رویز خٹک بھی بالآخر عمران خان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ گویا خان صاحب کے قبیلے سے وہ بھاری پتھر بھی گیا جن سے اس جماعت کی امیدیں غیر معمولی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ پرویز خٹک نے عمران خان کا ساتھ کیوں چھوڑا؟ حالانکہ وہ ان کے قابل اعتماد ساتھی بھی تھے اور کالج کے دوست بھی۔ پرویز خٹک کی عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کی وجہ دونوں شخصیات کے درمیان بنیادی فرق ہے ۔ فرق یہ ہے عمران حادثاتی سیاست دان ہیں جب کہ پرویز خٹک حلقہ جاتی سیاست کرنے والے سیاست دان ہیں ۔ ایسے سیاست دان نہ کبھی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور نہ ایسا کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان مودی سے زیادہ خطرناک کیسے؟
عمران نے انصاف کے نعرے لگائے پھر 9 مئی کر دیا
عمران: فوج پر حملہ ایک بار پھر جائز، کیا انصاف کو بھی سنائی دیا؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرویز خٹک کے اس فیصلے کے عمران خان کی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے؟ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اب خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کا رہا سہا امکان بھی ختم ہو گیا۔ پی ٹی آئی کے کارکن سمجھتے تھے کہ خٹک جب تک ہمارے ساتھ ہیں، صوبے میں حکومت تو بن ہی جائے گی لیکن اب ان کارکنوں کی مایوسی دیکھنے والی ہوگی۔ یہ مایوسی اس جماعت کے کارکنوں کی انتخابی مہم چلانے کی طاقت بھی سلب کر لے گی۔
پرویز خٹک کی علیحدگی کا دوسرا اثر بڑا دلچسپ ہے۔ خٹک صاحب نے پارٹی نہیں چھوڑی، عہدہ چھوڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمران خان کے مقدمات کی وجہ سے ان کی سزا، نا اہلی اور نظر بندی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ حب الوطنی کے نعرے کے ساتھ ان کی جگہ پر کریں گے۔ حیرت نہیں ہونی چاہیے اگر شاہ محمود قریشی بھی اسی قافلے میں شامل ہو جائیں یا اسی قسم کی حکمت عملی وہ بھی اختیار کر لیں۔
خٹک صاحب کی علیحدگی کو جہانگیر ترین کی حکمت عملی کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔ ترین صاحب پارٹی کے باہر سے عمران خان پر ضرب لگائیں گے جب کہ خٹک صاحب یہی کام اندر سے کریں گے۔ مطلب یہ ہے کہ سیاسی میدان میں اب عمران خان کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔