 مئی کے بعد پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی سیاست پر فٹ آتی ہے پاکستان فی الواقع آزادی یعنی 1947ء سے اب تک مکمل جمہوری و فلاحی نظام حکومت و ریاست تشکیل نہیں دے سکا ہے. آج 21 ویں صدی کے تیسویں سال یعنی کرونا وائرس کی تباہیوں کے بعد اور دینا میں عالمی کساد بازاری کے دوران 25 کروڑ انسانوں کی باعزت اور باوقار ضروریات زندگی پوری نہیں کرسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پاک فوج پر حملہ، جواب عوام دیں گے
عمران: فوج پر حملہ ایک بار پھر جائز، کیا انصاف کو بھی سنائی دیا؟
پی ٹی آئی کے ٹکٹوں کی فروخت: ثاقب نثار کے بیٹے کو عدالت کا ریلیف
اس لئے غربت کے خاتمے اور چمک دمک کی دعوے دار سیاست پاکستان جیسے کمزور معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے اوپر ادارہ جاتی سیاست کے مسائل بھی نت نئے اور ہمیشہ پیچیدہ ہی رہے ہیں سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ اور سیاستدانوں و جرنیلوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں اور میڈیا کے نمائندوں کی یلغاریں بھی شامل ہے۔ ہمارے وجود نازک اور انسانی نفسیات کے حامل پالیسیاں نہ اپنانے کی وجوہات میں لیکن جب سے اسٹیٹس کو کے علمبرداروں کا سکہ رواں دواں رہا تو لگتا تھا کہ پاکستان اور انسانی زندگیوں میں بہتری و اطمینان لانے کے لئے ضروری کردار ادا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہر دور میں ہر سطح پر اشرافیہ اور مافیاز و اسٹیٹس کو کے علمبرداروں کو چیلنج کرنے کے نعرے و دعوے لگتے رہے لیکن جناب ذوالفقار علی بھٹو شھید اور جناب قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد عمران خان وہ تیسرے لیڈر و قائد ابھرے پیچلھلے بیس سالوں میں کہ وہ صاف شفاف انداز میں کھل کر بغیر کسی ہیچ پیچ کے ظالمانہ نظام حکومت و ریاست کو چیلنج کرتے رہے اگرچہ جناب عمران خان کے ذات و سیاسی طریقہ کار سے بہت زیادہ اختلاف و افتراق پایا جاتا ہے خاص کر 09 مئی کے دن خوفناک اثرات مرتب کرنے والے حرکتوں کے باعث _
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کار یہ نوبت کیوں لائی گئی 09 مئی کو ریڈ لائن قرار دیتے ہوئے فی الوقت کوئی دلیل کارگر ثابت نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے لیڈروں و جماعتوں نے کوئی بات سننے اور سمجھنے کی رواداری اور گنجائش رکھی ہے کیونکہ دینا سازی کے عمل میں ضروری ہے کہ قوم و ملت اور عوام ریڈ لائن رہے نہ کہ نا اہل سیاستدان اور کمزور ترین انصاف کرنے والے ججز مافیاز اور اشرافیہ نما بیوروکریسی جس کی تنخواہیں و مراعات یو این ڈی پی کے بقول اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے اہلکاروں سے زیادہ ہیں جبکہ کارکردگیوں میں صفر سے بھی نیچے در نیچے لٹک رہے ہیں۔
اس لئے ضروری ہے کہ یکطرفہ گفتگو ع دلائل کی بنیاد پر فیصلے نہ کئے جائیں بلکہ حوصلے بلند رکھ کر ہمت پیدا کرکے کشیدگی کا خاتمہ کیا جائے خواتین و بچیوں کی عزت پامال کرنے کا راستہ فی الفور بند کیا جائے اور مکالمے و ڈائلاگ کے لئے ممکن اقدامات کیے جائیں ورنہ بہت نقصان ہو جائے گا۔