اگر قاضی انصاف نہیں کرے گا تو کسی اور کو سامنے آنا پڑے گا۔ یہ بات کہی تو میاں جاوید لطیف نے ہے لیکن یہ وضاحت مریم نواز کے اسی مؤقف کی ہے جس میں وہ کہا کرتی ہیں کہ ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہیں ہیں۔ بالفاظ دیگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے آج کے فیصلے کے بارے میں مریم نواز دعویٰ کر سکتی ہیں کہ انھیں اسی بات کا تو گلہ ہے کہ پہلے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا ہو گا۔
سرگودھا میں میاں جاوید لطیف کا یہ تبصرہ دراصل اس خبر پر ہے جس کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کو ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب طلب کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالت کا مؤقف یہ ہے کہ پارلیمان کو دو پرائیویٹ افراد کے بارے میں کسی کارروائی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ واضح رہے کہ نجم ثاقب پر الزام ہے کہ انھوں نے پی ٹی آئی کا ٹکٹ دلوانے کے لیے خطیر رقم وصول کی ہے جس کا ثبوت ان کے آڈیو لیکس میں سامنے آ چکا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کپتان کی کہانی کیسے تمام ہوئی؟
ایردوآن کی کامیابی شہباز شریف کو اپنی کامیابی کیوں لگی؟
صدر ایردوآن کی فتح، امن و استحکام کی ضامن: شہباز شریف
اسلام آباد ہائی کورٹ کی اس دلیل کی یقینا کوئی قانونی بنیاد ہو گی لیکن رائے عامہ کا تاثر یہ ہے کہ یہ فیصلہ بھی اس رجحان کا تسلسل ہے جس کے ذریعے ایک خاص سیاسی گروہ پی ٹی آئی کو سہولت ملتی ہے۔ ملک میں پھیلتا ہوا یہ تاثر نہ نظام انصاف کے بارے میں کوئی مثبت تاثر پیدا کر رہا ہے اور عدلیہ کے مفاد میں ہے۔ اس قسم کی صورت حال اگر کوئی متاثرہ فریق جیسے میاں جاوید لطیف کہہ رہے ہیں کہ قوم انصاف کے اداروں سے مایوس ہو کر کسی دوسری طرف دیکھنے پر مجبور ہوگی، اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خلا مستقل نہیں رہتا، جگہ پر ہو کر رہتی ہے۔
اگر ایک فریق جیسے میاں نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کے لیے قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے دیے جائیں گے اور دوسری طرف ریاست پر حملے کے ملزم یعنی عمران خان کے خلاف قانون کو اپنا کردار ادا کرنے کی کوئی گنجائش بھی نہیں چھوڑی جائے گی تو نتیجے میں بحران گہرا ہوتا جائے گا اور بالآخر عوام ضرورت محسوس کریں گے کہ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ریاست کوئی موثر قدم اٹھائے۔
یہ مطالبہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کے ایک حکم کی وجہ سے بھی اہم ہو جاتا ہے جس میں عدالت نے حکومت سے پوچھا ہے کہ یہ بتایا جائے کہ فون ٹیپ کون کرتا ہے۔ یہی جاننے کے لیے تو حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم۔کیا تھا، بندیال کورٹ نے جسے کام کرنے سے روک دیا ہے۔ اب ایک طرف تحقیقاتی کمیشن کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر یہ کمیشن کام کر پاتا تو معلوم ہو جاتا کہ فون کیسے ٹیپ ہوتے ہیں اور جو آڈیو لیکس ہوئی ہیں، ان میں کوئی صداقت ہے کہ نہیں۔
ان عدالتی احکامات نے ایک طرف تحقیقات کو روک دیا ہے تو دوسری طرف پارلیمنٹ کو بھی کارروائی کی اجازت نہیں رہی۔ یہ صورت حال ایک فریق کو بالکل آزاد کر رہی ہے اور دوسرے کے ہاتھ پاؤں باندھ رہی ہے۔
اسی صورت حال کے بارے میں عوامی حلقے کہہ رہے ہیں کہ نظام انصاف میں موجود ایک طبقے کی سرگرمیاں خود نظام انصاف کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ دونوں پلڑے نا برابر ہونے سے متعلق مریم نواز شریف اور اب میاں جاوید لطیف کے اس بیان پر توجہ دی جائے کہ اگر قاضی انصاف نہیں کرے گا تو کسی اور کو سامنے آنا پڑے گا۔