ریاست اور دفاعی تنصیبات پر حملوں کو عمران خان نے ایک بار پھر جائز قرار دے دیا۔
عمران خان نے یہ مؤقف وڈیو لنک سے اپنے خطاب میں اختیار کیا ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں اور بھی بہت کچھ کہا ہے۔ ان نکات کا تجزیہ بھی ہونا چاہیے لیکن سب سے اہم نکتہ یہی ہے جس میں انھوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی وکالت کی ہے۔
کیا فوجی تنصیبات پر حملہ ہونا چاہیے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر عمران خان نے مسلسل قوم کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے۔ کبھی یہ کہا کہ مجھے گرفتار کیا جائے تو پھر دفاعی تنصیبات پر حملہ نہیں ہو گا تو کیا ہوگا۔ کبھی کہا کہ میں تو جیل میں تھا، مجھے کیا معلوم کہ کیا ہوا ہے؟ ان سے حملوں کی مذمت کا کہا گیا تو انھوں نے گول مول الفاظ کے استعمال سے دھوکہ دہی کی کوشش کی لیکن وڈیو لنک پر خطاب میں وہی بات ایک بار پھر کہی یعنی ریاست پر حملے کو جائز قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ٹی آئی کے ٹکٹوں کی فروخت: ثاقب نثار کے بیٹے کو عدالت کا ریلیف
کپتان کی کہانی کیسے تمام ہوئی؟
ایردوآن کی کامیابی شہباز شریف کو اپنی کامیابی کیوں لگی؟
عمران خان کا یہی مائنڈ سیٹ ہے جس کے نتیجے میں سیاست میں کلٹ کلچر فروغ پاتا ہے یعنی ایک شخص یعنی عمران خان حق ہیں اور باقی سب آئین، ریاست اور جمہوریت اگر عمران کے آڑے آتے ہیں تو باطل ہیں۔ سیاسی اصطلاح میں یہ مائنڈ سیٹ ڈیماگاگ کا ہوتا ہے جس کا پورا نظام اپنی ذات کے گرد طواف کرتا ہے۔ اس کے پاس کوئی پروگرام ہوتا ہے اور نہ کارکردگی لیکن اپنی ذات کو نمایاں کر کے یہ لوگ ریاست سمیت ہر چیز کی نفی کر دیتے ہیں۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب اختیار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے تو ریاستیں تباہ ہو جاتی ہیں پھر تباہی کا یہ عمل خود ایسے لوگوں کو بھی تاریخ کا رزق بنا دیتا ہے۔ پاکستان میں یہ سب دکھائی دے رہا ہے۔
یہ فلسفیانہ بحث اپنی جگہ لیکن فوری سوال یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے ریاست کی علامات اور دفاعی تنصیبات پر حملے کو ایک بار پھر دوٹوک انداز میں جائز قرار دینے کے بعد کیا وہ ادارے جاگیں گے جو ان کے ہر جرم کا جواز پیش کرکے انھیں رعایتیں فراہم کرتے ہیں؟ اگر اب بھی کسی کو ہوش نہیں آتی تو پھر نوشتہ دیوار وہی ہے جو میاں جاوید لطیف نے کہا یعنی قاضی انصاف نہیں دے گا تو کوئی اور انصاف دینے آئے گا۔