• مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

نو مئی : عمران خان کے سورما منھ کے بل کیوں گرے

نو مئی پی ٹی آئی کا واٹر لو کیسے بنا؟ پی ٹی آئی والےجیل کی آزمائش برداشت کیوں نہ کر سکے؟ مشاہد اللہ خان پر کیا بیتی تھی اور مشرف کے چیلوں نے ان کی بیٹیوں کے بارے میں کیا کہا تھا۔ ڈاکٹر فاروق عادل کا کالم

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
May 29, 2023
in محشر خیال
0
نو مئی : عمران خان کے سورما منھ کے بل کیوں گرے
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM
نو مئی پی ٹی آئی کا واٹر لو کیسے بنا؟ پی ٹی آئی والےجیل کی آزمائش برداشت کیوں نہ کر سکے؟ مشاہد اللہ خان پر کیا بیتی تھی اور مشرف کے چیلوں نے ان کی بیٹیوں کے بارے میں کیا کہا تھا۔ ڈاکٹر فاروق عادل کا کالم
۔۔۔۔۔۔۔
محترمہ ملیکہ بخاری نے کیا عجب بات کہی۔ فرمایا کہ گرمی کے اس موسم میں  ایک دن میں بھی .اڈیالہ جیل میں ایک دن گزار دیکھیں تو معلوم ہو کہ جیل کیا ہے اور مشکلات کیا ہوتی ہیں۔ یہ کہانی فقط ملیکہ بچاری صاحبہ کی تو نہیں۔ دو تین چار، زیادہ سے زیادہ ہفتہ دس دن جیل یں گزار کر نکلنے والے تقریبا سارے ہی سورماؤں کے منھ سے کچھ ایسے ہی پھول جھڑے ہیں۔ ان لوگوں کے منھ سے یہ پھول جھڑے اور ان میں سے کسی نے آنسو بہاتے ہوئے اور کسی نے چہرہ چھپاتے ہوئے وہ رشتہ توڑ دیا پہلے جس کی خاطر وہ ریاست پر حملہ آور ہو چکے تھے۔
دو چار دنوں کی جیل اور گرفتاری پر یہ دکھ بھری داستانیں سن کر بہت کچھ یاد آ گیا۔ وقت آ گیا ہے کہ ان میں سے کچھ یادیں جو ابھی تک دلوں میں دفن تھیں، سامنے لائی جائیں لیکن اس سے پہلے محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی ایک یاد۔ ابھی برادر محترم سلمان غنی صاحب سے بات ہو رہی تھی۔ انھوں نے جنرل مشرف کے زمانے کا ایک واقعہ سنایا۔
محترمہ کلثوم نواز خواجہ سعد رفیق کے کسی عزیز کی دعوت ولیمہ میں شریک تھیں۔ دوران گفتگو اپنے بیٹے کو یاد کیا جسے جنرل مشرف کی بغاوت کی شب وزیر اعظم ہاس سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انھوں دوران گفتگو حسن نواز کو یاد کیا اور کہا کہ نہیں معلوم میرا بچہ کس حال میں ہو گا؟ دکھ کی کیفیت میں انھوں نے یہ جملہ کہا ضرور لیکن شادی کی تقریب میں شرکت بتاتی تھی کہ یہ خاتون ایک ڈکٹیٹر کی کال کوٹھری میں اپنے شوہر اور بیٹے کے بند ہو جانے کے باوجود نہ صرف حوصلے میں ہیں بلکہ سماجی سرگرمیوں میں شریک بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
اس بغاوت کا نشانہ آرمی چیف تھے
امجد صدیق کی سفر کہانی کے پوشیدہ اسرار
اختلاف رائے، مخالفت اور ضد
عمران خان کے دور کی کہانیاں بھی کچھ کم تاریخی نہیں۔ شہباز شریف کو جیل میں بند کیا تو کرسی روک لی تاکہ کمر کی تکلیف میں مبتلا یہ معمر شخص مزید تکلیف میں مبتلا ہو جائے۔ رانا ثنا اللہ کو دی جانے والی اذیتیں تو تاریخ میں لکھی جائیں گی کہ ذیابطیس کے اس مریض کی نہ صرف دوائیں روکی گئیں بلکہ جیل کی کوٹھری میں چینی کی تہہ بچھا کر انھیں اس پر سونے پر مجبور کیا گیا۔ رانا ثنااللہ کے ساتھ کیا جانے والا سلوک اپنی جگہ، باپ یعنی میاں صاحب کے سامنے بیٹی یعنی مریم نواز کی گرفتاری اور بیگم صاحبہ کی زندگی کے آخری لمحات میں نواز شریف صاحب کو ٹیلی فون کرنے کی اجازت دینے سے انکار۔ کون کون سی اذیت اس دور کی تاریخ بھول پائے گی؟
  خیر یہ واقعات تو صرف مسلم لیگ سے وابستہ قیدیوں کے تھے۔ دور عمرانی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اس سے مختلف سلوک نہیں کیا گیا۔ چاند رات کو آصف علی زرداری صاحب کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کو اسپتال سے پکڑ کر جیل میں بند کر دیا گیا۔ آصف علی زرداری صاحب کو پکڑا گیا۔ خورشید شاہ صاحب سمیت بہت سے دیگر لوگوں کو جیل میں اذیتیں دی گئیں۔ اس دور میں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور بہت سے دیگر سیاسی کارکنوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک نے ایسی کہانیوں کو جنم دیا کہ اگر سیاست ان سیاسی کارکنوں کو فرصت دے تو کئی کتابیں وجود میں آ کر زندانی ادب میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ مخالفین کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والوں میں کم از کم اتنا حوصلہ تو ہوتا کہ وہ چند روز عزت سے نظر بندی میں گزار لیتے۔ مرحوم و مغفور مشاہد اللہ خان کی کہی ہوئی درجنوں باتیں سیاسی پیشین گوئی بن چکیں لیکن فواد چودہری کے بارے میں کہا گیا جملہ تو سیاسی تاریخ میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ مجھے تمھاری آنکھوں میں ابھی سے آنسو دکھائی دیتے ہیں جنھیں کوئی پونچھنے والا بھی نہیں ہو گا۔
حیرت ہوتی ہے کہ ماضی میں شاہی قلعے اور مشرف دور میں بڑھاپے میں  زندہ دلی کے ساتھ مار کھانے والے مشاہد اللہ خان نے یہ سب کچھ پہلے ہی کیسے دیکھ لیاتھا۔ خان صاحب کاذکر ہوا ہے تو ان کی گرفتاری کا آنکھوں دیکھا واقعہ بھی سن لیں۔ چودہ اکتوبر کی سہ پہر جب کہ سارا پاکستان مشرف کے جبر تلے کراہ رہا تھا، یہ شخص جئے جمہوریت ، جئے نواز شریف کے نعرے لگاتا ہوا کراچی کے ریگل چوک پر نکلا اور اسے فورا ہی دبوچ لیا گیا۔ رہائی کے بعد برادر محترم خواجہ طارق نذیر کے گھر ملاقات ہوئی تو دوران گفتگو حسب عادت اونچا قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ گرفتاری کا ڈر تو مجھے کبھی بھی نہ تھا لیکن بدبختوں (انھوں نے ایک اور ہم وزن لفظ استعمال کیا تھا)نے مارا بہت۔ نظر نہ آنے والی چوٹ کے لیے پنجابی میں کہا جاتا ہے، ‘کجھی مار’  کہنے لگے کہ کمینوں نے کجھی مار ماری۔ اتنی کہ کئی مہینوں کے بعد اب بھی پنڈا دکھتا ہے۔ چند ماہ بعد ضمانت پر رہا ہوئے تو تھوڑے ہی دنوں کے بعد پھر پکڑ لیا گیا۔ منھ پر سزائے موت کے قیدیوں والا کنٹوپ چڑھا کر بند کر دیا گیا۔ پہلے کئی ہفتوں تک اذیت دی جاتی رہی پھر چکنی چپڑی باتوں کا دور شروع ہوا۔ لالچ دیے گئے اور خوفزدہ کیا گیا کہ بیٹیاں کتنی ہیں اور کہاں کہاں پڑھتی ہیں، ہم سب جانتے ہیں۔ اسی دوران وفاداری خریدنے کے جتن بھی ہوئے۔ ایک بار کہا گیا کہ جنرل صاحب آپ کے بڑے مداح ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ سیاست میں بہت آگے جا سکتے ہیں لیکن رکاوٹ ایک ہی ہے۔ یہ کہہ کر بات کرنے والا تجسس پیدا کرنے کے لیے کچھ دیر خاموش رہا پھر کہا کہ آپ کی دوستی؟ اب خان صاحب نے سوال کیا کہ کون سی دوستی تو بتایا کہ وہی آپ کے سعودی عرب والے دوست۔ میاں صاحبان کو اس وقت تک سعودی عرب جلا وطن کیا جا چکا تھا۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اگر اس دوستی پر اعتراض ہے تو پھر یہ دوستی تو نہیں بدل سکتی۔ بس، یہی جرم تھا جس کی پاداش میں اس شخص کو مشرف دور میں بار بار گرفتار کیا گیا ، اذیتیں دی گئی لیکن اس کے پائے استقامت میں ذراسی لغزش بھی نہیں آئی۔
ملیکہ بخاری کی جیل یاترا سے شروع ہونے والی بات دور تک پہنچی لیکن اگر تھوڑا مزید ماضی میں جھانکیں تو ناقابل یقین کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ جنرل مشرف ہی زمانے میں وقت کے وزیر اعظم یعنی نواز شریف کے ہاتھ دوران پرواز سیٹ کے ساتھ آہنی زنجیر کے ساتھ باندھنا اور ایسی کال کوٹھڑیوں میں بند کرنا جہاں سانپ اور بچھو چہل قدمی فرمایا کرتے تھے۔ ملیکہ بخاری کو اڈیالہ جیل کی گرمی نے پریشان کیا جہاں درجہ حرارت پچیس تیس سے بڑھ کر نہیں دیتا۔ اس کا سکھر جیل کی پچاس درجے کی گرمی سے کیا مقابلہ جہاں بے نظیر بھٹو کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔
خیر یہ تو نمایاں لوگوں کی قید اور ان پر کیے جانے والے تشدد کی کہانیاں ہیں۔ ممتاز صحافی عظیم چودہری کو ایام نوجوانی پکڑا گیا جب وہ لاہور کے ایک کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری تھے۔ وہ دسمبر کے دن تھے اور ستر کی دہائی میں سردی بھی خوب ہوتی تھی۔ پولیس پکڑ کر انھیں تھانے میں لائی اور حوالات میں بند کرتے ہوئے ان سے کہا گیا کہ جوتے اتار دیجئے۔ جوتے اترے تو فرمائش ہوئی کہ موزے بھی اتار دیں۔ عظیم چودہری موزے اتار کر حوالات میں داخل ہوئے تو فرش پر ٹھنڈا پانی موجود پایا۔ تجسس ہوا کہ یہ کہاں سے آ گیا؟ معلوم ہوا کہ حوصلہ توڑنے کے لیے حوالات میں برف کا پورا بلاک رکھا گیا ہے جس نے ٹھنڈے موسم میں حوالات کو نہ صرف مزید ٹھنڈا کر رکھا ہے بلکہ دھیرے دھیرے رس کر اس کی نمی نے بیٹھنے اور لیٹنے کی چٹائی سمیت سارے فرش کو گیلا بھی کر دیا ہے۔ سردیوں کی یہ رات اس شخص نے اسی عالم میں گزاری اور وفا داری بدلے بغیر یہ شخص سرخرو ہوا۔
ایک دوست جو ممتاز صحافی ہیں، جنرل ضیا کے زمانے میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کے زمانے میں گرفتار ہوئے۔ ان کا بھی حوصلہ توڑنا مطلوب تھا، پولیس انھیں مادر زاد ننگا کر کے ان کی والدہ محترمہ کے سامنے لے گئی، سوچئے کیا بیتی ہوگی والدہ پر اور کیا کیفیت رہی ہوگی اس نوجوان کی؟ حال ہی میں برادر محترم ناصر بیگ چغتائی نے شہرت بخاری کی کتاب ‘ یہ بازی عشق کی بازی ہے’ کا ذکر کیا ہے جس میں فرخندہ بخاری پر تشدد کے واقعات کا ذکر ہے جیل میں ان کا جسم سیگریٹوں سے داغا گیا تاکہ وہ پیپلز پارٹی سے اپنا تعلق توڑ لیں۔ وہ کہا کرتی تھی کہ تم چاہو تو میرا چہرہ بھی داغ ڈالو، وفا داری نہیں بدلی جا سکتی۔ بہت ماضی میں جائیں تو ایوب دور میں لاہور کے قلعے میں حسن ناصر کو اذیتیں دے کر شہید کیا گیا اور ان کی لاش تک غائب کر دی گئی جب کہ اسی دور میں لاہور ہی میں جماعت اسلامی کے جلسے میں فائرنگ کر کے اللہ بخش نامی کارکن کو شہید کیا گیا۔ فائرنگ کے وقت مولانا مودودی تقریر کر رہے تھے۔  عین ممکن تھا کہ وہ بھی کسی گولی کی زد میں آ جاتے، ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ مولانا بیٹھ جائیے۔ اس موقع پر مولانا نے وہ جملہ کہا جسے تاریخ میں زریں حروف میں لکھا جاتا ہے کہ اگر میں آج بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا؟
یہ ہوتا ہے تشدد اور ایسی ہوتی ہے قید اور اسے برداشت کرنے کا حوصلہ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی کارکن نے جیل اور تشدد کا ہمیشہ مردانہ وار سامنا کیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ پچیس تیس درجے کی گرمی عمران خان کے انقلابی برداشت نہ کر پائے اور وہ اشک ندامت بہاتے ہوئے نہ صرف اپنے اگلے پچھلے گناہوں سے تائب ہو گئے بلکہ اپنے دیوتا جیسے لیڈر کو بھی تنہا چھوڑ دیا۔ قومی سیاسی تاریخ میں ایسا شرم ناک واقعہ رونما کیوں ہوا؟ ناصر الدین محمود کا جملہ یاد آتا ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ یہ کوئی سیاسی جماعت تو ہے نہیں، دودھ پینے والے مجنوؤں کا ہجوم ہے، ذرا سی تپش بردار نہیں کر پائیں گے۔ ایسے ہجوم کسی بڑے مقصد یا سیاسی نظریے کے بجائے وقتی ہیجان کے زیر اثر جنم لیتے ہیں اور تباہی مچا کر ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جاتے ہیں۔ دودھ پینے والے مجنووں کا مقصد کے لیے جان تک قربان کر دینے والے سیاسی کارکنوں سے کیا مقابلہ؟
Tags: اڈیالہ جیلپیپلز پارٹیرانا ثنا اللہعمران خانکلثوم نوازنو مئینواز شریف
Previous Post

اس بغاوت کا نشانہ آرمی چیف تھے

Next Post

صدر ایردوآن کی فتح، امن و استحکام کی ضامن: شہباز شریف

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
صدر ایردوآن کی فتح، امن و استحکام کی ضامن: شہباز شریف

صدر ایردوآن کی فتح، امن و استحکام کی ضامن: شہباز شریف

محشر خیال

آمد نواز شریف کی اور ایک نئی جماعت کی
محشر خیال

آمد نواز شریف کی اور ایک نئی جماعت کی

نواز شریف کی واپسی اور عمار مسعود کی کالم آرائی
Aawaza

نواز شریف کی واپسی اور عمار مسعود کی کالم آرائی

مصر کے بازار میں پاکستانی شاہ کار
محشر خیال

مصر کے بازار میں پاکستانی شاہ کار

مسجد کس کے قبضے میں ہے؟
محشر خیال

جڑانوالہ: مسجد کس کے قبضے میں ہے؟

تبادلہ خیال

یوم دفاع کیسے منائیں؟
تبادلہ خیال

یوم دفاع منانے کے چھ طریقے

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست
تبادلہ خیال

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو
تبادلہ خیال

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو

باجوہ! اللہ تجھے پولیس کی حفاظت میں رکھے
تبادلہ خیال

جنرل باجوہ! اللہ تجھے پولیس کی حفاظت میں رکھے

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • ٹیکنالوجی
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions