بات تو مجھے اس تماشے کی کرنی ہے جسے ہم بلکہ قوم دیکھ رہی ہے یعنی انصاف کا تماشا لیکن پہلے مجھے اپنی بات کہہ لینے دیجئے یعنی کچھ دیر کے لیئے یقین کر لیجیئے اور واقعی یقین کر لیجیئے کہ میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔
آج صرف ہڈ بیتی شیئر کرنا چاہتی ہوں۔
میرے والد کا گھر لاہور کے ایک مصروف ترین علاقے میں ہے۔اس کی داستان گزشتہ ساٹھ سال سے عدالتوں کی فائلوں میں اسی طرح زندہ ہے جیسے پہلے دن تھی۔
اس علاقے میں میرے دادا کے دو گھر تھے ایک کرائے پر دے دیا گیا اور دوسرے میں رہائش تھی۔کئی سالوں بعد گھر کی ضرورت پڑی۔کرایہ داروں کو مکان خالی کرنے کے لیئے کہا تو انہوں نے خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ کئی سال مقدمہ بازی رہی حتی کہ کرائے دار مر گیا۔ اب مقدمہ اس کی بیوی کے ہاتھ میں آ گیا۔اس خاتون کی شہرت اچھی نہ تھی ۔۔لہذا مقدمہ طویل ہوتا چلا گیا۔
مالک مکان جس نے چارو ناچار مقدمہ کیا تھا وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی وفات کے کئی سال بعد گھر کا فیصلہ ہوا مگر مالک کو اس گھر میں رہنا نصیب نہ ہوا۔
یہ بھی پڑھئے:
پاک فوج پر حملہ، جواب عوام دیں گے
عمران: فوج پر حملہ ایک بار پھر جائز، کیا انصاف کو بھی سنائی دیا؟
پی ٹی آئی کے ٹکٹوں کی فروخت: ثاقب نثار کے بیٹے کو عدالت کا ریلیف
سالہاسال گزرنے کے بعد وہ مکان مہنگا نہیں بہت مہنگا ہو گیا۔ اب کچھ رشتے داروں کے لالچ نے سر اٹھایا پرانی فائلیں کنگھالیں اور مقدمہ کر دیا۔ پچاس سال ہو گئے ہیں اس بے مقصد مقدمے کی تاریخوں پر تاریخیں منہ چڑا رہی ہیں مگر فیصلہ نہیں ہو پا رہا ۔
کئی سال بعد لوئر عدالت سے ہمارے حق میں فیصلہ ہوا تو اس سے بڑی عدالت میں اپیل درج کر دی گئی۔ اب کئی سالوں سے اس عدالت کے ججوں کو بھی مہنگی جائیداد نظر آ رہی ہے۔۔۔آگے آپ سمجھدار ہیں۔ اندازہ لگا لیجیئے۔
میرے والد نے فیصل آباد میں ایک گھر بنایا۔ چونکہ ہمارے پاس سرکاری مکان تھا لہذاکچھ عرصہ کے لیئے اسے کرائے پر دے دیا گیا۔مگر جب ضرورت پڑی تو تین سال مقدمہ بازی کے بعد حصول ممکن ہوا
میرے سسرال کا واہ کینٹ میں مکان تھا جو بوجوہ انہوں نے کرائے پر دے دیا یہ میری شادی سے پہلے کا واقعہ ہے مگر یہ مکان بھی مقدمہ بازی کے تقریبا چالیس سال کے بعد پچھلے سال خالی ہوا ہے۔
میں اسلام آباد جس گھر میں رہتی ہوں یہ بے نظیر الاٹمنٹ کے سلسلے کا پلاٹ تھا جو بعد میں بکا تو ہم نے یہ پلاٹ خرید لیا۔ مکان بنایا تو الاٹی نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ عدالت سے رجوع کیا تو کئی سال مقدمہ بازی رہی۔ اس اثناء میں یہ پراپرٹی بھی خاصی مہنگی ہوچکی تھی۔۔مہربان جج کے علم میں تھا۔۔آگے آپ سمجھدار ہیں۔ سمجھ لیجیئے
زندگی میں جب بھی انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انصاف کو منہ چڑاتے ہوئے پایا
اب آئیے ملکی صورتحال پر۔ زرداری چور۔۔۔۔ثابت کرکے پھانسی کیوں نہیں دی گئی؟
نواز شریف چور۔۔۔۔ ثابت کرکے تختہ دار پر کیوں نہیں لٹکایا گیا؟
عمران خان بھی اگر چور ہے تو ثابت کرکے سولی پر کیوں نہیں لٹکایا جاتا؟
ملک ریاض منی لانڈرنگ کے باوجود آزادانہ کیوں گھوم رہا ہے؟
کب تک ہم دوسروں کے بیانیوں پر کٹھ پتلی تماشے کے کردار بن کر لڑتے مرتے رہیں گے
ہم سفر ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے “گالی ماں کو دی جائے یا بیٹی کو۔ گالی تو مجھے ہی دی گئی نا”
غلط کام کوئی بھی کرے سزا ملک کو ہی کیوں دی جاتی ہے؟
ہمارے ملک اور ملک کے لوگ کب تک تماشا بنے ہیجان اور اضطراب کی کیفیت میں رہیں گے؟اور اپنا ہی سر پیٹ کر، اپنی ہی املاک برباد کرکے، اپنے ہی ملک کو تباہ و برباد کرکے، فتح کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟
مسند انصاف پر بیٹھے یہ کیسے لوگ ہیں جن کی کردار سازی پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پجھتر سالہ زندگی میں اگر کوئی منصف اپنے مضبوط کردار کی وجہ سے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے تو ان میں بیشترغیر مسلم تھے۔
کارنیلیس، دراب پٹیل، اور بھگوان داس۔۔۔ملک میں ہے کوئی ایسی ماں جس نے ان جیسے بیٹوں کو جنم دیا ہو۔
چاروں سمت اندھیرا پھیلا ایسے میں کیا رستہ سوجھے
پربت سر پر ٹوٹ رہے ہیں پاؤں میں دریا بہتا ہے
واصف علی واصف