الزام تراشی،بہتان طرازی اور فسانہ سازی کا یہی انجام ہونا تھا کہ ایک دن جھوٹ اور جعل سازی کی عمارت ریت کے گھروندے کی ماند بکھرنی تھی۔ .کپتان کی کہانی تمام ہوئی کہ اب تو سائے بھی ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے کہ زمان پارک کے ایک خاکروب نے بھی عمران خان کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا۔پھر لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے جناح ہاﺅس حملہ کیس میں عمران خان کے ضمانتی مچلکے مسترد کر دیئے۔”جس کا عروج یہ ہو پھر اس کا زوال مت پوچھ“۔سانحہ9 مئی نے تحریک انصاف کے سارے راستے مسدود کر دیئے ہیں،آگے گلی بند ہے۔ کپتان اب ایسی وادی میں آ پہنچے ہیں جہاں آگے چلنے کی کوئی روایت نہ ہو۔گماں گزرتا ہے اب تحریک انصاف کے کان سیاسی قدموں کی چاپ سے نا آشنا رہیں گے۔ جو ہوا ہے یہی ہونا تھا کیونکہ مدت مدید اور عرصہ بعید سے کپتان ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ ہمہ وقت ان کا دماغ عرش معلی پر رہتا تھا۔وہ سیاسی روایت کے ساتھ تو نہیں چل سکے،سو انہوں نے شان بے نیازی سے اوپر سے گزرنا چاہا تو دھڑام سے زمین پر آن گرے۔
9 مئی کو جو ملک بھر میں گھیراﺅ جلاﺅ ہوا،حساس تنصیبات پر حملے اور بلوے ہوئے۔شرپسندوں نے چنگاری کو شعلہ بنایا اور سازشی منصوبہ سازوں نے پھرشعلے کو الاﺅ میں بدل دیا۔جھتوں کی کاری کاروائی سے دوپہرتا شام تک ملک بھر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔اب کپتان ہزار کوشش کریں وقت کے پہیے کو پیچھے نہیں گھمایا جا سکتا۔اب اپنا بویا کاٹنا پڑے گا اور کئے کی جزا سزا پانی ہوگی۔ان کے دامن پر شرپسندی اور خون کے جو چھینٹے پڑ چکے ہیں،نہیں معلوم وہ دھلیں گے بھی یا نہیں۔اس سانحہ نے تحریک انصاف کی سیاست پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کل تک پی ٹی آئی کا شجر اتنا توانا تھا کہ پرندوں اور پنچھیوں کو بیٹھنے کے لئے ٹہنیوں پر جگہ نہ ملتی تھی۔آج کل پرندے قطار در قطار اڑانیں بھر رہے ہیں۔بس کوئی دن آتا ہے کہ پی ٹی آئی کا پیڑ ٹنڈ منڈ ہوا چاہتا ہے۔آفرین ہے گردش ایام پر اورکروٹ لیتے صبح شام پر کہ جو حکومت سے مذاکرات کو اپنی توہین گردانتا تھا آج بات چیت فوری شروع کرنے کی اپیل کرتا نہیں تھکتا۔کپتان کل تک نواز شریف اور آصف زرداری پر بے بنیاد الزام و دشنام کے تیر ترازو کرتے تھے اور آج خود ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
ایردوآن کی کامیابی شہباز شریف کو اپنی کامیابی کیوں لگی؟
صدر ایردوآن کی فتح، امن و استحکام کی ضامن: شہباز شریف
نو مئی : عمران خان کے سورما منھ کے بل کیوں گرے
کپتان کے عہد حکومت میں سیاست دروغ گوئی اور دشنام طرازی کی زد میں رہی۔پھر عجب معاملت ہوئی کہ صدق وکذب اور حقیقت وخرافات ایک دوسرے کے گلے مل گئے ۔سال ہا سال مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نام نہاد کرپشن کی کہانیوں کی صلیب پر ٹنگی رہیں۔دوسری جانب کپتان جارحانہ اور مجنونانہ کھیل مزے سے کھیلا کئے۔جنوں کے طلسم اور جادوگروں کے جنتر منتر سے بڑے بڑے کٹے کھولے گئے۔کپتان کے ہاتھوں میں ڈگڈگی تھمائی گئی اور وہ کرپشن ،کرپشن کے اسطورے پر ہلکے ہلکے ہلکورے لیتے رہے۔کوئی اٹھے اور چیخ کر سوال کرے کہ حضور والا!آپ کے پونے چار سالہ دور نامراد میں کرپشن کے کتنے لوٹے پیسے واپس لائے گئے؟باشعور اور بالغ نظر لوگ تب بھی اور اب بھی سمجھا کئے کہ کپتان کی زنبیل میں سوائے قصے کہانیوں اور کہہ مکرنیوں کے اور کچھ بھی نہیں۔سیاسیات کی نفسیات اور سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے کو بھی کپتان نے کیا خوب سمجھا اور برتا بھی۔وہ اپنے تئیں جان گئے کہ عوام کالانعام صرف ایک ہی زبان سمجھا کئے،الزام تراشی اور بلند آہنگی کی۔بولو،زور سے بولو۔بار بار جھوٹ بولو کہ سچ دکھائی دے۔وہ کچھ بولو جو صرف خواب میں ہی کہا اور کیا جا سکے۔سپنے اگاؤ،سپنے دکھاؤ اور سپنے پھیلاؤ۔بھلا یہاں کسے فرصت یا کسے اتنی فراست کہ رک کر تعبیر مانگے گا۔کپتان نے پروپیگنڈے کی سائنس پر اپنا ایک منفی تخت تیار کیا اور اس پر شہنشاہ کی طرح فروکش رہے۔بار بار یوٹرن لیے اور اس پر نادان بچوں کی طرح ضد بھی کہ ان کی مجہول انفرادیت کو مسیحا مانا جائے۔ان دنوں کئی قصہ گو کالم نویس بھی ان کے حق میں لکھتے پائے گئے۔ان کے کالموں اور تجزیوں کی پھلجڑیوں کے رنگین شرارے فوارے کی ماند کبھی اخباروں میں اچھلتے اور کبھی ٹی وی پر ابھرتے۔آج یہی پتنگے اور شرارے دم توڑنے چلے ہیں ۔الزام کے پہاڑ تو کجا دشنام کی یلغار بھی نواز شریف کو سرنگوں کر نہ سکی۔
کپتان ہی کے عہد نامسعود میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کو فراواں اور بے پایاں الزامات سے واسطہ پڑا۔الزام سے متہم کرنے کے لیے کپتان کی زبان اور نواز شریف کا در چوپٹ کھلا رہا۔آصف زرداری،نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان نے بھی یہی کیا کہ الزام سر آنکھوں پر اور دشنام کے لیے دامن کھلا۔پی ٹی آئی کے ہر رہنما کے من میں جو آیا وہی لب پر آیا۔پاکستان ایسی نادرۃالارض میں جمہوریت کا یہ اعزاز وافتخار کہ کپتان کے مشق ستم پر کوئی قدغن نہ لگی۔وہ تو ایک طرف،ان کے سنگیوں،ساتھیوں اور حواریوں پر بھی آزاد نظم یا شاعری پر کوئی پابندی نہ تھی۔کچھ سامری جادوگروں کے سحروں،کچھ جنوں کی طاقتوں ار کچھ صوفی عارفوں کی بشارتوں سے کپتان کا ایک تقدس آمیز ہیولا تراشا گیا۔کون سانسخہ جامی تھا جو آزمایا نہ گیا،کون سا وظیفہ رومی تھا جو کیا نہ گیا اور کون سا انہونا فیصلہ تھا جو ہوا نہ ہو۔ان تمام ترکتازیوں کے باوجود بھی کپتان ذرہ بھر ترقی اور شمہ بھر ارتقا کر نہ پائے۔نواز شریف اور زرداری دونوں چور ہیں کے آوازے میں خود کپتان نے مالی بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کی ایک الگ تاریخ رقم کی۔نجم سیٹھی کے 35 پنکچروں سے لیکر سائفر کی شاعری تک ایک طویل سفر ہے جو کپتان نے اپنی امنگوں اور امیدوں کے بل بوتے پر طے کیا۔آخر اس کا حاصل وصول کیا ہے؟درماندہ و پسماندہ قبائل و ملل کا عجیب وغریب المیہ ٹھہرا ۔یہاں کے باسی ہمیشہ ایک طلسمی مسیحا کی راہ تکا کیے۔کپتان نے بھی مسیحا کا لبادہ اوڑھا تو ان کی خواہشوں اور خیالوں کی تکمیل ہو گئی۔اور اب ؟اب سانحہ 9 مئی کے بعد ان کے لیے کوئی جائے اماں نہیں۔اب ان کا نہ کوئی ستارہ چمکتا ہے اور نہ کوئی جگنو نظر آتا ہے۔بس سیاسی موت منصہ شہود پر ہویدا ہے۔کہا جاتا ہے تاتاری بھی راج اور تاراج کرنے کے بعد فسانہ ہو گئے تھے۔